Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 98
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
فَاِذَا : پس جب قَرَاْتَ : تم پڑھو الْقُرْاٰنَ : قرآن فَاسْتَعِذْ : تو پناہ لو بِاللّٰهِ : اللہ کی مِنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان الرَّجِيْمِ : مردود
پس جب تم قرآن پڑھنے لگو تو چاہیے کہ شیطان مردود (کے وسوسوں) سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو
جب قرآن کی تلاوت کرو تو شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرو : 112۔ قرآن کریم کی تلاوت کے وقت استعاذہ ضروری ہے ، استعاذہ کیا ہے ؟ اللہ کی پناہ طلب کرنا کہ قرآن کریم کو پڑھ رہا ہوں تو مجھے اس کی سمجھ عطا فرما اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بہم پہنچا تاکہ میرے سے کوئی ایسا کام سرزد نہ ہو جو تیری رضا کے خلاف ہو ، ایسا نہ ہو کہ میں قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتا رہوں اور عمل بھی اپنی ہی غرض اور ضرورت کے مطابق اپنی ہی مرضی کی مطابق کرتا رہو۔ گویا قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ بالکل خالی الذہن ہو کر تلاوت کرے اور عبارت قرآنی میں غور وفکر کرکے جو جو زندگی کی راہنمائی اس میں پائے وہ اپنے ذہن میں خوب جماتا جائے جن باتوں کے کرنے کا حکم ہے ان کے کرنے کی تیاری اور جن سے منع کیا ہے ان سے باز رہنے کا تہیہ کرتا جائے اور جب اوامر ونواہی اس کے دل میں جم جائیں تو ان کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالتا چلا جائے اور ہرگز نہ دیکھے کہ معاشرہ ‘ خاندان ‘ برداری اور مذہبی اور سیاسی راہنما کیا کر رہے ہیں بلکہ وہ پوری پوری راہنمائی قرآن کریم ہی سے حاصل کرنے کی کوشش کرے لیکن اس بات کا بھی خیال رکھے کہ میرے رسول محمد رسول اللہ ﷺ نے جو اس کے متعلق کیا وہی اصل اور حق ہے کیونکہ آپ ﷺ کے سینے اقدس ہی پر قرآن نازل ہوا اے اللہ ! میرے اندر کے شیطان پر مجھے پور قابو عطا فرما تاکہ وہ میرے راستے میں کہیں حائل نہ ہوجائے کیونکہ وہ کوئی خارجی چیز نہی جو باہر سے آنے والا ہو تاکہ میں اس کا دھیان رکھ سکوں۔ اے اللہ ! یہ شر کی طاقت جو تو نے میرے اندر ودیعت فرما دی ہے اس سے بچنے اور اس کو رام کرنے کی توفیق بھی تیرے ہی پاس ہے اس لئے تو مجھے وہ توفیق عطا فرما کہ کہیں یہ مجھے دھوکہ نہ دے جائے ، یہ پورا مضمون قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے پہلے اپنے دماغ اور عقل وفکر میں ضرور لائیں اور زبان سے بھی اعوذ باللہ من ال شیطان الرجیم کے الفاظ یا عوذ باللہ السمیع العلیم من ال شیطان الرجیم بھی ادا کرے اور اس کا مطلب ومفہوم وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا ۔ اس لئے یاد رہے کہ استعاذہ کی ہر وقت ضرورت ہے قرآن کریم کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے ، شروع کرتے وقت ‘ تلاوت کرتے وقت اور تلاوت بند کرتے وقت کیونکہ قاری جب تلاوت شروع کرنا چاہتا ہے تو انسان ہے تلاوت کرتے وقت بھی انسان اور تلاوت کر چکنے کے بعد بھی انسا ہے اور انسان مجسمہ ہے قوت خیر وشر کا ، اس لئے قرآن کریم نے تلاوت کا خاص عمل شروع کرتے وقت بھی اس کا حکم دیا کہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا کہیں اس راندہ درگاہ سے مغلوب نہ ہوجائے اور کوئی ایسا مطلب ومفہوم اپنے دل میں نہ جما لے جو اس قابل نہ ہو کہ اس کو دل میں جمایا جائے اور یہ عمل ہر وقت کرنا ہوگا خواہ وہ نماز کے اندر قرآن کریم کی تلاوت ہو یا باہر بہرحال قرآن کریم کی تلاوت کے لئے زبان وعمل دونوں سے استعاذہ کرنا ضروری ہے اور غصہ کے وقت بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” اعوذ باللہ من ال شیطان الرجیم “۔ پڑھنے سے شدت غضب فرو ہوجاتی ہے اور بلاشبہ برحق ہے آج بھی کوئی عمل کرکے دیکھ لے بشرطیکہ وہ سمجھ کر پڑھے کیونکہ جن لوگوں کو سب سے پہلے آپ ﷺ نے حکم دیا وہ اس کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھتے تھے ۔
Top