Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 97
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً١ۚ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
مَنْ : جو۔ جس عَمِلَ : عمل کیا صَالِحًا : کوئی نیک مِّنْ ذَكَرٍ : مرد ہو اَوْ : یا اُنْثٰى : عورت وَهُوَ : جبکہ وہ مُؤْمِنٌ : مومن فَلَنُحْيِيَنَّهٗ : تو ہم اسے ضرور زندگی دیں گے حَيٰوةً : زندگی طَيِّبَةً : پاکیزہ وَ : اور لَنَجْزِيَنَّهُمْ : ہم ضرور انہیں دیں گے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِاَحْسَنِ : اس سے بہت بہتر مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
جس کسی نے اچھا کام کیا خواہ مرد ہو خواہ عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہے تو ہم ضرور اسے اچھی زندگی دیں گے اور آخرت میں بھی ضرور اسے اجر دیں گے انہوں نے جیسے اچھے کام کیے ہیں اس کے مطابق ہمارا اجر بھی ہو گا
عامل مذکر ہو یا مؤنث اس کا ایمان والا ہونا ضروری ہے : 111۔ نیک عمل جو کوئی بھی کرے گا مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ صاحب ایمان ہو تو ہم اسے ضرور ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اس دنیا میں جیسا کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) ‘ مومنین ومتقین کی پاکیزہ زندگیاں خود اس پر گواہ ہیں ۔ مادی تہذیب کے علم برداروں کے ذہن میں عقبی کی زندگی جاوداں کا کوئی تصور ہی نہیں ، ان کی ساری کوششیں اس دنیوی زندگی کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار ‘ آرام دہ اور پر جلال بنانے پر مرکوز ہیں ۔ وہ جو کام کرتے ہیں ان کے پیش نظر فقط مادی منفعت ہوتی ہے حتی کہ جو ضابطہ اخلاق انہوں نے اپنا رکھا ہے جسے دیکھ کر ظاہر بین لوگ ان کی اخلاقی برتری کی قصیدہ خوانی کرتے ہیں اس ۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی کاروبار کی ترقی ‘ معاشی خوش حالی یا سیاسی وقار واقتدار کی ہوس ہی پنہاں ہوتی ہے لیکن صد افسوس کہ وہ قوم جس کا بنیادی عقیدہ ہی دار آخرت پر ایمان تھا وہ بھی مادی تہذیب کی ظاہری ترقی سے مرعوب ہو رہی ہے اور وہ دین میں ایسی ایجادات کر رہے ہیں جن سے ان کے پیٹ کی آگ بجھ سکے اور وہ دنیا کا مال اکھٹا کرسکیں تاکہ دنیا کی فراوانیاں ان کو بھی حاصل ہوں ۔ غور کرو کہ ان کے اذہان میں بھی عقیدہ آخرت کی اہمیت گھٹتی جارہی ہے وہ بھی تیزی سے اس غلط فہمی کا شکار ہو رہے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم کا مقصد فقط آخرت کی زندگی کو خوشگوار بنانا ہے ہماری اس دنیوی زندگی کو خوشیوں سے ہم کنار کرنا نہ اس کے مقاصدم میں داخل ہے اور نہ اس کی دسترس میں ہے ۔ قرآن کریم کی اس آیت میں اس غلط فہمی کو دور کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان کی دولت سے مشرف ہو کر اسلام کے پیش کئے ہوئے ضابطہ کو اپناتے ہیں خواہ وہ مرد ہوں یا عورت ‘ شرقی ہوں یا غربی ‘ ان کے دونوں جہاں سنور جاتے ہیں وہ دنیا کے کاموں کو بھی بڑی دیانت داری سے سرانجام دیتے ہیں اور اللہ کے قانون کے مطابق ان تسخیر شدہ چیزوں سے فوائد حاصل کرتے ہیں ایمان و اعمال صالحہ کا جو اجر ان کو اس دنیا میں ملے گا اس کو قرآن کریم نے (حباۃ طیبہ) کے جامع الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے ۔ (حیاۃ طیبۃ) کے لفظی معنی پاکیزہ زندگی ہے لیکن اس کا مفہوم اتنا وسیع ہے کہ ساری پائیدار مسرتیں اور حقیقی کامیابیاں اس میں سمٹی ہوئی ہیں ۔ دولت کی فراوانی اور سامان تعیش کی بہم رسانی کے باوجود دل کو قرار و اطمینان نصیب نہیں ہوتا اور جب تک دل میں اطمینان کی شمع روشن نہ ہو سچی خوشی اور حقیقی کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی ۔ اگر آپ کا دل نور ایمان سے اور آپ کی شاہراہ حیات اعمال حسنہ سے جگمگا رہی ہے تو آپ کی روح ایک کٹیا میں بیٹھے ہوئے بوسیدہ لباس پہن کر بھی سرور و شاداں ہوسکتی ہے اس لئے آپ کو ناجائز وسائل اور ناجائز طریقے استعمال کرنے سے یقینا نفرت ہوگی اور فطری طور پر آپ کبھی ان کے قریب بھی نہیں پھٹکیں گے ۔ ہمارے اپنے معاشرے میں جہاں جہاں خدا فراموشی اور تصور آخرت سے بےبہرہ تہذیب کے قدم جمتے جا رہے ہیں وہاں خاندانوں کی بنیادیں لرز گئی ہیں ۔ اس ضرب المثل ‘ اعتماد اور باہمی ایثار کی جگہ خود غرضی اور بےاعتمادی نمو دار ہو رہی ہے بچے اپنے والدین کے نافرمان بنتے جا رہے ہیں ، دولت کے حصول کا وہ بھوت ہم پر مسلط ہوچکا ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا آدمی دولت سمیٹنے میں ہمہ تین مصروف ہے ، حلال و حرام کی تمیز کلی طور پر اٹھ گئی ہے ہماری زیاں کاری کا یہ عالم ہے کہ ہم دولت فرہام کرنے کے لئے اپنے ملک اور اپنی قوم سے غداری کرنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر میں بددیانتی سے باز نہیں آتے جن کا براہ راست ہمارے دفاع سے تعلق ہے ، ہسپتالوں اور درسگاہوں کے ٹھیکے دینے اور ٹھیکے لینے میں کون سی ایسی قباحت ہے جس کا چرچا خاص وعام کی زبان پر نہیں ، ذرا غور کرو کہ یہ دولت جو ہم اس طرح اکٹھی کرتے ہیں ہمیں اطمینان اور خوشی کی نعمت سے مالا مال کرسکتی ہے قومی مفاد کے ساتھ غداری کرکے کیا ہم اپنے آپ کو محب وطن یا قابل فخر شہری کہلانے کا حق رکھتے ہیں ۔ (حباۃ طیبۃ) کے دامن میں عزت نفس ہے ‘ بلند نظری ہے ‘ اولوالعزمی ہے ‘ ایثار اور اخلاص ہے ‘ قناعت ہے اور ان تمام چیزوں کے علاوہ زندگی کی بازی جیتنے پر ایک بہار آفرین تبسم ہے ۔ یہ (حیاۃ طیبۃ) ساری دولتوں سے بڑی دولت ‘ ساری عزتوں سے بڑی عزت ہے اور ساری راحتوں سے بڑی راحت ہے اور وہ اس کو ملتی ہے جس کے دل میں ایمان کا نور ضوفشاں ہوتا ہے جس سے اس کا ظاہر اور اس کا باطن ‘ اس کا قول اور اس کا عمل جگمگا رہا ہوتا ہے اور یہ وہ اجر ہے جو ایک بندہ مومن کو اس دنیا میں بخش دیا جاتا ہے لیکن یہ زندگی بہرحال فانی ہے اسے ایک دن یقینا ختم ہونا ہے ، اس لئے ارشاد الہی ہوا کہ ” انہوں نے جیسے جیسے اچھے اعمال کئے ہیں اس کے مطابق ہمارا اجر بھی ہوگا ۔ “ اور یہ بات وہی ہوئی جس کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ” جیسا کرو گے ویسا بھروگے ۔ “ اور آخرت میں جو کچھ ملنے والا ہے وہ بھی ہمارے دنیا میں کئے ہی کا نتیجہ ہے جو کچھ آج ہم کر رہے وہی کل ہم کو ملے گا ۔
Top