Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 31
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ١ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا
وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو تم اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد خَشْيَةَ : ڈر اِمْلَاقٍ : مفلسی نَحْنُ : ہم نَرْزُقُهُمْ : ہم رزق دیتے ہیں انہیں وَاِيَّاكُمْ : اور تم کو اِنَّ : بیشک قَتْلَهُمْ : ان کا قتل كَانَ : ہے خِطْاً كَبِيْرًا : گناہ بڑا
اور (لوگو ! ) دیکھو افلاس کے ڈر سے اپنی اولاد کو ہلاک نہ کرو ، ہم ہی ہیں کہ انہیں بھی اور تمہیں بھی روزی دیتے ہیں انہیں ہلاک کرنا بڑے ہی گناہ کی بات ہے
منشور اسلامی کی ساتویں شق اولاد کو افلاس کے ڈر سے قتل کرنے کی ممانعت : 41۔ افلاس کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنا عربوں کے بعض قبیلون میں موجود تھا اور خصوصا دختر کشی کی وبا عام تھی ، بلاشبہ جزیرہ عرب ایک ایسا ملک تھا جہاں چار سو ریگزار ہی ریگزار پھیلے ہوئے تھے اور معاشی وسائل ان کے پاس بہت کم تھے ، پانی کی قلت اور زمین کی ناہمواری ان کی سب سے بڑی مجبور تھی یہی وجہ تھی کہ مرفہ الحال کا وہاں تصور تک نہ تھا ایسے حالات میں جب کہ اپنا پیٹ بھرنا مشکل تھا وہاں اولاد کی خوراک کا بندوبست کرنا بڑا ہی دشوار تھا اس لئے معاشی خستہ حالی کے باعث ان کے ہاں اولاد کے قتل کرنے کا رواج پایا جاتا تھا اور لڑکیوں کو قتل کرنے کا رویہ تو بہت ہی سنگدلانہ تھا ایک تو وہ انہیں بوجھ سمجھتے تھے اور کچھ غلط قسم کی نخوت نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی تھی کہ اگر وہ کسی کو اپنی لڑکی کا رشتہ دیں گے تو ان کی ناک کٹ جائے گی ان تمام محرکات کے باعث ان میں لڑکیوں کا قتل ایک عام معمول ہوگیا تھا یہ حالت صرف عرب کے بادیہ نشنیوں ہی کی نہ تھی بلکہ کئی دوسری قومیں بھی اپنی اولاد کو اپنے لئے ناقابل برداشت بار گراں تصور کرتی تھیں اور ان سے رہائی حاصل کرنے کے ہر ممکن تدابیر عمل میں لاتی تھیں اور آج بھی یہ ضبط ولادت کی تحریک اٹھی ہوئی ہے وہ یہی کچھ ہے ہمارے اس ملک عزیز میں جس چیز کو خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے وہ کیا ہے ؟ وہ یہی کچھ ہے یعنی اولاد کو قتل کرنا منع حمل کی جتنی تدبیریں کا جا رہی ہیں ایک سے ایک بڑھ کر اسلامی معاشرے کے خلاف ہے کھانے والوں کو گھٹانے والوں کو گھٹانے کی جتنی تدبیریں بھی کی جائیں گی وہ سب تخریبی ہوں گی اور قوم کو سنوارنے کی بجائے بگاڑیں گی ‘ گھٹانے کی بجائے بڑھائیں گی لیکن یہ بات دنیا داروں کے ذہن میں آئے گی نہیں ۔ قوم کے دانش وروں اور علم معاشیات کے جاننے والوں کو ان تخریبی کوششوں کو چھوڑ کر تعمیری مساعی میں اپنی قوتیں اور قابلتیں صرف کرنی چاہئیں اللہ کے بنائے ہوئے قانون فطرت کے مطابق رزق میں افزائش ہوتی ہے یہ انسان کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے کہ وہ بار بار معاشی ذرائع کی تنگی کے اندیشے سے افزائش نسل کا سلسلہ روک دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے اور وہ بھی ان طریقوں سے جو غیر فطری ہیں وہ فطری طریقے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے بنائے ہیں ان سے منہ موڑتا ہے اور خود ساختہ طریقوں کی طرف دوڑتا ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ غیر فطری عمل کا طریقہ کبھی اچھے نتائج پیدا نہیں کرسکتا ، عمل برا ہو تو نتیجہ کیسے اچھا نکل سکتا ہے ، اچھا نتیجہ حاصل کرنے کے لئے اچھا عمل کرنا ضروری ہے تارخ کا تجزیہ کرکے دیکھو کہ آج تک مختلف ملکوں میں کمانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی اتنے ہی بلکہ بارہا اس سے بھی زیادہ معاشی ذرائع وسیع ہوتے چلے گئے ۔ کسی گھر کو ابتدائی یونٹ آپ تصور کرلیں اور دیکھیں کہ اس گھر میں جتنے افراد بڑھے اس کے مطابق ان کا رزق بھی بڑھتا چلا گیا اور جتنے افراد گھٹائے گئے اتنی ہی رزق میں بھی کمی آتی چلی گئی ۔ خاندانی منصبوبہ بندی نے ہم کو جو کچھ دیا ہے وہ یہ ہے کہ بےحیائی بڑھی ‘ فحاشی نے جنم لیا ‘ لوگوں کی صحت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی ، آبادی بجائے کم ہونے کے اور زیادہ بڑھ گئی اس نے عورتوں کی تعداد کو بڑھا دیا ‘ لڑکوں کی ذہانت کو بہت حد تک کم کردیا ‘ انسان کو دن بدن کمزور کار ‘ مختلف بیماریوں کو جنم دیا ‘ ایمان باللہ کو نہایت ہی کمزور کردیا ‘ صبر و تحمل کو ہم سے چھین کر جرائم میں بہت حد تک اضافہ کردیا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کر کے معاشرہ کو لعنت الہی کا مستحق کردیا ، یہ اشارات ہیں جو اس جگہ کردیئے گئے ہیں اور پیچھے ہم کرتے آرہے ہیں ان میں سے ایک ایک کا تجزیہ کرتے جاؤ تم کو معلوم ہوجائے گا کہ ان میں کتنی صداقت ہے اور خاندانی منصوبہ بندی کتنی بڑی حماقت ہے ۔
Top