Urwatul-Wusqaa - Maryam : 28
یٰۤاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِیًّاۖۚ
يٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ : اے ہارون کی بہن مَا : نہ كَانَ : تھا اَبُوْكِ : تیرا باپ امْرَاَ : آدمی سَوْءٍ : برا وَّ : اور مَا كَانَتْ : نہ تھی اُمُّكِ : تیری ماں بَغِيًّا : بدکار
اے ہارون (علیہ السلام) کی بہن ! (تو نے منذورہ ہو کر کیسے نکاح کیا حالانکہ) نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا ، نہ تیری ماں بدچلن تھی
اے ہارون کی بہن ! تیرے ماں باپ تو بہت اچھے تھے تجھے کیا ہوا ؟ : 28۔ زیر نظر آیت سیدہ مریم کے معاملہ میں ہمارے نظریات اور علمائے کرام کے نظریات کے درمیان ایک فیصلہ کن آیت ہے بشرطیکہ ذرا عقل وفکر سے کام لیا جائے ۔ وہ کیسے ؟ وہ اس طرح کہ علمائے کرام ومفسرین عظام کا خیال ونظریہ ہے کہ کہ مریم کے ہاں بغیر مس بشر کے بچہ پدحا ہوا یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ نہیں تھا ، ہمارا خیال ونظریہ ہے کہ سیدہ مریم نے منذورہ ہونے باوجود شادی کرلی جو قوم کے رواج کے خلاف ہونے کے باعث قوم کو پسند نہ آئی تو انہوں نے مریم کو شادی کرنے کے باعث برا جانا ، سوء اتفاق یہ کہ مریم نے نکاح تو کیا لیکن سیدہ مریم (علیہ السلام) کا شوہر آپ کی طرف متوجہ نہ ہوا جس کا آپ کو یقینا قلق تھا ۔ قدرت خداوندی کہ اسی اثناء میں فرشتہ نے مریم کو بیٹے کی خوشخبری سنا دی ‘ مریم نے تعجب کیا کہ میرے بیٹا کیسے ؟ جب کہ خاوند متوجہ نہیں ہوا اور میں بدکار بھی نہیں لیکن فرشتہ نے کہا کہ تیرا رب تیری حالت اچھی طرح سمجھتا ہے اگر اس نے تیرے ہاں بچہ ہونے کا فصلہ کیا ہے تو وہ تیری روک بھی یقینا دور کر دے گا اور یہ بات تیرے رب پر کوئی مشکل نہیں بحمد للہ اللہ فرشتہ کی بشارت کے مطابق وہ وقت آیا کہ سیدہ حاملہ ہوگئی یوسف آپ کی طرف ایسا متوجہ ہوا کہ دو قالب ایک جان ہو کر رہ گیا ۔ سیدہ کے ہاں عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوگئے لیکن علمائے کرام کے نظریہ کے مطابق اگر فی الواقعہ سیدہ مریم (علیہ السلام) نے نکاح نہیں کیا تھا اور وہ حاملہ ہوگئی تھیں تو یہودی شریعت کے مطابق یودیوں کو زنا کی سزا کے لئے مطالبہ کرنا چاہئے تھا کیونکہ زنا کی سزا کا ذکر تورات میں موجود تھا اور موجود ہے لیکن کتاب وسنت کتب تاریخ اور اناجیل آج بھی ہمارے سامنے ہیں لیکن یہود کے کسی گروہ نے بھی اس سزا کا مطالبہ نہیں کیا ۔ ہاں ! اگر کہیں یہود نے اس سزا کا مطالبہ کیا ہے تو وہ نقل سامنے لائی جائے ، ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ علمائے اسلام اور مفسرین کرام اپنے علمی جوہر کو سامنے لائیں اور یہ بات ثابت کریں اور اگر وہ یہ بات ثابت نہ کرسکیں اور یقینا وہ ثابت نہیں کرسکیں گے تو مان لیں کہ یہود کو اعتراض سیدہ مریم (علیہ السلام) کے نکاح پر تھا اور وہ اس نکاح کو جائز نہیں سمجھتے تھے عیسیٰ (علیہ السلام) کی بےپدری پیدائش کا انہیں اعتراض نہ تھا ۔ اگر ان کو ایسا اعتراض ہوتا تو وہ سیدھے طریقہ سے مریم پر زنا کی سزا کا مطالبہ کرتے ‘ رہی یہ بات کہ کیا فی الواقعہ تورات میں کہیں اس سزا کا ذکر موجود ہے تو ہم اس سے پہلے سورة المائدہ میں بھی عرض کر آئے ہیں اور یہاں بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہود کے ہاں زنا کی سزا توراۃ میں موجود ہے چناچہ تحریر ہے کہ : ” اگر کوئی مرد کسی عورت کو بیا ہے اور اس کے پاس جائے ۔۔۔ یہ دعوی کرے کہ میں نے اس میں کنوارے پن کے نشان نہیں پائے ۔۔۔۔۔ اور یہ بات سچ ہے کہ اس میں کنوارے پن کی نشانات نہیں پائے گئے تو وہ اس لڑکی کو اس کے باپ کے گھر کے دروازہ پر نکال لائے اور اس کے شہر کے لوگ اس کو سنگسار کریں کہ وہ مرجائے کیونکہ اس نے اسرائیل کے درمیان شرارت کی کہ اپنے باپ کے گھر فاحشہ پن کیا ۔ “ (استثناء 22 : 13 ، 21) ” وہ شخص جو دوسرے کی جورو کے ساتھ یا اپنے پڑوسی کی جورو کے ساتھ زنا کرے وہ زنا کرنے والا اور زنا کرنے والی دونوں قتل کئے جائیں ۔ “ (احبار 20 : 31) ” اگر کوئی شخص کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں یعنی وہ مرد جس نے اس عورت سے صحبت کی اور وہ عورت بھی یوں تو اسرائیل میں ایسی برائی کو دفع کرنا ۔ “ (استثناء : 22 : 23) جب واضح طور پر ان کو مریم کے حمل کی خبر لگی تو اگر اس کا نکاح نہ ہوتا تو ان کو فورا سزا دینے کی بات کرنا چاہئے تھی اور جب انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کی تو یہ کھلی دلیل ہے اس بات کی کہ وہ مریم کے نکاح کو برا خیال کرتے تھے کیونکہ وہ اپنے مذہبی رواج کے خلاف سمجھتے تھے۔ شریعت موسوی میں اس کی کوئی ممانعت نہ تھی اس لئے وہ اپنے رواج کے باعث برا تو جانتے رہے لیکن کسی سزا کا مطالبہ نہ کرسکتے تھے اور نہ ہی انہوں نے کوئی ایسا مطالبہ کیا ۔ اس طرح ان کو جو اعتراض تھا وہ صرف قومی اعتقاد و رواج کے خلاف پر تھا سیدہ مریم (علیہ السلام) پر بدچلنی اور بدکاری کا کوئی اعتراض نہ تھا اس لئے زیر نظر آیت میں سیدہ مریم (علیہ السلام) کے والد اور والدہ ماجدہ کے اعتقاد اور قومی رسم و رواج کا ذکر کرتے ہوئے ان کو بری قرار دے رہے ہیں کہ اسے مریم ! نہ تو تیرے والد کا کوئی عقیدہ ونظریہ برا تھا اور نہ ہی تیری والدہ قومی رسم و رواج سے سرکشی اختیار کئے ہوئے تھی یہ تجھے کس کی مار لگ گئی ہے کہ تو نے ماں باپ کے نظریہ کے خلاف قدم اٹھاتے ہوئے نکاح کرلیا اور تیرا بچہ کتنا گستاخ نکلا جس نے قوم کے سرداروں اور بزرگوں کی آج ہی پگڑی اچھالنا شروع کردی اور اس لئے اس کے لچھن بتا رہے ہیں کہ وہ آنے والے کل کو کیا کرے گا ؟ ہماری اپیل ہے کہ اگر علمائے کرام اور مفسرین عظام کے پاس کوئی ایسی دلیل ہے تو وہ چھپا کر نہ رکھیں بلکہ سامنے لائیں اور اس کو عوام کی عدالت میں پیش کریں یا حکومتی عدالت میں ہم دونوں طرح سے تیار ہیں (آیت) ” ھاتوا برھانکم ان کنتم صدقین “۔ ہم اس جگہ کوئی شرط عائد نہیں کر رہے اس لئے کہ شرط جائز نہیں ہاں ! ہم اپنی طرف سے انعام بھی حسب توفیق دیں گے اور اپنے نظریہ سے توبہ بھی اور اس سلسلہ میں ان کے جو اخراجات ہوں گے ہم ان کو بھی ادا کریں گے اور ان کے ممنون بھی ہوں گے ہمارے نزدیک دلیل کتاب وسنت ہے ‘ بس لیکن اس سلسلہ میں تم تورات وانجیل کو بھی ساتھ ملا دیتے ہیں اگرچہ ان میں تحریف ہوچکی ہے بلکہ روز بروز ہو رہی ہے ۔ اگر ہمارے بزرگوں اور کرم فرماؤں کے پاس کوئی دلیل نہ ہو جو یقینا نہیں ہوگی تو آپ کو جو جی چاہے اپنے مریدین اور معتقدمین کے سامنے بیان کریں لیکن دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ زنی چھوڑ دیں اور خدا کے لئے اس قوم پر اپنی اجارہ داری نہ سمجھ لیں کیونکہ لوگ اب ماشاء اللہ بیدار ہوچکے ہیں اور ہو رہے ہیں اور یقینا ہوجائیں گے اور پھر آپ لوگوں کو ان کی ہاں میں ہاں ملانا ہی پڑے گی ۔ آج تم جس کو غلط کہتے ہو کل صحیح کہنا پڑے گا کیونکہ جادو وہی ہے جو سرچڑھ کر بولے ۔ اس آیت کے شروع میں ایک فقرہ ہے (یا اخت ہارون) اس سے کون سے ہارون مراد ہیں ؟ کہا گیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی ہارون (علیہ السلام) مراد ہیں کیونکہ سیدہ مریم (علیہ السلام) انہی ہارون (علیہ السلام) کے خاندان میں سے تھیں اور اس طرح کی نسبت شرعا بھی جائز ہے اور عرفا بھی معروف ہے اس میں کوئی کلام نہیں تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہارون سیدہ مریم (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی کا نام ہے اگر ایسی بات ہے تو یقینا وہ سیدہ مریم (علیہ السلام) سے چھوٹا ہی ہوگا اور اس کے ثبوت میں یہ حدیث بھی پیش کی جاسکتی ہے ، صحیح مسلم میں ہے کہ مغیرہ بن شعبہ جب نجران گئے تو وہاں کے عیسائیوں نے ان سے پوچھا کہ قرآن کریم میں مریم کو (اخت ہارون) ہارون کی بہن کہا گیا حالانکہ ہارون مریم سے صدہا سال پہلے گزرے ہیں وہ کوئی جواب نہ دے سکے جب وہ واپس آئے تو نبی اعظم وآخر ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا انھم کانوا یسمون بانبیائھم والصالحین قبلھم ” کہ بنی اسرائیل کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کے نام انبیاء کرام اور گزشتہ بزرگوں کے ناموں پر رکھا کرتے تھے ۔ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ مریم (علیہ السلام) کے حققیے بھائی بھی ہارون نام کے تھے لیکن یہ ایک طرح کا اس حدیث سے استدلال ہے ۔ لفظ (سوء) اور (بغی) کا استعمال قرآن کریم میں عام ہے ، پہلا لفظ ہر طرح کی برائی کے لئے استعمال ہوا ہے وہ برائی عقیدہ کی ہو یا اخلاق وکردار کی اور دوسرالفظ جس کا مادہ (بغی) ہے وہ ہر طرح کی زیادتی اور سرکشی کے لئے استعمال ہوا ہے جس سے مراد حد سے تجاوز کرنا ہے خواہ وہ کسی معاملہ میں ہو یعنی عقیدہ میں ہو یا اخلاق وکردار میں ، گویا (سوء) ” حسن “ کا مخالف ہے اور (بغی) کا ، اس لئے زیر نظر آیت کا یہ ترجمہ کرنا کہ ” اے ہارون کی بہن ! نہ تیرا باپ بدکار تھا اور نہ تیری ماں بدکارہ تھی ۔ “ اس کا مفہوم یہ بیان کرنا کہ ” ان الفاظ سے لوگ مریم کو عار دلا رہے ہیں کہ تیرا باپ بدکار نہ تھا اور نہ ہی تیری ماں زانیہ تھی ۔ “ کیا کسی شادی شدہ عورت کو یوں عار دلائی جاتی ہے ؟ یہ سراسر زیادتی اور عصمت انبیاء کے خلاف اور مومنہ قانۃ پر بہتان ہے ، باکل سیدھی تھی کہ اے ہارون کی بہن ! نہ تو تیرے باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں سرکش تھی گویا سیدہ سے قوم کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ مریم ! تیرا باپ بھی ایک صحیح العقیدہ انسان تھا اور تیری ماں بھی اپنے نظریہ کی بڑی پختہ تھی جو حد سے تجاوز کیا جو تیرے ماں باپ نے تیرے لئے مقرر کردی تھی ، اس جگہ مریم کے والد کے متعلق فرمایا کہ تیرا باپ (امراسوء) نہیں تھا اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم (قوم سوء) تھی یعنی نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ بہت برے تھے وہ برا عقیدہ رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے نوح (علیہ السلام) کی دعوت قبول نہیں کرتے تھے ۔ بلکہ صاف جھٹلاتے تھے ، اس طرح (بغیا) لفظ ہر طرح کی زیادتی اور سرکشی کے لئے استعمال ہوتا ہے جب کہ لفظ بولنے والا اس کو جس کے متعلق اس نے یہ لفظ استعمال کیا ایس اس مجھے اگرچہ وہ ایسا نہ ہو اور نہ ہی ہو سکتا ہو۔
Top