Urwatul-Wusqaa - Maryam : 52
وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا
وَنَادَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے پکارا مِنْ : سے جَانِبِ : جانب الطُّوْرِ : کوہ طور الْاَيْمَنِ : داہنی وَقَرَّبْنٰهُ : اور اسے نزدیک بلایا نَجِيًّا : راز بتانے کو
ہم نے اسے کوہ طور کی دا ہنی جانب سے پکارا اور سرگوشیوں کے لیے اپنے سے قریب کیا
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور کی داہنی جانب سے پکارا اور وہ لبیک کہنے لگے : 52۔ یہ اس وقت کا ذکر کیا جارہا ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) نبوت سے قبل ایک اتفاقیہ قتل ہوجانے کے بعد نکلے تھے اور راستہ میں خضر سے ملاقات کرتے ہوئے مدین کی طرف بڑھ گئے تھے اور پھر مدین میں آٹھ یا دس برس گزارنے کے بعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ مصر کو آرہے تھے کہ راستے میں ایک آگ کا اشارہ دیکھ کر آگ لینے کی غرض سے اپنے اہل و عیال کو ایک جگہ بٹھا کر رات کے اندھیرے میں آگ کی طرف بڑھے تھے کہ اچانک آپ کو آواز آئی کہ اے موسیٰ ! میں تیرا پروردگار ہوں اور یہ جو روشنی تجھے نظر آتی ہے یہ آگ نہیں بلکہ تیرے رب ہی کی ایک تجلی ہے جو تجھے متوجہ کرنے کے لئے کی گئی ۔ اس جگہ فرمایا کہ یہ مقام طور کی داہنی جانب تھا اور جب وہ قریب آگیا تو ہم نے اس کو سرگوشی کے لئے مزید اپنے قریب کرلیا یہ قرب آپ کو کس چیز کا حاصل ہوا ؟ اس تجلی کا جو آپ کو آگ کی شکل میں نظر آئی یہ سرگوشی کیا تھی ؟ وہی سرگوشی تھی کہ تم مصر میں فرعون کے پاس جاؤ کہ وہ سرکشی میں بہت بڑھ گیا ہے اور اس طرح کے سوال جواب جو وہاں ہوئے ان کی اصل حقیقت تو صاحب وحی ہی جان جاسکتا ہے ہم تو وہی بات کہہ سکتے ہیں جو قرآن کریم نے ہم کو بتائی (وقربنہ نجیا) اور ہم نے سرگوشیوں کے لئے اپنے قریب کیا ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر وقت اور ہر آن ہر انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اس میں ذرا بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں لیکن انسان کے ساتھ جب تک اس کی زبان میں بات نہ کی جائے ہر انسان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی اس لئے قرآن کریم نے انداز بیان وہی اختیار کیا ہے جو ایک انسان دوسرے انسان سے بات کرنے کے لئے اپنی فطرت کے مطابق کرتا ہے اور اسی فطری تقاضا کو پورا کرنے کے کے لئے قرآن کریم نے اس جگہ بھی یہ پیرایہ بیان اختیار فرمایا ہے حقیقت میں اس سے مراد فقط قرب الہی ہے جس سے دوسرے انسانوں سے نبی و رسول امتیاز حاصل کرتا ہے جس طرح صدر مملکت (جو اسلام آباد میں ہے) سے بات کرنے کے لئے لاہور کا آدمی کراچی والے کو کہہ سکتا ہے آپ صدر سے بات کرنے کے لئے میرے سے زیادہ قریب ہیں اس لئے آپ بات کریں اور اس کا ایسا کہنا حقیقت پر مبنی ہو سکتا ہے کیونکہ اس قرب سے مراد فاصلہ کا قرب نہیں بلکہ تعلقات اور جان پہچان کا قرب ہے ، اسی طرح جب قرب کی باطنی صورت بھی موجود ہو اور ظاہری بھی اختیار کرلی گئی ہو تو مزید وضاحت ہوجاتی ہے اور یہی کچھ اس جگہ بیان کیا گیا ہے ، اسی حالت کو کسی نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ۔ تم میرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا : لیکن اس کے باوجود قریب ہونے کا مقام کچھ اور ہی ہے (نجیا) جس کو اپنے راز سے اطلاع دی جائے یعنی جس کے سامنے اپنا راز کھول دیا جائے ، طور ایک پہاڑ کا نام ہے ۔
Top