Urwatul-Wusqaa - Maryam : 57
وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا
وَّرَفَعْنٰهُ : اور ہم نے اسے اٹھا لیا مَكَانًا : ایک مقام عَلِيًّا : بلند
اور ہم نے اسے بڑے ہی اونچے مقام تک پہنچا دیا تھا
ادریس (علیہ السلام) کے درجات کو بلند کرنے کا اشارہ قرآن کریم میں : 57۔ فرمایا ” ہم نے اس کو بڑے ہی بلند مقام پر پہنچا دیا تھا “ یہی وہ اشارہ ہے جس سے لوگوں نے یہ سمجھا کہ ادریس (علیہ السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا چناچہ نقل ہے کہ ایک بار ادریس (علیہ السلام) پر وحی نازل ہوئی کہ ’ اے ادریس ! تمام اہل دنیا جس قدر روزانہ نیک عمل کریں گے ان سب کے برابر میں تجھ کو ہر روز اجر عطا کروں گا ، ادریس (علیہ السلام) نے یہ سنا تو ان کو یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرے اعمال میں روز افزوں اضافہ ہو اور اس لئے عمر کا حصہ طویل ہوجائے تو بہت ہی اچھا ہے ۔ انہوں نے وحی الہی اور اپنے خیال کو ایک رفیق فرشتہ پر ظاہر کر کے کہا کہ اس معاملہ میں فرشتہ موت سے گفتگو کرو تاکہ مجھ کو نیک اعمال کے اضافہ کا زیادہ سے زیادہ موقعہ ملے ۔ اس فرشتہ نے جب یہ سنا تو ادریس کو اپنے بازوؤں پر بٹھا کرلے اڑا جب یہ چوتھے آسمان سے گزر رہے تھے تو فرشتہ موت زمین کی طرف اتر رہا تھا ، وہیں دونوں کی ملاقات ہوگئی ، دوست فرشتہ نے فرشہ موت سے ادریس (علیہ السلام) کے معاملہ میں گفتگو کی ، فرشتہ موت نے دریافت کیا کہ ادریس ہیں کہاں ؟ اس نے کہ میری پشت پر سوار ہیں ۔ فرشتہ موت کہنے لگا درگاہ الہی سے یہ حکم ہوا ہے کہ ادریس کی روح چوتھے آسمان پر قبض کروں اس لئے سخت حیرت وتعجب میں تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے جب کہ ادریس زمین میں ہیں ؟ اس وقت فرشتہ موت نے ادریس (علیہ السلام) کی روح قبض کرلی یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد کعب احبار نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا اس ارشاد (ورفعناہ مکانا علیا) کی یہی تفسیر ہے اور آج یہ قصہ آپ کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں سند کے ساتھ مل جائے گا ، حالانکہ یہ سب اسرائیلی خرافات ہیں جو ناقابل اعتبار ہیں شاید ہمارے مفسرین نے بھی ان کو حکایتا ہی بیان کیا ہوگا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اس طرح کی باتیں ہیں جو عوام میں زیادہ پذیرائی حاصل کرتی ہیں اور آج اسی طرح کی بےسروپا روایات فضائل کے تحت تبلیغی جماعت کے لٹریچر میں زیادہ پائی جاتی ہیں اور فی الواقع عوام کا رجحان انہی کی طرف زیادہ ہے اور ہمارے علمائے کرام نے ترغیب وترھیب کے لئے ایسی باتوں کا بیان کرنا جائز اور درست قرار دیا ہے تاکہ ” ال کو کو لے گئی “ کہہ کر ضرور کا کام پورا کرلیا جائے ۔ لیکن ہم میں کتنے ہیں جو آج بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح ادریس (علیہ السلام) کی آمد کے انتظار میں ہیں جبکہ اس آمد نے کئی ” غلام احمد “ پیداکئے اور کتنے ہیں جو پر تولتے ہی رہے لیکن اڑنے میں موت سمجھ کر پھر پروں کو سمیٹ لیتے رہے اور اس گومگو میں وہ چلتے بنے ہیں ۔
Top