Urwatul-Wusqaa - Maryam : 98
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ١ؕ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا۠   ۧ
وَكَمْ : اور کتنے ہی اَهْلَكْنَا : ہم نے ہلاک کردئیے قَبْلَهُمْ : ان سے قبل مِّنْ : سے قَرْنٍ : گروہ هَلْ : کیا تُحِسُّ : تم دیکھتے ہو مِنْهُمْ : ان سے مِّنْ اَحَدٍ : کوئی۔ کسی کو اَوْ تَسْمَعُ : یا تم سنتے ہو لَهُمْ : ان کی رِكْزًا : آہٹ
ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کے دور گزر چکے ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا ، کیا ان میں سے کسی کی ہستی بھی اب تم محسوس کرتے ہو ؟ کیا ان کی بھنک بھی سنائی دیتی ہے ؟
بڑی بڑی اکھڑ قومیں اس دھرتی پر گزریں کیا کسی کو بھنک بھی آپ ﷺ کے کانوں میں پڑی ؟ 98۔ قرآن کریم کے متعلق ارشاد فرمایا کہ اس کو ہم نے ایسا نہیں اتارا کہ کسی کو اس کی سمجھ ہی نہ آسکے لہذا اس کو بہتر سے بہتر غلاف میں بند کرکے طاق پر سجادیا جائے اور زیادہ سے زیادہ اس سے کام لیاجائے تو یہی کہ ایک مسلمان صبح اٹھتے ہی ہاتھ منہ دھو کر اس کو کھولے اور الٹے سیدھے چار لفظ پڑھ کر اور اس کے کاغذوں پر ہاتھ پھیر کر اپنے ہاتھوں اور چہرہ پر مل لیا کرے تاکہ دن میں جو جو اعمال بد اس کو انجام دینا ہیں ان میں اس سے برکت آئے اور پھر اس سے معاملہ آگے بڑھے اور اس کو دینے دلوانے کی ضرورت پڑے ‘ مجلس میں یا عدالت میں اٹھائے لائے اور اس سے اپنا کام نکلوا لے ۔ رہا اس کا مطلب سمجھنا تو اس کی قطعا ضرورت نہیں اور یہ بھی کہ ” جہیڑے ایدے معنی پڑھدے ہوگئے سب وہابی “ کی تلقین کرکے دل خوش کرلیا جائے ، بلاشبہ یہ قرآن کریم آسان ہے یعنی جو اس کو سمجھنا چاہئے ممکن نہیں کہ اس سے وہ محروم رہے اور رہی یہ بات کہ جب تک مروجہ علوم نہ سیکھے جائیں قرآن کریم سمجھ میں نہیں آتا تو یہ بات بھی بالکل غلط ہے قرآن کریم سمجھ میں نہیں آتا تو یہ بات بھی بالکل غلط ہے ۔ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے عقل وفکر کی ضرورت ہے جو شخص بھی عقل وفکر سے کام لے گا اس کے لئے اس کا سمجھنا چاہے اور سمجھنے کی کوشش کرے پھر سمجھ نہ سکے اور یہ کام کسی خاص طبقہ کے ذمہ لگایا جائے کہ وہی اس کو سمجھیں کہ یہ کیا ہے ؟ اور پھر جو وہ کہیں ہم مانتے جائیں اور ہاں ہاں کرتے رہیں تاکہ ان کی یہ حیثیت قائم رہ سکے ، فرمایا ہرگز نہیں بلکہ ہر مسلمان کا مذہبی فرض ہے کہ وہ اس کی تعلیم حاصل کرے اور براہ راست اس پر غور وفکر کرے اور اس طرح خاص طبقے کی چھاپ سے جہاں تک بچ سکتا ہے وہ بچے اور پھر صرف یہی نہیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو جھگڑالو قسم کے لوگوں اور ہٹ دھرمی سے کام لینے والوں کی اصلاح کی کوشش بھی کرتا رہے ، خیال رہے کہ افہام و تفہیم اور بات ہے اور جھگڑا اور ہٹ دھرمی اور بات ہے ، وسعت کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اس سے حقائق کھلتے ہیں اور بات آسان سے آسان تر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ ہاں ! اردو خواں طبقہ کے لئے صرف اتنا ضروری ہے کہ کسی ایک ترجمہ پر انحصار کرکے ترجمہ کے الفاظ پر غور کریں اور جہاں کہیں ترجمہ میں الجھن نظر آئے اور دل چاہے کہ اس بات کی مزید وضاحت ہو اس کے لئے مزید کوشش کرکے کہیں سے اپنی تسلی کے لئے ہمت کریں اور اس مقصد کے لئے مروجہ گروہ بندیوں سے آزاد رہ کر اپنی معلومات کو مزید آگئے بڑھائیں انشاء اللہ العزیز کامیابی ہوگی اور بہت کنجلک باتوں سے طبیعت خود بخود ابی کرے گی اور حقیقت اس کے قریب آجائے گی اور جہاں تک ہو سکے اپنی رہنمائی کے لئے قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے جو بات حق ثابت ہو اس کے مطابق عمل نہایت ہے اور اس کے مطابق عمل نہ ہوا تو قرآن کریم کی تفہیم اور قرآن کریم کی تسہیل ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ اگر عمل آباء و اجداد ہی کے رسم و رواج کے مطابق رہے گا تو جیسا ہمارے علمائے کرام کا حال ہے ویسا ہی ان کا رہے گا اور ایک ذہنی عیاشی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ یاد رہے کہ ” قوم لدا “ سے مراد بھی وہی لوگ ہیں جو سمجھی ان سمجھی اور دیکھی ان دیکھی کردیتے ہیں اور اپنی ڈگر بدلنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ” زمین جنبدنہ جنبد گل محمد نہ جنبد “ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی خاص رحمت اور خاص فضل سے قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھل جانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اسی دعا پر سورة مریم کی تفسیر کو ختم کیا جارہا ہے ۔ ٹھٹھہ عالیہ 31۔ اکتوبر 1996 ء۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم :
Top