Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 130
وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ١ؕ وَ لَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا١ۚ وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمَنْ : اور کون يَرْغَبُ : منہ موڑے عَنْ مِلَّةِ : دین سے اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم اِلَّا مَنْ : سوائے اس کے سَفِهَ : بیوقوف بنایا نَفْسَهُ : اپنے آپ کو وَ لَقَدِ : اور بیشک اصْطَفَيْنَاهُ : ہم نے اس کو چن لیا فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَاِنَّهُ : اور بیشک فِي الْآخِرَةِ : آخرت میں لَمِنَ : سے الصَّالِحِينَ : نیکو کار
ان لوگوں کے سوا جنہوں نے اپنے آپ کو جہالت اور نادانی کے حوالے کردیا ہے کون ہے جو ابراہیم کے طریقہ سے منہ پھیر سکتا ہے ؟ ہم نے دنیا میں بھی اسے برگزیدہ کیا اور آخرت میں بھی اس کی جگہ نیک انسانوں میں ہو گی
ملت ِابراہیمی سے منہ موڑنے والا کبھی عقلمند نہیں ہو سکتا : 242: مطلب یہ ہوا کہ جو کچھ پیچھے آپ نے پڑھا ہے وہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ ہے آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ ملت ابراہیمی تو عین دین فطرت ہے اس کی تعلیمات عین طبع سلیم کی ترجمان ہیں ، ظاہر ہے کہ پھر اس سے کنارہ کشی تو صرف وہی اختیار کرسکتا ہے جس کی فطرت ہی سلیم نہ رہی ہو بلکہ مسخ ہوچکی ہو۔ اس مقدمہ کی تصدیق انسان جو چاہے اعتقاد سے نہیں آزمائش سے کرے۔ اسلام نے جماعت یعنی سوسائٹی کا جو نظام قائم کیا ہے وہی بہترین نظام جماعتی ہے ہر فرد کے لئے جو ضابطہ و عمل بنادیا ہے وہی بہترین ضابطہ شخصی ہے عقل و جذبات ، فرد و جماعت دل ، جسم و روح ، حریت و اطاعت اور حیات انسانی کے متضاد متنا قض عنصروں کی جتنی باہمی رعایت شریعت اسلامی نے ملحوظ رکھی ہے دنیا کے کسی قانون میں کہیں اس کی نظیر نہیں ملے گی۔ دعائے ابراہیمی ختم ہوئی اب بیان ملت ابراہیمی کا شروع ہو رہا ہے کہ یہ تو وہی دین توحید ہے جس کی دعوت آج فقط اسلام دے رہا ہے اور جسے تم سب باوجود اپنے مشترک بزرگ ابراہیم کی پیروی کے دعویٰ کو چھوڑے بیٹھے ہو۔ قرآن کریم کا یہ اعجاز نہیں تو اور کیا ہے ؟ کہ اس نے اپنے دین اسلام ہونے کی نسبت نہ حق تعالیٰ کی جانب کی اور نہ ہی رسول وقت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی جانب بلکہ اپنی نسبت صرف ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کی جانب کی۔ پھر بلاغت قرآنی کا اندازہ لگائیں کہ یہاں مخاطب اصلاً یہودو نصاریٰ اور مشرکین عرب ہیں اور یہ تینوں قومیں مسلمانوں ہی کی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا مقدس پیشوا مانتی ہیں۔ اس اسلوب بیان کو اختیار کر کے گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ قرآن کریم تمہیں کسی نئے دین کی طرف دعوت نہیں دے رہا بلکہ تمہارے ہی بزرگ و محترم پیشوا ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے دین کی طرف تمہیں بلا رہا ہے ۔ حسن تبلیغ کا پیرایہ اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا تھا ؟ کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو بزرگ و محترم ماننے والے ہی دعوت ابراہیمی سے منہ موڑ کر دوسری طرف چل دیتے ہوں تو ان کے لئے اور کیا طریقہ کیا جاسکتا تھا۔ جس طرح آج بدقسمتی سے محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا دَم بھرنے والے اور اپنے آپ کو غلامان مصطفیٰ ، عاشقان رسول اور محبان رسول کے ناموں سے یاد کرنے والے محمد رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم سے انحراف کرچکے ہیں۔ نام لیتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ کا اور کام کرتے ہیں تو اپنی اہواء و خواہشات کے۔ کبھی آپ کو دیکھنے کا اتفاق ہو تو یہود و نصاریٰ کے نوشتوں میں ابراہیم (علیہ السلام) کے فضائل اس وقت بھی موجود تھے اور آج بھی ہیں لیکن کام ان کے بھی آپ کے سامنے ہیں چناچہ تورات میں ہے کہ : ” اپنے باپ ابراہیم پر اور اس پر جو تمہیں جنی نگاہ کرو کہ جب میں نے اسے بلایا وہ اکیلا تھا پھر اس کو برکت دی اور اس کو بہت بنایا “ (یسعیاہ 51 : 12) ” اے ابراہیم تو مت ڈر میں تیری سپر اور تیرا بہت بڑا اجر ہوں۔ “ (پیدائش 15 : 1) ” اور وہ خدا پر ایمان لایا اور یہ (ابراہیم) اس کے لیے صداقت محسوب ہوا۔ “ (پیدائش 15 : 6) اور مسیحیوں کی انجیل میں آج بھی لکھا ہے کہ : ” ابراہیم خدا پر ایمان لایا اور یہ کہ اس کے لیے راست بازی گنا گیا ، بس جان لو کہ جو ایمان والے ہیں وہی ابراہیم کے فرزند ہیں۔ “ (رومیوں 40 : 3) ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے آخرت میں بھی درجات ِعالیہ مقرر ہیں : 243: یہ ابراہیم (علیہ السلام) کے دنیاوی شرف و بزرگی کا ذکر تھا آخرت کا معاملہ بھی جو ابھی سامنے نہیں اس میں بھی ابراہیم (علیہ السلام) کا مقام قرآن کریم کی اس آیت نے واضح کردیا کہ جس طرح اللہ نے ان کو دنیا میں عزت و فضیلت عطا فرمائی اسی طرح آخرت میں بھی ان کے درجات بہت بلند ہیں۔ اس جگہ ایک بات یا درکھنے کے قابل ہے کہ ایک پیغمبر جلیل القدر کے شایان شان یہود و نصاریٰ نے اہل کتاب ہونے اور نبوت و سلسلہ وحی پر ایمان رکھنے کے باوجود اپنے اپنے نوشتوں میں کوئی کسر عصمت انبیاء کے داغدار بنانے میں اٹھا نہ رکھی اس لئے قرآن کریم جہاں جہاں انبیاء سابق کا ذکر کرتا ہے اکثر ان حضرات کی اخلاقی و روحانی عظمت پر بھی زور دیتا جاتا ہے اور اسی طرح انبیاء بر حق کی نصرت و حمایت کا فرض تورات و انجیل کی عائد کی ہوئی فرد ِجرم کے مقابلہ میں ادا کرتا جاتا ہے۔ اہل کتاب نبی اور نبوت کو کیا سمجھتے ہیں ؟ یہ کہ نبی وہ ہے جو کاہنوں ، جوتشیوں کی طرح غیب کی خبریں دے سکے اور اس سے ان کو کوئی بحث ہی نہ تھی کہ اس کے اخلاق کا کیا عالم تھا۔ اس کے روحانی کمالات کس درجہ کے تھے اس کی تعلیمات کیا تھیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) تو اکثر انبیاء کرام کے ابوالاباء ہیں۔ آپ کی عصمت کے تحفظ کا تو قرآن کریم نے اور بھی زیادہ اہتمام کرر کھا ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے آج اہل اسلام کی اکثریت نے بھی یہود و نصاریٰ کی پیروی میں انبیاء کرام کی عصمت کا قرآن کریم کی رہنمائی کے باوجود بہت کم خیال رکھا اور زیادہ ترباتیں تورات وانجیل سے اٹھا کر قرآن کریم کی تفسیر میں داخل کردیں اس جگہ صرف اشارہ کیا جا رہا ہے تفصیل اپنے موقعہ پر آئے گی۔
Top