Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 18
صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَۙ
صُمٌّ : بہرے بُكْمٌ : گونگے عُمْيٌ : اندھے فَهُمْ : سو وہ لَا : نہیں يَرْجِعُونَ : لوٹیں گے
گویا گونگے ، بہرے اور اندھے ہو کر رہ گئے ، وہ کبھی نہیں لوٹ سکتے
بہرے ، گونگے اور اندھے کون ہیں ؟ 39: یہ منافقین کی اس پہلی جماعت کے لوگ ہیں جن کا ذکر اوپر گزرچکا۔ ” صُمٌّۢ “ بہرے ہیں یعنی صدائے حق گویا سنتے ہی نہیں۔ ” بُكْمٌ “ گونگے ہیں یعنی کلمہ حق و ایمان کے ادا کرنے سے ان کی زبانیں گنگ ہیں۔ ” عُمْیٌ “ اندھے ہیں یعنی دید حق کی طرف سے ان کی آنکھیں اندھی ہوچکی ہیں اور یہ سب کچھ ان کی اپنی اختیاری گمراہی کے نتیجہ کے طور پر ہوا۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو اس طرح ادا فرمایا ہے کہ : اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَاۤ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَا 1ۚ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ 0046 (الحج 22 : 46) ” کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ عبرت حاصل کرتے ؟ ان کے پاس دل ہوتے اور سمجھتے بوجھتے ؟ کان ہوتے تو سنتے اور پاتے ؟ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی اندھے پن میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر پوشیدہ ہیں۔ “ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صراط مستقیم پر چلنے کے لئے دل کی بینائی یعنی بصیرت بہت ضروری ہے اگر دل نابینا ہوجائے تو انسان روحانی طور پر سمجھ بوجھ سے محروم ہوجاتا ہے فہم و ادراک اور صحیح و غلط میں تمیز کرنے کی فطری صلاحیت جاتی رہتی ہے اب اسے عبرت و نصیحت ہو تو کیسے ہو ؟ اس مضمون کی وضاحت قرآن کریم کی زبان سے : جیسا کہ اوپر معلوم ہوچکا کہ ” صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ “ سے مراد کان کے بہرے ، زبان کے گونگے اور آنکھ کے اندھے نہیں بلکہ وہ سن لینے کے باوجود نہ سننے والے ، بولنے کے باوجود نہ بولنے والے اور دیکھنے کے باوجود نہ دیکھنے والے ہیں قرآن کریم نے جگہ جگہ ایسے لوگوں کا ذکر کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ مزید الفاظ بھی ملائے ہیں کہ زندہ ہونے کے باوجود مرجانے والے ، جائز و ناجائز میں تمیز رکھنے کے باو وجود تمیز نہ کرنے والے۔ حق و ناحق کی پہچان رکھنے کے باوجود نہ پہچاننے والے ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انبیاء (علیہ السلام) کی لائی ہوئی تعلیم کی مخالفت کی لیکن ان کی مخالفت کے باوجود انبیاء (علیہم السلام) ان کو پوری مستعدی کے ساتھ تعلیم حق دیتے رہے پھر جن کو علم الٰہی میں قانون فطرت کے مطابق کان ، زبان اور آنکھیں ملنا تھیں جن کو کفر کی موت سے نکل کر اسلام کی زندگی اختیار کرنا تھی کی ، اور دوسرے اپنے انہیں عادات اور اوصاف میں جہنم رسید ہوگئے۔ لیکن کوتاہ بینوں نے سمجھا کہ انبیاء ظاہری کانوں کے بہروں کو شنوائی ، زبان کے گونگوں کو گویائی اور آنکھوں کے اندھوں کو بینائی عطا فرماتے ہیں اور اس سے بڑھ کر طبعی موت مرجانے والوں کو ” قم باذن اللہ “ کہہ کر دوبارہ زندگی بھی دے دیتے ہیں اور اسی طرح لوگوں کو غیب کی خبریں دینے کے لئے آتے ہیں۔ ان کی عقل پر ایسا پردہ پڑا کہ اتنی صاف بات بھی نہیں سمجھ سکے کہ یہ اللہ رب العالمین کی صفات ہیں جو کسی انسان میں منتقل نہیں ہوسکتیں ، نہ کلی طور پر اور نہ جزوی طور پر اور یہ کہ اللہ کریم جس طرح اپنی الوہیت میں کسی کو شریک نہیں کرتا اسی طرح اپنی مخصوص صفات میں بھی کسی کو شریک نہیں کرتا۔ یہ ساری ہماری سمجھ کی کمزوری ہے۔ ہم چاہتے ہیں قرآن کریم کے ایسے مقامات میں سے چند ایک کی نشاندہی قارئین کرام کو ضرور کرادی جائے تاکہ یہ مضمون اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ سمجھ کی توفیق عطا فرمائے ہدایت کی راہ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے جس پر کسی کو بھی اختیار نہیں دیا گیا۔ اب آیات ملاحظہ فرمائیں : وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ فَاَعْرَضَ عَنْهَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُ 1ؕ اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا 1ؕ وَ اِنْ تَدْعُهُمْ اِلَى الْهُدٰى فَلَنْ یَّهْتَدُوْۤا اِذًا اَبَدًا 0057 (الکہف 18 : 57) ” اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جسے اس کے رب کی آیتیں یاد دلائی جائیں اور وہ ان سے گردن موڑ لے اور اپنی بدعملیاں بھول جائے جو پہلے کرچکا ہے ؟ بلاشبہ ہم نے اپنے قانون تکوینی کے مطابق ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ کوئی بات پا نہیں سکتے اور اسی قانون کے مطابق ان کے کانوں میں گرانی کردی کہ صدائے حق سن نہیں سکتے تم انہیں کتنا ہی سیدھی راہ کی طرف بلائو مگر وہ کبھی راہ پانے والے نہیں ! “ وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًاۙ0045 وَّ جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا 1ؕ وَ اِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِی الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا 0046 نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُوْنَ بِهٖۤ اِذْ یَسْتَمِعُوْنَ اِلَیْكَ وَ اِذْ ہُمْ نَجْوٰۤى اِذْ یَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا 0047 اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا 0048 (بنی اسرائیل 17 : 45 تا 48) ” اے پیغمبر اسلام ! جب تو قرآن پڑھتا ہے تو ہم تجھ میں اور ان لوگوں میں جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے اپنے قانون تکوینی کے مطابق ایک پوشیدہ پردہ حائل کردیتے ہیں اور اسی قانون کے مطابق ان کے دلوں پر ایک غلاف ڈال دیتے ہیں کہ سمجھ کام نہیں کرتی اور کانوں میں گرانی کہ کچھ سنائی نہیں دیتا۔ جب تو قرآن میں صرف اپنے اکیلے رب کا ذکر کرتا ہے اور ان کے ٹھہرائے ہوئے ربوں کا نام نہیں لیتا تو یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگتے ہیں اور نفرت سے پُر ہوتے ہیں۔ جب یہ لوگ تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جو کچھ ان کا سننا ہوتا ہے اسے ہم اچھی طرح جانتے ہیں اور جب یہ ظالم باہم سرگوشیاں کرتے ہیں اور ان سرگوشیوں میں کہتے ہیں کہ ” تم جس آدمی کے پیچھے پڑے ہو وہ اس کے سوا کیا ہے کہ جادو سے مارا ہوا ہے ؟ “ تو اس سے بھی ہم بیخبر نہیں ہیں۔ اے پیغمبر اسلام ! غور کرو ، ان لوگوں نے تمہاری نسبت کیسی کیسی باتیں بنائی ہیں جس کے سبب گمراہی میں پڑگئے۔ پس اب یہ لوگ کبھی سیدھی راہ نہیں پاسکتے۔ “ وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْۤ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَاۤ اِلَیْهِ وَ فِیْۤ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّ مِنْۢ بَیْنِنَا وَ بَیْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ 005 (حم السجدہ 41 : 5) اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے دِل غلاف میں ہیں ، اس بات سے جس کی طرف آپ ہمیں بلاتے ہیں اور (کہتے ہیں کہ) ہمارے کانوں میں ڈاٹ ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان ایک حجاب ہے پس آپ اپنا کام کیے جایئے ہم اپنا کام کیے جاتے ہیں۔ ‘ ‘ ” وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ فَعَمُوْا وَ صَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَ صَمُّوْا کَثِیْرٌ مِّنْهُمْ 1ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ 0071 (المائدہ 5 : 71) ” وہ سمجھے کہ اب کوئی آزمائش نہیں ہوگی اس لئے گمراہی کے جوش میں اندھے بہرے ہوگئے پھر اللہ اپنی خاص رحمت سے ان پر لوٹ آیا یعنی ان کو توبہ کی توفیق دی اور توبہ قبول کرلی لیکن پھر ان میں سے بہ تیرے دوبارہ اندھے بہرے ہوگئے اور اب جیسے کچھ ان کے اعمال یعنی کرتوت ہیں اللہ دیکھ رہا ہے۔ “ (5 : 71) قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰىنِیْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهٖ فَعُمِّیَتْ عَلَیْكُمْ 1ؕ اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَ اَنْتُمْ لَهَا کٰرِهُوْنَ 0028 (ھود 11 : 28) ” نوح (علیہ السلام) نے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! تم نے کبھی اس بات پر غور کیا ، یہ کہ میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنے حضور سے ایک رحمت خاص بھی مجھ پر کی ہے لیکن وہ تمہیں دکھائی نہیں دیتی تو میں کیا کرسکتا ہوں کیا ہم جبراً تمہیں راہ دکھا دیں جب کہ تم اس سے بیزار ہو۔ “ وَ اَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَیْنٰهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰى عَلَى الْهُدٰى (حم السجدہ 41 : 17) ” اور رہی قوم ثمود تو اسے بھی ہم نے راہ جتلا دی تھی لیکن اس نے ہدایت کی راہ چھوڑ کر اندھے پن کا شیوہ پسند کیا یعنی ہدایت کی جگہ گمراہی پسند کی۔ “ (41 : 17) وَ اَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا 1ؕ اِنَّهُمْ کَانُوْا قَوْمًا عَمِیْنَ (رح) 0064 (الاعراف 7 : 64) ” اور جنہوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائی تھیں ، انہیں ہم نے غرق کردیا حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی سمجھ بوجھ کھو کر یک قلم اندھے ہوگئے تھے۔ “ (7 : 64) وَ جَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَّ اَبْصَارًا وَّ اَفْـِٕدَةً فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَ لَاۤ اَبْصَارُهُمْ وَ لَاۤ اَفْـِٕدَتُهُمْ مِّنْ شَیْءٍ اِذْ کَانُوْا یَجْحَدُوْنَ 1ۙ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا کَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠ (رح) 0026 (االاحقاف 46 : 26) ” اور ہم نے ان کو کان ، آنکھیں اور دل دے رکھے تھے ، مگر نہ تو ان کے کان ان کے کچھ کام آئے اور نہ ہی آنکھیں اور دل ، کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور جس عذاب کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے اس کے پھیر میں آگئے۔ “ (46 : 26) وَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّ وَّ بُكْمٌ فِی الظُّلُمٰتِ 1ؕ مَنْ یَّشَاِ اللّٰهُ یُضْلِلْهُ 1ؕ وَ مَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْهُ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ 0039 (الانعام 6 : 39) ” اور پھر غور کرو کہ جن لوگوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں تو گویا وہ ایسے ہوگئے کہ جیسے بہرے ، گونگے تاریکیوں میں گم ہوں ، اللہ جس پر چاہے اپنے قانون مشیت کے مطابق راہ گم کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قانون کے مطابق سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے۔ “ (6 : 39) وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا 0073 (الفرقان 25 : 73) ” اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو اللہ کی آیات سن کر اندھوں بہروں کی طرح نہیں رہ جاتے بلکہ ان نصیحتوں پر غور و فکر کرتے ہوئے ان پر عمل کرتے ہیں۔ “ (25 : 73) قُلْ اِنَّمَاۤ اُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْیِ وَ لَا یَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَآءَ اِذَا مَا یُنْذَرُوْنَ 0045 (الانبیاء 21 : 45) ” اے پیغمبر اسلام تو کہہ دے میری پکار اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کی وحی سے علم پا کر تمہیں متنبہ کر رہا ہوں اور جو بہرے ہیں انہیں کتنا ہی خبردار کیا جائے کبھی سننے والے نہیں۔ “ (21 : 45) اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ 0080 وَ مَاۤ اَنْتَ بِهٰدِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ 1ؕ اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ 0081 (النمل 27 : 80 ، 81) ” آپ کفر کی موت مرے ہوؤں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں تک آواز پہنچا سکتے ہیں جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر پھرجائیں یعنی ماننے کو تیار نہ ہوں اور نہ آپ دل کے اندھوں کو گمراہی سے بچا کر صحیح راہ پر لگا سکتے ہیں آپ انہیں کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان لانے کو تیار ہوتے ہیں اور فرمانبردار ہوتے ہیں۔ “ (27 : 80 ، 81) فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ 0052 وَ مَاۤ اَنْتَ بِهٰدِ الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ 1ؕ اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ (رح) 0053 (الروم 30 : 53) ” اے پیغمبر اسلام ! آپ کفر کی موت مرے ہوؤں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر پھرجائیں اور نہ آپ دل کے اندھوں کو گمراہی سے بچا کر صحیح راہ پر لگا سکتے ہیں آپ صرف انہیں لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں اور فرمانبردار ہیں۔ “ (39 : 53) اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ اَوْ تَهْدِی الْعُمْیَ وَ مَنْ کَانَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ 0040 (الزخرف 43 : 40) ” اے پیغمبر اسلام ! کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں یا اندھوں کو جو صریح گمراہی میں مبتلا ہیں کیا ان کو راہ راست پر لگا سکتے ہیں ؟ “ (43 : 40) اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ 1ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ 0022 (الفاطر 35 : 22) ” اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے قانون کے مطابق سناتا ہے مگر اے پیغمبراسلام ! آپ لوگوں کو نہیں سنوا سکتے جو قبروں یعنی عالم برزخ میں پہنچ چکے ہیں۔ “ (35 : 22) وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْكَ 1ۚ وَ جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا 1ؕ (الانعام 6 : 25) ” اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بظاہر حق بات سننے کے لئے آپ کی طرف کان لگاتے ہیں اور حالانکہ ہمارے قانون کے مطابق ان کے دلوں پر پردے پڑے ہیں کہ ان تک بات کی سمجھ نئی پہنچتی اور ان کے کان میں بوجھ ہے کہ سن نہیں سکتے یعنی سنی ان سنی کردیتے ہیں۔ “ (6 : 25) وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْكَ 1ؕ اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَ لَوْ کَانُوْا لَا یَعْقِلُوْنَ 0042 وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْظُرُ اِلَیْكَ 1ؕ اَفَاَنْتَ تَهْدِی الْعُمْیَ وَ لَوْ کَانُوْا لَا یُبْصِرُوْنَ 0043 (یونس 10 : 42 ، 43) ” اور اے پیغمبر اسلام ! ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو تیری باتوں کی طرف کان لگاتے ہیں حالانکہ وہ فی الحقیقت نہیں سنتے ۔ پھر کیا تو ان بہروں کو بات سنائے گا اگرچہ وہ بات نہ سننا چاہیں ؟ اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو تیری طرف تکنے کے باوجود نہیں دیکھتے کیا تو اندھوں کو راہ دکھائے گا ؟ اگرچہ ان کو کچھ نہ سوجھتا ہو ؟ “ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْكَ 1ۚ حَتّٰۤى اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِكَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مَا ذَا قَالَ اٰنِفًا 1۫ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ اتَّبَعُوْۤا اَهْوَآءَهُمْ 0016 (محمد 47 : 16) ” اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کان لگا کر آپ کی بات سنتے ہیں پھر جب آپ کے پاس سے باہر نکلتے ہیں تو ان لوگوں سے جو اہل علم ہیں ازراہ مذاق پوچھتے ہیں کی ابھی ابھی انہوں نے کیا کہا تھا یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے مطابق مہر لگا دی ہوئی ہے کہ وہ صرف اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے والے ہیں۔ “ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ سَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ 1ۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ 00108 (النحل 16 : 108) ” یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے اپنے قانوں کے مطابق ان کے دلوں پر ، کانوں اور آنکھوں پر مہر لگا دی ہے اور اسی سبب تو وہ غفلت میں ڈوب گئے ہوئے ہیں جس سے اللہ کے سوا ان کو کوئی نکال نہیں سکتا۔ “ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰۤى اَبْصَارَهُمْ 0023 (محمد 47 : 23) ” اور یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور ان کو اپنے قانون کے مطابق اندھا اور بہرا کردیا گیا ہے۔ “ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا 002 (محمد 47 : 44) ” کیا یہ لوگ اپنے دماغ سے قرآن پر غور و فکر نہیں کرتے ؟ کیا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں ؟ “ قَدْ جَآءَكُمْ بَصَآىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ 1ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهٖ 1ۚ وَ مَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَا 1ؕ (الانعام 6 : 104) ” یاد رکھو تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس علم و دلیل کی روشنی آچکی ہے۔ پس اب جو کوئی دیکھے اور سمجھے تو خود اس کا فائدہ ہے اور جو کوئی قانون الٰہی کے مطابق اندھا ہوجائے تو اس کا وبال بھی اس کے سر ہے۔ “ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰهُ سَمْعَكُمْ وَ اَبْصَارَكُمْ وَ خَتَمَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ مَّنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِهٖ 1ؕ (الانعام 6 : 46) ” اے پیغمبر اسلام ﷺ ! ان سے کہو کہ کبھی تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں لے لے اور تمہارے دلوں پر یعنی عقلوں پر مہر لگا دے تو کون ہے جو تم کو واپس دے سکتا ہے ؟ “ اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ ہَوٰىهُ وَ اَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلْمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰى سَمْعِهٖ وَ قَلْبِهٖ وَ جَعَلَ عَلٰى بَصَرِهٖ غِشٰوَةً 1ؕ فَمَنْ یَّهْدِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ اللّٰهِ 1ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ 0023 (الجاثیہ 45 : 23) ” اے پیغمبر اسلام ﷺ ! کیا آپ نے بھلا اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے خواہش نفس ہی کو اپنا رب بنا لیا ہے اور اللہ نے اپنے علم کی بنا پر اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی ہے۔ اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے اور پھر اب اللہ کے بعد کون ہے جو اس گم کردہ راہ کو راہ دکھا دے کیا یہ سب کچھ دیکھ کر بھی یہ لوگ نصحیت نہیں پکڑتے۔ “ اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَاۤ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَا 1ۚ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ 0046 (الحج 22 : 46) ” کیا یہ لوگ زمین میں کبھی چلے پھرے نہیں کہ عبرت حاصل کرتے ؟ کاش ! ان کے پاس سمجھنے بوجھنے والے دل ہوتے ۔ سن کر یقین کرنے والے کان ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی اندھے پن کو اختیار کرلیتا ہے تو آنکھیں آندھی نہیں ہوجاتی بلکہ دل آندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ “ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَاٞ وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَاٞ وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا 1ؕ اُولٰٓىِٕكَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ 1ؕ اُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ (الاعراف 7 : 179) ” ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے کام نہیں لیتے۔ آنکھیں رکھتے ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے۔ کان ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے اس طرح عقل کو کھو کے وہ چارپایوں کی طرح ہوگئے ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں ایسے ہی لوگ ہیں جو یک قلم غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ “ وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ اَحَدُهُمَاۤ اَبْكَمُ لَا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ ہُوَ کَلٌّ عَلٰى مَوْلٰىهُ 1ۙ اَیْنَمَا یُوَجِّهْهُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍ 1ؕ ہَلْ یَسْتَوِیْ ہُوَ 1ۙ وَ مَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ 1ۙ وَ ہُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (النحل 16 : 76) ” اور دیکھو اللہ ایک اور مثال بیان کرتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک گونگا ہے کسی بات کے کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ، اپنے آقا پر ایک بوجھ ہے ، جہاں کہیں بھیجے کوئی خوبی کی بات اس سے بن نہ آئے دوسرا ایسا ہے کہ لوگوں کو عدل و انصاف کی باتوں کا حکم دیتا ہے اور خود بھی سیدھے راستے پر ہے کیا یہ دونوں آدمی برابر ہو سکتے ہیں ؟ “ مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ کَالْاَعْمٰى وَ الْاَصَمِّ وَ الْبَصِیْرِ وَ السَّمِیْعِ 1ؕ ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا (ھود 11 : 24) ” ان دو فریقوں کی مثال ایسے ہے جیسے ایک آندھا ، بہرا ہو اور ایک دیکھنے سننے والا ، پھر بتائو کیا دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیا تم غور و فکر نہیں کرتے ؟ “ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ 1ۙ۬ اَمْ ہَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمٰتُ وَ النُّوْرُ 1ۚ۬ (الرعد 13 : 16) ” ان سے کہو کیا اندھا اور دیکھنے والا دونوں برابر ہیں ؟ کیا یہ صحیح ہے کہ اندھیرا اور اجالا برابر ہے ؟ “ وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ 1ۙ۬ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ لَا الْمُسِیْٓءُ 1ؕ قَلِیْلًا مَّا تَتَذَكَّرُوْنَ 0058 (المؤمن 40 : 58) ” اور اندھا اور بینا دونوں برابر نہیں ہوتے اور نہ یہ ہو سکتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور جو بدی پر قائم رہے کیا آپس میں برابر ہوتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ “ وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُۙ0019 وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوْرُۙ0020 وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الْحَرُوْرُۚ0021 وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ (فاطر 35 : 19 ، 21) ” یاد رکھو اندھا اور بینا کبھی برابر نہیں ہو سکتے ، اور نہ تاریکیاں اور روشنی یکساں ہیں اور نہ سایہ اور دھوپ کی تپش دونوں برابر ہیں اور نہ زندے اور مردے دونوں مساوی ہیں ؟ “ وَ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ 1ۚ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِهٖ 1ؕ وَ نَحْشُرُهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ عُمْیًا وَّ بُكْمًا وَّ صُمًّا 1ؕ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ 1ؕ کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا (بنی اسرائیل 17 : 97) ” جس شخص کو اللہ سعادت کی راہ پر لگا دے فی الحقیقت وہی راہ پر ہے اور جس کسی پر اس نے اپنے قانون کے مطابق کامیابی کی راہ گم کردی تو تم اللہ کے سوا اس کا کوئی مددگار نہ پائو گے قیامت کے دن ہم ایسے لوگوں کو ان کے منہ کے بل اٹھائیں گے ، اندھے ، گونگے ، بہرے ان کا آخری ٹھکانا دوزخ ہوگا جب کبھی اس کے شعلے بجھنے کو ہوں گے تو اور زیادہ بھڑکا دیا جائیں گے اور یہ سزا ہوگی ان کے غلط اعمال کی۔ “ وَ مَنْ کَانَ فِیْ ہٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا (بنی اسرائیل 17 : 72) ” اور جو کوئی اس دنیا میں عقل و حواس سے کام نہ لے کر اندھا رہا تو یقین جانو آخرت میں بھی وہ اندھا ہی ہوگا اور سیدھے راستے سے یک قلم بھٹکا ہوا ۔ “ وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْۤ اَعْمٰى وَ قَدْ کُنْتُ بَصِیْرًاقَالَ کَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَهَا 1ۚ وَ کَذٰلِكَ الْیَوْمَ تُنْسٰى (طہ 20 : 124 ، 126) ” اور جو شخص میری یاد سے رو گرداں ہوگا تو اس کی زندگی ضیق میں گزرے گی اور قیامت کے دن بھی میں اسے اندھا اٹھائوں گا ۔ وہ کہے گا۔ اے میرے رب ! تو نے مجھے اندھا کر کے کیونکہ اٹھایا ؟ میں تو اچھا خاصا دیکھنے والا تھا ؟ ارشاد الٰہی ہوگا۔ ہاں اسی طرح ہونا تھا ، ہماری نشانیاں تیرے سامنے آئیں مگر تو نے انہیں بھولا دیا۔ بس ! اس طرح آج تو بھی بھولا دیا گیا ہے۔ “ قارئین ” عروہ “ سے درخواست : پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر قارئین نے ان مقامات کو بغور پڑھنے کی کوشش کی ، اگر سرسری نظر ڈال کر آگے نہ نکل گئے تو ان شاء اللہ ان آیات کا مطالعہ دلوں پر مدت کے پڑے ہوئے پردے اتار کر اس قابل بنادے گا کہ قرآن کی تفسیر خود قرآن ہی میں تلاش کی جائے اور مدت بعد کے مشہور قصوں اور کہانیوں سے اجتناب کیا جائے اور خصوصاً شرک فی الصفات کو اچھی طرح سمجھ کر اس کے ارتکاب سے بچنے کی پوری کوشش کی جائے اور انبیاء (علیہ السلام) کے قصص کا مطالعہ کرتے وقت ان استعارات و تمثیلات ، محاورات و ضرب الامثال پر اچھی طرح نگاہ ڈالی جائے اور ان پاک نفوس کی تعلیمات کو جس طرح سمجھنے کا حق سے سمجھا جائے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ اللہ ہے اور بندہ بندہ ہے ۔ رسول سارے کے سارے اللہ کے بندے تھے اور بندہ کبھی اللہ کی صفات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پچھلی امتیں زلت قدم سے منہ کے بل گریں اور ایسی گریں کہ پھر ان کے قدم کبھی نہ جم سکے۔ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ 00
Top