Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 17
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا١ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ
مَثَلُهُمْ : ان کی مثال کَمَثَلِ : جیسے مثال الَّذِي : اس شخص اسْتَوْقَدَ : جس نے بھڑکائی نَارًا : آگ فَلَمَّا : پھر جب أَضَاءَتْ : روشن کردیا مَا حَوْلَهُ : اس کا اردگرد ذَهَبَ : چھین لی اللَّهُ : اللہ بِنُورِهِمْ : ان کی روشنی وَتَرَکَهُمْ : اور انہیں چھوڑدیا فِي ظُلُمَاتٍ : اندھیروں میں لَا يُبْصِرُونَ : وہ نہیں دیکھتے
ان لوگوں کی مثال ایسی [ ہے جیسے ایک آدمی نے سخت تاریکی میں روشنی کے لیے آگ سلگائی ہو جس کے شعلوں سے اس کا آس پاس روشن ہوگیا ، تو قدرت الٰہی سے اس کے شعلے بجھ گئے اور پھر اندھیرا چھا گیا اور اس کی آنکھیں چندھیا کر رہ گئیں کہ کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا
منافقین کے دو گروہوں کا ذکر : 37: منافقین کے دو گروہ ہیں ایک گروہ تو اس دجہ اسلام کا دشمن ہے کہ اس سے کبھی نیکی کی توقع نہیں ہوسکتی بلکہ وہ ہمیشہ اسلام کی تباہی و بربادی کی تجاویز سوچتا رہتا ہے لیکن ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اپنی طبعی کمزوری سے مجبور ہے۔ اس گروہ کے لوگ ہر اثر کو قبول کرلیتے ہیں۔ ہر صحبت و ہم نشینی ان پر غالب آجاتی ہے اور ہر زبردست شخصیت ان کو اپنے قابو میں لاسکتی ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ قرآن مجید جس طرح پہلی جماعت کی پروا نہیں کرتا دوسری طرف سے بھی آنکھیں بند کرلے اور ان کی ہدایت و راہنمائی کی کوئی سبیل تجویز نہ کرے۔ دو مثالیں پیش فرما کر دونوں جماعتوں یا گروہوں کی نشاندہی کردی گئی ہے۔ پہلی مثال میں اس گروہ کا ذکر ہے جو ایمان لے آیا ، اسے اسلام کی حقیقت و حقانیت کا یقین ہوگیا لیکن جس وقت آگے چل کر اس کے مصالح خصوصی و ذاتی اغراض کا مفاد اسلام اور منافع اجتماعیہ کے ساتھ تصادم ہوا تو فوراً ایمان و اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اس طرح اپنی تمام قوتوں کو برباد کردیا۔ منافقین کے پہلے گروہ کی مثال : 38: منافقین کے پہلے گروہ کی مثال آگ روشن کرنے سے دی جارہی ہے اور یہاں ارشاد یہ ہورہا ہے کہ جب حقانیت کی آگ خوب روشن ہوگئی اور ہدایت کا نور ہر طرح پھیل گیا تو بجائے اس کے کہ وہ اس سے مستفید ہوتے منافقین نے خود اپنے اندرونی حاسہ بصارت کو ضائع کردیا اور اس روشنی سے محروم ہوگئے۔ سلب بصارت اور گمراہی میں چھوڑ دینے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی جانب محض قانون تکوینی کی حیثیت سے ہے مطلب یہ ہے کہ جب منافقوں نے گمراہ رہنا چاہا اور دعوت حق کو قبول و توجہ کے کانوں سے سنا ہی نہیں تو مشیت الٰہی نے بحیثیت علت العلل کے اس پر نتیجہ بھی وہ مرتب کردیا۔ رضائے الٰہی کو اس میں مطلق دخل نہیں تھا۔ اس تمثیل کو مزید سمجھنے کے لئے یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ اس جگہ ” اسلام “ کو آگ کی روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے آگ جلانے سے مراد رسول اللہ ﷺ لئے جاتے ہیں۔ روشنی سے مراد نور ہدایت ہے۔ تاریکی سے مراد ان کی گمراہی۔ بینائی سے مراد ان کی آنکھوں کی بصارت نہیں بلکہ دل کی بصیرت اور فطرت صلاحیت ہے۔ اللہ کے بینائی لے جانے سے مراد یہ ہے کہ ان کے حسد اور ہٹ دھرمی کے نتیجہ میں جو اللہ کے قانون میں مقرر ہوچکا ہے۔ ان کی بینائی یعنی قبول حق کی فطرت صلاحیت جاتی رہی۔ ایک بار پھر اسی مطلب کو دوبارہ سمجھو کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اسلام کو پیش کیا اور نور اسلام سے عالم کا اندھیرا چھٹ گیا اور وہ جگمگا اٹھا اور اس کی روشنی میں صراط مستقیم پر چلنا آسان ہوگیا تو منافقین نے حسد کیا ، ہٹ دھری کی چونکہ ان کی یہ ہٹ دھری ایمان کے بعد تھی جس کے نتیجہ میں وہ تھوڑی بہت فطری صلاحیت اور بینائی جو ان کے قلوب میں آئی تھی وہ بھی ضائع ہوگئی بالکل اسی طرح جس طرح خوب ، اچانک اور تیز روشنی میں اکثر ہوجایا کرتا ہے کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور باوجود روشنی موجود ہونے کے اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا بالکل اسی طرح جب اسلام کی روشنی سے پورا عالم جگمگا رہا ہو تو اس شخص کو اس روشنی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا بلکہ الٹا نقصان ہی ہوتا ہے۔ منافقین نے حسد کی وجہ سے اپنی فطری صلاحیت کو ضائع کردیا۔ ان کے دل اندھے ہوگئے اب وہ اسلام کی روشنی سے کچھ فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔ صراط مستقیم انہیں نظر نہیں آتا وہ گمراہی میں بھٹک رہے ہیں۔ اس میں اسلام کا کوئی قصور نہیں بلکہ قصور سارا ان کا اپنا ہے کہ انہوں نے حسد کی وجہ سے دل کی بینائی کو زائل و بےکار کردیا۔ اور جب دل اندھا ہوجاتا ہے تو نہ عبرت حاصل ہوتی ہے ، نہ نصیحت بلکہ انسان گمراہی میں روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔
Top