Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 81
بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّ اَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓئَتُهٗ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
بَلٰى : کیوں نہیں مَنْ کَسَبَ : جس نے کمائی سَيِّئَةً : کوئی برائی وَاَحَاطَتْ بِهٖ : اور گھیر لیا اس کو خَطِیْئَتُهُ : اس کی خطائیں فَاُولٰئِکَ : پس یہی لوگ اَصْحَابُ النَّارِ : آگ والے هُمْ فِيهَا خَالِدُوْنَ : وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
ہاں ! جس کسی نے بھی اپنے کاموں سے برائی کمائی اور اس کے گناہوں نے اسے گھیرے میں لے لیا تو وہ دوزخی گروہ میں سے ہے یعنی ہمیشہ دوزخ میں رہنے والا
برائی کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہوتا : 158: اس آیت نے واضح کردیا کہ انسان جب ہمہ تن ہی بدی کے پیچھے لگ جاتا ہے تو چاروں طرف سے بدیاں اس کو گھیر لیتی ہیں پھر اس کے لئے نکلنے کا راستہ نہیں رہتا۔ اس طرح ہدایت و رشد کے تمام راستے اس پر بند ہوجاتے ہیں پھر یہ شخص بد اخلاقی کی آگ سے کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا اور بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کی نجات کا ذمہ نہیں لے سکتی اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو شخص بدی کے مقابلہ میں کوشش کرتا ہے وہ بدیوں میں یوں گھرتا نہیں بلکہ انجام کار ایک روز بدی پر غالب آجاتا ہے۔ بدی کی کشش اگرچہ بہت سخت معلوم ہوتی ہے مگر دراصل وہ ایک کمزور چیز ہے اور اس کے مقابلہ میں نیکی کی قوت بہت ہی زبردست ہے اور فطرت الٰہی بھی نیکی کی معاون و مددگار ہے اس لئے نیکی اور بدی میں جب مقابلہ ہوگا تو یقیناً نیکی غالب آئے گی۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ دنیا میں کوئی دنیوی عمل بغیر نتیجہ کے تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔ جہاں عمل ہوا نتیجہ بھی نکلے گا اور جہاں نتیجہ نکلا یقیناً عمل بھی ہوا ہے۔ پھر اسی طرح اچھے عمل کا نتیجہ ہمیشہ اچھا ہی ہوگا اور برے عمل کا نتیجہ بھی برابر ہی ہونا ضروری ہے۔ اگر کہیں اسکے خلاف نظر آئے یعنی برے عمل کا نتیجہ اچھا یا اچھے عمل کا نتیجہ برا ، تو سمجھ لو کہ یہ اس عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ اس عمل کا نتیجہ ابھی باقی ہے جو اپنے وقت پر ضرور نکلے گا۔ آؤ قرآن کریم کو پڑھو اس طرح کہ اسکی سمجھ بھی آجائے ارشاد الٰہی ہے : فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ007 وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ (رح) 008 (الزلزال 99 : 7 ، 8) ” جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہے وہ اسکو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہے وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔ “ اور فیصلے کا اعلان بھی کردیا گیا کہ : فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ006 فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ007 وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ008 فَاُمُّهٗ ہَاوِیَةٌؕ009 وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاہِیَهْؕ0010 نَارٌ حَامِیَةٌ (رح) 0011 (القارعۃ 101 : 6 ، 11) ” پھر جس کے نیک اعمال کا وزن زیادہ ہوگا وہ دل پسند عیش و راحت میں ہوگا اور جس کے نیک اعمال کا وزن کم نکلے گا تو اس کا ٹھکانہ بھی جہنم ہونا ضروری ہے۔ اور آپ کو ابھی کیا معلوم کہ وہ ہاویہ کیا ہے ؟ وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے ، جو اس کے برے اعمال کا نتیجہ ہے۔ چلتے چلتے رسول اللہ ﷺ کا پیغام بھی سنتے چلو آپ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّمَا ہِیَ أَعْمَالُکُمْ أُحْصِیہَا لَکُمْ ثُمَّ أُوَفِّیکُمْ إِیَّاہَا فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدْ اللَّهَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِکَ فَلَا یَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ ) ( مسلم : 2071) ” یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جن کا احتساب تم سے کیا جارہا ہے اگر حسن ثواب ملا تو اللہ کا شکر ادا کرو ورنہ تم خود ہی ملامت کے قابل ہو۔ “
Top