Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 3
لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى١ۖۗ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ۖۗ هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۚ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ
لَاهِيَةً : غفلت میں ہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاَسَرُّوا : اور چپکے چپکے بات کی النَّجْوَي : سرگوشی الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا (ظالم) هَلْ : کیا ھٰذَآ : یہ اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تم ہی جیسا اَفَتَاْتُوْنَ : کیا پس تم آؤگے السِّحْرَ : جادو وَاَنْتُمْ : اور (جبکہ) تم تُبْصِرُوْنَ : دیکھتے ہو
ان کے دل یک قلم غافل ہیں اور ظلم کرنے والوں نے چپکے چپکے سرگوشیاں کیں ، یہ ہماری ہی طرح کا ایک آدمی ہے ؟ پھر کیا تم جان بوجھ کر ایسی جگہ آتے ہو جہاں جادو کے سوا اور کچھ نہیں ؟ اور تم اچھی طرح دیکھتے بھی ہو
یہ لوگ دنیوی دلچسپیوں میں اس قدر کھوئے گئے ہیں کہ کلام الہی کو جادو کہہ دیا ہے : 3۔ اعضائے انسانی میں سے سب اعضا کے اپنے اپنے کام ہیں اور ہر عضو وہی کام کرتا ہے جو اس کے متعلق ہو ۔ ہر انسان کھاتا ہے اور ہر انسان کھاتا ہے اور ہر انسان سانس بھی لیتا ہے لیکن ذرا غور کرو کہ اگر کوئی شخص منہ کا کام ناک سے لینا شروع کر دے اور ناک کا منہ سے تو کیا ہو ؟ اگر سمجھ میں نہ آئے تو کسی ہسپتال میں جا کر اس آدمی کو دیکھو جس کی ناک سے نالی اس کے معدہ میں اتاری گئی ہو اور پھر تصور کرو کہ ایسا کیوں ترک کردیا جو اس کے ذمہ اللہ نے لگایا تھا ۔ معلوم ہے کہ دل کا کام کیا ہے ؟ ہاں ! دل کا کام غور وفکر کرنا ہے لیکن تم تو کھیل میں اس طرح مصروف ہوئے کہ دل سے غور وفکر کا کام لینا ہی ترک کردیا تو ان دنیوی دلچسپیوں میں ایسے کھوئے گئے کہ سنجیدہ سے سنجیدہ بات اور بڑی سے بڑی حقیقت کو بھی مذاق میں اڑانے لگے ، یہاں قریش مکہ کی کی اس حالت کا ذکر ہے کہ پہلے تو ان کو نبی اعظم وآخر ﷺ کے لائے ہوئے کلام پر سوچنے کی نوبت ہی نہیں آئی اور اگر کبھی کسی نے ان کی توجہ اس طرف مبذول کرا بھی دی تو انہوں نے آپس میں اس طرح کی سرگوشیاں کیں کہ ” یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے پھر کیا تم اس کے لائے جادو کو آنکھوں سے دیکھ کر بھی اس میں پھنسنے کی کوشش کرتے ہو ۔ “ معلوم ہوا کہ یہ بات بھی بہت پرانی ہے کہ لوگ کسی نبی ورسول کو انسان ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے اس لئے جو انبیائے کرام (علیہ السلام) کے زمانہ کے لوگ تھے انہوں نے چونکہ ان کو آنکھوں سے دیکھا تھا اور انسان پایا تھا اس لئے انہوں نے ان کی نبوت و رسالت سے انکار کردیا اور آج کے سواد اعظم نے چونکہ نبی کریم ﷺ کو آنکھوں سے نہیں دیکھا اس لئے وہ نبوت کو تو مانتے ہیں لیکن بشر ہونے سے ان کو انکار ہے اور ان کا اعلان بھی یہی ہے کہ نبی ورسول بشر نہیں ہوتے ۔ (آیت) ” الذین ظلموا “۔ سے مراد وہی مشرک ہیں جو نبی کریم ﷺ کو بشر دیکھ کر آپ کی رسالت کے انکاری تھے اور آپ کے لائے ہوئے کلام یعنی قرآن کریم کو ” سحر “ اور آپ کو ” ساحر “ کے نام سے یاد کرتے تھے اور لوگوں کو ڈراتے تھے کہ اس شخص کے قریب مت جاؤ ورنہ اس کے جادو کے اثر سے نہیں بچ سکو گے اور اس کے لئے انہوں نے بہت سی مثالیں گھڑ رکھی تھیں محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہم ” ساحر “ اور اس کے لائے ہوئے کلام کو ” سحر “ کیوں کہتے ہیں مثال کے طور پر ایک دفعہ کا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ نے سرداران قریش سے کہا کہ اگر تم لوگ پسند کرو تو میں جا کر محمد ﷺ سے ملوں اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب سیدنا حمزہ ؓ ایمان لا چکے تھے اور آپ ﷺ نے صحابہ کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی تھی گویا کہ یہی زمانہ تھا جس میں یہ سورة نازل ہوئی ۔ لوگوں نے کہا کہ اے ابوالولید ! ہم کو تم پر پورا اطمینان ہے ضرور جا کر اس سے بات کرو چناچہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ ” بھتیجے ہمارے ہاں تم کو جو عزت حاصل تھی تم خود اس کو اچھی طرح جانتے ہو کہ ہم تم کو ” الامین “ اور ” الصادق “ کے خطابات سے پکارا کرتے تھے اور نسب کے لحاظ سے بھی تم ایک شریف ترین گھرانے کے فرد ہو تم اپنی قوم پر یہ کیا مصیبت لے آئے ہو ؟ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا ‘ ساری قوم کو بیوقوف ٹھہرایا ‘ ہمارے دین اور ہمارے باپ دادا کے معبودوں کی توہین کی ‘ باپ دادا جو مرچکے ہیں ان سب کو تم نے گمراہ قرار دیا ۔ بھتیجے اگر ان باتوں سے تمہارا مقصد دنیا میں اپنی بڑائی قائم کرنا ہے کہ دنیا کا اصول ہے اور لوگ کہتے ہیں ” بدنام ہوں گے تو کیا نام تو ہوگا “ تو ان باتوں کو چھوڑ دو آؤ ہم سب مل کر تم کو اتنا روپیہ دے دیتے ہیں کہ تم سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ ‘ سرداری چاہتے ہو تو ہم تمہیں سردار مان لیتے ہیں ‘ بادشاہی چاہتے ہو تو بادشاہ تسلیم کرلیتے ہیں اور اگر تمہیں کوئی بیماری ہوگئی ہے تو جس کی وجہ سے تم کو واقعی سوتے جاگتے میں کچھ نظر آنے لگا ہے تو ہم سب مل بہترین طبیبوں سے تمہارا علاج کراتے ہیں ۔ یہ باتیں وہ کرتا رہا اور نبی کریم ﷺ خاموشی کے ساتھ سنتے رہے جب وہ کافی بیان کرچکا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابو الولید ! جو کچھ آپ کہنے چاہتے تھے کہہ لیا یا اور کچھ کہنا ابھی باقی ہے ؟ اس نے کہا جو کچھ مجھے کہنا تھا سب کہہ لیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اچھا اب میری بات سنو اس کے بعد آپ ﷺ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کرنے کے بعد سورة فصلت کی تلاوت شروع کی اور (آیت) ” وھم لا یسئمون) (فصلت 41 : 38) پر پہنچ کر آپ ﷺ نے سجدہ کیا اور پھر سر اٹھا کر عتبہ سے فرمایا کہ ابو الولید جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ آپ نے سن لیا اب آپ کی مرضی آپ جانیں اور آپ کو کام ، عتبہ یہاں سے اٹھ کر سرداران قریش کی طرف پلٹا تو لوگوں نے دور سے ہی اس کو آتے دیکھ کر کہا خدا کی قسم ابو الولید کا چہرہ بدلا ہوا ہے ، یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر وہ گیا تھا ، اس کے پہنچتے ہی لوگوں نے سوال کیا کہ ابو الولید کیا کر آئے ہو ؟ اس نے کہا خدا کی قسم آج میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ سنا تھا ۔ واللہ یہ شعر نہیں ہے ‘ نہ سحر ہے اور نہ ہی کہانت ۔ اے معشر قریش ! میری بات مانو تو اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ اس کی باتیں جو میں نے سنی ہیں رنگ لا کر رہیں گی ۔ اگر عرب اس پر غالب آگئے تو تمہارے بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہیں ہوگا دوسروں کے سر پر ہوگا اور اگر یہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہوگی اور اس کی عزت تمہاری عزت ، یہ سن کر لوگوں نے کہا کہ واللہ ! ابو الولید تم پر بھی اس کا جادو چل گیا ۔ اس نے کہا کہ اے قریش کے لوگو ! یہ میری رائے ہے اگر تم کو منظور ہو تو تم جانو اور تمہارا کام (ابن ہشام ج اول ص 313 ‘ 314) کتب سیر میں اس طرح کے کتنے واقعات تحریر ہیں جن سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہوتی ہے قرآن کریم جس نے سنا اور آپ کے اخلاق وکردار کو جس نے دیکھا اگر اس نے قوم اور برادری کے ڈر سے اس کو قبول نہیں کیا تو بہرحال اس کے دل میں ایک سوچ ضرور پیدا ہوگئی کہ اس میں کچھ ہے اور اسی طرح کی چیز کو وہ جادو خیال کرتے تھے ۔ اب غور کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی صداقت کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ان کے سخت سے سخت معاند بھی اس عجیب و غریب کشش وتاثیر سے انکار نہیں کرسکتے تھے جو آپ کی شخصیت اور آپ کی تعلیم میں پائی جاتی تھی ؟ اور چونکہ اعتراف حقیقت کے لئے تیار نہ تھے اس لئے مجبور ہوجاتے تھے کہ اسے جادو سے تعبیر کریں ؟ زیر نظر آیت میں یہی فرمایا گیا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کے پاس جانے سے لوگوں کو روکتے ہیں کہ تم ان کے پاس گئے تو بس جادو میں پھنسے۔ وہاں تو جادو ہی جادو بھرا ہے نیز وہ کہتے ہیں کہ اس آدمی میں وحی ونبوت کی تو کوئی بات نظر نہیں آتی کیونکہ یہ ہماری ہی طرح کا آدمی ہے پس جو کچھ اس کا اثر ونفوذ ہے بس جادو ہی کی وجہ سے ہے مزید غور کرو گے تو آج بھی ایسے لوگوں کی کثرت دیکھو گے جو ایک بات کو محض اس لئے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں کہ ان کے باپ دادا اس کو کرتے اور کہتے آئے ہیں اور ایسی بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں جو ان کے آباء و اجداد کے نظریہ کے خلاف ہو تقابل کرکے دیکھو تو اس وقت جتنے مکاتب فکر اسلام کے نام سے تشکیل پا چکے ہیں سب میں یہ بات یکساں موجود ہے حالانکہ ان کے آباء و اجداد نہ نبی تھے اور نہ رسول ۔ سب سے زیادہ تعجب ہمیں اہل حدیث کہلانے والے گروہوں پر ہے کہ وہ منہ سے تو تقلید کی مذمت کرتے نہیں تھکتے اور زور دے کر کہتے ہیں کہ ہم مقلد نہیں لیکن تقلید میں اس قدر وہ پختہ ہیں باقی گروہوں میں سے ایک گروہ بھی اتنا پختہ نہیں بات فقط یہ ہے کہ وہ مشہور ائمہ اربعہ کی تقلید نہیں کرتے بلکہ ایک مخصوص جماعت کی تقلید کرتے ہیں جس جماعت میں نہ صحابہ کرام کا نام ہے اور نہ تابعین کباء کا پھر تعجب پر تعجب یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بغیر تحقیق کے کچھ نہیں کہتے اور نہ ہی کسی کی سنتے ہیں حالانکہ انہوں نے موجودہ مسلک کی بنیاد فقط فروعات پر رکھی ہے اور ان کو اصولوں سے بھی اوپر لے گئے ہیں حالانکہ کام کا آدمی یا کام کی جماعت وہی ہو سکتی ہے جو دوسروں کی بجائے اپنے نقائص پر نظر رکھے اور ان کا تدارک کرتی رہے ۔ ذرا گہرائی میں جا کر دیکھو گے تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ (آیت) ” ما وجدنا علیہ ابآء نا “۔ کہنے والے آخر کہتے کیا ہیں یہی کہ ” ہمارا عقیدہ ونظریہ وہی ہے جو ہمارے بزرگوں کا ہے “ اور ہم نے اس کو بدل کر اس کا نام ” سلف “ رکھ لیا ہے اور اپنی پہچان کے لئے ” سلفی “ کہلاتے ہیں لیکن کان سیدھے ہاتھ سے پکڑا جائے یا الٹے ہاتھ سے فرق کیا پڑتا ہے ؟ یہی کہ سیدھے سے پکڑنے والا ذرا آسانی سے پکڑ لیتا ہے اور الٹے سے پکڑنے والا مزید مشکل میں مبتلا ہوجاتا ہے ، اللہ تعالیٰ سمجھ کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اپنی طرف بھی دیکھ سکیں کہ ہم کیا ہیں ؟۔
Top