Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 68
قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ
قَالُوْا : وہ کہنے لگے حَرِّقُوْهُ : تم اسے جلا ڈالو وَانْصُرُوْٓا : اور تم مدد کرو اٰلِهَتَكُمْ : اپنے معبودوں کو اِنْ : اگر كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ : تم ہو کرنے والے (کچھ کرنا ہے)
انہوں نے کہا اگر ہم میں کچھ بھی ہمت ہے تو آؤ اس آدمی کو آگ میں جلا دیں اور اپنے معبودوں کا بول بالا کریں
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے مخالفین نے آپ کو سزا دینے اور اپنے معبودوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا : 68۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے مذہبی اور سیاسی لیڈروں کو جس طرح دبایا اس کا ذکر آپ پیچھے تین چار آیتوں میں بڑی تفصیل کے ساتھ پڑچکے ۔ عقل وفکر کے ساتھ وہ لوگ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو کوئی جواب نہ دے سکے اور آخر کار انہوں نے آپس میں مل کر مشورہ کیا کہ معبودوں کا حشر بھی آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے اور جس طرح اس نے ہم کو لاجواب کردیا ہے یہ بات بھی تمہاری آنکھیں دیکھ رہی ہیں اب اگر کوئی بھرپور وار کر کے ابراہیم اور اس کے حواریوں کا دفاع نہ کیا گیا تو یہ لوگ تو نہ آپ کو چھوڑیں گے اور نہ ہی آپ کے دین کو اور عوام کو بھی یقینا ہم سے برہم کردیا جائے گا اور اب اس کی ایک ہی صورت ہے کہ ابراہیم کو کسی ایسی مصیبت میں مبتلا کردیا جائے کہ یہ جل بھن کر رہ جائے اور یہی ایک صورت ہے کہ تم اپنے آپ کو اور اپنے معبودوں کو اس کے شر سے بچا سکو اگر تم کچھ کرنا چاہتے ہو تو اسی طرح کی کوئی سخت تدبیر کرو اگر تم نے کوئی سخت کاروائی نہ کی تو آباؤ و اجداد کا دین تباہ وبرباد ہو کر رہ جائے گا ، یہ واقعہ قرآن کریم نے تین جگہ پر بیان کیا ہے ایک تو اس جگہ پر جس جگہ اس کی تفسیر کی جا رہی ہے اور دوسری جگہ سورة العنکبوت میں اور تیسری جگہ سورة الصفت میں چناچہ سورة العنکبوت میں اس طرح بیان کیا گیا کہ : (آیت) ” فما کان جواب قومہ الا ان قالوا اقتلوہ اوحرقوہ فانجہ اللہ من النار ان فی ذلک لایت القوم یؤمنون “۔ (العنکبوت 29 : 24) ” پھر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا قتل کر دو اسے یا جلا ڈالو اس کو پس اللہ نے اسی کی آگ سے نجات دے دی یقینا اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لانے والے ہیں ۔ “ اور سورة الصفت میں ہے کہ : (آیت) ” قالوا ابنوا لہ بنیانا فالقوہ فی الجحیم ، فارادوا بہ کیدا فجعلنھم الاسفلین ، وقال انی ذاھب الی رب سیھدین “۔ (الصفت 37 : 97 تا 99) ” انہوں نے آپس میں کہا کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ پھر اس کو دھکتی ہوئی آگ میں ڈال دو ‘ پھر انہوں نے اس کے ساتھ ایک مخفی چال چلنا چاہی اور ہم نے ان کو نیچا دکھا دیا اور اس نے کہا کہ میں اپنے پروردگار کی طرف چلا جاتا ہوں ‘ وہ مجھے راہ دکھائے گا ۔ “ اور اس جگہ سورة الانبیاء میں فرمایا : (آیت) ” قالوا حرقوہ وانصروا الھتکم ان کنتم فعلین ، قلنا ینار کونی بردا وسلم ا علی ابراہیم ، وارادو بہ کیدا فجعلنھم الاخسرین “۔ ” انہوں نے آپس میں کہا کہ جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے معبودوں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر ‘ وہ چاہتے تھے کہ ابراہیم کے ساتھ ایک مخفی چال چلیں مگر ہم نے انہیں بری طرح ناکام کردیا ۔ “۔ قرآن کریم کے تینوں مقامات کے مضمون سے متعلق آیات آپ کی آنکھوں کے سامنے ہیں ان کو بغور پڑھیں اور خوب سمجھنے کی کوشش کریں اور قرآن کریم کے بیان سے ہم آگے نہ بڑھیں تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ فی الواقع سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو اس آگ میں ڈالا گیا یا اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال حکمت سے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو اس میں گرنے سے پہلے نجات دے دی اور کسی دوسری طرف ہجرت کر جانے کا حکم بھی دیا اور موقعہ بھی فراہم کر دیاجیسا کہ آپ کا ہجرت کر جانا بالکل صاف لفظوں میں واضح ہے اور یہ سنت اللہ سارے انبیاء کرام اور رسل عظام کے ساتھ جاری وساری رہی ہے جس طرح قرآن کریم نے ان کی داستانوں میں یہ پہلو ہمیشہ اجاگر کر کے بیان کیا ہے یہاں بھی واضح الفاظ میں بیان کردیا ۔ جہاں ساری قوم کی قوم خلاف ہو بلکہ ایک رسول کے قتل کرنے یا جلا دینے کے لئے مشورے طے کر رہی ہو وہاں سے اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو خیر وخیرت سے نکال کے کسی دوسری جگہ پہنچا دے اور وہ ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جائیں کیا یہ معجزہ نہیں ؟ لیکن اس طرح بیان کرنے سے جن لوگوں کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور وہ جل بھن کر رہ جاتے ہیں کہ دیکھو اس نے تو ایک معجزہ ہی کا انکار کردیا ہے حالانکہ حقیقت میں وہ خود اس معجزہ کا انکار کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کا اس طرح آگ بننا ‘ آگ بھڑکانا ‘ آگ پھیلانا ‘ انکا اپنا ہی آگ پر لیٹنا ہے ان کے اس طرح آگ پھانک کر آگ ہونے کا وبال بھی انہیں پر ہوگا ہمارا کام تو آگ پر پانی ڈالنا ہے آگ میں آگ لگانا مطلق نہیں لیکن وہ اس طرح اپنے آپ کو آگ میں جھونکنا چاہیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں ۔ ہمارے مفسریں نے اس آگ کی داستان جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے تیار کی گئی تھی اور اس میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو گرایا گیا تھا بڑی تفصیل سے بیان کی ہے ان کے سارے بیان کو تو اس جگہ درج کرنا نہایت مشکل ہے ہاں اختصار کے ساتھ چند سطور پیش خدمت ہیں تاکہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ ہمارے مفسرین کہاں سے کہاں نکل جانے کے عادی ہیں ۔ ” جب نمرود اور اس کی قوم کا باتفاق آراء فیصلہ ہوگیا کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جھونک دیا جائے تو آپ کو گرفتار کر کے ایک کو ٹھری میں بند کردیا گیا اور باڑہ کی طرح ایک احاطہ بنایا جس کا پھیلاؤ میلوں میں تھا بیسیوں میل لمبا اور دہائیوں میل چوڑا اس کے درمیان ایک بہت گہرا گڑھا بھی کھودا گیا اور ٹھوس قسم کی لکڑیاں آپ کو جلانے کے لئے وہاں جمع کی گئیں اور اونچائی میں یہ لکڑیاں تقریبا ساٹھ گزر اونچائی تک جوڑی گئیں اور عام جوش اس حد تک پہنچ گیا کہ بیمار منت مانتا تھا کہ اگر میں اچھا ہوگیا تو ابراہیم کو جلانے کے لئے لکڑیاں دوں گا ۔ عورتیں اگر مراد مانگتی تھیں تو کہتی تھیں کہ اگر ہماری مراد پوری ہوگئی تو ہم ابراہیم کو جلانے والی آگ میں لکڑیان دیں گی لوگ وصیت کرتے تھے کہ ہمارے بعد لکڑیاں خرید کر اس ڈھیر میں شامل کردینا ، عورتیں چرخہ کات کر اس کی مزدوری سے لکڑیاں خرید کر بامید ثواب ڈھیر میں شامل کرتی تھیں ۔ “ ” اس طرح ایک مدت تک لوگ لکڑیاں جمع کرتے رہے جب حسب منشاء لکڑیاں جمع کرچکے تو اس ڈھیر میں ہر طرف سے آگ لگا دی ‘ آگ بھڑک اٹھی جب خوب تیز ہوگئی اور اس حد تک پہنچ گئی کہ پرندے بھی جلنے کے ڈر سے اوپر سے نہ اڑ سکتے تو انہوں نے مزید سات روز تک اسے بھڑکنے دیا اور مزید سات روز کے بعد ابراہیم کو اس میں ڈالنا چاہا لیکن ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس کی آگ میں کیسے پھینکیں ، ابلیس نے آکر منجنیق قائم کرنے کی تدبیر بتائی لوگوں نے چرخی بنائی اور سب سے اونچی عمارت کی چوٹی پر اس کو قائم کیا اور ابراہیم کی مشکیں باندھ کر اس میں ڈالا یہ دیکھ کر آسمان و زمین اور ملائکہ اور ساری دوسری مخلوق سوائے انس وجن کے چیخ پڑی اور عرض کرنے لگی اے ہمارے رب ! ابراہیم تیرا خلیل ہے اور آگ میں اس کو ڈالا جا رہا ہے اس کے سوا روئے زمین میں اور کوئی تیری عبادت کرنے والا نہیں ہے ہم کو اجازت مل جائے تو ہم اس کی مدد کریں اللہ نے فرمایا ابراہیم میرا خلیل ہے اس کے سوا اور کوئی میرا خلیل نہیں اور میں ہی اس کا معبود ہوں میرے سوا اس کا اور کوئی معبود نہیں اگر وہ تم سے کسی مدد کا خواستگار ہو یا دعا کرے تو جس سے وہ مدد طلب کرے وہ اس کی مدد کرسکتا ہے میری طرف سے اس کا اجازت ہے اور اگر میرے سوا کسی اور سے وہ مدد کا طلبگار نہ ہو تو میں اس کی حالت کو خوب جانتا ہوں ‘ میں ہی اس کا کارساز ہوں میرے اور اس کے درمیان تم حائل نہ ہو جونہی ابراہیم کو لوگوں نے آگ میں پھینکنا چاہا تو وہ فرشتہ جو پانی کا خازن تھا آیا اور اس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آگ کو بجھا دوں اور ہوا کا مؤکل بھی آیا اس نے کہا اگر آپ کا منشا ہو تو میں آگ کو ہوا میں اڑا دوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں میرے لئے اللہ کافی ہے وہی میرا کارساز ہے ۔ “ اس کے بعد ابراہیم کو آگ میں ڈالنے کے لئے مضبوطی کے ساتھ باندھ کر منجنیق میں رکھ کر آگ کی طرف پھینک دیا گیا اس دوران جبریل نے سامنے سے آکر کہا کہ اے ابراہیم (علیہ السلام) اگر تمہیں میری مدد کی ضرورت ہو تو میں موجود ہوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا مجھے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں جبریل (علیہ السلام) نے کہا تو پھر اپنے رب سے درخواست کیجئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا مجھے سوال کی کیا ضرورت ہے میری حالت کا اس کو علم ہے میرے لئے یہی کافی ہے ۔ “ ” کعب احبار کا بیان ہے کہ ہرچیز نے ابراہیم کی آگ بجھانے میں حصہ لیا سوائے گرگٹ کے یہ آگ کو پھونکیں مار رہا تھا تاکہ مزید اشتعال پیدا ہو اور آگ بھڑک جائے ۔ “ ” ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے گرگٹ کو برچھے کی پہلی ضرب سے قتل کیا اس کے لئے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور جس نے دوسری ضرب سے قتل کیا اس کے لئے اس سے کم نیکیاں لکھی جائیں گی اور جس نے تیسری ضرب سے قتل کیا اس کے لئے اس سے بھی کم ۔ “ بہرحال ملائکہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بازو پکڑ کر زمین پر بٹھا دیا آپ نے وہاں اچانک شریں پانی کا چشمہ اور خوب صورت سرخ گلاب کے پھول دیکھے اور آگ سے آپ کے جسم کا کوئی حصہ متاثر نہیں ہوا صرف بندھن کے کی رسی جل گئی ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) وہاں سات روز رہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا جس آرام و راحت کے ساتھ میں چند روز آگ میں رہا اتنے آرام سے کبھی نہیں رہا ۔ ابن یسار نے کہا اللہ کے سایہ کے مؤکل کو ابراہیم کی صورت عطا فرما کر بھیجا جو آگ ابراہیم کے پہلو میں آپ کی وحشت دور کرنے کے لئے بیٹھ گیا اور بحکم خداوند حضرت جبرئیل (علیہ السلام) جنت کا ایک قمیص اور مسند لے کر آئے قمیص حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پہنایا اور مسند پر بٹھایا اور خود بھی آپ کے ساتھ مسند پر باتیں کرنے کے لئے بیٹھ گیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیام پہنچایا اور کہا آپ کا رب فرماتا ہے کہ تم کو معلوم نہیں کہ میرے دوستوں کو آگ ضرر نہیں پہنچایا کرتی ۔ کچھ مدت کے بعد نمرود نے ایک اونچی عمارت کے اوپر سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جھانک کر دیکھا اور آپ کو باغ میں بیٹھا پایا اور ایک فرشتہ کو بصورت انسان آپ کے پہلو میں بیٹھا ہوا دیکھا اور آپ کے چاروں طرف آگ ہی آگ تھی جو لکڑیوں کو جلا رہی تھی یہ منظر دیکھ کر پکار کر کہا کہ ابراہیم تیرا معبود بہت بڑا ہے جس کی قدرت اس حد تک ہے کہ وہ تیرے اور اس آگ کے درمیان حائل ہوا جو میں دیکھ رہا ہوں ۔ ابراہیم تو کیا اس آگ سے نکل بھی سکتا ہے ؟ حضرت نے فرمایا ہاں ! نمرود نے کہا کیا تجھے اس بات کا ڈر ہے کہ اگر وہاں رہے گا تو آگ تجھے دکھ پہنچائے گی ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں۔ نمرود نے کہا کہ پھر اٹھ کر وہاں سے نکل آ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اٹھ کھڑے ہوئے اور آگ میں قدموں سے چل کر باہر آگئے ، نمرود نے کہا ابراہیم وہ کون آدمی تھا جو تمہارے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا وہ سایہ کا مؤکل تھا میرے رب نے آگ کے اندر میری وحشت دور کرنے کے لئے اس کو میرے پاس بھیج دیا تھا نمرود نے کہا میں تیرے معبود کے لئے کچھ قربانی پیش کرنی چاہتا ہوں کیونکہ میں نے اس کی قدرت اور طاقت کا ظہور تیرے معاملے میں دیکھ لیا ہے ۔ میں اس کے نام پر چار ہزار گائیں قربان کروں گا ۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا رب تیری قربانی قبول نہیں کرے گا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے باوجود نمرود نے چار ہزار گائیوں کی قربانی کی اور اس کے بعد ابراہیم پر تعرض نہیں کیا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بالکل محفوظ کردیا ۔ “ قارئین کرام ! اس کہانی کو پڑھ کر خود فیصلہ فرما لیں کہ معقول کیا ہے اور غیر معقول کیا ؟ اور قرآن کریم کی آیات کے ساتھ اس تفسیر کا کیا تعلق قائم ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے ؟ اور معجزات کی اس پٹاری کو کھولتے جائیں اور معجزات کا شمار کرتے جائیں اور دیکھیں کہ معجزات کے شائقین نے ایک معجزہ کے پیٹ سے کتنے معجزات نکال کر پیش کر دئیے ہیں اور ان کے اس فن کی خوب داد دیں کہ وہ اپنے فن میں بہت ماہر اور حاذق ہیں اور اگر ہمارے قارئین غور وفکر کرنا حرام نہیں سمجھتے تو ذرا غور فرما لیں کہ ان معجزات کے شمار کرنے میں ہم کو لگا کہ وہ اصل سبق جو اس واقعہ سے ہماری زندگی کے لئے رکھا گیا تھا اس کی طرف کس شاندار طریقہ سے ہماری آنکھیں بند کردی گئیں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری اور قرآن کریم کی تلاوت کرکے ہم خالی ثواب حاصل کرتے رہیں اور اپنے مردے بخشوانے کے لئے اس کے ختمات کا اہتمام جاری رکھیں اور کوئی شخص بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اسوہ حسنہ پر چل کر زمانہ کے نمرودوں کے مقابلہ میں آنے کی جرات نہ کرے کیونکہ معجزات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس لئے نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ اس دور حاضر کے نمرودوں کا کوئی مقابلہ کرسکے گا ، اے رب کریم ! ہمیں سمجھ کی توفیق عطا فرما دے کہ تیرے سوا کوئی نہیں جو سمجھ کی توفیق دے سکے ، اے ہمارے رب ! ہماری دعا قبول کرنا۔
Top