Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 45
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
وَ : اور اَيُّوْبَ : ایوب اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗٓ : اپنا رب اَنِّىْ : کہ میں مَسَّنِيَ : مجھے پہنچی ہے الضُّرُّ : تکلیف وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ : سب سے بڑا رحم کرنیوالا الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
اور ایوب (علیہ السلام) جب اس نے اپنے پروردگار کو پکارا تھا کہ میں دکھ میں پڑگیا ہوں اور خدایا تجھ سے بڑھ کر رحم کرنے والا کوئی نہیں
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) ” مسخر “ کرنے کا کیا مطلب ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ اس زمانے میں بحری سفر کا سارا انحصار باد موافق ملنے پر تھا اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) پر یہ خاص کرم فرمایا کہ وہ ہمیشہ ان کے دونوں بیڑوں کو ان کی مرضی کے مطابق ملتی تھی اور اس بات کو سورت (ص) میں اس طرح بیان فرمایا گیا کہ ” ہم نے سلیمان کے لئے ہوا کو مسخر کردیا جو اس کے حکم سے بسہولت چلتی تھی جدھر وہ جانا چاہتا تھا گویا آپ کے بادبان کو ہمیشہ ہوا موافق ملتی آتے وقت بھی اور جاتے وقت بھی اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ وہ اپنے بندوں کے لئے اسی طرح کی سہولتیں پیدا کرتا رہتا ہے اور بادبان کا اور مطلب ہی کیا ہوتا ہے ؟ یہی کہ اس سے ہوا کو کنٹرول کرکے اس سے کام لیا جاتا ہے لیکن مفسرین نے آپ کی سلطنت کے اس کارہائے نمایاں کو بالکل گول کردیا تاکہ بعد میں آنے والے اس سے کوئی راہنمائی حاصل نہ کرسکیں افسوس کہ ایسے مقامات پر انہوں نے حقیقت اجاگر کرنے کی بجائے اس کو مستور کردیا اور ایسا مستور کیا کہ جب کسی نے اس پردہ کو اٹھانے کی کوشش کی تو انہوں نے کند چھری سے اس کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی اور بات کو اپنے اختراعی مفہوم سے باہر نہ نکلنے دیا کہ اس طرح وہ معجزہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ خاص نہیں رہتا جس کو وہ اپنے مزعومہ مطلب ومفہوم کے تحت رکھنا چاہتے ہیں اور ان کی اس کوشش کا نتیجہ ساری قوم کو بھگتنا پڑا جو نہ معلوم کب تک بھگتتی رہے گی ۔ قرآن کریم نے اس بات کا تین جگہ ذکر فرمایا ہے ۔ سورة الانبیاء ‘ سورة سباء اور سورة ص میں جو ترتیب کے لحاظ سے اس طرح ہے : 1۔ (آیت) ” ولسلیمن الریح عاصفۃ تجری بامرہ الی الارض التی بارکنا فیھا وکنا بکل شیء علمین “۔ (الانبیائ 21 : 81) ” اور دیکھو ہم نے (سمندر کی) تندہواؤں کو بھی سلیمان (علیہ السلام) کے لئے کیسا مسخر کردیا تھا کہ اس کے حکم پر چلتی تھیں اور اس سرزمین کے رخ پر جس میں ہم نے بڑی برکت رکھ دی ہے اور ہم ساری باتوں کی آگاہی رکھتے ہیں ۔ “ 2۔ (آیت) ” ولسلیمن الریح غدوھا شھر ورواحھا شھر “۔ (سبا 34 : 12) ” اور سلیمان کے لئے ہم نے ہوا کو مسخر کردیا صبح کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک ۔ “ 3۔ (آیت) ” فسخرنا لہ الریح تجری بامرہ رخآء حیث اصاب “۔ (ص 38 : 36) ” ہم نے اس کے لئے ہوا کو مسخر کردیا جو اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی تو جدھر وہ چاہتا تھا ۔ “ قبل ازیں اگرچہ اس کا سمجھنا مشکل ہو اب تو اس کا سمجھنا بالکل آسان ہے کہ آج جس تیزی سے انسان سفر کر رہا ہے یہ سب کا سب کرشمہ ہوا ہی کے مسخر کرنے میسر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی ہرچیز انسان کے لئے مسخر کردی ہوئی ہے جو انسان بھی اس بات کو سمجھ لے اور اس تسخیر کو حاصل کرنے کی کوشش کرے وہ کامیاب ہو سکتا ہے ۔ ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے تصور ہی سے بالکل خالی ہیں بلکہ اس تخیل کو ایک دھکوسلا سمجھتے ہیں وہ بھی اس کائنات کی تسخیر کے لئے کوشش کرتے ہیں تو کامیاب ہو رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو ماننے والا اور سرتسلیم خم کرنے والا اگر کوشش کرے گا تو کیوں کامیاب نہیں ہوگا یقینا ہوگا بلکہ بہتر طریقہ سے ہوگا افسوس کہ اللہ کو ماننے والوں نے یہ سمجھ لیا کہ شاید فقط اللہ تعالیٰ کو مان لینے ہی سے یہ سب کچھ حاصل ہوجاتا ہے جن کو حاصل ہونا ہوتا ہے اس کے لئے کسی کوشش کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کو بغیر کسی کوشش ہی کے یہ سب کچھ عطا کردیا تھا حالانکہ یہ بات ان کی سوفی صدی غلط ہے اور قرآن کریم میں یہ بات ہرگز ہرگز نہیں کہی گئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) وقت کے حکمران تھے انہوں نے اپنی سلطنت میں ان ساری چیزوں کے لئے عقل خداداد سے کام لے کر محنت کی اور کامیابی حاصل کی اور کامیاب ہونے کو اللہ کا فضل قرار دیا اس لئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس کائنات کی ہرچیز کو مسخر کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اور پھر اس تسخیر کو حاصل کرنے کے لئے جس عقل وفکر کی ضرورت ہے اس کا عطا کرنے والا بھی وہی ہے اس لئے مجھے جو کچھ ملا وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ہی سے ملا اس میں میرا کوئی کمال نہیں اور ان کے اس نظریہ کا فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے دنیا میں بھی ترقی کی اور اس ترقی کی بدولت اپنی آخرت کو بھی سنوار لیا اور آج جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ان تسخیر شدہ چیزوں کو حاصل کر رہے ہیں وہ اس میں اپنا کمال سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے تصور سے بالکل خالی ہیں اس لئے ان کی دنیا تو بلاشبہ خوشحال ہے لیکن آخرت یقینا برباد ہے اور اس طرح یہ عارضی فوائد حاصل کرنے کے باوجود ابدی اور اخروی فائدوں سے محروم ہو کر اپنے آپ کو تباہ وبرباد کر رہے ہیں نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ان کی دنیا سنور رہی ہے لیکن آخرت برباد ہو رہی ہے اور ان کے مقابلہ میں آج ہم مسلمان ہیں کہ درمیان میں لٹک کر رہ گئے ہیں نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم مسلمانوں کو دین و دنیا دونوں کی سمجھ عطا فرما دے اور ہم دونوں جگہ کامیاب وکامران ہوں ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے دور سلطنت میں جو ترقی ہوئی اس کا ذکر قرآن کریم میں : اللہ تعالیٰ نے سیدنا داؤد (علیہ السلام) کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا فرمائی تھی اور وہ خاص طور پر جنگی اغراض کے لئے زرہیں بنانے کا کام جانتے تھے انہوں نے زرہ سازی کے کارخانے لگائے اور زرہیں عام کردیں ۔ موجودہ زمانے کی تاریخی واثری تحقیقات سے جو معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں لوہے کے استعمال کا دور (Lron Ags) 1200 اور 1000 ق م کے درمیان شروع ہوا ہے اور یہی حضرت داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ ہے ۔ اول اول شام اور ایشیائے کو چک کی حتی قوم کو جس کے عروج کا زمانہ 2000 ق م سے 1300 ق م تک رہا ہے لوہے کے پگھلانے اور تیار کرنے کا ایک پیچیدہ طریقہ معلوم ہو اور وہ نہایت حد تک اس کو دنیا بھر سے راز میں رکھے رہی ۔ مگر اس طریقے سے جو لوہا تیار ہوتا تھا وہ سونے چاندی کی طرح اتنا قیمتی ہوتا تھا کہ عام استعمال میں نہ آسکتا تھا بعد میں فلستیوں نیی یہ طریقہ معلوم کرلیا اور وہ بھی اسے راز ہی میں رکھتے رہے ۔ طالوت کی بادشاہ سے پہلے حتیوں اور فلستیوں نے بنی اسرائیل کو پیہم شکستیں دے کر جس طرح فلسطین سے تقریبا بےدخل کردیا تھا اس کے وجوہ میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لوگ لوہے کی رتھیں استعمال کرتے تھے اور ان کے پاس دوسرے آہنی ہتھیار بھی تھے ۔ 1020 ق م میں جب طالوت اللہ تعالیٰ کے حکم سے بنی اسرائیل کا فرمانروا ہوا تو اس نے پیہم شکستیں دے کر ان لوگوں سے فلسطین کا بڑا حصہ واپس لے لیا اور پھر حضرت داؤد (علیہ السلام) 1004 ق م سے 965 ق م نے صرف فلسطین وشرق اردن بلکہ شام کے ایک حصے پر اسرائیلی سلطنت قائم کردی اور اس زمانے میں آہن سازی کا وہ راز جو حتیوں اور فلستیوں کے قبضے میں تھا بےنقاب ہوگیا اور صرف بےنقاب ہی نہ ہوا بلکہ آہن سازی کے ایسے طریقے بھی نکل آئے جن سے عام استعمال کے لئے لوہے کی سستی چیزیں تیار ہونے لگیں ۔ فلسطین کے جنوب میں ادوم کا علاقہ خام لوہے کی دولت سے مالا مال تھا اور حال میں جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئیں ان میں بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں ۔ عقبہ اور ایلہ سے متصل سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے کی بندر گاہ عصیون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس کے معائنہ سے اندازہ کیا گیا ہے کہ اس میں بعض وہ اصول استعمال کئے جاتے تھے جو آج جدید ترین زمانے میں استعمال ہونے شروع ہوئے ہیں ۔ اس صنعت میں سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے جو ترقی حاصل کی اس کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح کیا گیا : (آیت) ” وَأَسَلْنَا لَہُ عَیْْنَ الْقِطْرِ وَمِنَ الْجِنِّ مَن یَعْمَلُ بَیْْنَ یَدَیْْہِ بِإِذْنِ رَبِّہِ وَمَن یَزِغْ مِنْہُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ (12) یَعْمَلُونَ لَہُ مَا یَشَاء ُ مِن مَّحَارِیْبَ وَتَمَاثِیْلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِیَاتٍ اعْمَلُوا آل دَاوُودَ شُکْراً وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُورُ (سباء 34 : 12 ‘ 13) ” ہم نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا اور ایسے جن اس کے تابع کردیئے جو اپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے ان میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتا اس کو ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھاتے ۔ وہ اس کے لئے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا اونچی عمارتیں ‘ نقشے ‘ بڑے بڑے حوضوں جیسے لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں اے آل داؤد عمل کرو شکر کے طریقے پر ‘ میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہوتے ہیں ۔ “ غور کرو کہ لوہا اور تانبا پگھلانا آسان کام نہیں اور نہ ہی کوئی معمولی صنعت ہے لیکن اگر اس کو اس کثرت کے ساتھ پگھلایا جائے کہ گویا کوئی پگھلے ہوئے لوہے یا تانبے کا چشمہ جاری ہے جس سے پگھلا ہوا تانبا یا لوہا بہہ رہا ہے اور خالی بہہ ہی نہیں رہا بلکہ اس سے بڑے بڑے قومی ہیکل مزدور مختلف چیزیں تیار کر رہے ہیں جن میں بڑی بڑی عمارتوں کا سامان تیار ہو رہا ہے اور بڑے بڑے لوہے کے سل تیار کئے جا رہے ہیں جن پر نقشے اور سیزیاں تیار کی جا رہی ہیں اور اس سے اتنے اتنے بڑے لگن بھی تیار کئے جا رہے ہیں جو لگن نہیں بلکہ تالاب ہیں کہ ان کو فقط دیکھنے ہی سے حیرت گم ہوجاتی ہے اور پھر کچھ مزدور ایسے بھی ہیں جو اتنی اتنی بڑی دیگیں تیار کر رہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بھی ایک بہت بڑا کام ہے اور ظاہر ہے کہ جس چیز کا ادھر ادھر منتقل کرنا ایک نہایت دشوار کام ہو اس کا بنانا اور تیار کرنا کتنا مشکل ہوگا اور اس طرح کی صنعت سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے دور میں عام تھی ۔ قرآن کریم نے جب ان بڑی بڑی چیزوں کا ذکر کردیا تو ان چھوٹی چھوٹی روز مرہ زندگی میں کام آنے والی چیزوں کو کس قدر تیار کیا جاتا ہوگا ہر ایک انسان خود قیاس کرسکتا ہے ۔ قرآن کریم تاریخ کی کتاب نہیں کہ اس کی تفصیلات اس میں دی جائیں وہ سراسر نصیحت وتذکیر ہے لیکن اس کے باوجود کتنی وضاحت سے اس نے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے دور کے صنعت سازی کا ذکر کردیا اور کتنے صاف لفظوں میں بتا دیا خصوصا محاریب ‘ تماثیل کجفان کالجواب اور قدورراسیات جن بڑی بڑی صنعتوں کی طرف راہنمائی کرتی ہیں یہ صنعتیں آج اس طرقی کے دور میں بھی سارے ممالک کو میسر نہیں اور خصوصا مسلمان ملکوں نے تو قسم اٹھا رکھی ہے کہ وہ کوئی کام اس طرح کا نہیں کریں گے جن کی طرف قرآن کریم رہنمائی کرتا ہے اور ہمارے مفسرین ان سب باتوں کو معجزات کے رنگ میں رنگ کر قوم کو دکھا رہے ہیں کہ یہ صنعتیں نہیں لگائی گئی تھیں بلکہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے ہاتھ پر معجزات دکھائے گئے تھے تاکہ مسلمان قوم کی توجہ معجزات کہہ کر ان صنعتوں کی طرف سے مکمل طور پر ہٹا دی جائے اس لئے انہوں نے یہی لکھا کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک لوہے کا چشمہ چلا دیا تھا اور انسان نہیں بلکہ جن ان کے تابع کردیئے تھے اور وہ جنوں سے کام لیتے تھے انسان بھلا ایسے کاموں کو کب کرسکتا ہے ، بجائے اس کے کہ وہ قوم کو یہ باور کراتے کہ وہ قوی ہیکل اور سخت کام جو نہایت ہی طاقت وقوت سے کرنے پڑتے ہیں بلکہ جن کے کرنے کے لئے بہت بڑے بڑے آلات تیار کئے جاتے ہیں وہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے تیار کئے اور اپنے زمانے کے سارے طاقتور لوگوں کو ان کارخانوں میں کام پر لگا دیا جو انسانوں کی طرح نہیں بلکہ جنوں کی طرح جس کام پر لگا دیئے جاتے اس کو حکم الہی سے کر کے دکھاتے تھے اور کوئی بھی ان میں سے حکم عدولی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ اس کے لئے نہایت ہی سخت قانون نافذ تھا ۔ آپ کے زمانہ میں کوئی شخص آوارہ گردی نہیں کرسکتا تھا حکومت نے ہر انسان کو روزگار مہیا کرنے کی سکیم پر عمل کیا اور صنعتوں کو اس قدر ترقی دی کہ کوئی آدمی کام کرنے کے علاوہ نظر نہیں آتا تھا کام ‘ کام اور کام آپ کی حکومت کا سب سے بڑا نصب العین تھا ۔ آپ کے دور میں بحری بیڑے تیار ہوئے اور اتنے اتنے بڑے تیار ہوئے کہ اس زمانہ میں کسی مملکت کو اتنے بڑے اور اتنے عام بیڑے میسر نہ تھے اور یہ سب پھونک مارنے سے نہیں بلکہ ہزاروں آدمیوں کے کام لگانے سے تیار ہوتے تھے اور اس وقت کی پوری دنیا میں آپ کی تجارت انہی بیڑوں کے ذریعہ سے ہوتی تھی اور وہ اس قدر تیزی سے سفر کرتے تھے کہ مہینوں کا سفر دنوں میں طے ہوجاتا تھا ۔ آپ کو بڑی بڑی مہمات سے سابقہ پڑا اور الحمد للہ جس مہم پر آپ نکلے کامیاب وکامران واپس آئے بلکہ ایسی مہمات بھی تھیں جو گھر بیٹھے ہی سر کرلیں۔ آپ کے دور میں بڑے محلات اور بڑی بڑی بلڈنگیں تیار کی گئیں ‘ راستے بنائے گئے ‘ بہت بڑے بڑے نقشے اور سینریاں تیار کی گئیں اور اس وقت کی دنیا میں آپ کا ملک نہایت ہی ترقی یافتہ ملک تھا خصوصا جنگی سامان تیار کرنے میں وہ لوگ بہت ماہر تھے ۔ قرآن کریم میں ” تماثیل “ کا لفظ آیا ہے ہمارے مفسرین اس کی تشریح میں اتنے مصروف ہوئے کہ ان کو کسی دوسری طرف دیکھنے کا موقع ہی میسر نہ آیا لیکن تماثیل کا مسئلہ بھی حل نہ ہوسکا بعض نے ان کو انبیاء کرام اور صلحائے امت اور فرشتوں کی تصویروں پر محمول کیا اور دوسروں نے اس کی تردید میں روایات جمع کرنی شروع کردی ‘ کسی نے کہا یہ تصویریں پہلی شریعتوں میں جائز تھیں لیکن شریعت محمدی میں حرام کردی گئیں اور دوسروں نے ان کی حرمت کا ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور ثابت کردیا کہ یہ تصاویر پہلی امتوں میں بھی حرام تھیں اور تماثیل سے مراد اس جگہ تصاویر وغیرہ نہیں ہو سکتیں اور بحث میں بیسیویں سے متجاوز صفحات تحریر کئے گئے اور باقی ساری چیزیں اس ایک بحث کی نذر ہوگئیں ، بلاشبہ جن لوگوں نے تماثیل سے تصویریں اور بت مراد لئے انہوں نے قرآن کریم کی عبارت اور سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے منصب کا لحاظ نہ کیا اور ایک ایسی بات کہہ دی جس کا نہ سر تھا نہ پیر لیکن اتنی بات کہہ دینا اور اس کی تردید کردینا ہی کافی تھا اور اس کے ساتھ یہ ثابت کردینا چاہئے تھا کہ اس ترقی کے دور میں سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کو ان بتوں اور تصویروں کی ضرورت نہ تھی بلکہ ان نقشوں اور سینریوں کی ضرورت تھی جن سے ملک کے سارے راستوں کی نشاند ہی کی جاتی اور ملک کی صنعت وحرفت کو اجاگر کیا جاتا تاکہ ان کتبات کی مدد سے بعد میں آنے والی قومیں سبق حاصل کرتیں اور یہی کچھ آپ نے کیا اور یہی کچھ آپ کو کرنا چاہئے تھا ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کا لاؤ لشکر اور جنگی مہمات کا اشارہ قرآن کریم میں : پیچھے آپ جنگی آلات کے متعلق پڑھ آئے ہیں کہ سیدنا داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ میں اس صنعت میں ترقی ہوئی اور آپ نے مختلف قسم کے جنگی آلات تیار کئے جن میں زرہیں خاص طور پر قابل ذکر تھیں کیونکہ اس وقت تک تلوار نیزہ ہی سے لڑائیاں ہوتی تھیں اور اسی طرح کے آلات تیار ہوتے تھے کہ جن پر تلوار اور نیزے کا وار اثر نہ کرسکے یا اثر کرے تو بہت کم کرے اور جہاں آلات تیار ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ وہاں آلات کے استعمال کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے والد بزرگوار کے مشن جہاد کو آگے بڑھایا اور مختلف مہمات سر کیں ۔ قرآن کریم نے ان مہمات کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی ان تاریخی باتوں کی قرآن کریم وضاحت کرتا ہے لیکن اس نے آپ کے لشکر اور اس کی اصناف کا مختصر ذکر کردیا اور آج جو تین طرح کی افواج ہر ایک ملک کے لئے لازم وضروری نظر آتی ہیں ان تینوں طرح کی افواج کا استعمال سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے ہاں بھی موجود تھا بلکہ ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ان تینوں افواج کی اصل سیدنا سلیمان (علیہ السلام) ہی کی تشکیل کردہ افواج سے نکلتی نظر آتی ہے ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ : (آیت) ” وحشر لسلیمن جنودہ من الجن والانس والطیر فھم یوزعون “۔ (النمل 27 : 17) ” سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جن وانس اور طیر کے لشکر جمع کئے گئے تھے پس وہ پورے نظم وضبط میں رکھے گئے تھے ۔ “ ان اشارات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہی کہ آپ کے ہاں افواج کو تین قسموں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ اس کی صورت اس وقت کے لحاظ سے خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ افواج کے رکھنے کی ضرورت کیا ہوتی ہے ؟ یہی کہ دوسرے ممالک کے ساتھ کوئی صورت حال پیش آجائے یا کوئی ملک اس ملک پر حملہ آور ہو تو اس کا دفاع کیا جاسکے یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ اگر کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو افواج کو متحرک کرکے حملہ کیا جاسکے اور یہ بھی بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر ملک اپنے دفاع کے لئے اس طرح کی افواج وآلات تیار کرتا ہے جس طرح کی افواج وآلات سے اس کا واسطہ پڑنے کا امکان ہوتا ہے ۔ اس لئے ظاہر ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے بھی اپنی افواج کو اس طرح ترتیب دینا تھا جس طرح کی ترتیب دوسرے مخالف ممالک میں پائی جاتی تھی ۔ ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ ایک مدت مدید تک بنی اسرائیلیوں کو حتیوں اور فلستیوں نے ناکوں چنے چبوائے تھے اور کتنی بار ان کو ان کے اپنے ممالک سے بھگا دیا گیا تھا اور ان کی حکومت کو ختم کر کے اپنی حکومت قائم کرلی تھی اور یہ حالات کئی سو سال چلتے رہے بالآخر کے حکم سے طالوت کو سپہ سالار مقرر کیا گیا اور آپ کے لشکر میں داؤد (علیہ السلام) جیسے لوگ شامل کئے گئے جن میں جہاد کی فطری صلاحیتیں رکھی گئی تھیں اور پھر یہ بھی کہ صرف جہاد ہی کی نہیں بلکہ ان آلات کے بنانے کی بھی صلاحیت تھی جس کے باعث وہ طالوت کے بعد صرف سپہ سالار ہی نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے حکمران بنا دیئے گئے پھر انہی داؤد (علیہ السلام) کے صاحبزادے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) تھے جنہوں نے داؤد (علیہ السلام) کے مشن کو عروج پر پہنچا دیا تاہم وہ حتی اور فلستی جن کی طاقت وقوت ضرب المثل تھی وہاں افواج میں شامل کیا اور کرنا ہی چاہئے تھا ہمارے خیال میں انہی کو لفظ ” جن “ سے تعبیر کیا گیا کیونکہ وہ قوی ہیکل بھی تھے اور ان کی حیثیت کو انفرادی طور پر رکھا جانا بھی ضروری تھا ۔ اس طرح ایک ہی قسم کی افواج کے الگ الگ نام رکھے گئے تاکہ امتیاز ہو سکے اور ممکن ہے کہ ان کے کاموں کو بھی الگ الگ رکھا گیا ہو جیسا کہ قرآن کریم نے بھی جنوں کے لشکر کا کام الگ کر کے بتا دیا جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا : (آیت) ” وَمِنَ الْجِنِّ مَن یَعْمَلُ بَیْْنَ یَدَیْْہِ بِإِذْنِ رَبِّہِ وَمَن یَزِغْ مِنْہُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ (12) یَعْمَلُونَ لَہُ مَا یَشَاء ُ مِن مَّحَارِیْبَ وَتَمَاثِیْلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِیَاتٍ (سبا 34 ‘ 13) ” اور جنوں کے لشکر سے اس کے تابع فرمان کردیئے گئے جو ان کے آگے کام کرتے تھے ان میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتا اس کو ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھاتے ۔ وہ ان کے لئے بناتے تھے جو وہ چاہتا تھا اونچی عمارتیں ‘ تماثیل ‘ بڑے بڑے حوض جیسے لگن اور نہ اٹھائی جانے والی دیگیں “ اور دوسری جہ ارشاد فرمایا ہے کہ : (آیت) ” والشیطین کل بناء وغواص ، واخرین مقرنین فی الاصفاد “۔ (ص 38 : 37 ‘ 38) ” اور شیاطین کو مسخر کردیا ہر طرح کے معجار اور غوطہ خور اور دوسرے وہ لوگ جو پابند سلاسل تھے ۔ “ انہی شیاطین کو اوپر کی آیت میں جن کہا گیا ہے ہمارے خیال میں یہ وہی لوگ تھے جن کا تعلق بنی اسرائیل کے علاوہ دوسری قوموں سے تھا جو بنی اسرائیل کے مقابلہ میں زیادہ قوی ہیکل اور زیادہ فطین وذہین تھے لیکن اس وقت وہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت میں محکوم ہو کر رہ رہے تھے چونکہ ان کا تعلق اس سرزمین سے تھا ان کو ملازمت کا حق دینا بھی ضروری تھا اور ان کا الگ رکھنا بھی ضروری سمجھا گیا اور اس طرح ان کے کاموں اور ڈیوٹیوں کو بھی الگ ہی بیان کیا گیا اور ظاہر ہے کہ اس وقت کے لحاظ سے دوسرے ممالک نے بھی اپنی افواج کی تقسیم اسی طرح سے کی ہوگی اور آج بھی اس قسم کو زیر نظر رکھا جاتا ہے ۔ اوپر جو کام ان کے ذمہ لگائے گئے ہیں سارے کام ہی سخت محنت طلب اور سخت جان لوگوں کے ہیں جس سے ہماری بات کی تصدیق ہوتی ہے اوپر درج کردہ آیتوں میں سے دوسری آیت پر غور کرنے سے اس بات کی مزید تصدیق ہوجاتی ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا ” اور دوسرے وہ لوگ جو پابند سلاسل تھے “ جن کو مزید مخصوص طریقہ سے رکھا گیا تھا تاکہ وہ کوئی ایسی حرکت نہ کرسکیں جس سے ملک میں بغاوت پھیل جانے کا اندیشہ ہو۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر کے ایک حصہ کو ” طیر “ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے اس کی حقیقت اور اصلیت کیا ہے ؟ طیر کے معنی پرندہ کے ہیں اور پھر ہر طرح کے پرندوں کو ” طیر “ کہا جاتا ہے ہم اس کے متعلق قرآن کریم ہی سے استنباطا یہ بات کہہ سکتے ہیں یہ وہ لشکر تھا جس کا کام سراغ رسانی کرنا تھا ۔ جس کو آج کل کی زبان میں جاسوسی کا محکمہ بھی کہا جاتا ہے اور فوج کے اندر ان کا کام نہایت ہی اہم ہوتا ہے کیونکہ اسی محکمہ کے اشاروں سے ساری فوج حرکت کرتی ہے اس محکمہ کے کاموں کی نوعیت مختلف ہوتی ہے اور ان کے نام بھی بدل کر دوسروں کی طرح کے رکھے جاتے ہیں فوج کے اندر یہ اصل ناموں سے معروف نہیں ہوتے بلکہ ان کا جو نام بدل کر رکھا جاتا ہے انہی ناموں سے متعارف ہوتے ہیں بعض مفسرین نے اس کو ” فضائی فوج “ بھی بیان کیا ہے اور اس لئے انہوں نے ہد ہد کو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی فضائی افواج کا پائیلٹ بتایا ہے لیکن یہ بات اس وقت صحیح ہوتی جب یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے وقت میں فضائی سفر بھی جاری تھا لیکن اس کا کوئی ثبوت ہمیں میسر نہیں آیا تاریخ سے ہمیں جو کچھ ملا ہے وہ یہی ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے بحری بیڑے بنائے اور ان کے ذریعہ خوب تجارت کی اور بحری بیڑے کے ساتھ بحری فوج بھی تسلیم کی جاسکتی ہے اور اس کا ثبوت بھی اس طرح مل جاتا ہے کہ آپ کے پاس باقاعدہ غوطہ خور تھے جو سمندر کی تہہ میں اتر کر سمندری اشیاء کے نکالنے میں بڑے ماہر تھے اور قرآن کریم نے ان کو شیاطین کے لفظ سے موسوم کیا ہے لیکن فضائی سفر کا کہیں سے سراغ نہیں ملا اس لئے ہم اس فوج کو فضائی فوج تو نہیں قرار دے سکتے البتہ سراغ رساں یعنی جاسوسی کرنے والا محکمہ کہہ سکتے ہیں تاہم اگر مفسرین کی بتائی اور سمجھائی بات پر انحصار کیا جاسکتا تو اس محکمہ کو پیغام رسانی کا محکمہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے اور پرندوں سے ڈاک کا کام لیا جانا تاریخ سے بھی ثابت ہے ۔ خیال رہے کہ اس سے یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ ہم قرآن کریم کی آیات کو تاریخی ثبوت مہیا ہوجانے کے بعد تسلیم کرتے ہیں اگر تاریخ خاموش رہے تو ہم قرآن کریم کی آیات سے انکاری ہیں۔ ہرگز نہیں اور حاشا وکلا نہیں ۔ ہاں ! یہ بات اپنی جگہ صحیح اور درست ہے کہ قرآن کریم ہمیشہ وہی بات کہتا ہے جو بامقصد ہو بےمقصد باتیں قرآن کریم میں مطلق بیان نہیں کی گئیں اس لئے مفسرین نجے جو اس فوج طیر کی افادیت بیان کی ہے وہ قرآن کریم میں نہیں اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں ہے کہ پرندوں کو اس لئے فوج میں بھرتی کیا گیا تھا کہ وہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر پر اپنے پروں سے سایہ رکھیں تاہم مفسرین نے اس کی اس افادیت کو بیان کیا جس سے خود بخود یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آیت کا مفہوم متعین کرنے کی گنجائش سب مفسرین نے تسلیم کی ہے تب ہی انہوں نے اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے اگر اس آیت کا مفہوم متعین کرنے کی گنجائش سب مفسرین نے تسلیم کی ہے تب ہی انہوں نے اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے اگر اس آیت کا مفہوم متعین کرنے کی گنجائش سرے سے موجود ہی نہ ہوتی تو وہ اس طرح سے اس آیت کا مفہوم بیان نہ کرتے ۔ اگر فی نفسہ آیت میں مفہوم متعین کرنے کی گنجائش ہے تو اب اس پر پابندی کیسے لگ گئی کہ آج سے ایک ہزار سال پہلے لوگوں کو تو یہ حق تھا کہ کسی آیت کا جو مفہوم ان کی سمجھ میں آتا بیان کرتے لیکن آج کسی مسلمان کو یہ حق نہیں ۔ یہ بات بغیر دلیل کے تسلیم نہیں کی جاسکتی اگر کسی کے پاس کوئی دلیل ہو تو وہ بیان کرے ۔ ہم یقین ایمان سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ کسی کے پاس اس کی نہ دلیل ہے نہ ہو سکتی ہے اور بغیر دلیل کے جو کچھ کوئی کہتا ہے کہتا رہے ہمیں وہ بات کہنا ہے جو ہم قرآن کریم سے سمجھے ہیں اور یہ حق ہم کو خود رسول مکرم نبی اعظم وآخر ﷺ نے دیا ہے جو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا اور یہ بات خود اس کی دلیل ہے کہ مفسرین کے پاس اگر یہ حق نہ ہوتا تو وہ کسی ایک آیت کی تفسیر بھی نہ بیان کرسکتے ۔ اسرائیلیات پر انحصار کرنے کی بجائے براہ راست قرآن کریم کی عبادت پر غوروفکر کرنا ہر مسلم کا فرض ہے اس فرض کے تحت جب ہم خلوص نیت کے ساتھ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے واقعات پر غور وفکر کرتے ہیں تو ہمیں یہی راہنمائی وہاں سے ملتی ہے اور پھر جب اس دور کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ ان باتوں کی مکمل تصدیق کردیتی ہے اس لئے مفسرین نے جو دیو مالا کی کہانیاں بیان کی ہیں ان پر ہمارا دل نہیں جمتا ‘ اس لئے ہم تصدیق شدہ بات کو بیان کردیتے ہیں کسی کا دل مانے تسلیم کرلے اور نہ مانے تو صاف انکار کر دے اور جو اس کو پسند ہو وہ تسلیم کرتا رہے ہمیں اس سے کوئی گلہ نہیں ہماری بات تو یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بات کے پابند ہیں علاوہ ازیں کسی کی بات ہمارے ایمان کا حصہ نہیں پسند آئے گی سو بار مانیں گے اور پسند نہیں آئے گی تو ان لوگوں کا احترام کرنے کے باوجود ان کی بات کو تسلیم نہیں کریں گے ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) اللہ کے نبی اور وقت کے بادشاہ اور حکمران تھے انہوں نے حکومت کا کاروبار اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق چلایا اور اپنے ملک میں صحیح اسلامی حکومت قائم کرکے اور اس کو ایک مدت تک چلا کر دنیا کے دوسرے حکمرانوں کو بتا دیا کہ حکومت اس طرح کی جاتی ہے ؟ انہوں نے اپنی حکومت کے داخلی حالات اور خارجی حالات میں اس طرح اصلاح کی کہ ان میں کوئی ایسی خامی نہ رہی جس پر کوئی انگشت زنی کرسکتا ۔ آپ کی فوجی مہمات اور فوجی انتظام وانصرام کی طرف قرآن کریم نے مختلف جگہوں پر اشارات دیئے تاکہ بعد میں آنے والے ان سے فائدہ حاصل کریں اور ان کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اپنے ملک کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں تو یقینا وہ بھی کامیاب ہوں گے ۔ قرآن کریم میں آپ کی ایک فوجی مشق کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ : سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی ایک جنگی مشق کو دیکھنے کا ذکر قرآن کریم میں : (آیت) ” إِذْ عُرِضَ عَلَیْْہِ بِالْعَشِیِّ الصَّافِنَاتُ الْجِیَادُ (31) فَقَالَ إِنِّیْ أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْْرِ عَن ذِکْرِ رَبِّیْ حَتَّی تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ (32) رُدُّوہَا عَلَیَّ فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ (ص 38 : 31 تا 33) ” اس وقت کو یاد کرو جب اس (سلیمانعلیہ السلام) کے سامنے پچھلے پہر نہایت (تیزرو) عمدہ گھوڑے پیش کئے گئے پس وہ کہنے لگا میں نے (اس مال) کی محبت اپنے رب کے ذکر کی وجہ سے اختیار کی ہے یہاں تک کہ وہ گھوڑے اس کی نظر سے (دوڑتے ہوئے) اوجھل ہوگئے (اس نے حکم دیا کہ) ان کو میرے پاس واپس لاؤ (جب وہ واپس لائے گئے) تو ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر (خود) تھپکیاں دینے لگا۔ “ (ص 38 : 31 تا 33) ان آیات میں آپ کی ایک جنگی مشق کا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ نے جہاد کی خاطر گھوڑے پال رکھے تھے جو بہت اچھے اور نسلی گھوڑے تھے جو جہاد کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے اگر ان گھوڑ سواروں کو (طیر) مان لیا جائے جس کا ذکر پیچھے آیا تو بلاشبہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کیونکہ گھوڑوں کا دوڑ کر اور پرندوں کا اڑ کر کسی جگہ پہنچنا ایک ہی حیثیت رکھتا ہے بہرحال آپ ان گھوڑوں کی دوڑ کبھی کبھی بذات خود دیکھتے اور ان سے پیار و محبت کرتے تھے اور جب کبھی اس کام کے لئے حکم دیتے تو دن کے پچھلے حصے میں دیتے تھے تاکہ سلطنت کے دوسرے کاموں سے فارغ ہو کر اس کو دیکھ سکیں اور ان کا معائنہ کرسکیں ۔ اس طرح ایک موقع پر آپ کے سامنے جب یہ اعلی درجے کے اصیل گھوڑے لائے گئے تو آپ انکو دیکھ کر اور ان کی دوڑ کا معائنہ کرکے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ لوگو ! یہ مال مجھے اپنی بڑائی کی غرض سے یا اپنے نفس کی خاطر محبوب نہیں ہے بلکہ ان چیزوں سے دلچسپی کو میں اپنے پروردگار کا کلمہ بلند کرنے کے لئے پسند کرتا ہوں پھر انہوں نے ان گھوڑوں کو دوبارہ اڑانے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ گھوڑے دوڑتے دوڑتے آپ کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئے گویا گھوڑ دوڑ اتنی لمبی تھی کہ گھوڑے سرپٹ دوڑ سکتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے تھے ۔ ازیں بعد انہوں نے ان کو دوبارہ واپس لانے کا حکم دیا یعنی جس طرح دوڑتے ہوئے گئے تھے اسی طرح دوڑتے ہوئے واپس لائے جائیں تاکہ ان کی دوڑ کا نظارہ دوبارہ آنکھیں دیکھ سکیں پھر جب وہ دوڑ کر واپس لائے گئے تو آپ نے بذات خود آگے بڑھ کر ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا اور اس طرح ایک ایک سے پیار و محبت کا اظہار فرمایا اور دیر تک آپ اس کام میں مصروف رہے یہ کام سرانجام دیتے رہے اور اور زبان سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا فرماتے رہے جس نے آپ پر یہ عنایت کی تھی اور اس کام کے لئے طاقت وہمت عطا فرمائی تھی ۔ بات کس قدر صاف ‘ کتنی عام فہم ہے لیکن ہمارے مفسرین نے اس کو کیا بنا دیا ذرا آپ بھی اس کو سن لیں لیکن تفسیر سے پہلے ان گھوڑوں کی تعداد ‘ گھوڑوں کی نسل وقسم اور گھوڑے کہاں سے لائے گئے ان ساری باتوں کا مختصر بیان ملاحظہ کریں ۔ گھوڑوں کی تعداد کتنی تھی ؟ کلبی نے بیان کیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دمشق اور نصیبیں والوں سے جہاد کیا اور وہاں سے ایک ہزار گھوڑے آپ کے ہاتھ لگے تھے لیکن بعض نے ان کی تعداد سات سو بتائی ہے اور بعض نے انکی تعداد بیس ہزار بتائی ہے ۔ گھوڑوں کی نسل وقسم کیا تھی ؟ عبد بن حمید اور ابن المنذر نے بروایت عوف بیان کیا ہے کہ یہ گھوڑے پرندوں کی طرح پروں والے تھے ۔ گھوڑے کہاں سے لائے گئے ؟ کیا گیا ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے یہ گھوڑے سمندر سے برآمد کئے گئے تھے اور آپ کے بعد کسی کو دریائی گھوڑے نہیں ملے ۔ اب ان آیات کی تفسیر ملاحظہ ہو جو دو طرح سے بیان کی گئی ہے : ایک تفسیر اس طرح بیان ہوئی کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) ان گھوڑوں کے معالنے اور ان کی دوڑ کے ملاحظہ میں اس قدر مشغول ہوئے کہ نماز عصر بھول گئے یا بقول بعض اپنا کوئی خاص وظیفہ بھول گئے جو وظیفہ وہ نماز عصر اور مغرب کے درمیان پڑھا کرتے تھے یہاں تک کہ سورج چھپ گیا یعنی غروب ہوگیا تب انہوں نے حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو واپس لاؤ پھر جب وہ گھوڑے آپ کے سامنے واپس لائے گئے تو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے تلوار لے کر ان کی گردنوں اور پنڈلیوں کو کاٹنا شروع کردیا اور سارے گھوڑے اسی طرح قتل کردیئے ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ ذکر الہی سے غفلت کا موجب بن گئے تھے ۔ یہ تفسیر ہمارے اکابر مفسرین سے بیان کی گئی ہے اور انہوں نے مذکورہ بالا آیات کا ترجمہ اس طرح کیا ہے ؟ یاد کرو جب پچھلے دن میں اس کے سامنے اصیل اور عمدہ گھوڑے لائے گئے پھر اس نے کہا افسوس میں اس مال کی محبت میں لگ کر اپنے رب کی یاد سے غافل ہوگیا یہاں تک کہ آفتاب مغرب کے پردہ میں چھپ گیا (اس کی وجہ سے نماز عصر یا خاص وظیفہ قضا ہوگیا) اس نے کہا گھوڑوں کو میرے پاس واپس لاؤ (گھوڑے واپس لائے گئے) تو ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر تلوار سے ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا (یعنی سلیمان (علیہ السلام) نے تلوار سے سارے گھوڑے قتل کردیئے) ۔ دوسری تفسیر اس طرح کی گئی کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) ان گھوڑوں کے معالنے اور ان کی دوڑ کے ملاحظہ میں اس قدر مشغول ہوئے کہ نماز عصر بھول گئے یا بقول بعض اپنا کوئی خاص وظیفہ بھول گئے جو وہ نماز عصر اور نماز مغرب کے درمیان پڑھا کرتے تھے یہاں تک کہ سورج چھپ گیا یعنی غروب ہوگیا تب انہوں نے کارکنان قضا وقدر کو حکم دیا کہ سورج کو واپس کیا اور انہوں نے نماز عصر ادا کرلی اور اس طرح سورج کا واپس لانا سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے اور یہ تفسیر بھی اکابر مفسرین ہی کی تسلیم کردہ ہے جن کا سکہ تفسیر میں مانا جاتا ہے ، ان مفسرین نے اس تفسیر کو صحیح اور درست منوانے کے لئے بہت سی دلیلیں پیش کی ہیں کہ یہ سورج کا واپس آنا صرف سیدنا سلیمان (علیہ السلام) ہی کے لئے نہیں ہوا بلکہ بہت دفعہ ایسا ہوچکا ہے مثلا وہ کہتے ہیں کہ : قصہ معراج میں نبی کریم ﷺ کے لئے سورج کو واپس لایا گیا ۔ غزوہ خندق کے موقع پر بھی نبی کریم ﷺ کے لئے سورج واپس لایا گیا ۔ حضرت علی ؓ کے لئے بھی سورج واپس لایا گیا جب نبی کریم ﷺ علی ؓ کی گود میں سر رکھ کر سو گئے اور حضرت علی ؓ کی نماز قضا ہوگئی تو سورج کو واپس لوٹاکر علی ؓ کو نماز پڑھوائی گئی ۔ رسول اللہ ﷺ کے لئے سورج تقریبا ایک گھنٹہ روک لیا گیا تھا تاکہ آپ کو فتح ہوجائے اور سورج تب غروب ہو۔ ان ساری روایات کو سند کے ساتھ مفسرین نے درج کیا ہے اگرچہ ان کے موضوع اور ضعیف ہونے میں بھی کسی کو کلام نہیں ۔ ظاہر ہے کہ موضوع اور ضعیف روایت کو ثابت کرنے کے لئے دس موضوع اور ضعیف روایات مزید پیش کردی جائیں تو بھی اس کے موضوع اور ضعیف ہونے میں کچھ فرق نہیں پڑتا لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں ایسے ہی بےسروپا قصوں کو قرآن کریم کی آیات مبارکہ کی تفسیر بنا دیا گیا ہے اور چونکہ ان باتوں کو اکابر کی تفاسیر کی سند حاصل ہے اس لئے کون ہے جو ان کو غلط کہنے کی ہمت کرے پھر معجزات کی چادر اتنی وسعت رکھتی ہے کہ اس کے نیچے سب کچھ چھپایا جاسکتا ہے اور جو کچھ اس کے نیچے رکھ دیا گیا ہے اس کو صحیح ہونے کی سند خود بخود مل گئی ہے ۔ معجزہ و کرامت کہہ کر چاہو جو بیان کرتے رہو عام اجازت ہے ، پابندیاں ساری عقل کے لئے ہیں جب عقل سے کام لینا ممنوع قرار پایا تو اب کسی طرح کی کوئی پابندی کیوں ؟ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر جرار کا ‘ وقت کی دوسری قوموں کو اعتراف تھا : قرآن کریم نے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی ایک مہم کا ذکر کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ اس مہم پر نکلنے سے پہلے آپ آپ نے تینوں قسم کی افواج کو باقاعدہ نظم وضبط کے ساتھ چلنے کا حکم دیا اور وہ اس مہم کے لئے جب چلے تو ان کا گزر ایک وادی سے ہوا جو ” وادی نملہ “ کے نام سے معروف تھی ۔ قرآن کریم میں اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : (آیت) ” حَتَّی إِذَا أَتَوْا عَلَی وَادِیْ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یَا أَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْْمَانُ وَجُنُودُہُ وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ (18) فَتَبَسَّمَ ضَاحِکاً مِّن قَوْلِہَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَی وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحاً تَرْضَاہُ وَأَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ (النمل 27 : 18 ‘ 19) ۔ ” یہاں تک جب وہ وادی نمل پر سے گزرے اور ایک نملہ نے کہا ‘ اے نملو ! اپنے اپنے مکانوں میں داخل ہوجاؤ کہیں سلیمان اور اس کا لشکر تم کو کچل نہ دے اور وہ حقیقت حال سے واقف ہی نہ ہوں ۔ سلیمان ” نملہ کی اس بات کو سن کر ہنس پڑے اور دعا فرمائی اے میرے پروردگار مجھے توفیق عطا فرما کہ میں تیری ان نعمتوں کا ہمیشہ شکر گزار رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر فرمائیں اور یہ بھی کہ ہمیشہ نیک کام کروں جو تجھے پسند ہوں اور مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں داخل فرما۔ “ وادالنمل کیا ہے اور کہاں ہے ؟ نمل نملۃ کی جمع ہے نملہ چیونٹی کو بھی کہتے ہیں اور نملہ ایک قوم بھی ہے اور کہا گیا ہے کہ وادی النمل بین جبرین وعسقلان (تاج العروس) وادالنمل جبرین وعسقلان کے درمیان ہے اور قتادہ اور مقاتل سے مروی ہے کہ وہ ارض شام میں ہے اور کعب کہتے ہیں کہ وہ طائف میں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ نواح یمن میں ہے ۔ (راغب) رہی یہ بات کہ یہ وادی چیونٹیوں کے باعث وادالنمل کہلاتی ہے یا قوم نمل کے باعث تو اکثر وبیشتر مفسرین نے یہی کہا ہے کہ وہ چیونٹیوں کے باعث معروف ہے اور قلیل لوگوں نے نمل قوم کی طرف اس کی نسبت کی ہے ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا چیونٹیاں بھی خاص مقامات پر رہتی ہیں تو بلاشبہ کسی خاص مقام پر چیونٹوں کی کثرت پائی جاسکتی ہے لیکن جہاں تک کسی لشکر کے پاؤں تلے ان کے مسل جانے کا تعلق ہے یہ صحیح معلوم نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ اگر وہ کہیں کثرت سے ہوں تو مسلی جاسکتی ہوں اور کم ہو تو مسلی نہ جاسکیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ اس لئے اپنا رجحان یہی ہے یہ اس نملہ قوم ہی کا ذکر ہے جن کی ملکہ نملہ ہوگی جیسے کہ ملکہ سبا کا ذکر بھی سلیمان (علیہ السلام) کے بیان میں آیا ہے ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کسی مہم کے لئے جب اس وادی سے گزرنے والے تھے تو یقینا اس علاقہ کی حکومت آپ کی کوئی معاہد حکومت ہوگی اور آپ نے اپنے گزرنے کی اطلاع بھی ان کو یقینا دی ہوگی کہ ہمارا یہاں سے گزرنا یقینی ہے لیکن آپ کے لوگوں میں کوئی شخص ہمارے لشکر کو دیکھ کر کسی طرح کی مزاحمت نہ کرے اور اس علاقہ کی اس ملکہ نے آپ کا پیغام اپنی قوم کے ہر فرد تک پہنچا دیا ہو اور واپس اطلاع بھی دی ہو کہ آپ بصد شوق گزریں آپ کے لشکر کی مزاحمت نہیں ہوگی بلکہ آپ کے گزرنے کا خیر مقدم کیا جائے گا ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی اطلاع کرنا اور پھر ایسی اطلاع کا جواب بھجوانا اخلاقی اور قانونی بات ہے اور یہی کچھ یہاں ہوا کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ کا پیغام خیر مقدم پاکر خوشی کا اظہار کیا اور اس خوشی سے مسکرائے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اللہ سے دعا فرمائی کہ اے اللہ مجھے اپنے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے کہ ہمارے ارد گرد کی ساری حکومتوں کو ہمارے سامنے تہ زانو کرا دیتے ہیں اور کوئی بھی ہماری مزاحمت نہیں کرتا اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں یہ تیرا خاص فضل و کرم ہے کہ تو نے ہماری حالت پر رحم فرما کر ان ساری ریاستوں کو ہمارا باج گزار اور شکر گزار بنا دیا ہے اور جو لوگ ایک مدت تک ہم پر حکمرانی کرتے رہے آج ہم کو ان پر حکومت کرنے کا موقع عطا فرمایا ہے ۔ گویا آپ نے اس طرح دعا فرما کر بعد میں آنے والے سارے مسلمان بادشاہوں اور حکمرانوں کے لئے ایک ہدایت فرما دی کہ حکومت کا موقع اللہ تعالیٰ عطا فرمائے تو اس کے شکر گزار بندوں کی کی ذمہ داری ہے اور کس طرح ان کو اللہ تعالیٰ کے احسان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ۔ لیکن ہمارے مفسرین نے اس کو کیا سے کیا بنا دیا ایک طرف تو وہ یہ تصریح بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے تخت پر ایک ہزار کمرے بنے ہوئے تھے جو لکڑی کے تختوں کے فرش پر قائم تھے کیونکہ آپ کے پاس تین سو منکوحہ بیبیاں تھیں اور سات سو باندیاں تھیں جو سب الگ الگ رہتی تھیں اور آپ کے تخت کی کوئی انتہا ہی نہ تھی اور سیدنا سلیمان (علیہ السلام) جب تخت پر سوار ہوتے تو سارے لاؤ لشکر کو بھی اور نوکروں کو بھی اور سارے اہل و عیال کو بھی ساتھ سوار کرتے ‘ سالن پکانے کے برتن اور روٹیاں پکانے کے تنور بھی ساتھ ہوتے تھے اتنی بڑی بڑی نو دیگیں بھی تخت پر ہوتی تھیں کہ ایک ایک دیگ میں دس اونٹوں کا گوشت پکایا جاتا تھا اور مویشیوں کے لئے میدان بھی اس تخت پر ہوتی تھیں کہ ایک ایک دیگ میں دس اونٹوں کا گوشت پکایا جاتا تھا اور مویشیوں کے لئے میدان بھی اس تخت پر بنوایا تھا ‘ اثنائے آمد ورفت میں چوپائے آسمان و زمین کے درمیان اپنے میدانوں میں دوڑتے پھرتے تھے اور باورچی کھانا پکانے میں مصروف رہتے تھے اور ہوا ان سب کو لے کر چلتی رہتی تھی اور دوسری طرف یہ کہتے ہیں کہ آپ کے لشکر کے پاؤں کے نیچے چیونٹیوں کے کچل جانے کا امکان تھا اس لئے ایک چیونٹی نے جب لشکر کی آمد دیکھی تو اس نے دوسری ساری چیونٹیوں کو حکم دیا کہ تم فورا اپنے اپنے بلوں میں داخل ہوجاؤ ایسا نہ ہو کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کا لشکر تم کو کچل دے اس شبہ کا ذکر کرتے ہوئے قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کا تخت تو ہوا پر رواں تھا پھر چیونٹیوں کے کچل جانے کا امکان کیسے پیدا ہوا ؟ پھر اس کا ازالہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ممکن ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی کچھ پیادہ اور سوار فوج زمین پر چل رہی ہو جس کی طرف سے چیونٹی کو اندیشہ ہوا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ واقعہ تسخیر ہوا سے پہلے کا ہو ۔ پھر یہ سوال پیدا ہوا کہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے رہتے ہیں اور چیونٹیاں بھی چلتی پھرتی رہتی ہیں لیکن کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ پاؤں کے نیچے چیونٹیاں کچل جائیں ؟ اور یہ کہ آج بھی تجربہ کر کے دیکھا جاسکتا ہے کہ جہاں چیونٹیاں ہوتی ہیں وہاں لوگ بھی چلتے پھرتے ہیں اور کبھی یہ بات دیکھنے میں نہیں آئی کہ چیونٹیاں کچلی جاتی ہیں پھر اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ چیونٹیاں ان چیونٹیوں کی طرح نہ تھیں وہ بہت بڑی بڑی تھیں اتنی بڑی کہ اس وادی میں جن رہتے تھے اور یہ جنوں کی سواری کا کام دیتی تھیں ۔ بعض نے کہا کہ وہ مکھیوں کی طرح تھیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھیڑیوں کی قدوقامت کی تھیں بعض نے کہا نہیں وہ تو بختی اونٹ کے برابر تھیں ۔ (قالت نملۃ) کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ وہ چیونٹی پر دار تھی اور اس کے دو بازو تھے جو بہت بڑے بڑے تھے ‘ بعض نے کہا وہ لنگڑی تھی اور ضحاک نے تو اس کا نام بھی بتایا ہے کہ یہ تو جمع مذکر کا صیغہ ہے اور جمع مؤنث کا صیغہ ہوتا تو ” ادخلن “ ہونا چاہئے تھا پھر اس کا جواب دیا گیا کہ حیوان جب حیوان سے بات کرتے ہیں تو وہ اپنی نظر میں اپنے آپ کو ذی عقل ہی سمجھتے ہیں اور دوسرے اہل عقل کی طرح ہی خطاب کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان میں نر بھی تھے اور مادہ بھی اور جب سب مل جائیں تو جمع مذکر صیغہ استعمال ہوتا ہے ۔ پھر مفسرین اس طرح فرضی سوال و جواب کرتے ہوئے کہیں کے کہیں نکل گئے ہیں اور جو کسی کے جی میں آیا وہ کہا ہے ۔ آج ان عبارات کو پڑھ کر ہنسی آتی ہے کہ یہ قرآن کریم کی تفسیر بیان کی جارہی ہے یا بچوں کو پہیلیاں سنائی جا رہی ہیں ۔ لیکن یہ سب کچھ کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ ایک معجزہ سے دوسرا معجزہ نکالا گیا اور پھر اس طرح وہ معجزہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا پھر معجزانہ رنگ میں جو کچھ بیان کیا جائے عقل کا تو وہاں گزر ہی منع ہے پھر جب کوئی بات عقل سے آزاد ہوگئی جدھر مرضی ہے چلتی رہے اس پر کوئی پابندی ہی نہیں لگائی جاسکتی ۔ نقل ہے کہ جب چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں کو یہ بات کہی تھی تو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے اس کو تین میل کے فاصلہ سے سن لیا تھا اور آپ اس کی یہ بات سن کر ہنس پڑے تھے کیونکہ چیونٹی کی یہ بات بہت ہی خوش کردینے والی تھی کیونکہ چیونٹی نے آپ کو اور آپ کے لشکر کو عادل سمجھا اور یہ بھی کہا گیا کہ آپ کو چیونٹی کی دانش پر ہنسی آئی تھی کہ ایک حقیر سی چیونٹی اپنی قوم کی کتنی خیر خواہ ہے پھر (ضاحکا) کی تفسیر بیان کرتے کرتے کتنی تشریح کردی کہ آپ کتنا ہنسے تھے ، مسکرائے تھے یا ہنسے تھے ؟ ہنسنے سے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے کتنے دانت نظر آئے اور کتنی باچھیں کھلیں ؟ قرآن کریم کی 18 ‘ 19 آیت کو ایک بار مزید پڑھ لیں اور خود غور کریں کہ اس کا مطلب کیا ہو سکتا ہے ؟ اور اس کو کیوں بیان کیا گیا ؟ ہم کو اس سے کیا سبق حاصل ہو سکتا ہے ؟ ” وہ وقت یاد کرو جب سیدنا سلیمان (علیہ السلام) وادی نمل سے گزر رہے تھے اور ایک نملہ نے کہا اے نملو ! اپنے اپنے مکانوں میں داخل ہوجاؤ کہیں سلیمان (علیہ السلام) اور اس کا لشکر تم کو کچل نہ دے اور وہ حقیقت حال سے واقف ہی نہ ہوں ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نملہ کی اس بات کو سن کر ہنس پڑے اور دعا فرمائی اے میرے پروردگار ! مجھے توفیق عطا فرما کہ میں تیری ان نعمتوں کا ہمیشہ شکر گزار رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر فرمائیں اور یہ بھی کہ ہمیشہ نیک کام کیا کروں جو تجھے پسند ہوں یعنی کسی سے زیادہ نہ کروں اور اے اللہ ! مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں داخل فرما۔ “ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے ایک فوجی کی غیر حاضری پر آپ کا عتاب : سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی عسکری تقسیم کے متعلق ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں کہ وہ تین قسم میں منقسم تھے اور تینوں کو آپ نے ہر وقت چوکس وچوکنا رہنے کا حکم دیا تھا جو ہر وقت جہاد کے لئے تیار رہتے تھے اس لئے کہ کسی وقت بھی کسی مہم کا اعلان کیا جاسکتا تھا ۔ چناچہ قرآن کریم نے بھی آپ کے ایک فوجی کی غیر حاضری پر آپ کے عتاب کا ذکر فرمایا ہے چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ : (آیت) ” وَتَفَقَّدَ الطَّیْْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَا أَرَی الْہُدْہُدَ أَمْ کَانَ مِنَ الْغَائِبِیْنَ (20) لَأُعَذِّبَنَّہُ عَذَاباً شَدِیْداً أَوْ لَأَذْبَحَنَّہُ أَوْ لَیَأْتِیَنِّیْ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ (21) فَمَکَثَ غَیْْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہِ وَجِئْتُکَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ یَقِیْنٍ (22) إِنِّیْ وَجَدتُّ امْرَأَۃً تَمْلِکُہُمْ وَأُوتِیَتْ مِن کُلِّ شَیْْء ٍ وَلَہَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ (23) وَجَدتُّہَا وَقَوْمَہَا یَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّہِ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْْطَانُ أَعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَہُمْ لَا یَہْتَدُونَ (24) أَلَّا یَسْجُدُوا لِلَّہِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْء َ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ (25) اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ (26) (س) قَالَ سَنَنظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ کُنتَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ (27) اذْہَب بِّکِتَابِیْ ہَذَا فَأَلْقِہْ إِلَیْْہِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ فَانظُرْ مَاذَا یَرْجِعُونَ (28) قَالَتْ یَا أَیُّہَا المَلَأُ إِنِّیْ أُلْقِیَ إِلَیَّ کِتَابٌ کَرِیْمٌ (29) إِنَّہُ مِن سُلَیْْمَانَ وَإِنَّہُ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ (30) أَلَّا تَعْلُوا عَلَیَّ وَأْتُونِیْ مُسْلِمِیْنَ ( سورة النمل 27 : 20 تا 31) ” اور پھر لشکر طیر کا جائزہ لیا تو (سلیمان علیہ السلام) نے کہا کیا وجہ ہے کہ میں ہد ہد کو نہیں دیکھتا (وہ نظر نہیں آیا) کیا وہ غائب ہے ؟ (اگر ایسی بات ہے) تو میں اسے سخت عذاب دوں گا یا ذبح ہی کر دوں گا یا وہ میرے سامنے اپنی غیر حاضری کا واضح ثبوت پیش کرے (کہ وہ کیوں غیر حاضر ہوا) پھر زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ وہ آگیا ‘ پس اس نے کہا کہ مجھے وہ بات معلوم ہوئی ہے جسے آپ نے (آج تک) نہیں جانا اور میں آپ کے پاس (ملک) سبا کی ایک تحقیقی خبر لے کر حاضر ہوا ہوں ۔ بلاشبہ میں نے وہاں ایک عورت کو پایا کہ وہ ان لوگوں پر حکومت کرتی ہے اور اس کو ہرچیز میسر ہے اور اس کا عظیم الشان تخت بھی ہے ۔ میں نے اس کو اور اس کی قوم کو اللہ کے سوا سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا اور ان کو شیطان نے ان کے اعمال خوشنما کر دکھائے ہیں پس اس نے ان کو سیدھی راہ سے دور کردیا ہے اور وہ راہ ہدایت نہیں پاتے ۔ وہ اللہ ہی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے جو آسمان و زمین میں چھپی ہوئی چیزوں کو ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے یا ظاہر کرتے ہو سب جانتا ہے ۔ اللہ ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے سلیمان نے کہا ‘ اچھا ہم دیکھتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے یہ میرا خط لے جا اور اس کو ان کے پاس ڈال دے پھر ان کے پاس سے ہٹ جا تو دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔ (ملکہ نے) کہا اے سردارو ! میری طرف ایک بڑی بزرگی والا خط ڈالا گیا ہے ۔ بلاشبہ وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور اس میں یہ تحریر ہے کہ شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت ہی پیار کرنے والا ہے ۔ میرے پیغام کے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو اور میرے پاس فرمانبردار ہو کر آجاؤ ۔ “ ان آیات کی تفسیر میں ہمارے مفسرین نے بیان کیا ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں کی تفتیش کرنے کے بعد ہدہد کو غیر حاضر پایا ہدہد کو تلاش کرنے کی وجہ یہ تھی کہ جب حضرت سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کسی منزل پر اترتے تھے تو دھوپ سے بچانے کے لئے پرندے پورے لشکر پر سایہ کرلیتے تھے اور ہدہد اوپر چڑھ کر زمین کو دیکھتا تھا اور زمین کے اندر پانی کی تلاش کرتا تھا اور پانی کا دور یا قریب ہونا معلوم کرتا تھا کیونکہ اس کو زمین کے اندر کی چیزیں اس طرح نظر آتی تھیں جیسے کہ شیشہ کے اندر دکھائی دیتی ہیں پانی جہاں نظر آجاتا وہاں چونچ سے زمین کو کردیدتا تھا پھر جنات پہنچ کر زمین کھود کر پانی پر آمد کرلیا کرتے تھے ۔ (ابن شیبہ ‘ ابن ابی حاتم ‘ عبد بن حمدی ‘ ابن المنذر وحاکم) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سلیمان نے فرمایا کہ کیا وجہ ہے مجھے ہدہد دکھائی نہیں دیتا آپ کو کیسے معلوم ہوا ؟ آپ کو اس طرح معلوم ہوا کہ آپ نے پرندوں کو سایہ فگن ہونے کا حکم دیا لیکن اس کے باوجود دھوپ آپ کے تخت پر دکھائی دی پھر آپ نے پرندوں کی طرف تفتیشی نظر سے دیکھا تو ہدہد کو نہ پایا بہرحال جب آپ نے ہدہد کو غائب پایا تو آپ کو غصہ آگیا اور پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ میں ہدہد کو نہیں پاتا کیا واقعی وہ غائب ہے اور جب معلوم ہوگیا کہ وہ فی الواقع غائب ہے تو آپ نے فرمایا کہ میں اسے عذاب دوں گا تاکہ دوسروں ہدہدوں کو عبرت ہوجائے کہ میں اس کے سارے پر وبال اور دم نوچ کر لوتھڑا بنا کر دھوپ میں ڈال دوں گا کہ کیڑے مکوڑے اور چیونٹیاں اس کو کھا لیں یا اس کو ذبح بھی کروا دوں گا بشرطیکہ وہ میرے پاس کوئی اپنی غیر حاضری کی کھلی دلیل پیش نہ کرسکا ہاں اگر اس نے کوئی غیر حاضری کی معقول وجہ بیان کردی تو معاف بھی کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے بعد زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ہدہد بھی آگیا ۔ ہدہد سے اس کی غیر حاضری کا سبب تو سلیمان (علیہ السلام) نے پوچھا اور اس نے بتا بھی دیا لیکن اس کا ذکر کرنے سے پہلے جو کچھ ہمارے مفسرین کو معلوم ہوا اس کا بیان سن لیا جائے : مفسرین تحریر فرماتے ہیں کہ ہدہد کی غیر حاضری کا سبب علمائے کرام نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت سیدنا سلیمان (علیہ السلام) بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہو کر حرم کعبہ کو چلے گئے اور اللہ کی مشیت جتنی تھی اس کے مطابق وہاں قیام پذیر رہے جب تک مکہ میں روزانہ پانچ ہزار اونٹنیاں ‘ پانچ ہزار بیل اور بیس ہزار مینڈھے ذبح کرتے رہے آپ نے اپنی قوم کے سرداروں سے فرمایا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں سے نبی عربی جن کے اوصاف یہ یہ ہوں گے برآمد ہوں گے ‘ ان کو مخالفین پر فتح یاب کیا جائے گا ۔ ان کا رعب ایک ماہ کی مسافت تک پڑے گا نزدیک اور دور ان کے لئے برابر ہوگا ‘ اللہ کے معاملہ میں وہ کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے ۔ حاضرین نے پوچھا اے اللہ کے نبی ان کا دین کیا ہوگا ‘ فرمایا وہ دین توحید پر چلیں گے خوشی ہو اس کے لئے جو ان کو پالے اور ان پر ایمان لائے ۔ حاضرین نے دریافت کیا کہ ان کی بعثت میں کتنی مدت ہے ؟ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا ایک ہزار سال ۔ حاضرین کو چاہئے کہ وہ ان لوگوں تک بات پہنچا دیں جو یہاں نہیں ہیں اور یہ کہ وہ انبیاء کے سردار اور خاتم المرسلین ہوں گے ۔ حضرت سیدنا سلیمان (علیہ السلام) مکہ میں رہے جب آپ نے حج کرلیا تو مکہ سے نکلے اور صبح کو مکہ سے روانہ ہو کر یمن کی طرف چل دیئے ۔ صنعاء میں زوال کے وقت پہنچ گئے یہ مسافت ایک ماہ کی راہ تھی صنعاء کی زمین کو اور سرسبز پایا آپ نے وہاں اترنے کو پسند کیا تاکہ کھانے اور نماز سے فراغت حاصل کرلیں ہدہد نے سوچا کہ سلیمان تو اترنے میں لگے ہوئے ہیں آسمان کی طرف اڑ کر زمین کی لمبائی چوڑائی دیکھ لوں چناچہ اس نے ایسا ہی کیا اور اوپر جا کر دائیں بائیں نظر دوڑائی تو بلقیس کا ایک باغ نظر آئی ہدہد سبزے کی طرف چل دیا اور باغ میں اتر گیا وہاں ایک اور ہدہد سے ملاقات ہوگئی سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کا ہدہد اس کے پاس اتر کر پہنچ گیا ۔ سلیمان (علیہ السلام) کے ہدہد کا نام یعفود تھا اور یمن کے ہدہد کا نام عنفیر تھا ۔ عنفیر نے یعفود سے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو اور کہاں کا ارادہ ہے ۔ یعفود نے کہا میں اپنے مالک سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ شام سے آیا ہوں ۔ عنفیر نے پوچھا سلیمان کون ہے ؟ یعفود نے کہا وہ جن وانس ‘ شیاطین اور وحشی جانوروں ‘ پرندوں اور ہواؤں کا بادشاہ ہے پھر یعفود نے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو عنفیر نے اس کو بتایا کہ میں اس ملک کا باشندہ ہوں پھر یعفود نے پوچھا اس مالک کا بادشاہ کون ہے ؟ عنفیر نے کہا یہاں کی بادشاہ ایک عورت ہے جس کو بلقیس کہا جاتا ہے ۔ بلاشبہ تمہارے آقا کا ملک بڑا ہے لیکن بلقیس کا ملک بھی کم نہیں ہے ۔ وہ یمن کی ملکہ ہے اس کے زیر حکم بارہ ہزار جنرل ہیں اور ہر جنرل کے ماتحت ایک لاکھ جنگی سپاہی ہیں کیا تو میرے ساتھ چل کر اس کی حکومت دیکھنا چاہتا ہے ، یعفود نے کہا مجھے یہ ڈر ہے کہ نماز کے وقت سلیمان (علیہ السلام) کو پانی کی ضرورت ہوگی اور مجھے تلاش کریں گے عنفیر نے کہا تمہارا مالک اس بات سے خوش ہوگا کہ تم اس کو اس ملکہ کی خبربتاؤ گے یعفور نے عنفیر کے ساتھ بلقیس کو اور اس کی حکومت کو دیکھا اور سلیمان کے پاس عصر کے وقت سے پہلے نہ پہنچ سکا ادھر جب سلیمان اترے پڑے تو اس جگہ پانی نہ تھا نماز کا وقت آگیا اور پانی کی ضرورت ہوئی تو پانی نہیں ملا آپ نے جنات سے ‘ آدمیوں سے اور شیاطین سے پانی کے متعلق دریافت کیا لیکن کسی کو معلوم نہ تھا کہ پانی کہاں ہے پرندوں کی تلاش کی تو ہدہد کو غیر حاضر پایا ۔ پرندوں کے عریف (ناظم) یعنی گدھ کو طلب فرمایا اور ہدہد کے متعلق اس سے پوچھا گدھ نے کہا مجھے معلوم نہیں وہ کہاں ہے میں نے تو اس کو کہیں بھیجا نہیں ہے اس وقت سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کو غصہ آگیا اور ہدہد کے متعلق وہ ارشاد فرمایا جو پیچھے گزر چکا ، پھر آپ نے پرندوں کے سردار عقاب کو بلوایا اور حکم دیا ابھی ہدہد کو پکڑ لاؤ عقاب فورا اڑا اور آسمان کے نیچے ہوا کے ساتھ چسپاں ہوگیا وہاں سے اس کو یہ دنیا ایک پیالہ کی طرح نظر آئی پھر ادھر ادھر نظر دوڑائی تو یمن کی طرف سے ہدہد بھی آتا ہوا دیکھائی دیا ۔ عقاب اس پر ٹوٹ پڑا ۔ ہدہد نے عقاب کو پر توڑ کر اپنی طرف آتا دیکھا تو سمجھ گیا کہ عقاب کا ارادہ میرے متعلق برا ہے ۔ ہدہد نے اسکو قسم دی اور دیکھ پہنچانے کے درپے نہ ہو ۔ عقاب ہدہد کی طرف سے پلٹ گیا اور کہا کم بخت تو مرے ‘ اللہ کے پیغمبر نے تو قسم کھائی ہے کہ وہ تجھے عذاب دیں گے یا ذبح کر ڈالیں گے اس کے بعد دونوں نے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی طرف رخ کیا جب لشکر تک پہنچا تو گدھ اور دوسرے پرندوں نے اسے جالیا اور اس سے کہا ارے آج تو دن بھر کہاں غائب رہا ۔ اللہ کے پیغمبر نے تیرے متعلق یہ یہ کہا تھا ۔ ہدہد نے کہا کیا انہوں نے اپنی قسم میں کوئی شرط بھی لگائی تھی پرندوں نے کہا ہاں ! یہ بھی فرمایا تھا کہ ” اگر وہ میرے پاس کوئی واضح عذرنہ لایا “ ہدہد نے کہا بس تو میں عذاب سے بچ گیا ۔ پھر عقاب اور ہدہد اڑ کر سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچے آپ اس وقت کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے عقاب نے کہا یا نبی اللہ میں اس کو لے آیا ہوں ۔ ہدہد نے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی طرف دیکھ کر اظہار عاجزی کے طور پر اپنے پر لپیٹے اور آپ کے قریب پہنچ گیا ۔ آپ نے اس کو سخت طریقے سے ڈانٹ کر پوچھا کہ تو کہاں تھا ؟ ہدہد نے کہا یا نبی اللہ اس وقت کو یاد کرلیں جب آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ یہ بات سن کر سیدنا سلیمان (علیہ السلام) لرز گئے اور ہدہد سے غیر حاضری کی وجہ پوچھی تو ہدہد نے کہا کہ جناب عالی ! میں ایسی بات پوری پوری معلوم کر کے آیا ہوں جو آپ کو ابھی تک معلوم نہیں ہے اور پھر اس نے وہ ساری معلومات بیان کردیں جن کا ذکر آپ پیچھے قرآن کریم کی آیات میں پڑھ آئے ۔ گویا ملکہ سبا ‘ اس کا تخت ‘ اس کے اعوان وانصار ‘ اس کا نظام سلطنت اور اس کے مشرک ہونے اور سورج کی پرستش کرنے کا سارا بیان سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے تفصیل سے پیش کردیا ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے ہدہد کی بات نہایت غور سے سنی اور بہت خوش ہوئے اور آپ کا سارا غصہ کافور ہوگیا اور ہدہد کو معاف کرتے ہوئے یوں مخاطب ہوئے کہ ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹوں سے ہے ۔ تیری یہ بات معلوم کرنے کے لئے ہم ایک خط لکھ کردیتے ہیں یہ ملکہ کی طرف لے جا اور اس کی طرف ڈال دے پھر دیکھ کہ ملکہ اس کا کیا جواب دیتی ہے اس طرح تیرا بھی معلوم ہوجائے گا اور تیری بتائی ہوئی ملکہ کا بھی ۔ ہدہد آپ کا خط لے کر ملکہ کے پاس گیا اس وقت ملکہ صنعاء سے تین منزل پر مقام مآرب میں تھی ۔ ہدہد ملکہ کے قصر میں پہنچا اور چلتے چلتے ملکہ کے قریب پہنچ گیا ۔ بلقیس چٹ لیٹی سو رہی تھی ۔ ہدہد نے خاموشی سے خط اس کے سینہ پر رکھ دیا ۔ (عبد بن حمید ‘ ابن المنذر ‘ ابن ابی حاتم ‘ عن قتادہ) لیکن وہب بن منبہ ؓ اور ابن زید کا بیان ہے کہ سورج کے رخ پر ایک روشن دان تھا اور سورج سامنے سے نکلتا تھا اور جونہی ملکہ اس روشن دان کی طرف دیکھتی اور سورج نظر آتا تو فورا اس کو سجدہ کرتی تھی ہدہد اس دریچہ میں گھس گیا اور دونوں بازو پھیلا کر اس دریچہ کو بند کردیا سورج جب اونچا ہوا تو ملکہ کو نظر نہ آیا کیونکہ وہ دریچہ تو مکمل طور پر بند تھا ۔ آخر ملکہ اٹھی اور سورج کی طرف اس دریچہ کو دیکھنے لگی تو ہدہد نے فورا وہ خط اس کی طرف ڈال دیا ۔ بلقیس نے خط پڑھا تو لرز گئی کیونکہ حکومت سلیمان کا نقشہ اس پر مکمل طور پر موجود تھا وہ سمجھ گئی کہ یہ خط جس کی طرف سے آیا ہے وہ مجھ سے بہت بڑا حکمران ہے ۔ ازیں بعد وہ اپنے تخت پر بیٹھی اور اپنی قوم کے سرداروں کو جمع کیا جن کی تعداد کا ذکر پیچھے گزر چکا اور ان کو کہا کہ اے سردارو ! میرے پاس ایک معزز خط ڈالا گیا ہے وہ سلیمان (علیہ السلام) کی طرف سے لکھا گیا ہے اور اس کے شروع میں تحریر ہے ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “۔ کہ اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت ہی پیار کرنے والا ہے ۔ کہ سمجھ لو اور میرے سامنے غرور نہ کرو بلکہ اطاعت گزار ہو کر میرے پاس آجاؤ ۔ ہم نے قرآن کریم کی آیات کریمات ‘ ان کا ترجمہ اور ان کی تفسیر جو معتبر تفسیر بیان کی جاتی ہے اور جس تفسیر کی نسبت سلف صالحین اور اکابر مفسرین کی طرف بیان ہوتی ہے نقل کردیا ہے اور اس پر اپنے خیالات کا اظہار مختصر الفاظ میں اس طرح کرسکتے ہیں کہ یہ ہدہد نامی آپ کے لشکر طیر کا ایک فوجی ہے جس لشکر کا کام جاسوسی اور دوسرے ممالک کے حالات کی اطلاع اپنی حکومت تک پہنچانا ہے اور چونکہ پریڈ کے موقع پر سب لشکریوں کا حاضر ہونا ضروری تھا ۔ وہ سب حاضر ہوئے لیکن ان میں کا یہ ایک نوجوان جس کا نام ہدہد تھا موجود نہ تھا اس کی غیر حاضری پر آپ کو غصہ آنا لازم وضروری تھا کہ نہ کسی طرح کی اطلاع ‘ نہ درخواست اور نہ حاضری آخر کیوں ؟ لیکن اس کے باوجود آپ کی فراست نے یہ کام کیا کہ ممکن ہے کہ وہ ایسا معذور ہو کہ نہ اطلاع دے سکا اور نہ حاضری لہذا اگر کوئی معقول وجہ ہوئی تو اس کو چھوڑا بھی جاسکتا ہے ورنہ اس کو سخت سزا دی جائے گی اور عین ممکن ہے کہ اگر وہ سزا کا مستحق وجہ ہوئی تو اس کو ذبح ہی کر دیاجائے جو کسی فوجی کو اسی وقت دی جاسکتی ہے جب وہ اپنی حکومت کا باغی قرار پائے ۔ لیکن ہدہد باغی نہیں تھا بلکہ اپنے فرض منصبی میں مشغول تھا اور اس فرض کی ادائیگی میں وہ اس قدر لیٹ ہوگیا اور وقت پر حاضری نہ دے سکا ۔ جب وہ واپس آیا تو ظاہر ہے کہ ایک سپاہی کمانڈر انچیف کے پاس براہ راست نہیں بلکہ باضابطہ طور پر ہی پیش کیا جانا چاہئے تھا لہذا وہ باضابطہ طور پر سیدنا سلیمان (علیہ السلام) تک پہنچایا گیا ۔ جب وہ آپ کے پاس پہنچا تو اس نے اپنا عذر بیان کیا اور نہایت تفصیل سے بیان کیا سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی یہ بات سن کر بجائے اس کے کہ کسی دوسرے سے اس کی تحقیق کراتے اس کو اپنا خط دے کر روانہ کردیا جس سے اس کے بیان کی صداقت بھی معلوم ہوگئی اور ایک ایسے ملک کے لئے دعوت اسلام کا انتظام بھی جس سے آج تک آپ کے روابط قائم نہیں تھے اور نہ ہی آپ کے علم میں یہ بات تھی کہ اپنی مملکت کے اتنے قریب ہی میں ایک علاقہ ایسا بھی موجود ہے جہاں ابھی تک آپ کی تعلیمات کی پرچھائیاں نہیں پڑیں ۔ اس طرح معلوم ہوگیا کہ ہدہد کی غیر حاضری فضول قسم کی غیر حاضری نہیں تھی بلکہ اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں حالات کی نزاکت کے تحت اس کا لیٹ ہوجانا تھا جو قابل قبول ہوا اور وہ سزا پانے کی بجائے انعام کا مستحق ٹھہرا۔ ہدہد کی اتنی لمبی تقریر جو قرآن کریم نے نقل فرمائی اس سے یہ بات ثابت کرنا ہے کہ جس ملک کے ایک ادنی سے فوجی کی توحید ‘ خدا پرستی اور عقیدہ کی پختگی کا یہ عالم تھا وہاں اس حکومت کے حکمران اور اس کے اعوان وانصار کی توحید ‘ خدا پرستی اور عقیدہ کا کیا عالم ہوگا ؟ اور یہ بھی کہ جس ملک کے افواج کے عقائد اس طرح مضبوط ہوں اس ملک کو شکست دینا ‘ اس پر حملہ کرنا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہوگا اس پر کوئی ہاتھ ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہوگا کیونکہ عقائد ہی دین کی اصل اور جڑ ہوتے ہیں عقیدہ توحید کے پختہ انسانوں کو دنیا کی کوئی طاقت سر نہیں کرسکتی۔ بلاشبہ عقائد کی کمزوریوں کی اصل جڑ ہے ۔ آپ دنیا کی اقوام کا مطالعہ اس نقطہ نگاہ کو پیش نظر کر کے دیکھیں تو ساری بات آپ پر روشن ہوجائے گی ۔ بہرحال میں نے اپنا نقطہ نظر آپ کے سامنے پیش کردیا ہے کہ ہدہد کون تھا ؟ کیسا تھا ؟ اور اس کا کام کیا تھا ؟ آپ اس کو پرندہ سمجھیں یا ایک انسان آپ کی مرضی ہے تاہم جو سوالات مفسرین کرام کی تفسیر پر کئے جاسکتے ہیں ان کو میں عمدا ذکر نہیں کر رہا کہ میں بحث کو طول دنیا نہیں چاہتا اور جو قارئین کا فرض ہے اس کو اپنے ذمہ لینے کے لئے تیار نہیں لیکن اتنی بات کہنے پر مجبور ہوں کہ جو تقریر سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے اس ہدہد نے کی ہے اور جس طرح توحید الہی کا کھل کر بیان دیا ہے وہ ہمارے بڑے بڑے حضرت العلام بھی فی البدیہہ پیش کرنے سے قاصر ہیں اس لئے اگر آپ کو تسلیم ہے کہ ان ہمارے سارے علامہ حضرات کو وہ درجہ بھی حاصل نہیں جو ایک ہدہد جانور کو ہے تو یہ بھی آپ کی مرضی پر ہے میں تو بہرحال ان سارے علامہ حضرات کا احترام کرتے ہوئے ان کے مقام کو سارے پرندوں جہی سے نہیں بلکہ اکثر انسانوں سے بھی بڑا سمجھتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم کی دولت سے مالا مال کیا ہے اور ان سب سے زیادہ عالم اور زیادہ توحید پرست اور زیادہ مقرر اس فوجی افسر کو سمجھتا ہوں جو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی افواج کا ایک سپاہی تھا کہ اتنا بڑا عالم ہونے کے باوجود وہ اپنی معاشی ضرورتوں کے پیش نظر ملازمت کرکے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرتا تھا اور اس میں کسی طرح کی سبکی محسوس نہیں کرتا تھا پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے فرائض منصبی کا اس قدر پابند تھا کہ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے فرض منصبی کو پورا کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی وساطت سے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت کو چار چاند لگا دیئے تھے اور اس کا درجہ دین و دنیا میں زیادہ بلند کردیا تھا جس کو ہزاروں سال گزرنے کے باوجود آج بھی ہم شاباش اور تحسین پیش کرنے پر مجبور ہیں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ اے اللہ کوئی ایک ہدہد ہم کو اس ملک پاکستان کے لئے بھی عطا فرما دے ۔ اے اللہ ہماری دعا قبول فرما۔ ملک سبا اور سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کا واقعہ قرآن کریم میں : قرآن کریم نے ملکہ سبا اور سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کا ایک واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو اپنے تفصیلی اور جزئی واقعات کے لحاظ سے بہت دلچسپ ہے اور نتائج کے لحاظ سے بہت اہم تاریخی واقعہ ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے یہ واقعہ ہدہد کی کوششوں کا نتیجہ ہے اور ہدہد کے خط لے جانے تک کا واقعہ آپ پیچھے پڑھ بھی چکے ہیں ۔ ملکہ سبا نے خط کی عبارت پڑھ کر کہا : ” اے میرے ارکان دولت ! تم جانتے ہو کہ میں اہم معاملات میں تمہارے مشورے کے بغیر کبھی کوئی اقدام نہیں کرتی اس لئے اب تم مشورہ دو کہ مجھ کو کیا کرنا چاہئے ؟ ارکان دولت نے کہا کہ جہاں تک مرعوب ہونے کا تعلق ہے تو اس کی قطعا ضرورت نہیں کیونکہ ہم زبردست طاقت اور جنگی قوت کے مالک ہیں ‘ رہا مشورہ کا معاملہ تو فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے جو مناسب ہے اس کے لئے حکم کیجئے ۔ ملکہ نے کہا کہ بلاشبہ ہم طاقتور اور صاحب شان و شوکت ہیں لیکن سلیمان (علیہ السلام) کے معاملہ میں ہم کو عجلت نہیں کرنی چاہئے پہلے ہم کو اس کی قوت و طاقت کا اندازہ کرنا ضروری ہے کیونکہ جب عجیب طریقہ سے اچانک ہم تک یہ پیغام پہنچا ہے وہ اس کا سبق دیتا ہے کہ سلیمان کے معاملہ میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا مناسب ہے ، میرا ارادہ یہ ہے کہ میں اپنے چند قاصد روانہ کرو اور وہ سلیمان کے لئے عمدہ اور بیش بہا تحائف لے جائیں اور وہ اس طریقہ سے اس کی شان و شوکت اور عظمت و شوکت اور عظمت وبڑائی کا مالک اور شہنشاہ ہے تو پھر اس سے ہمارا لڑنا فضول ہے اس لئے کہ صاحب طاقت اور صاحب عظمت بادشاہوں کا یہ دستور ہے کہ جب وہ کسی بستی میں فاتحانہ انداز اور غلبہ کے ساتھ داخل ہوتے ہیں تو اس شہر کو تباہ وبرباد اور باعزت شہریوں کو ذلیل و خوار کردیتے ہیں اس لئے ہم کو بےوجہ بربادی مول نہیں لینا چاہئے ۔ اس طرح مشورہ کے ساتھ ملک سبا نے اپنے ایلچی اور قاصد بہت سے قیمتی تحائف دے کر سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں روانہ کئے ، جب وہ قاصد یہ سب کچھ لے کر سلیمان کی خدمت میں پہنچے اور سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں وہ سب کچھ پیش کیا تو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم نے اور تمہاری ملکہ نے میرے پیغام کا مقصد غلط سمجھا کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ان ہدایا کے ذریعہ جن کو تم نے بیش بہا سمجھ کر ہمارے ہاں پیش کیا ہے کہ میں ان کو دیکھ کر خوش ہوجاؤں اور جس مقصد کے لئے میں نے خط روانہ کیا ہے اس کو حاصل کرنے کی بجائے تمہارے یہ تحائف قبول کرلوں تو یہ تمہاری بھول ہے میں کبھی ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں اور تم مجھے اس طرح میرے مقصد سے دور نہیں کرسکتے اور تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مجھے دے رکھا ہے وہ بہت کچھ ہے مجھے آپ کے ان تحائف کی قطعا ضرورت نہیں اس لئے تم اپنے یہ سارے تحائف واپس لے جاؤ اور اپنی ملکہ سے کہو کہ اگر اس نے میرے پیغام کی صحیح تعمیل نہ کی تو میں ایک عظیم الشان لشکر کے ساتھ ملک سبا تک پہنچوں گا اور تم یقینا میرے لشکر کا مقابلہ کرنے سے عاجز آجاؤ گے کیونکہ ہم اپنے علاقے کے بالکل قریب شرک اور کفر کا یہ دور دورہ برداشت نہیں کرسکتے ہم اس ملک کو یقینا اب توحید الہی کا سبق سکھائیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم ذلیل و خوار ہو کر اس شہر اور ملک سے نکلو گے یا توحید الہی کو قبول کرو گے دو باتوں میں سے ایک لازما ہوگی ، قاصدوں نے آپ کی یہ بات سن کر اسی میں خیر چاہی اور اپنے سارے تحفے تحائف لے کر واپس چلے گئے ۔ قاصدوں نے واپس جا کر ملکہ سبا کے سامنے تمام روئیداد رکھ دی اور سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی شان و شوکت اور عظمت وبڑائی کا جو مشاہدہ کیا تھا من وعن بیان کردیا اور حرف حرف کہہ سنایا اور اس کو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے تینوں لشکروں کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا اور کوئی بات پوشیدہ نہ رہنے دی تاکہ کل حالات جو کچھ بھی ہوں ان پر کوئی اعتراض نہ آئے کہ انہوں نے حالات کا صحیح تجزیہ کرکے اپنی حکومت کو رپورٹ نہیں دی ۔ ملکہ نے یہ سب کچھ سنا تو اپنے خیال میں یہ طے کرلیا ایسے حکمران سے لڑنا اپنی ہلاکت کو خود اپنے ہاتھوں دعوت دینا ہے بہتر یہی ہے کہ اس کی دعوت پر لبیک کہا جائے ۔ آپ نے پیچھے پڑھ لیا کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے خط میں یہ بات تحریر تھی (واتونی مسلمین) کہ ” تم مسلمان ہو کر میرے ہاں حاضر ہوجاؤ “ اور آپ کا مقصد یہ تھا کہ وہ یہاں آئیں گے تو تبادلہ خیال سے ساری بات واضح ہوجائے گی اور مقصد بھی آپ کا اس حکومت پر قبضہ کرنا نہیں تھا بلکہ ان کو توحید الہی کا پیغام پہنچانا تھا اور اس کے لئے ان کو بلانا ہی زیادہ مفید مطلب تھا ۔ ملکہ سباء نے جب اپنے قاصدوں سے حالات سنے تو فورا اپنا پیغام سیدنا سلیمان (علیہ السلام) تک پہنچا دیا کہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے تیار ہیں اور فلاں تاریخ تک ہم آپ کے پاس ہوں گے ، قرآن کریم نے اس تفصیل کا ذکر نہیں کیا اور ضرورت بھی نہ تھی کہ اس کا ذکر کیا جاتا ۔ جب سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کو اطلاع موصول ہوئی کہ ملکہ سبا فلاں تاریخ تک آرہی ہے تو انہوں نے فورا اپنے دربار کے ماہرین کو بلایا اور ان سے سارا واقعہ بیان کردیا اور ان کو بتایا کہ ملک سبا کو اپنے تخت پر بہت ناز ہے جیسا کہ پہلی ہی رپورٹ میں ہدہد نے اطلاع دی تھی اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ اس کی آمد تک اس کے لئے ایک ایسا تخت تیار کردیا جائے جو کسی حال میں بھی اس کے تخت سے کم نہ ہو بلکہ وہ اس کے مقابلہ میں انیس ہونے کی بجائے اکیس ہو ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی یہ بات سن کر آپ کے لشکر شیاطین کا ایک ماہر کاریگر اٹھا اور اس نے کہا کہ جناب عالی ! میں آپ کو ایسا تخت آپ کے دربار کی اس دن کی مکمل تیاری سے پہلے پہنچا دوں گا جو دن آپ نے بتایا ہے کہ ملکہ فلاں دن کو حاضر ہو رہی ہے اور میں یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کے حکم کے مطابق وہ تخت اس کے تخت سے انیس نہیں بلکہ اکیس ہی ہوگا ۔ لیکن اس کا تعلق جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا اس لشکر سے تھا جو بنی اسرائیل کا قومی لشکر نہیں تھا ۔ اس کی بات سن کر ایک ایسا درباری اٹھا جس کا تعلق قومی لحاظ سے بھی قوم بنی اسرائیل ہی سے تھا اور وہ ملکہ کے اس تخت سے پوری واقفیت بھی رکھتا تھا اگرچہ وہ ہدہد ہی کے بتانے یا سمجھانے سے رکھتا تھا یا دوسرے آنے جانے والوں میں سے تھا جو پیغام رسانی کا کام سرانجام دیتے رہے اور دونوں حکومتوں کے درمیان آتے جاتے رہے ۔ اس نے اس پہلے تخت لانے والے کے بیان کے بعد اپنا بیان اس طرح دیا کہ میرے پاس تحریر موجود ہے جس میں اس تخت کی پوری تفصیل موجود ہے لہذا میں ایسے تخت کو جیسا کہ درکار ہے اس سے بھی پہلے پیش کر دوں گا جب آپ کی نظر دوبارہ اس کام کی طرف آئے گی کہ اب ملکہ کے استقبال کی تیاری مکمل ہوچکی ہے یا ابھی کچھ کام باقی ہے ۔ آپ نے اس شخص کو تخت بنانے کا حکم دے دیا جس نے ملکہ سبا کے تخت کی تفصیل اپنے پاس ہونے کا ذکر کیا تھا ۔ چناچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ اس شخص نے کہا تھا کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی نظر جب دوبارہ ان معاملات کی طرف متوجہ ہوئی جس میں ملکہ کے آنے کے استقبال کا وقت طے تھا تو آپ کو پہلے ہی اطلاع دے دی گئی ، تخت حاضر خدمت ہے ملکہ کے آنے سے پہلے آپ خود ملاحظہ فرما لیں اور جہاں چاہتے ہیں اس کو رکھوا لیں ۔ تخت کو آپ نے ملاحظہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس اللہ کا کتنا احسان ہے کہ اس نے ہم کو اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ اتنی قلیل مدت میں ہم ایسا انتظام کرسکے اور پھر مزید ارشاد فرمایا کہ یہ گویا اللہ تعالیٰ کی آزمائش بھی ہے کہ آیا یہ سب کچھ ملنے پر ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں یا اپنا کمال سمجھ کر اس کی ناشکری کرتے ہیں ۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ پر حق اور سچ ہے کہ جو شخص ایسے انعامات کو حاصل کرکے اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اس کا اپنا فائدہ ہے اور جو ناشکری کرتے ہوئے شکر الہی ادا کرنے سے بےنیاز ہوتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے اللہ تعالیٰ تو اس سے بےنیاز ہے کہ کون کیا کرتا ہے ؟ گویا آپ فرما رہے ہیں کہ کوئی شخص اللہ کا شکر ادا کرکے اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ نہیں کرتا اور کوئی ناشکری کرکے اس کا نقصان نہیں کرتا کیونکہ وہ نفع ونقصان سے پاک ہے ۔ اس تخت کو جب آپ نے دیکھا تو بعض چیزیں اس میں ایسی نظر آئیں جو اسلامی نقطہ نگاہ سے آپ کو درست معلوم نہ ہوئیں ۔ آپ نے ان کو بدلنے کا حکم دیا اور تاکید کی کہ اس کو اس طرح بدل دیا جائے کہ اس کا ظاہری حسن بھی پہلے سے دوبالا ہو اور یہ چیزیں بھی اس میں نہ رہیں کیونکہ ہم کو تخت درکار ہے جو اس کے تخت سے بہتر ہو یہ درکار نہیں کہ بالکل اس کے نقشہ کے مطابق ہو ۔ اگر وہ سمجھ دار ہوگی تو اس تخت کو دیکھتے ہی وہ سمجھ جائے گی کہ اس تخت میں اس کے اپنے تخت میں جو فرق رکھا گیا ہے وہ محض اس لئے ہے کہ اسلام کے اندر ان چیزوں کی ممانعت ہے اور ممنوع چیز کے نزدیک مسلمان نہیں جاتا وہ اگر اس اشارہ سے وہ بات جو ہم سمجھانا چاہتے نہ سمجھ سکی تو بھی بات واضح ہوجائے گی کہ وہ کتنے علم اور کتنی صلاحیت کی مالک ہے کیونکہ یہ مثل عام ہے کہ ” عاقل راء اشارہ کافی است۔ “ قرآن کریم نے (نکروا لھا عرشھا) کے الفاظ بول کر اس طرح اشارہ کردیا کہ جو عرش تیار ہوا تھا وہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ نقشہ میں دکھایا گیا تھا لیکن آپ نے حکم دیا کہ اس کے اس عرش میں یہ یہ تبدیلی کر دو ۔ مفسرین نے وضاحت کی ہے کہ اس عرش میں ایسی تصویریں تھیں جو ایک اسلام پسند انسان کو کبھی پسند نہیں آسکتیں تھیں لہذا ان کو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے بدل دیا گیا تاکہ ایک طرف ملکہ کا امتحان ہوجائے اور دوسری طرف اسلام کی ناپسندیدہ چیز بھی اس میں موجود نہ رہے ۔ ملکہ سبا اپنے پروگرام کے مطابق مقررہ تاریخ کو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچ گئی اور آپ نے بھی آنے والوں کا خوب استقبال کیا اور استقبال کرنے ہی میں دراصل ان پر ساری بات واضح کردی کہ جس شان و شوکت کے وہ مالک ہیں اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر سیدنا سلیمان (علیہ السلام) عظمت وبڑائی کے مالک ہیں اگرچہ وہ اس عظمت پر کوئی نازونخرہ نہیں کرتے اور نہ ہی ان چیزوں کا اظہار کرنا وہ پسند ہی کرتے ہیں ۔ استقبال کے بعد جب اس کو بٹھانے کا وقت آیا تو اس کو اس تخت کے پاس لے جایا گیا جو اس کی خاطر بنوایا گیا تھا اور اس سے بھی زیاہد خوبصورت اور زیادہ قیمتی تھا جس پر وہ ناز کیا کرتی تھی اور بٹھاتے وقت اس کو تلمیحا کہا گیا کہ (اھکذا عرشک) ” کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے ؟ “ اس نے بھی یقینا مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ (کانہ ھو) ” یہ تو گویا بالکل ویسا ہی ہے “ اس طرح تلمیح کی تلمیح بھی ہوگئی اور ملکہ سبا کو سلطنت سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی طاقت وقوت کا اندازہ بھی ہوگیا اور اس طرح دونوں طرف سے کچھ کہا بھی نہ گیا اور سب کچھ بتا بھی دیا اور اس کا جواب بھی حاصل کرلیا ایسے ہی مواقع پر قرآن کریم یہ زبان استعمال کرتا ہے کہ (آیت) ” ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشآئ “۔ اس طرح آنکھوں ہی آنکھوں میں سب کچھ کہہ سن لینے کے بعد ملکہ سبا نے یہ بھی کہہ دیا کہ مجھ کو آپ کی بےنظیری اور عدیم المثال قوت و طاقت کا پہلے سے علم ہوچکا ہے اس لئے میں مطیع وفرمانبردار بن کر حاضر خدمت ہوئی ہوں اور بلاشبہ آپ کے اس تخت کا یہ محیرالعقول معاملہ تو آپ کی لاثانی طاقت اور دینی حیثیت کی جیتی جاگتی تصویر ہے اور ہماری اطاعت ونقیاد کے لئے واضح اور کھلی دلیل ہے اس لئے ہم پھر ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں اظہار وفاداری اور فرمانبرداری کرتے ہیں اور اسی طرح آپ کے دین وملت کو بھی قبول کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی یہی خواہش و ضرورت تھی اور وہ بحمد اللہ پوری ہوگئی اور اس طریقہ سے پوری ہوئی کہ اس کے لئے آپ کو ذرا بھر بھی تکلیف برداشت کرنا نہیں پڑی ۔ (آیت نمبر 83 کی تفسیر ملاحظہ آیت 85 کے ذیل میں)
Top