Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 85
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِ١ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ
وَاِسْمٰعِيْلَ : اور اسمعیل وَاِدْرِيْسَ : اور ادریس وَذَا الْكِفْلِ : اور ذوالکفل كُلٌّ : یہ سب مِّنَ : سے الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور (اِس طرح) اسماعیل ، ادریس اور ذوالکفل (علیہم السلام) سب (راہِ حق میں) صبر کرنے والے تھے
آیت نمبر 83 کی تفسیر : سیدنا ایوب (علیہ السلام) کے دکھ اور آپ کے دکھ کو دور کرنے کا ذکر : 83۔ سیدنا ایوب (علیہ السلام) بھی اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے ایک نبی تھے جن کا تعلق بھی سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی ذریت سے تھا سیدنا ایوب (علیہ السلام) کے متعلق علمائے یہود ونصاری میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے اور ان میں سے بعض نے ” ایوب “ (علیہ السلام) کے نام کو بھی ایک فرضی نام بیان کیا ہے لیکن قرآن کریم نے ان کے نبی ہونے کا اقرار کیا ہے جیسا کہ زیر نظر آیت میں ان کا ذکر آیا ہے ۔ اسرائیلی روایات میں سیدنا ایوب (علیہ السلام) کے مرض کے متعلق مبالغہ آمیز روایات درج ہیں اور ان میں سے ایسے امراض کا انتساب کیا گیا ہے جو باعث نفرت سمجھے جاتے ہیں اور جن کی وجہ سے مریض انسان سے بچنا ضروری سمجھا جاتا ہے جیسے جذام اور پھوڑے پھنسیوں کا اس حد تک پہنچ جانا کہ بدن گل سڑ جائے اور بدبو سے نفرت پیدا ہونے لگے ۔ ان روایات کو نقل کرنے کے بعد مفسرین نے یہ اشکال پیدا کیا کہ ” نبی “ کو ایسا مرض لاحق نہیں ہوتا جو انسانوں کی نگاہوں میں باعث نفرت ہو اور اس کی وجہ سے وہ مریض سے دور بھاگتے ہوں اس لئے کہ یہ نبوت کے مقصد تبلیغ و ارشاد کے منافی ہے اور رشد وہدایت کے لئے رکاوٹ کا باعث اور پھر اس کے دو جواب دیئے ایک یہ کہ شاید سیدنا ایوب (علیہ السلام) کو یہ مرض نبوت سے پہلے لاحق ہوا ہو اور مصیبت وآزمائش پر صبر وشکر کے بعد جب ان کو شفا عطا ہوئی تب منصب نبوت سے سرفراز کیا گیا ہو اور دوسرا جواب یہ ہے کہ اسرائیلی روایات غیر مستند اور مبالغہ آمیز ہیں اور قرآن کریم اور احادیث رسول اللہ ﷺ میں اس کے متعلق کوئی تفصیل موجود نہیں لہذا نہ اس طرح کوئی اشکال پیدا ہوتا ہے اور نہ اس کے جواب کی ضرورت باقی رہتی ہے ۔ محققین کی رائے یہی ہے اور یہی صحیح اور درست ہے اور جب کہ قرآن کریم نے مرض کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی اور تمام ذخیرہ حدیث اس کے ذکر سے خالی ہے تو اسرائیلی روایات پر بحث قائم کرنا فضول اور لغو ہے ۔ زیر نظر آیت میں سیدنا ایوب (علیہ السلام) کی اس دعا کا ذکر ہے جو کسی تکلیف میں مبتلا ہونے کے بعد آپ نے اللہ تعالیٰ سے مانگی تھی لیکن اس جگہ آپ کی تکلیف کا کوئی ذکر قرآن کریم میں نہیں کیا گیا کہ وہ تکلیف روحانی تھی یا بدنی یعنی وہ کسی بیماری کے باعث تھی یا دشمنان دین کی طرف سے آپ کو کوئی تکلیف پہنچائی گئی تھی جس طرح دوسری قوموں نے اپنے رسولوں کو مختلف طرح کی تکالیف میں مبتلا کرنے کی کوشش کی ۔ بہرحال انہوں نے رب ذوالجلال والاکرام سے دعا مانگی کہ ” اے اللہ مجھ کو تکلیف پہنچ رہی ہے اور تو ہے جو سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے ۔ “ تیرے سوا کوئی نہیں جو میری تکلیف کو دور کرسکتا ہے ‘ اے اللہ میری تکلیف کو دور فرما۔ ارشاد ہوا کہ ہم نے اس کی دعا سن لی اور اس کو قبولیت کا شرف بخشا : 84۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ایوب (علیہ السلام) کی دعا کو سنا اور قبول فرمایا یعنی ان کی تکلیف کو دور کردیا اور اہل و عیال کی عطا کا جو ذکر آیا ہے اس کا مطلب کیا ہے ؟ یہی کہ آپ کے اہل و عیال جو منتشر ہوگئے تھے ان کو دوبارہ ان کے پاس جمع کردیا اور مزید اولاد بھی عطا کی اور بہت سا مال ومنال بھی دیا اور اس طرح سیدنا ایوب (علیہ السلام) کے ذکر سے ہم کو یہ سبق دیا کہ زندگی میں انسان کے لئے مشکل سے مشکل وقت بھی آسکتا ہے لیکن جب کوئی مشکل وقت آجائے تو کیا کرنا چاہئے ؟ وہی جو کچھ سیدنا ایوب (علیہ السلام) نے کیا یعنی ” صبر “ اور بندہ جب صحیح معنوں میں صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے صبر کا صلہ بھی عطا کرتا ہے دیکھو سیدنا ایوب (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی آزمائش کے وقت صبر سے کام لیا تو ان کو کیسا صلہ عطا فرمایا کہ ان کی ساری پریشانی دور فرما کر ان کو پہلے سے بھی زیادہ خوشحال کردیا اور ان کو اولاد در اولاد عطا کی بلاشبہ اس میں اہل عبادت کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں ۔ سیدنا ایوب (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت : قرآن کریم میں سیدنا ایوب (علیہ السلام) کا ذکر چار سورتوں میں کیا گیا ہے لیکن بالکل مختصر ۔ سورة النساء ‘ الانعام ‘ الانبیاء اور ص میں پھر النساء اور الانعام میں تو محض انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ناموں میں بطور نام ہی ذکر کیا گیا اور الانبیاء اور ص میں مجمل سا تذکرہ ہے جس میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ان پر آزمائش وامتحان کا ایک وقت آیا جو بہت ہی سخت تھا مگر وہ صبر وشکر کے ماسوا حرف شکایت تک زبان پر نہیں لائے ، ہاں اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش کی طلب کی وہ بھی شکایتا نہیں اور آخر کار ان کو رحمت الہی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور مصائب کے بادل چھٹ گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو فضل وعطا سے مال مالا کردیا ۔ لیکن جس طرح سارے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے متعلق بنی اسرائیل نے کہانیاں وضع کر کے ان کے ناموں کے ساتھ منسوب کردیں اس طرح اسرائیلیات میں آپ کے نام کے ساتھ بھی بہت سی باتیں لگائی گئیں اور آہستہ آہستہ ان میں اضافہ پر اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ پھر وہیں وہ باتیں ساری نہ سہی لیکن کافی حد تک ہمارے ہاں بھی گھس آئیں اور ہمارے مفسرین نے ان کو خواہ حکایتا ہی درج کیا ہو بہرحال درج ہوتی چلی آرہی تھیں لیکن اب وہ حکایت کے طور پر نہیں حقیقت کے طور پر سمجھ لی گئیں جو زبان زد خاص وعام ہیں ۔ جیسا کہ پیچھے سے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے مختصر حالات زندگی باقاعدہ طور پر تحریر ہوتے چلے آ رہے ہیں ہم چاہتے کہ سیدنا ایوب (علیہ السلام) کا تذکرہ بھی اسی طور پر کردیا جایا تاکہ اس پاک ومنزہ ہستی کا تعارف بھی ہم کو حاصل ہوجائے ۔ آپ کے نام اور زمانہ متعین کرنے میں بہت بحث کی گئی ہے اور مختلف اقوال درج کئے گئے ہیں ہم تفصیل میں گئے بغیر وہ بات عرض کریں گے جو ہمارے نزدیک تاریخی طور پر صحیح ہے ۔ سیدنا ایوب (علیہ السلام) نسل ابراہیمی کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور بنو قطورا میں سے تھے یا بنو اسحاق میں سے اس کے متعلق یقین سے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ سیدنا ایوب (علیہ السلام) کا زمانہ یقینا 1000 ق م سے 700 ق م کے درمیان ہے چناچہ قرآن کریم میں سے ہمیں یہ وضاحت ملتی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد آنے والا کوئی نبی اس علاقہ میں ایسا نہیں آیا جو آپ کی ذریت سے نہ ہو ارشاد الہی ہے کہ ـ: (آیت) ” ووھبنا لہ اسحاق ویعقوب وجعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتب واتینہ اجرہ فی الدنیا وانہ فی الاخرۃ لمن الصالحین “۔ (العنکبوت 29 : 27) اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب جیسی اولاد عنایت کی اور اس کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی اور اسے اس دنیا میں اس کا اجر عطا کیا اور آخرت میں وہ یقینا صالحین میں سے ہوگا ۔ “ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر یہ بات صحیح ہے کہ سیدنا ایوب (علیہ السلام) کا زمانہ 1000 ق م سے 700 ق م کے درمیان ہے تو یقینا آپ ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں اور اس زمانہ کے اندر ہونے کا ذکر ارض القرآن میں سید سلیمان ندوی (رح) نے بھی کیا ہے لیکن بہت سے مؤرخین نے آپ کے زمانہ کی تعیین کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کا زمانہ بعثت موسیٰ (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) کے درمیان 1500 ق م سے 1300 ق م کے درمیان بتایا ہے اور حقیقت حال اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور اس کے لئے چند اہم قرائن بھی پائے جاتے ہیں تاہم یہ بحث مورخین کی ہے اس لئے جو آدمی اس کا مطالعہ کرنا چاہے اس کو تاریخ ہی کی طرف رخ کرنا چاہئے ۔ ہماری اس سرگزشت کا انحصار قرآن کریم کی عبارات پر ہے اور وہ عبارات صرف دو سورتوں میں ملتی ہیں سورة الانبیاء اور سورة ص میں اور قرآن کریم کے ساتھ اگر تورات کو بھی رکھ لیا جائے تو زیادہ وضاحت ہو سکتی ہے لیکن تورات کے واقعات میں تورات کا مضمون تورات کو بھی رکھ لیا جائے تو زیادہ وضاحت ہو سکتی ہے لیکن تورات کے واقعات میں تورات کا مضمون تورات کے شارحین کے مضمون کے ساتھ خلط ملط کردیا گیا ہے اور اب یہ بات واضح طور پر نہیں سمجھی جاسکتی کہ اصل تورات کا مضمون کیا ہے اور اس کی شرح کونسی ہے ۔ اس لئے اس میں جو حصہ ہمارے مفسرین نے اخذ کرلیا ہے اس سے خاص حدود کے اندر رہ کر استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح آپ کی سرگزشت کا خلاصہ یہ ہے کہ : عوض کے ملک میں ایوب (علیہ السلام) ایک کامل ‘ راست باز اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے معبوث کردہ نبی تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک بڑا خاندان ‘ بڑی دولت دے رکھی تھی اس کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں اور اس کے پاس سات ہزار بھیڑیں ‘ تین ہزار اونٹ ‘ ایک ہزار گائے بیل اور پانچ سو بار برداری کے لئے گدھے تھے اور اس کے نوکر چاکر بھی بیشمار تھے اور ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت اہل مشرق میں اتنا مال دار اور کوئی شخص نہ تھا جتنا کہ وہ تھا ۔ اور پھر اس کے ساتھ ساتھ وہ اس دولت و شوکت کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک شکر گزار انسان اور نبی تھا جو ہمیشہ برائی سے دور رہتا تھا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی شان بےنیازی کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش آگئی اور وہ زندگی کی ساری مصیبتوں میں گھر کر رہ گیا ۔ اس کے سارے مویشی لوٹ لئے گئے اور نوکر چاکر قتل کردیئے گئے اور اولاد بھی مکمل طور پر یا ان کی اکثریت مر گئی ۔ اس طرح سارا جاہ وحشم نابود ہو کر رہ گیا اور زندگی کی خوش حالیوں میں سے کوئی چیز بھی باقی نہ رہی پھر بربادیوں کے یہ تمام زخم ایک ایک کرکے نہیں لگے کہ سنبھلنے اور جھیلنے کی مہلت ملی ہو بلکہ یہ سب زخم یکے بعد دیگرے مسلسل ہی لگتے چلے گئے اور اچانک دنیا کچھ سے کچھ ہوگئی لیکن وہ کیسا عزم کا پہاڑ تھا کہ اس حالت میں بھی اس کی زبان سے کلمہ صبر وشکر کے سوا اور کچھ نہ نکلا۔ وہ سجدے میں گر پڑا اور کہنے لگا کہ میں وہی ہوں جو اپنی ماں کے پیٹ سے برہنہ پیدا ہوا تھا اور اس طرح برہنہ دنیا سے جاؤں گا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ مجھے دیا تھا اور اس نے ہرچیز کو لے لیا اس کے نام کیلئے ساری پاکیزگیاں ہیں اور ہماری ساری مبارکیوں کا وہی مستحق ہے ۔ اس حال میں بھی وہ اپنے فرائض ادا کرتا رہا اور اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتا رہا پھر وہ وقت بھی آیا کہ وہ تندرستی جو ابھی تک باقی تھی اس نے بھی جواب دے دیا اور اس کو پاؤں کے تلووں سے لے کر سر کی چاندی تک سارے جسم پر پھوڑے نکل آئے اور وہ ایک ٹھیکرے سے اپنا جسم کھحلنے لگا اور اس کی زبان سے ورد الہی اس حالت مین بھی جاری وساری رہا ۔ اس کی درد و مصیبت کی حالت برابربڑھتی ہی جا رہی تھی لیکن جوں جوں بڑھتی جارہی تھی روح کا یقین ‘ دل کا صبر اور زبان کا زمزمہ شکر بھی ساتھ ساتھ بڑھتا ہی جاتا تھا ۔ اگر آپ کو کبھی صحیفہ ایوب دیکھنے کا اتفاق ہو تو آپ کو معلوم ہو کہ فی الواقعہ اس ساری حالت میں بھی اس کی ساری آہ وزاری حمد وثنا کی حمد تھی اور اس کی ہر پکار صبر وشکر کی ایک نئی تلقین تھی۔ اس کی اس حالت کا ذکر سن کر اس کے حالات معلوم کرنے کے لئے تین دوست اس کے پاس آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کاموں اور حکمتوں پر اس سے ردوکد کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کی وحی اس کو مخاطب کرتی ہے اور اس کی اس مصیبت کے ختم ہونے کی خبر دیتی ہے اور پھر کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی کہ اس کی مصیبتوں کا سارا دور ختم ہوجاتا ہے ۔ آخر میں جانے والی چیز یعنی صحت سب سے پہلے لوٹ آتی ہے اور پھر آج کل کرتے کرتے اس کی حالت دوبارہ بدلنا شروع ہوجاتی ہے اور زیادہ دیر نہیں لگتی کہ اس کے پاس پہلے سے زیادہ مال و دولت کے ذخائر جمع ہوجاتے ہیں اور وہ جس مٹی پر ہاتھ ڈالتا ہے وہ سونا ہوتی نظر آتی ہے اور اس طرح اس کے سارے بچھڑے ہوئے عزیز وقارب واپس اس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کو دو بار اولاد کی نعمت سے بھی مالا مال کردیتا ہے اور پہلے سے بھی زیادہ اس پر عنایات کی جاتی ہیں اور اس طرح وہ ایک سو چالیس سال کی عمر تک زندہ رہتا ہے اور اپنی نسل کی چار پشتوں تک کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔ پیرایہ بیان ایسا اختیار کیا گیا کہ اس سے تفہیم ہو سکے : یہ سب کچھ کیا تھا ؟ ایک آزمائش ہی تو تھی اس کے لئے پیرایہ بیان ایسا اختیار کیا گیا کہ شیطان نے کہا کہ ایوب کی خدا پرستی وراست بازی اس لئے ہوئی کہ اللہ نے اسے ہر طرح کی خوش حالیاں دے رکھی ہیں اگر وہ ان سے محروم ہوجائے تو پھر کبھی خدا کا شکر گزار نہ ہو لیکن خوشحالیوں سے محروم ہوگئے پھر بھی ان کا ایمان یقین گھٹنے کی جگہ اور زیادہ بڑھ گیا ، یہ بیان تورات کے سفر ایوب میں بڑی وضاحت سے ذکر کیا گیا ہے جس میں مزید حاشیے بھی بڑھائے جا چکے ہیں لیکن قرآن کریم نے صبر وشکر کی یہ داستان یہاں صرف چند لفظوں میں بیان کردی ہے اور اس کا ایجاز بلاغت اتنا ہی مؤثر ہے جتنا صحیفہ ایوب کے پچاس صفحات کا شاعرانہ اعجاز ہے ۔ سورة الانبیاء کی آیت 83 ‘ 84 پر ایک نظر : (آیت) ” وَأَیُّوبَ إِذْ نَادَی رَبَّہُ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ (83) فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَکَشَفْنَا مَا بِہِ مِن ضُرٍّ وَآتَیْْنَاہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُم مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِنَا وَذِکْرَی لِلْعَابِدِیْنَ (الانبیاء 21 : 83 ‘ 84) ” اور ایوب جب اس نے اپنے پروردگار کو پکارا تھا کہ میں دکھ میں پڑگیا ہوں اور خدایا تجھ سے بڑھ کر رحم کرنے والا کوئی نہیں۔ ہم نے اس کی پکار سن لی اور وہ جس دکھ میں پڑگیا تھا وہ دور کردیا ہم نے اس کا گھرانا لوٹا دیا اور اس کے ساتھ اور بھی دیئے یہ ہماری طرف سے اس کے لئے رحمت تھی اور یہ نصیحت ہے ان کے لئے جو اللہ کی بندگی کرنے والے ہیں ۔ “ (آیت) ” انی مسنی الضر “۔ کے جملہ میں ان کے دور مصیبت کی ساری داستان آگئی اور اس میں سے کوئی گوشہ بھی نہیں اور اس کے ساتھ ہی اسلوب خطاب یہ ہوا کہ ” میں دکھ میں پڑگیا ہوں “ یہ نہیں کہا کہ ” تو نے مجھے دکھ میں ڈال دیا ہے “ حالانکہ حقیقت میں دکھ اور سکھ اللہ ہی سے ہوتا ہے تاہم ادب یہی ہے کہ دکھ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ کی جائے ۔ خیال رہے کہ ” دکھ “ کا اللہ کی طرف سے ہونا اور ” اللہ کا کسی کو دکھ میں ڈال دینا “۔ دونوں جملوں میں بڑا فرق ہے ۔ کیونکہ ” اللہ کی طرف سے ہونا “ کسی فعل کا نتیجہ ہے اور ” اللہ کا کسی کا دکھ میں ڈال دینا “ سزا ہے ۔ اس لئے اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کسی کو بھی دکھ میں نہیں ڈالتا ۔ اس نے جو کچھ بھی بخشا ہے سرتا سر سکھ اور راحت ہی ہے ۔ جو حالت بھی ہمارے لئے دکھ ہوجاتی ہے وہ خود ہماری ہی کسی صورت حال کا نتیجہ ہوتی ہے لیکن اس بات کو شاید سمجھ نہیں سکتے اور انبیائ کرام (علیہ السلام) کا مقام وہ ہے جہاں اس کی تفہیم خوب ہوچکی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے مخاطبات میں ہر جگہ یہ حقیقت نمایاں ہوئی ۔ غور کرو کہ آدم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب فرمایا تو عرض کی : (آیت) ” ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخسرین “۔ (الاعراف 7 : 23) ” اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر خود ظلم کرلیا اور مغفرت کی طلب گاری تجھ سے ہے اور تو ہم پر رحم فرما ورنہ ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔ “ اس طرح سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی موعظت سورة الشعراء میں بیان ہوئی کہ آپ نے فرمایا (آیت) ” واذا مرضت فھو یشفین “۔ (26 : 80) ” جب میں بیمار پڑجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا عطا فرماتا ہے “ گویا بیماری میں مبتلا ہونا میری حالت ہوئی شفا دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہوا ۔ کیونکہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ شفا ہی شفا ہے ۔ اس کی رحمت نے دارالشفا بنایا ہے ‘ بیماریاں بانٹنے کا کوئی گھر نہیں بنایا کسی نے کتنی اچھی بات کہی ہے کہ ۔ کفر ہم نسبت بہ خالق حکمت است چوں بہ مانسبت کنی کفر آفت است : یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا (آیت) ” تعزمن تشآء وتذل من تشآء بیدک الخیر “۔ (3 : 26) ” تو جسے چاہے عزت دے دے جسے چاہے ذلیل کردے ہر طرح کی خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے “۔ یعنی جسے عزت ملی وہ بھی خیر کی بات ہوئی اور جسے ذلت ملی وہ بھی خیر ہی کی بات ہوئی ۔ حالانکہ جسے ذلت ملی اس کے لئے تو ” شر “ ہی کی بات نہیں ہوئی لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ اس کے لئے اس کی اضافت سے ” شر “ کی بات ہوئی ۔ فی الحقیقت شر کی بات نہ ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے خیر ہی خیر ہے شر کا یہاں گزر ہی نہیں یہ ہم ہیں اور ہماری حالت ہے جو شر کا جامہ پہن لیا کرتی ہے ۔ ہرچہ ہست از قامت ناساز وبے اندام است ورنہ تشریف تو بربالائے کسی دشوار نیست : اور یہی بات صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ابو ذر ؓ کی روایت سے بیان کیا گئی ہے یا عبادی انماھی اعمالکم احصیھا لکم ثم اوفیکم ایاھا فمن وجد خیرا فلیحمداللہ ومن وجد غیر ذلک فلا یلومن الانفسہ : ” اے میرے بندو ! یہ تمہارے اعمال ہی ہیں جنہیں میں تمہارے لئے ضبط کرتا ہوں اور پھر ان کے نتائج پورے پورے لوٹا دیتا ہوں پس تم میں سے جو کوئی خیر پائے تو اللہ تعالیٰ کی ستائش کرے اور جس کسی کو کوئی دوسری حالت پیش آجائے تو اور کسی کا شکوہ نہ کرے بلکہ خود اپنے نفس کو ملامت کرے ۔ “ اس آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) ” وانت ارحم الراحمین “۔ ” اور تو اے اللہ سارے پیار کرنے والوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے “ غور کرو کہ اس ایک جملہ میں سفر ایوب کے کتنے صفحات کے صفحات آگئے ؟ کہ اس میں حمد وثنا بھی ہوگئی اور صبر وشکر کا دامن بھی نہیں چھوٹا ‘ طلب والحاح کا ہاتھ بھی دراز ہوگیا اور عجز ونیاز کی پیشانی بھی بندگی وتذلل کی زمین پر پڑگئی ۔ اے اللہ ! میں دکھی ہوں اور تجھ سے بڑھ کر کون ہے جو پیار کرنے والا ہے ؟ ع طوبی لعبد تکون مولاہ یہ تو مذکورہ دو آیتوں میں پہلی آیت تھی دوسری آیت بیان ہوئی تو اس کے اندر پوری سرگزشت اور اس کا ماحصل بیان کردیا ۔ اس آیت یعنی سورة الانبیاء کی اس 82 آیت پر غور کرو کس طرح یہ آیت پورے صحیفہ کا کام دے رہی ہے اور کس طرح اس کا ہر جملہ اپنی جگہ پہلے سے بھی بڑھ کر ایک پورا باب ہے ۔ ارشاد فرمایا کہ : 1۔ (آیت) ” فاستجبنالہ “۔ ہم نے اس کی پکار سن لی یعنی وحی الہی کی وہ اجابت جو سفر ایوب کے چار ابواب پر مشتمل تھی اسے قرآن کریم میں ایک لفظ میں بیان کردیا ۔ 2۔ (آیت) ” فکشفنا مابہ من ضر “ ” پس درد ومصیبت میں سے جو کچھ اسے پیش آیا تھا سب ہم نے دور کردیا اس میں وہ ساری مصیبتیں آگئیں جن کی تفصیل وہاں کے دو ابواب میں بیان کی گئی ۔ 3۔ (آیت) ” واتیناہ اھلہ “۔ اس کا سارا گھرانا اس کو دے دیا گیا ۔ یعنی وہ جو اس سے کھویا گیا تھا پھر اس کو واپس مل گیا اس میں ایک ہی اشارہ کے ساتھ اس کی ساری خاندانی مصیبت اور تفرقہ کی ساری داستان بند کردی کہ تم چاہو تو اس کو کھولتے جاؤ اور اصل حقیقت حال معلوم کرتے جاؤ کہ اس کے ساتھ کیا کیا گیا اور کیوں کیا گیا ؟ 4۔ (آیت) ” ومثلھم معھم “۔ صرف یہی نہیں کہ وہ کھویا ہوا دیا بلکہ اتنا ہی اور بھی عطا کیا اور اب وہ پہلے سے ہر لحاظ سے دو چند ہوگیا اور پھر اس کی وضاحت بھی فرما دی کہ ایسا کیونکر ہوا ؟ اور یہ کہ اس سرگزشت کا ماحصل کیا ہوا ؟ فرمایا : 5۔ (آیت) ” رحمۃ منا “۔ یہ ہماری طرف سے رحمت کا ظہور تھا کیونکہ اس نے رحمت ہی کو پکارا تھا (آیت) ” وانت ارحم الراحمین “۔ پھر ضروری تھا کہ اللہ کی رحمت ہی اس کو جواب دے ۔ 6۔ (آیت) ” وذکری للعابدین “۔ اور اس لئے کہ اللہ کی بندگی کرنے والوں کے لئے اس میں نصیحت ہو یعنی یہ حقیقت آشکارا ہوجائے کہ جو عبادت گزاران حق ہیں وہ کبھی رحمت الہی کی بخششوں سے محروم نہیں رہ سکتے ؟ 7۔ ان مصائب وآلام سے جو ایوب (علیہ السلام) کو پہنچے کہ مخالف قوموں نے آپ کا سب کچھ برباد کرکے رکھ دیا اور آپ کی زمینوں اور مال پر قبضہ کرلیا تھا بلاشبہ بیمار ہونا بھی ایک فطری امر تھا اور بلاشبہ وہ بیمار ہوئے ہوں گے اور یہ جو کچھ مخالفین نے آپ کے ساتھ کیا یہ بھی بذات خود ایک بہت بڑی بیماری تھی اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی راہنمائی ایک چشمہ کی طرف کی اور آپ کو حکم ہوا کہ آپ وہاں تک پہنچیں وہاں انشاء اللہ آپ کو غسل صحت ہوگا وہاں آپ کے لئے انعامات الہی کی بارش کی جائے گی ۔ آپ نے اللہ کے حکم سے وہاں تک جانے کی کوشش وہمت کی اور اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرما دیا (آیت) ” ارکض برجلک ھذا مغتسل بارد و شراب “۔ سفر ایوب کی تفصیلات کا بیشتر حصہ بالکل مصنوعی اور بناوٹی ہے : اللہ تعالیٰ نے ان چار پانچ آیتوں میں سیدنا ایوب (علیہ السلام) کے جس واقعہ کا ذکر فرمایا ہے اس کے اعجاز کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن ان ہی واقعات کو سفر ایوب کے اندر بیالیس ابواب اور کئی سو آیات نے جگہ پائی اور شاعرانہ انداز میں آپ کی زندگی کے ان حالات کو مبالغہ کے رنگ میں پیش کیا گیا ۔ پھر اس جگہ تو ہوا جو ہوا لیکن ہمارے ہاں پہنچ کر اس نے اس سے بھی زیادہ شاعرانہ تصور اختیار کرلیا اور ہمارے مفسرین نے وہ سب کچھ اٹھا کر اور اس میں مزید اضافہ کرکے قرآن کریم کی ان آیات کی تفسیر کے طور پر بیان کیا ۔ ہم حسن ظن سے کام لیتے ہوئے یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے مفسرین نے محض اس وجہ سے ان حالات وواقعات کو پیش کیا ہوگا کہ آنے والوں کو یہ بات معلوم ہوجائے کہ بنی اسرائیل نے اپنے تسلیم کئے گئے انبیاء کرام (علیہ السلام) اور رسل عظام کے متعلق کس قدر مبالغہ کر کے قصص منسوب کر دئیے اور بعد میں آنے والوں نے وہی کیا جو بنی اسرائیل نے کیا تھا اور آج سیدنا ایوب (علیہ السلام) کے قصہ کو من وعن اس رنگ میں ہمارے ہاں پیش کیا جاتا ہے اور قرآن کریم کے اشارات کو تورات کے سفر ایوب پر مکمل طور پر فٹ کردیا گیا ہے اور لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ یہ بیان قرآن کریم کا ہے حالانکہ قرآن کریم اس شاعری سے بالکل پاک اور منزہ ہے جو سفر ایوب میں کی گئی ۔ اب ہم آپ کے سامنے اس قصہ کو پیش کرتے ہیں جو ہمارے مفسرین نے بیان کیا ہے جس میں سفر ایوب کا اختصار پیش کیا گیا ہے لیکن یہ معلوم بھی نہیں ہونے دیا کہ یہ قصہ ہمارا بیان کردہ نہیں بلکہ تورات کا ہے ۔ جو کچھ ہم درج کر رہے ہیں اس پر نظر رکھتے ہوئے تورات کے سفر ایوب کو نکال کر مقابلہ کیجئے اور دیکھئے کہ وہی باتیں ہمارے مفسرین نے بیان کی ہیں یا نہیں ؟ اگر آپ کو بالکل وہی باتیں اور وہی شاعری یہاں بھی نظر آئے تو مان لیں کہ یہ پورا قصہ جو اس رنگ میں پیش کیا گیا ہے سفر ایوب کا ہے اور اس رنگ میں پیش کیا گیا ہے فرق ہے تو صرف یہ کہ وہاں شعروں کے ترجمہ کی طرح الگ الگ فقرات ہیں اور یہاں وہ نثر کی صورت میں نظر آرہا ہے سوائے اس کے کوئی فرق نہیں پھر تعجب پر تعجب یہ کہ یہ نام بھی نہیں لیا گیا کہ یہ سفر ایوب سے لیا گیا ہے بلکہ آج ہم ان حوالوں ہی کو جانتے ہیں جو ہمارے ہاں کتابوں میں حوالہ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں ۔ چنانچہ تحریر ہے کہ : سیدنا ایوب (علیہ السلام) کے متعلق ہمارے مفسرین نے جو کچھ بیان کیا اس کا ماحصل : سیدنا ایوب (علیہ السلام) اللہ کے برگزیدہ بندے اور نبی تھے اللہ نے آپ کے لئے دنیا وسیع کردی تھی ‘ سرزمین شام میں ایک گھاٹی جس کے اندر میدانی زمین بھی تھی اور پہاڑی بھی آپ کی ملک تھی اونٹ ‘ گائے ‘ بیل ‘ بھینس ‘ بھیڑ ‘ بکری ‘ گھوڑے ‘ گدھے ہر قسم کے بکثرت جانور آپ کے پاس تھے ‘ پانچ جوڑے بیلوں کے کھیتی کرنے کے لئے بھی آپ کے پاس تھے ۔ ہر جوڑے کا خادم ایک غلام تھا اور ہر غلام کے بیوی بچے بھی تھے ۔ بیلوں کی ہر جٹ کا (یعنی کھیتی کرنے اور ہل جوتنے وغیرہ کا) سامان اٹھانے کے لئے ایک گدھی تھی اور ہر گدھی کے دو دو تین تین چار چار پانچ پانچ اور اس سے زیادہ بچے تھے اللہ نے آپ کے اہل و عیال لڑکے اور لڑکیاں بھی عطا کی تھیں ۔ آپ بڑے نیک ‘ پرہیزگار ‘ غریبوں پر رحم کرنے والے ‘ مسکینوں کو کھانا کھلانے والے ‘ بیواؤں کی خبر گیری کرنے والے ‘ یتیموں کی سرپرستی کرنے والے اور بڑے مہمان نواز تھے ‘ مسافروں کو خرچ دے کر وطن تک پہنچا دیتے تھے ‘ اللہ کی نعمتوں کا شکر اور اللہ کا حق ادا کرتے رہتے تھے اللہ نے شیطان مردود سے آپ کو محفوظ کردیا تھا ۔ ابلیس دوسرے مالداروں اور عزت یاب لوگوں کو اللہ کی یاد سے غافل بنا دیتا ہے لیکن آپ اس کی دسترس سے باہر تھے ، آپ کے پاس تین (خاص) آدمی تھے جو آپ پر ایمان لائے تھے ‘ ایک یمنی تھا جس کا نام الیقن تھا اور دو آپ ہی کی بستی کے رہنے والے تھے ایک کا نام یلد اور دوسرے کا نام صافر تھا ‘ یہ تینوں میانہ عمر کے آدمی تھے ۔ اس زمانہ میں ابلیس کی رسائی آسمان پر تھی ‘ آسمانوں میں جہاں چاہتا ٹھہر سکتا تھا ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کے بعد چار آسمانوں پر جانے کی اسے ممانعت کردی گئی پھر رسول اللہ ﷺ کی پیدائش پر باقی آسمانوں سے بھی اس کو روک دیا گیا ۔ سیدنا ایوب (علیہ السلام) (اللہ کا ذکر اور اس کی حمد کرتے رہتے تھے) ایک بار جب آپ نے اللہ کا ذکر کیا اور حمد کی تو فرشتوں نے اس وقت مل کر آپ کے لئے دعائے رحمت کی ‘ ابلیس نے فرشتوں کی دعا سن پائی ۔ سن کر جل گیا اور فورا آسمان پر چڑھ کر اپنے ٹھکانے پر پہنچا اور اللہ سے التجا کی اور کہا الہی میں نے تیرے بندے ایوب کے معاملہ پر غور کیا ‘ میں نے دیکھا کہ تو نے اپنے بندے کو نعمتوں سے نوازا ہے اس لئے اس نے تیرا شکر کیا تو نے اس کو عافیت عطا کی اس لئے اس نے تیری حمد کی تو نے جو کچھ اس کو مرحمت کیا ہے اگر تو اس سے لے لے اور اس کی مصیبت میں مبتلا کر دے تو یہ مصیبت اس کو عبادت وحمد سے روک دے گی اور وہ تیری طاعت سے نکل جائے گا ۔ اللہ نے فرمایا جا میں نے اس کے مال پر تجھے دسترس عطا کردی ‘ دشمن خدا ابلیس یہ اختیار لے کر آسمان سے زمین کی طرف آیا پھر خبیث جنات اور سرکش شیطانوں کو جمع کر کے کہنے لگا مجھے ایوب کے مال پر تسلط عطا کردیا گیا ہے اور یہ ایسی سخت مصیبت ہے جس پر (بڑے بڑے) لوگ صبر نہیں کرسکتے ‘ بتاؤ تمہارے اندر کیا طاقت ہے (تم اپنی اپنی طاقتوں کی تفصیل بتاؤ ) ایک خبیث شیطان بولا مجھے ایسی قوت دی گئی ہے کہ اگر میں چاہوں تو آتشیں بگولہ بن جاؤں پھر جس چیز پر گزروں اس کو جلا ڈالوں ۔ ابلیس نے کہا اچھا تو جس وقت ایوب کے اونٹ اپنی چراگاہوں می جمے بیٹھے ہوں تم اونٹوں کی طرف جاؤ (اور سب کو جلا ڈالو) یہ کہتے ہی لوگوں کو پتہ بھی نہ چلا اور ایک دم زمین کے نیچے سے ایک آتشیں بگولہ اٹھا اور جب اونٹوں کے پاس سے گزرا تو ان کو اور چرواہوں کو جلا کر سوختہ کردیا یہاں تک کہ سب اونٹوں کو جلا کر ختم کردیا اس کے بعد ابلیس اونٹوں کے نگران کی صورت بنا کر ایک اونٹ پر سوار ہو کر سیدنا ایوب (علیہ السلام) کے پاس پہنچا آپ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہنے لگا ایوب ایک آگ آئی سب اونٹوں کو ہر طرف سے اس نے گھیرے میں لے لیا سب اونٹ اور ان کے چرواہے سوختہ ہوگئے ۔ حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) نے فرمایا الحمد للہ جس نے دیئے تھے اسی نے لے لیے میں تو ہمیشہ سے اپنی جان ومال کو فنا ہونے والے سمجھے ہوا ہوں ‘ ابلیس بولا آپ کے رب نے ان پر آسمان سے آگ بھیج دی جس سے سب جل گئے لوگ حیرت میں پڑگئے اور ان کو بڑا تعجب ہوا کوئی کہنے لگا ایوب کسی کی پوجا ہی نہیں کرتے تھے محض دھوکہ میں پڑے ہوئے تھے ‘ بعض لوگ کہنے لگے ایوب خدا کی عبادت کرتے تھے خدا ہی نے یہ آگ بھیجی تاکہ ایوب کے دشمن خوش ہوں اور دوستوں کو دیکھ پہنچے کسی نے کہا اگر ایوب کے معبود میں طاقت ہوتی اور وہ حفاظت کرسکتا تو ضرور اس کی کارسازی کرتا۔ حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) نے یہ باتیں سن کر فرمایا الحمد للہ ! اسی نے مجھ سے لے لیا ہر حال میں وہ قابل حمد ہے ۔ میں ماں کے پیٹ سے ننگا پیدا ہوا تھا اور ننگا ہی لوٹ کر مٹی میں جاؤں گا اور ننگا ہی اٹھ کر اللہ کے پاس جاؤں گا ۔ جب اللہ تجھے کوئی چیز عاریتا دے دے تو تجھے اترانے کا حق نہیں ہے اور جب اپنی عاریت پر قبضہ کرلے تو تجھے جزع وفزع نہ کرنا چاہئے اس چیز کا اللہ ہی زیادہ مستحق ہے اور وہی تیرا بھی مالک ہے اور اے شخص اگر اللہ کو تیرے اندر کوئی بھلائی معلوم ہوتی تو تو بھی شہید ہوجاتا اور ان روحوں کے ساتھ تیری روح بھی منتقل ہوجاتی ‘ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کو تیری طرف سے (شر ہی) معلوم ہوئی ۔ اسی لئے (آگ کے اندر سے اور شہیدوں کے گروہ سے) تجھے نکال دیا حضرت کی اس گفتگو سے ابلیس ذلیل و خوار ہو کر اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا اور ان سے کہا اب تمہارے پاس کونسی طاقت ہے میں تو ایوب کے دل کو زخمی نہیں کرسکا ایک دیو بولا میرے اندر ایسی قوت ہے کہ اگر آپ چاہیں تو میں ایسی چیخ ماروں کہ جو جان دار اس کو سنے اس کی جان نکل جائے ‘ ابلیس نے کہا تم بھیڑ بکریوں اور ان کے چرواہوں کو جا کر ختم کر دو حکم پا کر دو فورا چل دیا اور بھیڑ بکریوں کے درمیان پہنچ کر ایک چیخ ماری جس سے تمام بکریاں اور ان کے چرواہے مر گئے اس کے بعد ابلیس چرواہوں کے داروغہ کے بھیس میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کے پاس پہنچا آپ اس وقت بھی نماز پڑھ رہے تھے ابلیس نے پہنچ کر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی اور حضرت ایوب (علیہ السلام) نے بھی پہلے کی طرح جواب دیا ابلیس اپنے رفقاء کے پاس واپس چلا گیا اور بولا اب بتاؤ تمہارے پاس کیا طاقت ہے میں تو اب بھی ایوب کے دل کو زخمی نہیں کرسکا ایک خبیث جن کہنے لگا ۔ اگر میں چاہوں تو آندھی بن سکتا ہوں جو ہرچیز کو اڑا کرلے جائے گی ۔ ابلیس نے کہا تو بیلوں اور کھیتوں کے پاس جا خبیث جن چلا گیا اور اچانک ایک طوفانی ہوا چلی اور ہرچیز کو اڑا کرلے گئی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہاں کچھ تھا ہی نہیں ۔ اس کے بعد ابلیس کھیتی باڑی کے منیجر کی شکل بنا کر حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) کے پاس آیا آپ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ابلیس نے وہی پہلے والی بات کی اور آپ نے بھی وہی سابق کا جواب دے دیا اور مصیبت پر صبر کرنے پر اپنے دل کو جما لیا آخر جب آپ کے پاس کسی طرح کا مال نہ رہا اور ابلیس نے آپ کا سارا مال تباہ کردیا تو آسمان پر پھر گیا اور بارگاہ الہی میں عرض کیا الہی ایوب جانتا ہے کہ جب آل واولاد سے تو نے اس کو بہرہ اندوز کردیا تو مال بھی عنایت کر دے گا اس لئے مطمئن ہے کیا تو مجھے اس کی اولاد پر تسلط عطا فرما دے گا یہ مصیبت ایسی ہے جس پر (بڑے بڑے) آدمیوں کے دل برقرار نہیں رہ سکتے ۔ اللہ نے فرمایا (جا) میں نے تجھے ایوب کی اولاد پر دسترس عطا کی ‘ دشمن خدا چلا آیا ۔ سیدنا ایوب (علیہ السلام) کی اولاد ایک قصر کے اندر تھی ۔۔۔۔۔۔۔ ابلیس نے اس قصر کے درودیوار کو جھنجھوڑ ڈالا ۔۔۔۔۔ دیواروں کو باہم ٹکرا دیا ‘ لکڑیاں اور پتھر اوپر سے پھینکے ‘ یہاں تک کہ جب سب لوگوں کو خوب زخمی کردیا تو محل کو اٹھا کر الٹ دیا ‘ سب لوگوں سرنگوں ہو کر گر پڑے اور ہلاک ہوگئے ، اس کے بعد بچوں کے اتالیق کی شکل بنا کر سیدنا ایوب (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچا خود بھی اس وقت زخمی تھا چہرے پر خراشیں تھیں ‘ خون بہہ رہا تھا جا کر واقعہ کی اطلاع دی اور کہا اگر آپ وہ منظر دیکھ لیتے جب کہ آپ کے بچے سخت اذیتوں میں مبتلا ہوئے تھے ‘ خون بہہ رہا تھا اور دماغ بھی باہر نکلنے لگے تھے ‘ پیٹ پھٹ گئے تھے ‘ انتڑیاں بکھری پڑی تھیں اسی حالت میں قصر الٹ گیا اور سب الٹے ہو کر جاں بحق ہوگئے تو آپ کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ۔ ابلیس برابر اسی طرح کے (دردناک) الفاظ کہتا رہا اور حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) سنتے رہے آخر آپ کے دل میں رقت پیدا ہوئی اور رونے لگے اور ایک مٹھی خاک اپنے سر پر ڈال لی اور کہا کاش میں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا ‘ ابلیس نے اس بات کو غنیمت سمجھا اور ایوب کی بےصبری کو دیکھ کر فورا آسمان پر چڑھ گیا ادھر حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) نے اپنے الفاظ سے رجوع کرلیا اور توبہ و استغفار کی اور آپ کی توبہ و استغفار کو ملائکہ لے کر ابلیس کے پہنچنے سے پہلے ہی جا پہنچے اور بارگاہ الہی میں پیش کردی اللہ تو پہلے ہی بخوبی واقف تھا (ملائکہ کی پیشی بھی حسب الحکم ہوگئی) ابلیس ذلیل ہوگیا اور کہنے لگا ۔ الہی تو نے ایوب کو تندرستی دی ہے ‘ جسمانی اذیت سے محفوظ رکھا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کی تندرستی ہے تو اللہ مال واولاد اور عنایت کر دے گا اس لئے مال واولاد کی ہلاکت کا اس پر اثر نہیں پڑا تو مجھے اس کے جسم پر تسلط عطا کر دے گا (تو اس کا قدم ڈگمگاجائے گا) اللہ نے فرمایا جا میں نے ایوب کے جسم پر تجھے تسلط عطا کیا لیکن زبان اور دل پر تیرا تسلط نہیں ہے زبان ودل کے علاوہ باقی جسم کو تیرے زیر تسلط کردیا گیا ۔ اللہ نے ابلیس کو یہ تسلط صرف اس لئے عطا فرمایا تھا کہ ایوب کے ثواب میں اضافہ ہو ‘ صبر کرنے والوں کے لئے مثال ہو ۔ ہر دکھ اور مصیبت پر صبر کرنے کی دوسروں کو تلقین ہو اور بامید ثواب ہر اذیت پر ان کو صبر ہو ۔ اللہ کا دشمن اجازت پا کر فورا آیا ‘ ایوب اس وقت سجدے میں تھے سر اٹھانے نہ پائے تھے کہ ابلیس آگیا اور چہرے کی طرف سے آکر ناک کے سوراخ میں ایک پھونک ماری جس سے حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) کا جسم آگ کی طرف بھڑکنے لگا اور سر کی چوٹی سے پاؤں کی نوک تک ایسے دمبل نکل آئے جیسے بکری کی کلیجی اور ان میں کھجلی پیدا ہوگئی ۔ حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) نے ناخنوں سے اس کا کھجانا شروع کیا یہاں تک کہ سب ناخن گر گئے پھر کھردرے ٹاٹ سے کھجایا ٹاٹ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا پھر نوک دار کھردرے ٹھیکروں اور پتھروں سے کھجایا اور اتنا کھجایا کہ گوشت کٹنے لگا ‘ بودینے لگا ‘ سڑ گیا ۔ بستی والوں نے آپ کو بستی سے باہر نکال کر ایک گھورے پر جھونپڑی بنا کر اس میں ڈال دیا اور سب نے چھوڑ دیا صرف آپ کی بی بی رحمت بنت افراثیم بن یوسف (علیہ السلام) یوسف (علیہ السلام) بن یعقوب (علیہ السلام) نے ساتھ دیا بعض نے رحمت کو صاحبزادی کہا ہے ‘ رحمت آپ کے پاس آتی رہیں اور آپ کی ضروریات فراہم کر کے لاتی رہیں ، جب حضرت کے تینوں رفقاء الیقن ‘ یلدد اور صافر نے حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) کی یہ ابتلائی حالت دیکھی تو وہ بھی کنارہ کش ہوگئے (اور شرعی جرم کرنے کی) آپ پر تہمت لگائی مگر آپ کے دین کو نہیں چھوڑا جب مصیبت بڑھ گئی تو ایک روز تینوں حضرت کے پاس آئے اور خوب سخت سست کہا اور کہنے لگے آپ کو اللہ کی طرف سے یہ گناہ کی سزا دی گئی ہے اللہ سے توبہ کیجئے ۔ راوی کا بیان ہے ایک نوجوان مومن بھی ان تینوں کے ساتھ تھا اس نے کہا اے عمر رسیدہ لوگو ! آپ لوگ اپنی عمروں کی بیشی کی وجہ سے کلام کرنے کے زیادہ مستحق ہیں لیکن آپ لوگوں نے جو کچھ خیال کیا اور جو بات کی اس سے زیادہ اچھا بہترین کلام ‘ بہترین رائے اور مناسب ترین بات بھی پیش کرسکتے تھے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا ۔ حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) کا تم پر حق ہے ‘ ذمہ داری ہے کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین اور بےعزتی کی وہ کیسی شخصیت ہے جس پر تم نے عیب تھوپے اور نکتہ چینی کی کیا تم نہیں جانتے کہ وہ اللہ کا پیغمبر ہے ‘ اس وقت تمام اہل ارض سے برگزیدہ اور اللہ کا منتخب بندہ ہے پھر تم کو یہ بھی نہیں معلوم اور نہ اللہ نے تم کو بتایا ہے کہ جب سے ایوب کو پیغمبری ملی کبھی بھی اللہ نے اس کی کسی حرکت کا ناپسند کیا ہو یا جو عزت اس کو عطا فرمائی ہے اس کا کوئی حصہ چھین لیا ہو نہ یہ کہہ سکتے ہو کہ اس وقت سے جب سے تم اس کے ساتھ ہوئے ہو کبھی بھی آج تک اس نے اللہ کے سلسلہ میں کوئی ناحق بات کہی ہو ۔ جس (دکھ اور تکلیف) کو تم ایوب کے لئے اپنے خیال میں باعث تذلیل وتحقیر سمجھتے ہو (وہ ایسا نہیں ہے) اللہ اپنے پیغمبروں ‘ صدیقوں ‘ شہیدوں اور نیک لوگوں کو دکھ میں مبتلا کرتا چلا آیا ہے اس کی طرف سے یہ دکھ اور امتحان اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ اس طبقہ سے ناراض ہے نہ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کی نظر میں یہ لوگ ذلیل ہوگئے بلکہ یہ امر تو ان کے لئے مزید عزت افزائی اور فضیلت ہے ۔ اور بالفرض اگر ایوب اللہ کے نزدیک اس مرتبہ پر نہیں بھی ہوں تب بھی وہ تمہارے بھائی تو ہیں ‘ تم نے ان کے ساتھ رہ کر ان سے برادری کی ہے (مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان کو پیغمبر نہیں مانتے تو دوست ہی سمجھو مدت تک تم ان کے ساتھ رہے ہو) اور کسی دانش مند کے لئے جائز نہیں کہ اپنے دوست سے اس کی مصیبت کے وقت کنارہ کش ہوجائے یا اس کو لعنت وملامت کرے وہ تو خود غم رسیدہ اور دکھی ہے اس پر نکتہ چینی کرنی اور نکتہ چینی بھی وہ جس کا علم عار دلانے والے کو نہیں کسی طرح درست نہیں ۔ مناسب تو یہ ہے کہ اس سے ہمدردی کی جائے ‘ اس کے رونے میں شرکت کی جائے ‘ اس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے اور جو تدبیریں اس کے معاملے کو درست کرنے والی ہیں وہ بتائی جائیں ۔ دانش مند اور ہدایت یافتہ وہ شخص نہیں جو ان باتوں سے ناواقف ہو۔ سن رسیدہ بزرگو اللہ کی عظمت و جلال کا مطالعہ اور موت کی یاد تمہاری زبانوں کو کاٹ دیتی ہے اور دلوں کو پارہ پارہ کردیتی ہے کیا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو بڑے فصیح اللسان ‘ بلیغ البیان دانش مند اور عالم ہیں ‘ نہ گونگے ہیں نہ بیان سے عاجز اس کے باجود اللہ کے خوف نے ان کو خاموش کردیا ہے جب وہ اللہ کی عظمت کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی زبانیں (ماسوا کے تذکرے سے) کٹ جاتی ہیں ‘ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ‘ دل پارہ پارہ ہوجاتے ہیں اور ہوش و حواس پر اں ہوجاتے ہیں اور یہ سب کچھ اللہ کی عظمت کو دیکھنے اور جلال الہی کا مشاہدہ کرنے کے وقت ہوتا ہے لیکن جب (ان کو ہوش آتا ہے اور) استقامت حال نصیب ہوتی ہے تو اس وقت وہ اپنے پاکیزہ اعمال کے ساتھ اللہ کی طرف دوڑتے ہیں مگر اپنا شمار خطاواروں اور ظالموں کے ساتھ کرتے ہیں وہ خود ابرار اور گناہوں سے پاک ہوتے ہیں لیکن قصور واروں اور گناہ گاروں کے ساتھ ہوتے ہیں یہی لوگ بڑے دانش مند اور اصحاب قوت ہیں ۔ حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) نے اس نوجوان کی یہ تقریر سن کر فرمایا اللہ چھوٹے بڑے کے دل میں اپنی رحمت سے حکمت کی تخم پاشی کرتا ہے ‘ پھر دل میں پودا پیدا ہوتا ہے تو زبان پر اللہ اس کو ظاہر فرما دیتا ہے حکمت کا مدار نہ طول عمر اور بڑھاپے پر ہے نہ تجربے کی فراوانی پر اگر اللہ کسی کو بچپن میں ہی باحکمت بنا دیتا ہے تو اس کا مرتبہ دوسرے حکماء کے نزدیک کم نہیں ہوتا اہل حکمت جانتے ہیں کہ نور عزت خدا داد ہے اس کے بعد حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) نے ساتھیوں کی طرف سے منہ پھیرلیا اور اپنے رب کی طرف رخ کر کے فریاد وزاری میں مشغول ہوئے ، عرض کیا اے میرے رب ! تو نے مجھے کس لئے پیدا کیا ‘ کاش تو نے مجھے پیدا نہ کیا ہوتا ؟ اے کاش مجھے معلوم ہوجاتا کہ مجھ سے کونسی خطا ہوگئی اور میں نے کونسا ایسا کام کیا جس کی وجہ سے تو نے اپنا مبارک رخ میری طرف سے پھیرلیا ‘ اگر میں نے کوئی گناہ کیا تو مجھے مار ڈالتا اور میرے آباء و اجداد کے ساتھ مجھے ملا دیتا ‘ موت ہی میرے لئے زیادہ مناسب تھی ، کیا میں مسافروں کے لئے قیام گاہ اور مسیکنوں کے لئے قرار گاہ نہیں بنا ہوا تھا ‘ کیا میں یتیموں کا والی اور بیواؤں کا سرپرست نہیں تھا ‘ الہی میں تیرا بندہ ہوں اگر تو مجھ سے بھلائی کرے گا تو تیرا احسان ہے اور اگر میرے ساتھ برائی کرے گا تو مجھے سزا دینے کا تجھے اختیار ہے تو نے مصیبتوں کی آماجگاہ اور دکھوں کا نشانہ بنا دیا ‘ مجھ پر ایسی مصیبت پڑی کہ اگر تو پہاڑ پر ڈال دیتا تو وہ بھی نہ اٹھا سکتا ‘ پھر میری کمزوری اس کو کیسے برداشت کرسکتی ہے ‘ تیرے قطعی حکم نے مجھے ذلیل کردیا اور تیری ہی حکومت نے مجھے بدحال بنا دیا اور میرے جسم کو دبلا کردیا ۔ اگر میرا رب اپنی ہیبت کو نکال دے جو میرے دل میں ہے اور میری زبان کو رواں کردے کہ میں منہ بھر کر بول سکوں پھر یہ مناسب بھی ہو کہ بندہ اپنی طرف سے محبت پیش کرسکے تو امید ہے کہ جو مصیبت مجھ پر ہے اس سے مجھے بچاؤ عطا کر دے گا لیکن وہ تو مجھ سے بہت بالا واعلی ہے ‘ وہ مجھے دیکھتا ہے میں اسے نہیں دیکھتا وہ میری بات سنتا ہے میں اس کی آواز نہیں سنتا ‘ اس کی نظر (عنایت) میری طرف نہیں ۔ نہ وہ مجھ پر رحم کرتا ہے نہ مجھ سے قریب ہے نہ مجھے اپنے قریب کرتا ہے کہ میں اپنا عذر پیش کرسکوں اور اپنی برات کی بات کرسکوں اور اپنا دفاع کرسکوں ۔ حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) اتنی ہی بات کرنے پائے تھے اور آپ کے ساتھی آپ کے پاس بیٹھے تھے کہ یکدم ایک بادل چھا گیا ۔ ساتھیوں نے خیال کیا کہ اس کے اندر کوئی عذاب آیا ‘ لیکن اس کے اندر سے آواز آئی اے ایوب ! اللہ فرماتا ہے میں تیرے قریب ہوں اور ہمیشہ سے تیرے قریب ہی رہا ‘ اٹھ اپنا عذر پیش کر اور اپنی برات کی بات کر اور اپنی طرف سے دفاع کر اور کمر کس کر اٹھ کھڑا ہو اور اس مقام پر کھڑا ہو جس مقام پر کوئی طاقتور کھڑا ہو کر دوسرے طاقتور کا دفاع کرتا ہے اگر تجھ سے ہو سکے ۔ مجھ سے وہی جھگڑا کرسکتا ہے جو مجھ جیسا ہو اے ایوب تیرے نفس نے تجھے آروز مند بنا دیا ہے کہ تو اپنی قوت سے اپنے مقصد کو پہنچ جائے گا تو کہاں تھا کیا تو واقف ہے کہ میں نے کس اندازے سے اس کو بنایا ‘ کس چیز پر اس کے اطراف کو قائم کیا ‘ کیا تیری اطاعت کرکے پانی نے زمین کو اٹھایا ہے ‘ کیا تیری حکمت سے زمین پانی کا سرپوش بنی ہوئی ہے تو اس روز کہاں تھا جب میں نے آسمان کو چھت کی شکل میں ہوا میں بلند کیا تھا نہ اوپر سے کوئی رسی ہے کہ آسمان اس سے بندھا لٹک رہا ہو ‘ نہ نیچے سے ستون اس کو اٹھائے ہوئے ہیں کیا تو اپنی حکمت سے اس مقام تک پہنچ سکتا ہے کہ آسمان کے نور کو بہا دے یا ستاروں کو چلا دے ‘ کیا تیرے حکم سے رات ودن کا ادل بدل ہو رہا ہے جس روز دریاؤں کے فوارے میں نے (زمین سے) نکالے تھے اور سمندروں کو انکی حدود میں بند کیا تھا تو تو کہاں تھا کیا تیری قوت سے سمندروں کی لہریں ان کی حدود کے اندر رو کی گئی ہیں یا مدت حمل ختم ہونے پر رحم کا منہ تو کھولتا ہے جب میں نے پانی کو خاک پر روکا تھا اور اونچے پہاڑ برپا کئے تھے ‘ تو کہاں تھا کیا تجھے علم ہے کہ کس چیز پر میں نے پہاڑوں کو برپا کیا ہے یا کس توازن سے ان کو قائم کیا ہے ۔ کیا تیرے پاس ایسی کلائیاں ہیں جو ان کا بوجھ اٹھا سکیں ۔ کیا تو جانتا ہے کہ جو پانی میں آسمان سے اتارتا ہوں ‘ وہ کہاں سے آتا ہے ‘ کس چیز سے بادل پیدا ہوتا ہے ‘ برف کا خزانہ کہاں ہے ‘ اولوں کے پہاڑ کہاں ہیں ‘ دن کے اندر رات کا خزانہ کہاں ہے اور رات میں دن کا خزانہ کہاں رہتا ہے اور ہواؤں کا خزانہ کہاں ہے ‘ درخت کس زبان میں باتیں کرتے ہیں ‘ کس نے انسان کے جوف (سینہ یا پیٹ یا سر) میں عقل پیدا کی اور کس نے کانوں اور آنکھوں کے یہ شگاف بنائے ‘ فرشتے کس کے اقتدار کے مطیع ہیں اور جس نے اپنی قہاری طاقت سے سب طاقتوروں کو مغلوب کر رکھا ہے اور کس نے اپنی حکمت سے رزق کی تقسیم کی ہے ۔ اللہ نے اسی طرح کے کلام میں اپنی آثار قدرت کا بکثرت اظہار فرمایا ۔ ایوب نے عرض کیا ‘ الہی جو تفصیل تو نے بیان فرمائی اس کو سمجھنے (اور جواب دینے) سے (میری حالت اور) میرا مرتبہ حقیر ہے ‘ میری زبان گنگ ہوگئی ‘ میری عقل و دانش کند ہوگئی اور میری قوت کمزور پڑگئی ۔ اے میرے معبود ! میں جانتا ہوں کہ جو کچھ تو نے بیان فرمایا وہ تیرے ہی دست قدرت کی کاری گری اور تیری ہی حکمت کی تدبیر کا نتیجہ ہے ۔ بلکہ تیری تدبیر حکمت وصنعت اور قدرت اس سے بھی بڑی ہے کہ کوئی چیز تجھے بےبس نہیں کرسکتی ‘ کوئی چیز تجھ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔ میرے معبود ‘ مجھ پر دکھ ایسے پڑے کہ میں بےقابو ہو کر بول پڑا ‘ مصیبت نے ہی میری زبان چلا دی ۔ کاش زمین پھٹ جاتی اور میں اس سما جاتا اور ایسی بات اپنے رب کی شان میں نہ کہتا جو میرے رب کی ناراضگی کا باعث ہوتی ‘ کاش اس سے پہلے ہی سخت ترین دکھ سے پیدا ہونے والے غم کی وجہ سے میں مر چکا ہوتا ۔ میں نے جو کچھ زبان سے نکالا وہ اس لئے نکالا کہ تو میری معذرت قبول فرما لے اور خاموش رہا تو اس لئے کہ تجھے مجھ پر رحم آجائے ، میری زبان سے غلطی سے ایک بات نکل گئی دوبارہ ہرگز ایسا نہیں کروں گا میں نے اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیا ہے اور دانتوں کے نیچے زبان دبالی ہے اور چہرے پر خاک مل لی ہے ۔ آج میں تیرے عذاب سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں ‘ سخت دکھ سے تیرے ہی جوار رحمت کا خواستگار ہوں مجھے اپنی پناہ میں لے لے ۔ میں تیری سزا سے محفوظ رہنے کے لئے تجھ سے ہی فریاد کرتا ہوں میری فریاد رسی فرما ‘ میں تیری ہی مدد کا طلبگار ہوں میری مدد کر میں تجھی پر بھروسہ رکھتا ہوں میرا کام پورا فرما دے میں تیرے ہی ذریعہ سے بچاؤ کا خواہاں ہوں مجھے اپنی حفاظت میں لے لے ‘ میں تجھ سے اپنے قصور کی معافی چاہتا ہوں مجھے معاف فرما دے میں آئندہ ہرگز کوئی ایسی بات نہیں کروں گا جو تیری مرضی کے خلاف ہو۔ اللہ نے حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) سے فرمایا تیرے بارے میں میرا علم (پہلے ہی) نافذ ہوچکا تھا اور میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے میں نے تیرا قصور معاف کیا تیرے اہل و عیال اور مال کی واپسی کا حکم دے دیا بلکہ جتنا تیرے پاس تھا اتنا ہی مزید تجھے دے دیا تاکہ پیچھے آنے والوں کے لئے قدرت کی نشانی ‘ مصیبت زدہ لوگوں کے لئے عبرت اور صبر کرنے والوں کے لئے باعث عزت ہوجائے اپنی ایڑی زمین پر مار (دیکھ) یہ ٹھنڈا پینے کا اور نہانے کا پانی ہے ‘ اس میں تیری شفا ہے ۔ اپنے ساتھیوں کی طرف سے قربانی پیش کر اور ان کے لئے دعائے مغفرت کر انہوں نے تیرے متعلق میری نافرمانی کی ہے (یعنی تیرے متعلق برا خیال قائم کیا اور تجھے چھوڑ کر چلے گئے) حسب الحکم ایوب نے زمین پر اپنی ایڑی ماری فورا ایک چشمہ پھوٹ نکلا ‘ ایوب نے اس میں گھس کر غسل کیا اور فورا ہی اللہ نے سارے دکھ دور کردیئے آپ چشمہ سے نکل کر آ کر بیٹھ گئے اتنے میں سامنے سے آپ کی بی بی آگئی اور ایوب ‘ جہاں پہلے پڑے تھے وہاں آپ کو تلاش کرنے لگی اور جگہ خالی پا کر متحیر دیوانی ہو کر ادھر ادھر ڈھونڈنے لگی آخر ایک آدمی کو دیکھ کر حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) سے ہی پوچھنے لگی اللہ کے بندے تم کو اس بیمار کا کچھ پتہ ہے جو یہاں پڑا ہوتا تھا ‘ ایوب نے جواب دیا جی ہاں (میں اس کو پہچانتا ہوں) نہ پہچاننے کی کوئی وجہ نہیں ‘ یہ کہہ کر آپ مسکرا دیئے اور فرمایا وہ میں ہی تو ہوں ہنسنے سے بی بی نے پہچان لیا اور (دوڑ کر) گلے لگ گئی ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں عبداللہ (بن عباس) کی جان ہے بی بی ایوب کے گلے سے اس وقت تک لپٹی رہی کہ سارے مویشی اور اولاد (جو فنا ہوچکی تھی دوبارہ زندہ ہو کر) ان کے سامنے سے گزر گئی ۔ کسی نبی ورسول کا امتحان بارگاہ ایزدی میں صحیح لیکن اس میں مبالغہ جائز نہیں : اوپر جو کچھ بیان ہوا ہے وہ سب کا سب اسرائیلی روایات ہیں جو حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) کے متعلق سفر ایوب میں بیان ہوئی ہیں اور وہی سے اٹھا کر ہمارے ہاں درج کرلی گئی ہیں جیسا کہ ہم نے پیچھے بیان کیا ہے ۔ ہم پورے یقین سے یہ کہتے ہیں کہ کسی نبی کو ایسا مرض لاحق نہیں ہوتا جو انسانوں کی نگاہ میں باعث نفرت ہو اور اس کی وجہ سے وہ مریض سے دور بھاگیں ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ نبوت کے مقصد تبلیغ و ارشاد کے بھی منافی ہے جو رشد وہدایت کے لئے رکاوٹ کا باعث ہے ۔ اس طرح کی قابل نفرت بیماری اور وہ بھی مسلسل سات سال سے تیرہ چودہ سال تک لاحق کردینا لوگوں کو نبوت ہی سے مشتبہ کردیتا ہے ۔ پھر قرآن کریم میں کوئی اس طرح کی بات بھی موجود نہیں اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں اس کا کوئی وجود موجود ہے یہ دیو پری کی کہانی کیونکر تسلیم کرلی جائے ۔ ہاں ! قرآن کریم کے وہ اشارات جن کو اس طرح کے قصہ پر فٹ کردیا گیا ہے ان کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کو ہم مختصر بیان کرتے ہیں تاکہ حقیقت واضھ ہوجائے ۔ ا : قرآن کریم کی سورة میں ص میں حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ : (آیت) ” واذکر عبدنا ایوب اذ نادی ربہ انی مسنی الشیطن بنصب و عذاب “۔ ” اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کرو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھے سخت تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے “ مذکورہ آیت کے اس جملہ (انی مسنی الشیطن) کا مطلب ومفہوم کیا ہے ؟ یہی کہ حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) نے جب پیغام الہی پہنچانے کے لئے لوگوں کو مخاطب کیا تو لوگوں نے حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) کی مخالفت شروع کردی پھر جو صورت حال سارے نبیوں اور رسولوں کو پیش آئی وہی حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) کو بھی پیش آئی اور مخالفت اس حد تک بڑھی کہ علاقہ کی مخالف قوتوں نے جمع ہو کر اپنے علاقہ سے باہر کی قوتوں کو اپنے ساتھ شریک کیا کیونکہ حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) بھی اپنے علاقہ میں ایک بہت طاقتور شخصیت تھے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک سبا کے باشندوں اور ملک بابل کے رہنے والوں کے تعارف سے انہوں نے آپ کے مال مویشی اور دوسری ساری جائیداد پر قبضہ کرلیا اور آپ کو ایک سخت آزمائش و تکلیف میں مبتلا کردیا ۔ اسی صورت حال کو حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کے سامنے پیش کرتے ہوئے (انی مسنی الشیطن) “۔ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے جو ایک بہت بڑی حقیقت ہے اور اس شیطان سے مراد وہی طاقت وقوت ہے جو آپ کے خلاف استعمال کی گئی اور دوسری جگہ خود قرآن کریم نے اس کو (انی مسنی الضر) (الانبیائ : 3) سے اس کی وضاحت فرما دی ہے آپ نے رب ذوالجلال والاکرام کی بارگاہ میں اپنے اس دکھ اور مصیبت کو پیش کیا جو آپ کو اس شیطانی طاقت وقوت سے پہنچا تھا ۔ ب : قرآن کریم کی سورة ص میں اس کا جواب آپ کو اس طرح دیا گیا کہ (آیت) ” ارکض برجلک ھذا مغتسل بارد وشراب) اپنی سواری کے جانور پر سوار ہو کر ایڑی مار اور قریب ہی ایسا مقام ہے کہ وہاں تیرے لئے ساری کھیتی باڑی کی آسانیاں رکھی گئی ہیں اس جگہ ہجرت کر جا اور پھر اور پھر دیکھ کر تیرا اللہ تیرے لئے کیسی آسمانی پیدا کرتا ہے ۔ گویا وہی سنت اللہ جو دوسرے سارے انبیاء کرام اور رسل عظام کو پیش آئی اس کی طرف ان کی راہنمائی کی گئی تاکہ وہ اس علاقہ سے نکل جائیں اور اس طرح یہ روز روز کی خرخش ایک بار ختم ہوجائے اس کی تفصیل سورة الانبیاء میں اس طرح فرما دی گئی کہ : (آیت) ” فکشفنا مابہ من ضر واتینہ اھلہ ومثلھم معھم “۔ ” ” ہم نے اس کا دکھ دور کردیا اور اس کو اس کا کنبہ اور اس کی مثل اس کے ساتھ اور بھی عطا کیا “ یعنی آپ وہاں سے ہجرت کر گئے اور جہاں جانے کی ہم نے ان کو ہدایت دی تھی وہاں پہنچ گئے تو ان لوگوں نے آپ کی پذیرائی کی اور آپ کی دعوت کو قبول کرلیا اس طرح اللہ تعالیٰ نے وہاں پہنچا کر ایک ایسا علاقہ آپ کے تابع کردیا جہاں سے انہوں نے دینی ودنیاوی فوائد حاصل کئے اور پھر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ آپ نے اپنے سارے اہل و عیال اور دوسرے ماننے والوں کو وہاں بلا لیا جہاں آپ ہجرت کرکے گئے تھے اس طرح جب آپ کے قدم اچھی طرح وہاں جم گئے تو اللہ تعالیٰ نے اس علاقہ کے لوگوں کے دلوں کو بھی آپ کی طرف پھیر دیا اور وہ علاقہ بھی آپ کو حاصل ہوگیا جو ایک عرصہ پہلے آپ سے چھن گیا تھا اور بلاشبہ آپ نے وہاں رہائش تو اختیار نہیں کی ہوگی کیونکہ کوئی نبی بھی جہاں سے ہجرت کرتا ہے وہاں واپس نہیں جاتا لیکن اس علاقہ کا آپ کے زیر تسلط آجانا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل تھا اور یہ ایک ایسا انعام الہی تھا جس کا ذکر کیا جانا ضروری تھا اس لئے اس کا ذکر کیا گیا ، اس طرح آپ پر اللہ تعالیٰ نے دوہرا احسان فرمایا کہ پہلے لوگ بھی لوٹا دیئے اور مزید بھی عطا کئے جس کا تعلق اس علاقہ سے تھا جہاں آپ ہجرت کر کے تشریف لے گئے تھے ۔ ج : اب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت دی کہ (آیت) ” وخذ بیدک ضغثا فاضرب بہ ولا تحنث “۔ ” ان پراگندہ لوگوں کو اپنے پاس جمع کر اور اس طرح جہاد کرتے ہوئے اپنے مخالفین پر ایسی کاری ضرب لگا کہ وہ دوبارہ ایسی ہمت نہ کرسکیں۔ “ گویا آپ کو اس طرح حکم دیا گیا کہ (آیت) ” اخرجوھم من حیث اخرجوکم “۔ (البقرہ 2 : 191) ” ان کو وہاں سے نکال باہر کرو جہاں سے انہوں نے تم کو نکال باہر کیا تھا “۔ گویا سورة ص کی اس آیت میں آپ کو جہاد کی اجازت دی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کہ تمہاری جنگ نہ تو اپنی مادی اغراض کے لئے ہو اور انہ ان لوگوں پر ہاتھ اٹھاؤ جو دین کی راہ میں مزاحمت نہیں کرتے اور نہ ہی لڑائی میں جاہلیت کے طریقے استعمال کرو۔ عورتوں ‘ بچوں ‘ بوڑھوں اور زخمیوں پر دست درازی کرنا ‘ دشمنوں کے مقتولوں کو مثلہ کرنا ‘ کھیتوں اور مویشیوں کو خواہ مخواہ برباد کرنا اور دوسرے تمام وحشیانہ اور ظالمانہ کام جو انہوں نے کئے تھے بالکل نہ کرنا اور یہ بات بھی سمجھا دی کہ بلاشبہ انسانی خون بہانا اچھا نہیں لیکن جب کوئی انسانی گروہ زبردستی کرے اور دوسروں کو جینے کا حق بھی نہ دے تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ آخر کار وہ بھی اپنے جینے کا حق وصول کرے یا اس راہ میں قربان ہوجائے اور آخری نصیحت اس طرح فرمائی گئی کہ خیال رہے اگر آپ کا کسی سے کوئی عہد و پیمان ہے تو اس کا پورا کرنا نہایت ضروری ہے ۔ بلاشبہ ہم نے آپ کو اے ایوب ڈٹ کر مقابلہ کرنے والا پایا اور ایک بندہ کے لئے یہ خوبی کی بات ہے اور بلاشبہ تیرا اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا تیری خوبی پر دال ہے ۔ (آیت) ” ولا تحنث انا وجدنا صابرا نعم العبد انہ اواب “۔ (38 : 44) سورة ص کی چاروں آیات کے مشکل الفاظ کا مفہوم الگ الگ بیان کیا جاتا ہے تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو اور ازیں بعد ان کا ترجمہ درج کیا جائے گا ۔ سورة ص کی آیات 41 تا 44 کے مشکل الفاظ کے معانی : (الشیطن) ایوب (علیہ السلام) کے خلاف تحریک اٹھانے والا جس کے نتیجہ میں آپ کو وہ تکلیف پہنچی جس کا ذکر پیچھے کیا گیا کافروں اور مشرکوں کا بڑا لیڈر۔ (نصب) اس شیطان کی تحریک کے خلاف آپ نے جو تبلیغ دین کے لئے تکلیف اٹھائی اور جان توڑ کوشش کی اور ان نامساعد حالات میں آپ کو تکان پہنچی اس کی طرف اشارہ ۔ (عذاب الضر) مخالفین کی طرف سے تکالیف اور ایذا رسانی کا بیان۔ (ارکض) الرکض ضرب الدابہ بالرجل : سوار کا ایڑی مار کر اپنے سواری کے جانور کو دوڑانا ہے ۔ (جامع البیان) قرآن کریم میں دوسری جگہ ہے کہ : (آیت) ” فلما احسوا باسنا اذاھم منھا یرکضون ، لا ترکضوا وارجعوا الی ما اترفتم فیہ ومسکنکم لعلکم تسئلون “۔ (الانبیائ 21 : 12) ” جب ہمارا عذاب انہوں نے محسوس کیا تو وہ اچانک بستیوں سے بھاگے جا رہے ہیں ۔ اب بھاگتے کہاں ہو ؟ اپنے اس عیش و عشرت میں واپس لوٹو اور انہی مکانوں میں شاید تم سے کچھ دریافت کیا جائے ۔ “ حسن اتفاق دیکھئے کہ (رک ض) کے مادہ سے تین لفظ قرآن کریم میں آئے ہیں جن میں سے ایک مادہ (ارکض) سورة ص میں آیا ہے اور باقی دونوں سورة الانبیاء کی آیت 12 ‘ 13 میں اور کسی جگہ یہ مادہ استعمال ہی نہیں ہوا اور معنی آپ نے اوپر دیکھ ہی لئے ہیں کہ اس میں بھاگ جانے کا مفہوم بھی نکلتا ہے وہ پیدل ہوگا تو ایڑی اس کو بھاگنے میں کام دے گی اور اگر سواری کا جانور ہے تو ایڑی مار کر جانور کو بھگائے گا تاکہ وہاں سے نکل کر کسی دوسری جگہ کی طرف بھاگ جائے اور یہ معنی ہم نے (ارکض) کے لئے ہیں۔ اور یہ معنی مفسرین نے سورة الانبیاء میں لئے ہیں کہ الظاھر انھم لما ادرکتھم مقدمہ ال عذاب رکبوا دوابھم یرکضرنھا منھز مین اوشھوانی عدوھم علی ارجلھم بالرکبان الراکضین لدوابھم (وجیز) ارکض کل الدابہ برجل ورکضھا برجلین ضربھا لیستحشھا (اساس البلاغہ) رکض الفارس اذا حرک الدابہ برجلہ (فائق زمحشری) الرکض تحریک الرجل ومنہ برجلک والدفع واستحثیاث الفرس للعدو (قاموس) الرکض تحریک الرجل ومنہ قولہ تعالیٰ ارکض دبابہ نصروا رکض الفرس برجلہ (مختارالصحاح) رکض رکضاباب قتل وضرب برجلہ ویتعدی الی مفعول فیقال رکضت الفرس اذ ضربہ (مصباح المنیر) ہمارے مفسرین نے اس جگہ (الارض) زمین کو مفعول بنایا ہے کہ زمین پر ایڑی مار کر چشمہ بنا لے حالانکہ زمین کا اس جگہ کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم نے اس کا مفعول وہی لیا ہے جو خود قرآن کریم نے سورة الانبیاء میں لیا ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے ۔ (ضغثا) ضغث کا لفظ جھاڑو پر بولا جاتا ہے کہ اس میں مختلف تنکوں کو لے کر ایک جگہ باندھ دیا جاتا ہے اور اس طرح جماعت کے بکھرے ہوئے لوگوں کو جمع کرنے پر بھی بولا جاتا ہے اور اس جگہ یہی مراد ہے ، جماعت کے مختلف لوگوں کو جمع کرکے ان سے جہاد پر بیعت لو اور کفر کے کوڑے کرکٹ کو صاف کر دو ۔ چناچہ کہا گیا ہے کہ اتانا ضغیثہ من اناس ای جماعہ ملتبسہ داخل بعضھا فی بعض ” ہمارے پاس چند آدمی آئے جو جھاڑو کے تنکوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے تھے ۔ “ (فائق زمحشری) (فاضرب) ضرب سے ہے مفسرین نے اس سے مراد عورت کو مارنا لیا ہے جو آپ کی خدمت کرتی رہی اور ہم نے اس سے ان مشرکوں اور کافروں اور ان کے اس لیڈر کو مارنا مراد لیا ہے جس کا ذکر (الشیطن) کے عنوان میں گزر چکا ہے ۔ (لا تحنث) حنث کے معنی قسم توڑنے کے ہیں (لا تحنث) قسم کو مت توڑو ۔ مفسرین نے کہا ہے کہ آپ نے عورت کو سو ضرب مارنے کی قسم کھائی تھی اس کے پورا کرنے کا حکم ہے اور ہم نے یہ کہا ہے کہ ایوب (علیہ السلام) کو حکم دیا جارہا ہے کہ ہجرت کرتے وقت یا قبل از ہجرت اگر کسی سے کوئی عہد و پیمان آپ نے کیا تھا تو اس کو پورا کرنا نہایت ضروری ہے کہ اب اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامیاب کیا ہے تو اس کامیابی کے بعد اپنے عہد و پیمان کو بھول نہ جانا کہ یہ عند اللہ قابل پرسش ہے اور قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے کہ (آیت) ” وکانوا یصرون علی الحنث العظیم “۔ (الواقعہ 56 : 46) ” اور انہوں نے جو شرک وکفر کے ترک پر عہد کیا تھا اس کو توڑ رہے ہیں اور پھر اس شرک وکفر پر مصر ہیں۔ “ سورة ص کی آیات ایک نظر میں اور بات کی وضاحت : اب سورة ص کی ان چار آیات کو دوبارہ پڑھو ارشاد الہی ہے کہ : (آیت) ” وَاذْکُرْ عَبْدَنَا أَیُّوبَ إِذْ نَادَی رَبَّہُ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ (41) ارْکُضْ بِرِجْلِکَ ہَذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ (42) وَوَہَبْنَا لَہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُم مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنَّا وَذِکْرَی لِأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ (43) وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثاً فَاضْرِب بِّہِ وَلَا تَحْنَثْ إِنَّا وَجَدْنَاہُ صَابِراً نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّہُ أَوَّابٌ (ص 38 : 41 ‘ 44) ” اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کیجئے جب اس نے اپنے رب کو پکارا “ (اے میرے رب ! ) مجھ کو شیطان (گروہ مخالف کے سرغنہ) نے ایذا اور تکلیف پہنچائی ہے ۔ (ہم نے اس سے کہا کہ ہجرت کے لئے ) اپنے سواری کے جانور کو ایڑی مار (قریب ہی تیرے لئے) پینے اور نہانے کے لئے ٹھنڈا پانی موجود ہے ۔ (پھر) ہم نے اس کو اس کے اہل دیئے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی (دے دیئے) اپنی خاص رحمت سے اور (اس میں) اہل عقل کے لئے درس عبرت ہے ۔ (ہم نے کہا کہ) پراگندہ لوگوں کو اپنے ہاتھ میں لے (بیعت کرکے جمع کر) پس دشمن پر حملہ کر اور اپنے کئے ہوئے وعدوں کا خلاف مت کر بلاشبہ ہم نے اس کو صابر پایا ‘ وہ بہترین بندہ تھا ‘ بلاشبہ وہ (اللہ کی طرف) رجوع کرنے والا تھا۔ “ ” سورة ص کی اس آخری آیت کے الفاظ (آیت) ” وخذ بیدک ضغثا فاضرب بہ ولا تحنث “۔ کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے کہ ” اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا لے اور اس سے مار اور اپنی قسم میں جھوٹا نہ ہو “۔ تو اس سے کیا مراد ہے اور یہ کس واقعہ کی جانب اشارہ ہے ؟ قرآن کریم اور احادیث صحیح میں اس کی کوئی تفصیل مذکور نہیں۔ ہمارے مفسرین یہ کہتے ہیں کہ ایوب (علیہ السلام) کی ہر قسم کی بربادی کے بعد جیسا کہ آپ نے ان کے قصہ میں پڑھا جو مفسرین ہی سے لے کر ہم نے پیچھے درج کرلیا تھا ، ان کی بیوی کے علاوہ کوئی ان کا غمگسار باقی نہ رہا تو وہ نیک بیوی ہر وقت ایوب (علیہ السلام) کی تیماداری میں مشغول اور دکھ درد کی شریک رہتی تھی ایک مرتبہ اس نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کی انتہائی تکلیف سے بےچین ہو کر کچھ ایسے کلمات کہہ دیئے جو صبر ایوبی کو ٹھیس پہنچانے والے تھے اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں شکوہ کا پہلو لئے ہوتے تھے حضرت ایوب (علیہ السلام) اس کو برداشت نہ کرسکے اور قسم کھا کر فرمایا کہ میں تجھ کو سو کوڑے لگاؤں گا پھر جب حضرت ایوب (علیہ السلام) کی مدت آزمائش ختم ہوگئی اور وہ صحت یاب ہوگئے تو قسم پوری کرنے کا سوال سامنے آیا ، ایک جانب رفیقہ حیات کی انتہائی وفاداری ‘ غمگساری اور حسن خدمت کا معاملہ تھا اور دوسری طرف قسم کے سچا اور پورا کرنے کا سوال ‘ حضرت ایوب (علیہ السلام) سخت تردد میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے نیک بی بی کی نیکی اور شوہر کے ساتھ وفاداری کا یہ صلہ دیا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ سو تنکوں کا ایک مٹھا بنا کر اس سے اپنی رفیقہ حیات کو ایک بار مار دیں اس طرح آپ کی قسم پوری ہوجائے گی ۔ اللہ میاں نے اپنے رسول کی قسم کے لئے یہ حیلہ اس کو بتا دیا کہ اس طرح تیری قسم بھی پوری ہوجائے گی اور بیوی صاحبہ بھی سزا سے بچ جائیں گی ۔ گویا اللہ تعالیٰ کے پاس حضرت ایوب (علیہ السلام) کی قسم کھالینے اور پھر اس کو پورا کرنے یا نہ کرنے کا کوئی اور نسخہ موجود نہیں تھا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ایسا نسخہ خود بتا دیا تو اس نسخہ سے جو بعد میں لوگوں نے فوائد حاصل کئے اور آج تک فائدے حاصل کر رہے ہیں وہ سب جائز اور درست ہوگئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہم نے مفسرین کی اس تفسیر کو تسلیم نہیں کیا اور جو مطلب ان آیات کریمات سے سمجھا ہے اس کے متعلق اوپر درج کر آئے ہیں قارئین کی اپنی مرضی ہے کہ وہ چاہیں اس مطلب ومفہوم کو صحیح سمجھیں اور ہماری تفہیم کو رد کردیں ۔ بلاشبہ ہم نے جو مطلب بیان کیا ہے وہ براہ راست قرآن کریم سے اخذ کیا ہے اور اس کے لئے کتاب وسنت میں پوری وضاحت موجود ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جو حالات پیش آتے رہے وہ تقریبا ایک ہی جیسے تھے اور ایک جیسا ہی ان کا علاج اللہ تعالیٰ نے بتایا اور آخری علاج اس کا ہجرت ہی رہا اور پھر ہجرت کے بعد اس قوم کو عذاب الہی نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور یہی کچھ یہاں ہوا جیسا کہ ہمارے بیان کردہ مفہوم سے واضح ہے ۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے متعلق بخاری شریف کی ایک حدیث : بخاری شریف کی ایک حدیث میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کا ذکر کیا گیا ہے اگرچہ وہ نہایت اختصار سے ہے اور وہ مضمون بھی ان آیات کریمات کے ساتھ کوئی تعلق اپنے اندر نہیں رکھتا کہ اس کو کسی آیت یا آیت میں سے کسی لفظ کی تفسیر کہا جاسکے تاہم جو کچھ اس میں بیان کیا گیا اس کا مفہوم بھی عجیب طرح کا بیان کیا گیا ہے ہم چاہتے ہیں اس جگہ اس کا بھی مختصر ذکر کردیا جائے اور ازیں بعد حضرت ایوب (علیہ السلام) کا اختصار کے ساتھ واقعہ بھی درج کردیا جائے جس کا تعلق قرآن کریم کی آیات ہی سے ہے جو اوپر بیان کی گئی ہیں ۔ حدیث شریف یہ ہے : عن ابی ہریرہ ؓ عن النبی ﷺ قال بینما ایوب یغتسل عریایاناخر علی رجل جراد من ذھب فجعل یحشی فی ثوبہ فنادی ربہ یا ایوب الم اکن اغنیتک عما تری قال بلی یا رب ولکن لا غنی لی عن برکتک (بخاری کتاب بدء الخلق باب وایوب اذ نادی ربہ) اس کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے کہ ” ابوہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) ننگے غسل کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سونے کی چند ٹڈیاں ان پر برسائیں ۔ ایوب نے ان کو دیکھا تو مٹھی بھر کر کپڑے میں رکھنے لگے اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) کو پکارا ایوب ! کیا ہم نے تم کو یہ سب کچھ دھن و دولت دے کر غنی نہیں بنا دیا پھر یہ کیا ؟ ایوب (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے پروردگار ! یہ صحیح اور درست مگر تیری نعمتوں اور برکتوں سے کب کوئی بےپرواہ ہو سکتا ہے “ اس روایت کی شرح میں حافظ ابن حجر (رح) تحریر فرماتے ہیں کہ امام بخاری (رح) کی شرط کے مطابق حضرت ایوب (علیہ السلام) کے واقعہ میں کوئی اور خیر ثابت نہیں ہو سکتی تھی تو انہوں نے اس روایت پر اکتفا کیا ہے اس لئے کہ یہ ان کی شرط کے مطابق صحیح ہے ۔ اس روایت کو ہم نے اس لئے درج کیا ہے کہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ اوپر جو قصہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کا مذکورہ ہوا جو ہم نے مفسرین کی تفاسیر سے درج کیا ہے اس میں کوئی بات کسی صحیح حدیث سے انہوں نے نہیں لی جو کچھ لیا ہے سب ایوب سفر تورات کے ایک قصہ سے لیا ہے اور رہی یہ بات کہ اس حدیث میں جو ” جراد من ذھب “ کا لفظ آیا ہے اس کے معنی کیا ہیں ؟ تو عرض ہے کہ معنی ہم نے اوپر درج کردیئے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہے کوئی بہت ہی معمولی اور گھٹیا چیز ہے اور علاوہ ازیں کچھ نہیں ۔ اب مختصر الفاظ میں ان آیات اور ان کے متعلق جو کچھ کتب حدیث میں بیان ہوا ہے درج کرتے ہیں تاکہ ایک بات ذہن نشین ہوجائے ۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت کا خلاصہ کلام : حضرت ایوب (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے ایک نبی تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان کو انعام نبوت کے ساتھ ہی دنیوی مال ومتاع سے بھی وافر حصہ عطا فرمایا تھا جس میں ہر طرح کا مال موجود تھا ۔ زمینیں ‘ باغات ‘ بھیڑوں کے ریوڑ ‘ اونٹوں کے گلے ‘ گائیں بھینسیں اور پھر ان کے ساتھ خدام اور اولاد کی بھی کوئی کمی موجود نہیں تھی ۔ نبوت عطا ہونے کے بعد آپ نے 13 ‘ 15 ‘ 18 ‘ 21 ‘ سال تک پیغام خداوندی اپنی قوم کے لوگوں تک پہنچایا لیکن لاحاصل چند معدودے آدمیوں کے سوا آپ کی دعوت کو لوگوں نے قبول کرنے سے صرف انکار ہی نہ کیا بلکہ مخالفت پر تل گئے پھر یہ مخالفت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئی کہ قوم کی اکثریت نے مل کر اپنے لیڈر چن لئے اور پھر ادھر ادھر سے جمعیت اکٹھی کرکے ان لیڈروں کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور آپ کے سارے مال ومتاع کو لوٹ لیا اور سارے قسم کے ریوڑوں پر قبضہ کرلیا اس طرح آپ کا خاندان بھی منتشر ہوگیا اور ساتھی بھی چھوڑ چھاڑ کر بھاگ نکلے ۔ آپ کے پاس آنے جانے والوں میں دو آدمی ایسے بھی تھے جو ان نامساعد حالات میں بھی کبھی کبھار آپ کے پاس آتے جاتے رہے لیکن ایک دن وہ بھی آیا کہ ان دونوں نے بھی آپس میں اس طرح کی باتیں شروع کردیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایوب (علیہ السلام) کو دعوت دیتے ہوئے ایک مدت ہوچکی لیکن کوئی آدمی ان کی بات سننے کے لئے تیار نہیں حالانکہ آپ آنے جانے اور بات سننے والوں پر عنایات بھی کرتے ہیں اور ان کی تفہیم کرنے کے لئے بھی سارا زور صرف کردیتے ہیں ۔ نہ معلوم آپ کا حلقہ کیوں وسیع نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کا بیان درست نہیں یا کوئی دوسری بات ہے اور یہ بات چلتے چلتے حضرت ایوب (علیہ السلام) تک بھی پہنچ گئی تو آپ نے ان دونوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں مسلک اور طرز بیان کے متعلق تو کچھ بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں کہوں گا تو اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات ہوگی اس کے متعلق چاہے جو کہیں اور اللہ تعالیٰ تو میرے حالات کو اچھی طرح جاننے والا ہے ، رہا میرا معاملہ اور حسن اخلاق تو وہ بھی آپ کے سامنے ہے میری احتیاط کا عالم تو یہ ہے کہ دو شخص اگر میرے پاس بیٹھ کر منازعت کریں تو وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے بعض اوقات قسم کھا جاتے ہیں جو کہ ان کو نہیں کھانا چاہئے تو میں اپنے پاس سے اس کا کفارہ تک ادا کرتا ہوں کہ ان میں سے کوئی اس قسم کھالینے سے گناہگار نہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے معافی ان کے حق میں مانگتا ہوں ۔ آپ تو خیر اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اور اللہ تعالیٰ کا قرب آپ کو حاصل تھا آپ کی اہلیہ بھی نہاتیت ہی پاکباز ‘ دیانت دار اور اپنے خاوند کی ہر حرکت پر مرمٹنے والی تھی اور آپ کے سارے کاموں میں آپ کا تعاون کرتی تھی اور ہر وقت آپ کا خیال رکھتی ۔ بیماری اور صحت دونوں حالتوں میں وہ آپ کا ساتھ دیتی تھی۔ آپ اللہ تعالیٰ سے الحاح وزاری کرتے رہتے تھے اور اپنے مخالفین کے شر سے پناہ طلب کرتے رہتے تھے ایک روز وہ کہیں ادھر ادھر نکلی ہوئی تھی یا اپنے کسی ریوڑ یا زمین کی طرف چلی گئی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہجرت کا پیغام پہنچایا اور حکم ہوا کہ فورا اپنا جانور بطور سواری لو اور فلاں علاقہ کی طرف نکل جاؤ اور ابھی اپنے اہل خانہ کو جو ابھی تک آپ کے ساتھ ہیں یہیں رہنے دو اور دیکھو جس علاقہ کی طرف جانے کا حکم ہم آپ کو سنا رہے ہیں اس میں ہر طرح کی کشائش آپ کے لئے رکھ دی گئی ہے وہاں کشادہ زمین ہے جو ابھی تک کسی کی ملکیت نہیں ہے اور وہاں ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشمے بھی جاری ہیں آپ خود وہاں پہنچیں اور بعد میں اپنے لوگوں کو بھی آہستہ آہستہ اسی علاقہ کی طرف چلے جانے کا حکم دیں لیکن یہ سب کچھ اطلاع ثانی پر رکھیں ۔ وہ زمین آپ کے لئے مناسب ہے ‘ موسم خوشگوار ہے اور وہاں کے لوگ آپ کو آنکھوں پر بٹھائیں اور بہت جلد ان کے دل آپ کی طرف مائل ہوں گے وہاں جا کر ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاؤ اور ان اپنے لوگوں کو بھی آہستہ آہستہ وہیں جمع کرلو اس طرح آپ کو آپ کا یہ خاندان بھی مل جائے گا اور وہ بھی آپ کے جانثار ہوں گے ۔ تم ہمارے حکم کا انتظار کرو اور عنقریب ہم تم کو جہاد کی اجازت دیں گے اور تم اپنے ان سارے لوگوں کو جمع کر کے اور جہاد پر ان سے بیعت لے کر ان لوگوں کو جہاں سے آپ ہجرت کر رہے ہیں دوبارہ پیغام نبوت پہنچاؤ اگر اب بھی یہ لوگ نہ مانیں تو ان پر حجت خداوندی پوری ہوگئی اور ان پر اگر یہ پہلے کی طرح کوئی نازیبا حرکت کریں تو ایک ایسا لشکر لاؤ جو ان کو پہلے دعوت الہی کی تلقین کرے اور پھر ان کو نہ ماننے اور مخالفت پر اتر آنے کے باعث تہ تیغ کر دے ۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق پورا پورا عمل کیا اور اللہ نے آپ کے دن پھیر دیئے اور وہی ہوا جس کی اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی تھی اس طرح آپ کو وہاں پہنچا کر اللہ تعالیٰ نے پہلے کیا احسانات کئے تھے کہ اب شروع کردیئے اور وہ مشکل دن اس طرح سے کٹ گئے کہ اب ان کو یاد بھی نہ رہا کہ میں ہی وہ ہوں جو اس طرح کی مشکلات میں گھرا ہوا تھا اور جب آپ کے خاندان کے لوگ بھی بخیریت آپ کے پاس پہنچ گئے تو ایک روز ان کی اہلیہ نے بھی آپ کو مخاطب کرکے یہی عرض کیا کہ آپ وہی ایوب ہیں جن کی صحت نہایت گر چکی تھی اور لاچاری حد سے بڑھ گئی تھی کہ آپ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے آپ نے اس سے فرمایا کہ بلاشبہ میں وہی ہوں اور آپ یہاں آئی ہیں چند دنوں کے بعد انشاء اللہ آپ کی صحت بھی خوب بحال ہوجائے گی ۔ ازیں بعد حضرت ایوب (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم کے مطابق اپنے اس علاقہ کو جہاں سے انہوں نے ہجرت کی بحمد اللہ فتح کرلیا اور وہ لوگ بھی جو اس وقت تک باقی رہ گئے تھے آپ کی بیعت قبول کرلی اس طرح اللہ تعالیٰ نے جب جہاد کا حکم دیا تھا ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ اب بحمد اللہ تم کو فتح حاصل ہونے والی ہے اور جہاں سے آپ کو نکلنے کا حکم ہم نے دیا تھا واپس وہاں داخل ہونے کا حکم دے رہے ہیں تو خیال رکھنا کہ کسی کے ساتھ تمہارا کوئی عہد و پیمان ہو تو اس کو نہ بھولنا اور بزور شمشیر دعوت نہ منوانا بلکہ ان کی مرضی پر چھوڑ دینا وہ چاہیں آپ کی ملت میں داخل ہوں چاہیں تو کفر کی ملت کے ساتھ وابستہ رہیں ہاں ! آج سے آپ ان کے حکمران ہوں گے تو ایسا کوئی انتقامی کام مطلق نہ کرنا اور حضرت ایوب (علیہ السلام) نے یہی کچھ کیا جس کا آپ کو حکم دیا گیا تھا اس طرح گویا اللہ تعالیٰ نے ان چند آیات کریمات اور نبی اعظم وآخر ﷺ نے ان مختصر احادیث میں آپ کی ساری کہانی کو بیان کردیا اور یہ وہی کچھ تھا جو خود نبی اعظم وآخر ﷺ کی زندگی پر فٹ ہو رہا تھا ۔ اس طرح حضرت ایوب (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق جس کا اس نے قرآن کریم میں بھی اس طرح بیان فرمایا کہ (آیت) ” ومن یھاجر فی سبیل اللہ یجد فی الارض مرغما کثیرا وسعۃ “۔ (4 : 16) ” جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں پناہ لینے کے لئے بہت جگہ اور بسر اقامت کے لئے بڑی گنجائش پائے گا ۔ “ بہت وسعت عطا فرمائی اور وہ ہرچیز کے پہلے سے زیادہ مالک ہوئے جس کے وہ پہلے مالک قرار پائے تھے اور بحمد اللہ دونوں طرح کی زمین بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو فراہم کردی جو بارانی بھی تھی اور سیراب ہونے والی بھی جو چشموں سے سیراب کی جاسکتی تھی اور آپ پر پھر وہ وقت آیا کہ آپ کے غلہ جات ‘ گندم اور جو دونوں الگ الگ کھلیانوں میں رکھے جاتے تھے اور ان دونوں میں اس وقت کے حالات کے مطابق وہی نسبت تھی جو سونے اور چاندی کو آپس میں نسبت ہے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوبارہ مالا مال کردیا اور پوچھا کہ ایوب اب بتاؤ کیا حال ہے ؟ تو آپ نے پہلے سے بھی بڑھ چڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے گیت گانے شروع کردیئے اور پھر اپنی قوم میں رہے جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ کے زندگی کا باقی حصہ رکھا تھا ۔ اس طرح اس قصہ سے رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا بھی ہر باب واضح کردیا تاکہ سمجھنے والے خود سمجھ لیں کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے حالات کی یکسانیت کس طرح ایک ہی طرح سے چلتی آرہی ہے ۔ ہجرت کے بعد حضرت ایوب (علیہ السلام) کتنی مدت تک زندہ رہے ۔ اللہ تعالیٰ ہی اس مدت کو خوب جاننے والا ہے ہم تو وہی کہہ سکتے ہیں جس کا علم اللہ نے ہم کو دیا سفر ایوب میں یہ ضرور تحریر ہے کہ اس آزمائش سے نجات پانے کے بعد یعنی ہجرت کرنے کے بعد آپ ایک سو چالیس سال تک زندہ رہے جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اس کا ذکر کیا لیکن سفر ایوب پر ہم مکمل انحصار نہیں کرسکتے اس لئے یہ کہنا چاہیں گے کہ وہ ہجرت کے بعد زندہ رہے جب تک اللہ نے ان کو زندہ رکھا اس پر اس مختصر سرگزشت کو ختم کر رہے ہیں اور آخر میں اللہ تعالیٰ سے ملتجی ہیں کہ وہ ہم کو اپنی امان میں رکھے اور حق پر جینے اور مرنے کی توفیق دے ۔ آمین ثم آمین ۔ اس سرگزشت میں ہمارے لئے جو اسباق رکھے ہیں ان میں سے چند ایک کا ذکر : 1۔ دنیا کا مال و دولت اور عزت ووقار بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں لیکن یہ انعامات جتنے وافر ہوں اتنا ہی امتحان اور آزمائش بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت آسکتی ہے ۔ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان چیزوں کی محبت میں ڈوب کر آخرت کو نہ بھلا دے ، اگر کسی نے ایسا کیا تو یقینا وہ خسارہ میں رہا ۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کسی کو آزمائش میں نہ ڈالے لیکن اگر کوئی ایسا وقت آہی جائے تو صبر و استقامت سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد کا طالب ہو اور شکوہ وشکایت زبان پر نہ لائے اور یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرے کہ یہ آزمائش میری کسی لغزش سے آئی ہوگی یا پھر میرے درجات کو بلند کرنا منظور ہوگا اور میرے اعمال میں کوئی کوتاہی ہوگی جس کا یہ ازالہ ہے ۔ پھر یہ بھی کہ آزمائش کو کھولنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں ۔ 3۔ عزت ووجاہت ‘ دولت و ثروت اور خوشحالی ورفاہت کی حالت بھی آزمائش وامتحان کی ہو سکتی ہے اس لئے ان انعامات کے ملنے کے بعد انسان کو رعونت وانابت سے ہر ممکن بچتے رہنا چاہئے اور تکبر وبڑائی کے قریب بھی نہ بھٹکنے دے اگر ان میں سے کوئی بیماری لاحق ہوگئی تو دراصل یہی ہلاکت ہے اور یہی وہ چیز تھی جس نے ایوب (علیہ السلام) کے مخالفین کا بھٹہ بٹھایا ۔ 4۔ اگر کبھی زندگی میں مصیبت وبلا ‘ رنج وغم اور عسرت وتنگ حالی سے انسان دوچار ہوجائے تو اس کو دور کرنے کے لئے ہر ایسا اقدام کرے جو اللہ کے نیک بندے کرتے رہے اور اس سلسلہ میں حضرت سیدنا ایوب (علیہ السلام) کے زیر نظر قصہ سے راہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرے کہ وہ ایک مدت مدید تک مصیبت ودکھ میں رہے لیکن اس کے باوجود حرف شکایت آپ کی زبان پر نہیں آیا ۔ اس سے اسوہ حسنہ کی تکمیل ہوگی اگر صبر و استقامت سے کام لیا گیا ۔ 5۔ ناامیدی اور مایوسی گناہ ہے ۔ حالات کچھ ہی کیوں نہ ہوں اپنی جائز اور درست کوشش ترک نہیں کرنا چاہئے ۔ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ۔ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ قنوطیت کفر کا شیوہ ہے اور یہ بھی کہ ہر آزمائش وبلا گناہوں کی پاداش میں نہیں آتی لیکن لوگ اکثر اس بات کو بھول جاتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ رحمت باراں جب رک کر آتی ہے تو وہ زرخیز زمین کو کس طرح چار چاند لگا دیتی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی کیا حکمت پنہاں ہے ۔ 6۔ زن وشو کے تعلقات میں وفاداری اور فریقین میں شفقت و محبت ساری چیزوں سے زیادہ محبوب شے ہے ۔ فقط اغراض کی وابستگی اور شے ہے ۔ کیونکہ وہ تو حیوانوں کو بھی حاصل ہے ۔ انسانیت کا مقام بہت اونچا ہے ۔ زن وشو میں بدگمانی اور بغض وعداوت دنیا ہی کو جہنم بنا دیتا ہے ۔ خصوصا ایک بیوی کے لئے نہایت ضروری ہے کہ وہ شوہر کے حق میں نیکو کار ہو اور شوہر کے ساتھ اس وقت بھی وفاداری کرے جب وہ مصائب وآلام میں گرفتار ہو اور اس کے اعزہ واقربا اس سے نفرت کریں تو وہ غم خواری کا ثبوت دے اور اگر ایسی بیوی کسی کو میسر آجائے تو یقینا اس کو دنیا میں جنت مل گئی ۔ 7۔ خاوند کے لئے ضروری ہے کہ وہ حیوانی خواہش کا ازالہ ہی بیوی کو نہ سمجھے بلکہ اس کی جائز خواہشات کا پورا پورا احترام کرے اور اس کے ساتھ اندرون خانہ زندگی میں بھی مکمل تعاون کرتا رہے اور خصوصا اس کی مختلف حالتوں کا ضرور خیال رکھے اور یقین جانے کے اس کے سینے میں بھی ایک دل ہے اور یہ کہ دل کی راحت جسم کی راحت پر فوقیت رکھتی ہے ۔ (آیت 84 اور 85 کی تفسیر ملاحظہ آیت 86 کے ذیل میں)
Top