Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 45
فَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَ هِیَ ظَالِمَةٌ فَهِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا وَ بِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّ قَصْرٍ مَّشِیْدٍ
فَكَاَيِّنْ : تو کتنی مِّنْ قَرْيَةٍ : بستیاں اَهْلَكْنٰهَا : ہم نے ہلاک کیا انہیں وَهِىَ : اور یہ۔ وہ ظَالِمَةٌ : ظالم فَهِيَ : کہ وہ۔ یہ خَاوِيَةٌ : گری پڑی عَلٰي : پر عُرُوْشِهَا : اپنی چھتیں وَبِئْرٍ : اور کنوئیں مُّعَطَّلَةٍ : بےکار وَّقَصْرٍ : اور بہت محل مَّشِيْدٍ : گچ کاری کے
پھر کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے انہیں ہلاک کردیا اور وہ ظلم کرنے والی تھیں ، وہ ایسی اجڑیں کہ اپنی چھتوں پر گر کے رہ گئیں ، کنوئیں ناکارہ ہوگئے سربفلک محل کھنڈر بن گئے
قریش مکہ کی پہلی بستیوں کو نگاہ میں رکھیں جنہوں نے ہمارے رسولوں کو جھٹلایا تھا : 45۔ فرمایا کہ غور کرو پہلی دعوتوں کو جھٹلانے والوں کے ساتھ کیا ہوا ؟ یہ بھی کہ وہ قومیں کتنی کتنی طاقتور تھی لیکن ان کو ڈھیر کرتے کتنا وقت لگا ؟ ان کے بڑے بڑے پختہ محلات اور آباد کنوؤں کا کیا حال ہوا ؟ اور یہ ساری شہادتیں ملک عرب سے گویا ان کے گھر ہی سے پیش کی جارہی ہیں جہاں سے عربوں کے قافلوں کا دن رات گزر ہوتا تھا اور جن کی روایات وہ ہر روز اپنے شعرا کے شعروں اور ادیبوں کی نثروں اور خطیبوں کے خطبوں میں پڑھتے اور سنتے رہتے تھے ۔ آخر ان سب کو ہم نے کیوں تباہ وبرباد کیا ؟ کیا ان سے ہماری کوئی خاص دشمنی تھی ؟ نہیں ان کی ہلاکت کا باعث بھی ان کے اپنے نبیوں اور رسولوں کی دعوتوں کا انکار تھا اور یہ کام یہ لوگ کر رہے ہیں (قصرمشید) پختہ اور بلند ایوانوں اور محلوں کو کہا جاتا ہے اور (بئرمعطلۃ) غیر آباد کنوؤں کو کہا گیا ہے جہاں آبادی کا نام ونشان تک نہ رہا ہو اور وہاں سے گزرتے ہوئے خوف آئے ۔ کبھی آپ کا گزر نہایت پرانی عمارت کے پاس سے ہوا ہو تو یہ نقشہ دیکھنے میں آئے گا اور صاف پتہ چلے گا کہ کبھی یہ عمارت آسمان بوس تھی اور اس کے مکین کتنے خوش نصیب ہوں گے جن کو اتنی بڑی رہائش گاہ میسر رہی ہوگی لیکن اس کی موجودہ حالت پر جب نظر پڑے گی تو معلوم ہوگا کہ پہلے اس کی اوپر کی چھت نیچے والی چھت پر گری ‘ پھر وہ اس بوجھ کو نہ سہارتے ہوئے نیچے والی منزل پر گری ہوگی اور اس طرح کرتے کرتے زمین بوس ہوگئی اور ازیں بعد اس کی دیواریں بھی بادوباراں کے اثر سے گرتی گرتی ایک ڈھیر کی صورت میں تبدیل ہوگئی ہوں گی ۔ کبھی یہ عمارتیں کتنی خوبصورت نظر آتی ہوں گی لیکن آج تو ایک بھیانک منظر پیش کر رہی ہیں اور اس طرح سوچتے سوچتے بھی اس بلڈنگ اور محل کی طرف بھی سوچ جانی چاہئے جس میں آج ہم خود رہ رہے ہیں کہ کسی آنے والے کل میں یہ بھی ایسا ہی تصور پیش کرے گا اور یہاں بھی ابابیلیں ‘ الو اور زاغ وزغن کا بسیرا ہوا کرے گا اور آنے والی نسلوں کو یہی منظر پیش کرے گا جو آج ہم کو یہ شکستہ عمارتیں پیش کر رہی ہیں ۔
Top