Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 55
وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ یَاْتِیَهُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ
وَلَا يَزَالُ : اور ہمیشہ رہیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ : میں مِرْيَةٍ : شک مِّنْهُ : اس سے حَتّٰى : یہاں تک تَاْتِيَهُمُ : آئے ان پر السَّاعَةُ : قیامت بَغْتَةً : اچانک اَوْ يَاْتِيَهُمْ : یا آجائے ان پر عَذَابُ : عذاب يَوْمٍ عَقِيْمٍ : منحوس دن
جو لوگ منکر ہیں وہ اس بارے میں برابر شک ہی کرتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ گھڑی اچانک ان کے سروں پر آجائے یا کسی منحوس دن کا عذاب آ نمودار ہو
شک و گمان کے روگی انجام کار ایسے منحوس دن تک پہنچ جاتے ہیں : 55۔ شک و گمان کی دنیا میں بسنے والے اس حالت سے کبھی نہیں نکل سکتے کیوں ؟ اس لئے کہ اس بیماری کے روگی نہ ادھر کے ہوتے ہیں نہ ادھر کے اور ان کی ساری زندگی اس کشمکش میں گزر جاتی ہے ‘ ان کی چال ہی دراصل یہ ہوتی ہے کہ ” چلو تم ادھر کو جدھر کی ہوا ہو “ لیکن ہوا کبھی ایک رخ پر بھی چلتی ہے ؟ اس لئے گویا ان کی کوئی منزل نہیں ہوتی جہاں ان کو پہنچنا مقصود ہوتا ہے اگر ان کی کوئی منزل متعین ہوتی تو وہ اس طرف کو رخ کر کے چلتے اور کم از کم جو قدم اٹھاتے خواہ وہ کتنا ہی سست ہوتا لیکن اتنے قدم تو وہ منزل کے قریب جاتے اور جس کی منزل ہی متعین نہ ہو وہ آخر پہنچے تو کہاں ؟ ظاہر ہے کہ پھر اس کی ایک منزل ہے وہ بھی وہی جو اس کے لئے مقرر کردی گئی ہے اور وہ جس رخ بھی چلیں گے اس منزل تک تو بہرحال پہنچ جائیں گے اور رہی یہ بات کہ وہ منزل کیا ہے جو انہوں نے متعین بھی نہیں کی اور وہ جس رخ بھی چلیں گے اس تک ضرور پہنچ جائیں گے تو یاد رہے کہ اس منزل کا نام موت ہے لیکن موت کے بعد کیا ان کو امن نصیب ہوجائے گا ؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ تو ان کے لئے منحوس دن ثابت ہوگا کہ گویا ان کو پکڑ کر جیل خانہ میں ڈال دیا جائے گا اور آج تک جو کچھ انہوں نے کیا کم از کم ان کی اپنی مرضی اور خواہش کو تو اس میں دخل ضرور تھا اور آج سے ان کی مرضی اور خواہش بھی نہیں ہوگی بلکہ جہاں ان کو قید میں ڈالا جائے گا وہی رہنا ہوگا اور وہاں سے نکلنے کی کئی سبیل نہیں ہوگی ۔ اس دن کو ” یوم عقیم “ کہا گیا ہے اور عقیم کے معنی کئے جاتے ہیں بانجھ ‘ بےخیر ‘ منحوس وغیرہ اس کا استعمال مذکر اور مؤنث دونوں کے لئے ہوتا مرد کے لئے آئے گا تو اس کی جمع عقما اور عقام ہوگی اور جب عورت کے لئے آئے گا تو عقالم اور عقم ہوگی عاقر اور عقیم دونوں کے معنی ایک ہی ہیں یعنی وہ مرد یا عورت جس کے اولاد نہ ہوتی ہو اور ” یوم عقیم “ سے وہ دن مراد ہے جو اس سے بانجھ ہوچکا ہو کہ اس میں کافروں کے لئے کسی قسم کی خیر پیدا ہو ۔ عقم اصل میں اس خشکی کو کہتے ہیں جو اثر قبول کرنے سے مانع ہو اور ” داء عقام “ کہتے ہیں لاعلاج مرض کو جو مریض کو کبھی نہیں چھوڑتا یہاں تک کہ اس کو ہلاک کردیتا ہے ۔ ریح عقیم اس ہوا کو کہتے ہیں جو نہ بادل لائے اور نہ ہی کسی درخت پر پھل رہنے دے ۔ زیر نظر آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ شک کی دنیا میں بسنے والے نہ کبھی شک و گمان سے نکل سکتے ہیں اور نہ ہی یہ لوگ کبھی حق کو دل سے قبول کریں گے ہاں ! اس کی ایک ہی صورت ممکن ہے کہ یا تو اچانک ان پر قیامت برپا ہوجائے یا کسی ہولناک منحوس دن کا عذاب ان پر مسلط ہوجائے لیکن کیا ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں بھی ان کے مان لینے کا کوئی فائدہ ہوگا ؟ یقینا نہیں ۔
Top