Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 78
وَ جَاهِدُوْا فِی اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ١ؕ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ١ؕ مِلَّةَ اَبِیْكُمْ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِیْنَ١ۙ۬ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ هٰذَا لِیَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِیْدًا عَلَیْكُمْ وَ تَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ١ۖۚ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰهِ١ؕ هُوَ مَوْلٰىكُمْ١ۚ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ۠ ۧ
وَجَاهِدُوْا
: اور کوشش کرو
فِي اللّٰهِ
: اللہ میں
حَقَّ
: حق
جِهَادِهٖ
: اس کی کوشش کرنا
هُوَ
: وہ۔ اس
اجْتَبٰىكُمْ
: اس نے تمہیں چنا
وَمَا
: اور نہ
جَعَلَ
: ڈالی
عَلَيْكُمْ
: تم پر
فِي الدِّيْنِ
: دین میں
مِنْ حَرَجٍ
: کوئی تنگی
مِلَّةَ
: دین
اَبِيْكُمْ
: تمہارے باپ
اِبْرٰهِيْمَ
: ابراہیم
هُوَ
: وہ۔ اس
سَمّٰىكُمُ
: تمہارا نام کیا
الْمُسْلِمِيْنَ
: مسلم (جمع)
مِنْ قَبْلُ
: اس سے قبل
وَفِيْ ھٰذَا
: اور اس میں
لِيَكُوْنَ
: تاکہ ہو
الرَّسُوْلُ
: رسول
شَهِيْدًا
: تمہارا گواہ۔ نگران
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَتَكُوْنُوْا
: اور تم ہو
شُهَدَآءَ
: گواہ۔ نگران
عَلَي النَّاسِ
: لوگوں پر
فَاَقِيْمُوا
: پس قائم کرو
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاٰتُوا
: اور ادا کرو
الزَّكٰوةَ
: زکوۃ
وَاعْتَصِمُوْا
: اور مضبوطی سے تھام لو
بِاللّٰهِ
: اللہ کو
هُوَ
: وہ
مَوْلٰىكُمْ
: تمہارا مولی (کارساز)
فَنِعْمَ
: سو اچھا ہے
الْمَوْلٰى
: مولی
وَنِعْمَ
: اور اچھا ہے
النَّصِيْرُ
: مددگار
اور اللہ کی راہ میں جان لڑا دو اس کی راہ میں جان لڑا دینے کا جو حق ہے پوری طرح ادا کرو ، اس نے تمہیں برگزیدگی کے لیے چن لیا ، تمہارے لیے دین میں کسی طرح کی تنگی نہیں رکھی ، وہی طریقہ تمہارا ہوا جو تمہارے باپ ابراہیم کا تھا ، اس نے تمہارا نام { مسلم } رکھا پچھلے وقتوں میں بھی اور اس میں بھی اور یہ اس لیے کیا تاکہ (یہ رسول اللہ : ﷺ تمہارے لیے گواہ ہو اور تم تمام انسانوں کے لیے گواہ بنو ، پس نماز کا نظام قائم کرو ، زکوٰۃ کی ادائیگی کا سامان کرو ، اللہ کا سہارا مضبوط پکڑ لو ، وہی تمہارا کارساز ہے اور جس کا کارساز اللہ ہوا تو کیا ہی اچھا کارساز ہے اور کیا ہی اچھا مددگار
اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد جاری رکھنے کا حکم عام : 78۔ ” اور اللہ کی راہ میں کوشش کرتے رہو جو اس کی کوشش کا حق ہے “ ” اور اللہ کی راہ میں جان لڑا دو اور اس کی راہ میں جان لڑا دینے کا جو حق ہے پوری طرح ادا کرو ۔ “ عام طور پر اسلام کے سلسلہ عبادات میں جہاد کا نام فقہاء امت کی تحریروں میں نہیں آتا مگر قرآن کریم اور احادیث نبوی میں اس کی فرضیت اور اہمیت بہت سے دوسروں فقہی احکام اور عبادات سے بدرجہا زیادہ ہے اس لئے ضرورت ہے کہ اس فریضہ عبادات کو اپنے موقع پر جگہ دی جائے اور اس کی حقیقت پر ناواقفیت کے جو توبرتو پردے پڑگئے ہیں ان کو اٹھایا جائے اور فی زماننا جو اس کا مفہوم سمجھ لیا گیا ہے اس کی بھی وضاحت کی جائے تاکہ بات واضح ہوجائے ، جہاد کے معنی عموما قتال اور لڑائی کے سمجھے جاتے ہیں مگر مفہوم کی یہ تنگی بلاشبہ غلط ہے ۔ ” جہاد “ کا لفظ ” جہد “ سے نکلا ہے ، جہاد اور مجاہدہ فعال اور مفاعلت کے وزن پر اسی ” جہد “ سے مصدر ہیں اور اس کے لغوی معنی محنت اور کوشش کے ہیں اور ہر قسم کی جددوجہد قربانی وایثار گوارا کرنا اور ان تمام جسمانی ‘ مالی اور دماغی قوتوں کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو ملی ہیں اسی راہ میں صرف کرنا یہاں تک کہ ان کے لئے اپنی ‘ اپنے عزیزواقارب کی ‘ اہل و عیال کی ‘ خاندان وقوم کی جان تک قربان کردینا اور حق کے مخالفوں اور دشمنوں کی کوشش کو توڑنا ‘ انکی تدبیروں کو رائیگاں کرنا ‘ ان کے حملوں کو روکنا اور اس کے لئے میدان جنگ میں اگر اترنا پڑے تو اس کے لئے بھی پوری طرح تیار رہنا ‘ یہی جہاد ہے اور یہ بھی بلاشبہ اسلام کا ایک اہم رکن اور بہت بڑی عبادت ہے ۔ افسوس ہے کہ مخالفوں نے اتنے اہم اور انتے ضروری اور اتنے وسیع مفہوم کو جس کے بغیر دنیا میں کوئی تحریک نہ کبھی سرسبز ہوئی ہے اور نہ ہو سکتی ہے صرف ” دین کے دشمنوں کے ساتھ جنگ “ کے تنگ میدان میں محصور کردیا ہے ‘ یہ بات بار بار کہی اور دکھائی گئی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ جس تعلیم اور شریعت کو لے کر دنیا میں آئے ‘ وہ محض نظریہ اور فلسفہ نہیں بلکہ عمل اور سراپا عمل ہے ‘ آپ کے مذہب میں نجات کا استحقاق ‘ گوشہ گیری ‘ رہبانیت ‘ نظری مراقبہ ‘ دھیان اور الہیات کی فلسفیانہ خیال آرائی پر موقوف نہیں بلکہ اللہ کی توحید ‘ رسولوں اور کتابوں اور فرشتوں کی سچائی ‘ قیامت اور جزاوسزا کے اعتقاد کے بعد ان کے مطابق عمل خیر اور نیک کرداری کی جدودجہد پر مبنی ہے ‘ اسی لئے قرآن پاک میں جہاد کا مقابل لفظ (قعود) (بیٹھنا یا بیٹھ رہنا) استعمال کیا گیا ہے جس سے مقصود سستی ‘ تغافل اور ترک فرض ہے ‘ سورة نساء میں ہے : (آیت) ” لاَّ یَسْتَوِیْ الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْْرُ أُوْلِیْ الضَّرَرِ وَالْمُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فَضَّلَ اللّہُ الْمُجَاہِدِیْنَ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ عَلَی الْقَاعِدِیْنَ دَرَجَۃً وَکُـلاًّ وَعَدَ اللّہُ الْحُسْنَی وَفَضَّلَ اللّہُ الْمُجَاہِدِیْنَ عَلَی الْقَاعِدِیْنَ أَجْراً عَظِیْماً ، (النسائ : 4 : 95) ” مسلمانوں میں سے وہ جن کو کوئی جسمانی معذوری نہ ہو اور پھر بیٹھے رہیں اور وہ جو خدا کی راہ میں اپنی جان و مال سے جہاد کر رہے ہوں ‘ برابر نہیں ‘ اللہ نے اپنی جان ومال سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجہ کی فضیلت عطا کی ہے اور ہر ریک سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے اور جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجہ کی فضیلت عطا کی ہے اور ہر ایک سے خدا نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے اور جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر بڑے اجر کی فضیلت بخشی ہے ۔ اس ” بیٹھنے “ اور جہاد کرنے کے باہمی تقابل سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ جہاد کی حقیقت بیٹھنے ‘ سستی کرنے اور آرام ڈھونڈنے کے سراسر خلاف ہے ۔ یہاں ایک شبیہ کا ازالہ کرنا ضروری ہے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ” جہاد “ اور ” قتال “ دونوں ہم معنی ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے قرآن کریم میں دونوں لفظ الگ الگ استعمال ہوئے ہیں ‘ اس لئے ” جہاد فی سبیل اللہ “ (اللہ کی راہ میں جہاد کرنا) اور ” قتال فی سبیل اللہ “ (اللہ کی راہ میں لڑنا) ان دونوں لفظوں کے ایک معنی نہیں ہیں بلکہ ان دونوں میں عام وخاص کی نسبت ہے یعنی ہر ” جہاد “ قتال نہیں ہے بلکہ جہاد کی مختلف قسموں میں سے ایک قتال اور دشمنوں سے لڑنا بھی ہے ‘ اسی لئے قرآن پاک میں ان دونوں لفظوں کے استعمال میں ہمیشہ فرق ملحوظ رکھا گیا ہے چناچہ اسی سورة نساء کی اوپر کی آیت میں اور دوسری آیتوں میں جہاد کی دو صریح قسمیں بیان کی گئی ہیں ‘ جہاد بالنفس اور جہاد بالمال یعنی اپنی جان کے ذریعہ جہاد کرنا اور اپنے مال کے ذریعہ جہاد کرنا ‘ جان کے ذریعہ جہاد کرنا یہ ہے کہ حق کی حمایت کے لئے ہر قسم کی جسمانی تکلیف بےخطر اٹھائی جائے یہاں تک کہ اپنی جان تک جو کھوں میں ڈال دینے ‘ آگ میں جلائے جانے ‘ سولی پر لٹکائے جانے ‘ تیر اور نیزے میں چھد جانے اور تلوار سے کٹ جانے کے لئے ہر وقت آمادہ اور مستعد رہے ‘ مال سے جہاد کرنا یہ ہے کہ حق کو کامیاب اور سربلند کرنے کے لئے اپنی ہر ملکیت کو قربان ‘ اپنی ہر دولت کو نثار اور اپنے ہر سرمایہ کو وقف کرنے کے لئے تیار رہے ‘ اسی جان اور مال کی باطل محبت ‘ شخص اور قوم دونوں کی ترقی وسعادت کی راہ میں رکاوٹ ہے ‘ اگر یہ دونوں بت ہمارے سامنے سے ہٹ جائیں تو ہم کامل موحد ہوجائیں اور پھر ہماری ترقی کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی ‘ جسمانی وروحانی ہر قسم کی ترقی کا اصل اصول یہی ہے اس کے سوا کچھ اور نہیں ۔ ترقی وسعادت کا یہ گر صرف محمد رسول اللہ ﷺ کو بتایا گیا اور آپ ﷺ ہی نے یہ نکتہ اپنی امت کو سکھایا ‘ اسی جہاد کا جذبہ اور اسی کے حصول ثواب کی آرزو تھی جس کے سبب سے مکہ میں مسلمانوں نے تیرہ برس تک ہر قسم کی تکلیفوں کا بہادرانہ مقابلہ کیا ‘ ریگستان کی جلتی دھوپ ‘ پتھر کی بھاری سل ‘ طوق و زنجیر کی گرانباری ‘ بھوک کی تکلیف پیاس کی شدت ‘ نیزہ کی انی ‘ تلوار کی دھار ‘ بال بچوں سے علیحدگی ‘ مال و دولت سے دست برداری اور گھر بار سے دوری کوئی چیز بھی ان کے استقلال کے قدم کو ڈگمگا نہ سکی اور پھر دس برس تک مدینہ منورہ میں انہوں نے تلوار کی چھاؤں میں جس طرح گزارے وہ دنیا کو معلوم ہے ۔ (آیت) ” انما المؤمنون الذین امنوا باللہ ورسولہ ثم لم یرتابوا وجاھدوا باموالھم وانفسھم فی سبیل اللہ اولئک ھم الصادقون “۔ (الحجرات 49 : 15) ” مومن وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر اس میں وہ ڈگمگائے نہیں اور اللہ کے راستہ میں اپنی جان سے اور اپنے مال سے جہاد کیا یہی سچے اترنے والے لوگ ہیں ۔ (آیت) ” فالذین ھاجروا واخرجوا من دیارھم اوذوا فی سبیلی وقتلوا وقتلوا لاکفرن عنھم سیاتھم ولادخلنھم جنت “۔ (آل عمران 3 : 195) پھر جنہوں نے اپنا گھر بار چھوڑا اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور لڑے اور مارے گئے ان کے گناہوں کو ان سے اتار دوں گا اور ان کو پہشت میں داخل کروں گا ۔ جہاد کی قسمیں : 1۔ جب جہاد کے معنی محنت ‘ سعی بلیغ اور جدوجہد کے ہیں تو ہر نیک کام اس کے تحت میں داخل ہو سکتا ہے علمائے دل کی اصطلاح میں ” جہاد “ کی سب سے اعلی قسم خود اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے اور اسی کا نام ان کے ہاں ” جہاد اکبر “ ہے ۔ خطیب نے تاریخ میں حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے ان صحابہ سے جو ابھی ابھی لڑائی کے میدان میں واپس آئے تھے فرمایا ” تمہارا آنا مبارک ‘ تم چھوٹے جہاد (غزوہ) سے بڑے جہاد کی طرف آئے ہو کہ بڑا جہاد بندہ کا اپنے ہوائے نفس سے لڑنا ہے ۔ “ (بحوالہ کنز العمال کتاب الجہاد ج 2 ص 285 حیدر آباد دکن) حدیث کی دوسری کتابوں میں اس قسم کی اور بعض روایتیں بھی ہیں چناچہ ابن نجار نے حضرت ابوذر ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ” بہترین جہاد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور اپنی خواہش سے جہاد کرے ۔ “ یہی روایت دیلمی میں ان الفاظ میں ہے کہ ” بہترین جہاد یہ ہے کہ تم اللہ کے لئے اپنے نفس اور اپنی خواہش سے جہاد کرو “ یہ تینوں روایتیں گو فن کے لحاظ سے چنداں مستند نہیں ہیں مگر یہ درحقیقت بعض صحیح حدیثوں کی تائید اور قرآن پاک کی اس آیت کی تفسیر ہیں : (آیت) ” والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا وان اللہ لمع المحسنین “۔ (العنکبوت 29 : 69) ” اور جنہوں نے ہمارے بارے میں جہاد کیا (یعنی محنت اور تکلیف اٹھائی) ہم ان کو اپنا راستہ آپ دکھائیں گے اور بلاشبہ اللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ اس پوری سورة میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حق کے لئے ہر مصیبت و تکلیف میں ثابت قدم اور بےخوف رہنے کی تعلیم دی ہے اور اگلے پیغمبروں کے کارناموں کا ذکر کیا ہے کہ وہ ان مشکلات میں کیسے ثابت قدم رہے اور بالآخر اللہ نے ان کو کامیاب اور ان کے دشمنوں کو ہلاک کیا ‘ سورة کے آغاز میں ہے : (آیت) ” ومن جاھد فانما یجاھد لنفسہ ان اللہ لغنی عن العلمین “۔ (العنکبوت 29 : 6) ” اور جو کوئی جہاد کرتا ہے (یعنی محنت اٹھاتا ہے) وہ اپنے ہی نفس کے لئے جہاد کرتا ہے اللہ تعالیٰ جہان والوں سے بےنیاز ہے ۔ اور سورة کے آخر میں فرمایا کہ ” ہمارے کام میں یا خود ہماری ذات کے حصول میں یا ہماری خوشنودی کی طلب میں جو جہاد کرے گا اور محنت اٹھائے گا ہم اس کے لئے اپنے تک پہنچنے کا راستہ آپ صاف کردیں گے اور اس کو اپنی راہ دکھائیں گے “ ” یہی مجاہد “ کامیابی کا زینہ اور روحانی ترقیوں کا وسیلہ ہے ‘ سورة حج میں ارشاد ہوا : (آیت) ” وجاھدوا فی اللہ حق جھادہ ھو اجتباکم وما جعل علیکم فی الدین من حرج ملۃ ابیکم ابراہیم “۔ (الحج 22 : 78) ” اور محنت کرو اللہ میں پوری محنت ‘ اس نے تم کو چنا ہے اور تمہارے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں کی تمہارے باپ ابراہیم کا دین۔ یہ ” اللہ میں محنت اور جہاد کرنا “ وہی جہاد اکبر ہے جس پر ملت ابراہیمی کی بنا ہے یعنی حق کی راہ میں عیش و آرام ‘ اہل و عیال اور جان ومال ہرچیز کو قربان کردینا ۔ ترمذی ‘ طبرانی ‘ حاکم اور صحیح ابن حبان میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ المجاھد من جاھد نفسہ ” یعنی مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے “ صحیح مسلم میں ہے کہ ایک دفعہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے پوچھا کہ ” تم پہلوان کس کو کہتے ہو ؟ “ عرض کیا جس کو لوگ پچھاڑ نہ سکیں ‘ فرمایا ” نہیں ! پہلوان وہ ہے جو غصہ میں اپنے نفس کو قابو میں رکھے “ یعنی جو اس پہلوان کو پچھاڑ سکے اور اس حریف کو زیر کرسکے جس کا اکھارہ خود اس کے سینہ میں ہے ، (صحیح مسلم باب یھلک نفسہ عند الغضب ج 2 ص 396) 2۔ جہاد کی ایک اور قسم جہاد بالعلم ہے ‘ دنیا کا تمام شر و فساد جہالت کا نتیجہ ہے ‘ اس کا دور کرنا ہر حق طلب کے لئے ضروری ہے ‘ ایک انسان کے پاس اگر عقل ومعرفت اور علم و دانش کی روشنی ہو تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس سے دوسرے تاریک دلوں کو فائدہ پہنچائے ‘ تلوار کی دلیل سے قلب میں وہ طمانیت نہیں پیدا ہو سکتی جو دلیل وبرہان کی قوت سے لوگوں کے سینوں میں پیدا ہوتی ہے ‘ اسی لئے ارشاد ہوا کہ : (آیت) ” ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتیھی احسن “۔ (النحل 16 : 125) ” تو لوگوں کو اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف آنے کا بلاوا حکمت و دانائی کی باتوں کے ذریعہ سے اور اچھی طرح سمجھا کر دے اور مناظرہ کرنا ہو تو وہ بھی اچھے اسباب سے کر ۔ دین کی یہ تبلیغ و دعوت جو سراسر علمی طریق سے ہے جہاد کی ایک قسم ہے اور اسی طریقہ کا نام ” جہاد بالقرآن “ ہے کہ قرآن خود اپنی آپ دلیل ‘ اپنی آپ موعظت اور اپنے لئے آپ مناظرہ ہے ‘ قرآن کے ایک سچے عالم کو قرآن کی صداقت اور سچائی کے لئے قرآن سے باہر کی کسی چیز کی ضرورت نہیں ‘ محمد رسول اللہ ﷺ کو روحانی جہاد یعنی روحانی بیماریوں کی فوجوں کو شکست دینے کے لئے اسی قرآن کی تلوار ہاتھ میں دی گئی اور اسی سے کفار ومنافقین کے شکوک و شبہات کے پروں کو ہزیمت دینے کا حکم دیا گیا ‘ ارشاد ہوا : (آیت) ” فلا تطع الکفرین وجاھدھم بہ جھادا کبیرا “۔ (الفرقان 25 : 52) ” تو کافروں کا کہا نہ مان اور بذریعہ قرآن تو ان سے جہاد کر ‘ بڑا جہاد۔ بذریعہ قرآن جہاد کر یعنی قرآن کے ذریعہ سے تو ان کا مقابلہ کر ‘ اس قرآنی جہاد ومقابلہ کو اللہ تعالیٰ نے ” جہاد کبیر “ بڑا جہاد اور بڑے زور کا مقابلہ فرمایا ہے اس سے اندازہ ہوگا کہ اس جہاد بالعلم کی اہمیت قرآن کی نظر میں کتنی ہے ‘ علماء نے بھی اس اہمیت کو محسوس کیا ہے اور اس کو جہاد کا مہتمم بالشان درجہ قرار دیا ہے ‘ امام ابوبکر راضی حنفی نے احکام القرآن میں اس پر لطیف بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ جہاد بالعلم کا درجہ جہاد بالنفس اور جہاد بالمال دونوں سے بڑھ کر ہے ۔ (مکارم القران رازی ج 3 ص 119) ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ حق کی حمایت اور دین کی نصرت کے لئے عقل ‘ فہم ‘ علم اور بصیرت حاصل کرے اور ان کو اس راہ میں صرف کرے اور وہ تمام علوم جو اس راہ میں کام آسکتے ہوں ان کو اس لئے حاصل کرے کہ ان سے حق کی اشاعت اور دین کی مدافعت کا فریضہ انجام پائے گا یہ علم کا جہاد ہے جو اہل علم پر فرض ہے ۔ 3۔ جہاد بالمال : انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو مال و دولت عطا کی ہے اس کا منشا بھی یہ ہے کہ اس کو اللہ کی مرضی کے راستوں میں خرچ کیا جائے ‘ یہاں تک کہ اس کو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے آرام و آسائش کے لئے بھی خرچ کیا جائے تو اسی کی مرضی کے لئے ، دنیا کا ہر کام روپیہ کا محتاج ہے چناچہ حق کی حمایت اور نصرت کے کام بھی اکثر روپے پر موقوف ہیں اس لئے جہاد بالمال کی اہمیت بھی کم نہیں ہے ‘ دوسری اجتماعی تحریکوں کی طرح اسلام کو بھی اپنی ہر قسم کی تحریکات اور جدوجہد میں سرمایہ کی ضرورت ہے ‘ اس سرمایہ کا فراہم کرنا اور اس کے لئے مسلمانوں کا اپنے اوپر ہر طرح کا ایثار گوارا کرنا جہاد بالمال ہے ، آنحضرت ﷺ کی تعلیم وصحبت کی برکت سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اپنی عام غربت اور ناداری کے باوجود اسلام کی سخت سے سخت گھڑیوں میں جس طرح مالی جہاد کیا ہے وہ اسلام کی تاریخ کے روشن کارنامے ہیں اور ان ہی سیرابیوں سے دین حق کا باغ چمن آرائے نبوت سرسبز و شاداب ہوا اور اسی لئے اسلام میں ان بزرگوں کا بہت بڑا رتبہ ہے ۔ (آیت) ” ان الذین امنوا وھاجروان وجاھدوا باموالھم وانفسھم فی سبیل اللہ “۔ (الانفال 8 : 74) ” بیشک وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مال وجان سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ۔ قرآن پاک میں مالی جہاد کی تنبیہہ وتاکید کے متعلق بکثرت آیتیں ہیں بلکہ بہ مشکل کہیں جہاد کا حکم ہوگا جہاں اس جہاد بالمال کا ذکر نہ ہو اور قابل لحاظ یہ امر ہے کہ ان میں سے ہر ایک موقع پر جان کے جہاد پر مال کے جہاد کو تقدم بخشا گیا ہے ‘ جیسے : (آیت) ” انفروا خفافا وثقالا وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون “۔ (التوبہ 9 : 41) ہلکے یا بھاری ہو کر جس طرح ہو ‘ نکلو اور اپنے مال اور اپنی جان سے اللہ کے راستہ میں جہاد کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم کو معلوم ہو۔ (آیت) ” انما المؤمنون الذین امنوا باللہ ورسولہ ثم لم یرتابوا وجاھدوا باموالھم انفسھم فی سبیل اللہ اولئک ھم الصادقون “۔ (الحجرات 49 : 15) ” مومن وہی ہیں جو اللہ اور رسول پر ایمان ایمان لائے پھر اس میں شک نہیں کیا اور اپنے مال اور اپنی جان سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ‘ یہی سچے اترنے والے ہیں ۔ (آیت) ” فضل اللہ المجاھدین باموالھم وانفسھم علی القاعدین درجۃ “۔ (النسائ 4 : 95) ” اپنے مال اور اپنے نفس سے جہاد کرنے والوں کو اللہ نے بیٹھ رہنے والوں پر ایک درجہ کی فضیلت دی ہے ۔ اس تقدم کے کئی اسباب اور مصلحتیں ہیں : میدان جنگ میں ذاتی اور جسمانی شرکت ہر شخص کے لئے ممکن نہیں لیکن مالی شرکت ہر ایک کے لئے آسان ہے ۔ جسمانی جہاد یعنی لڑائی کی ضرورت ہر وقت نہیں پیش آتی ہے لیکن مالی جہاد کی ضرورت ہر وقت اور ہر آن ہوتی ہے ۔ انسان کی کمزوری یہ ہے کہ مال کی محبت ‘ اس کی جان کی محبت پر اکثر غالب آجاتی ہے ۔ گر جان طلبی مضائقہ نیست گرزر طلبی سخن دریں است : اس لئے مال کو جان پر مقدم رکھ کر ہر قدم پر انسان کو اس کی اس کمزوری پر ہوشیار کیا گیا ہے ۔ 4۔ جہاد کی ان قسام کے علاوہ ہر نیک کام اور ہر فرض کی ادا میں اپنی جان ومال و دماغ کی قوت صرف کرنے کا نام بھی اسلام میں جہاد ہے ‘ عورتیں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کرتی ہیں کہ یا رسول اللہ ! ہم کو غزوات کے جہاد میں شرکت کی اجازت دی جائے ‘ ارشاد ہوا کہ ” تمہارا جہاد نیک حج ہے “ (صحیح بخاری کتاب الجہاد) کہ اس مقدس سفر کے لئے سفر کی تمام صعوبتوں کو برداشت کرنا صنف نازک کا ایک جہاد ہی ہے اسی طرح ایک صحابی یمن سے چل کر خدمت اقدس میں اس غرض سے حاضر ہوئے کہ کسی لڑائی میں جہاد میں شرکت کریں ‘ آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے ماں باپ ہیں ‘ عرض کی جی ہاں ! فرمایا ” ففیھما فجاھد “ تو تم ان کی خدمت میں جہاد کرو۔ (ابو داؤد کتاب الجہاد) یعنی ماں باپ کی خدمت کرنا بھی جہاد ہے ‘ اسی طرح خطرناک سے خطرناک موقع پر حق کے اظہار میں بےپاک ہونا بھی جہاد ہے ‘ آپ ﷺ نے فرمایا : 5۔ اس سے ظاہر ہوا کہ جہاد بالنفس یعنی اپنے جسم وجان سے جہاد کرنا جہاد کے ان تمام اقسام کو شامل ہے جن میں انسان کی کوئی جسمانی محنت صرف ہو اور اس کی آخری حد خطرات سے بےپروا ہو کر اپنی زندگی کو بھی اللہ کی راہ میں نثار کردینا ہے نیز دین کے دشمنوں سے اگر مقابلہ آپڑے اور وہ حق کی مخالفت پر تل جائیں تو ان کو راستہ سے ہٹانا اور اس صورت میں ان کی جان لینا یا اپنی جان دینا جہاد بالنفس کا انتہائی جذبہ کمال ہے ‘ ایسے جاں نثار اور جانباز کا انعام یہ ہے کہ اس نے اپنی جس عزیز ترین متاع کو خدا کی راہ میں قربان کیا اور وہ ہمیشہ کے لئے اس کو بخش دی جائے یعنی فانی حیات کے بدلہ اس اس کو ابدی حیات عطا کردی جائے اسی لئے ارشاد ہوا : (آیت) ” ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیآء ولا کن الا تشعرون “۔ (البقرہ 2 : 154) ” جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم کو اس کا حاحساس نہیں ۔ آل عمران میں ان جانبازوں کی قدر افزائی ان الفاظ میں کی گئی ہے : (آیت) ” وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْیَاء عِندَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ (169) فَرِحِیْنَ بِمَا آتَاہُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہِ وَیَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُواْ بِہِم مِّنْ خَلْفِہِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ (آل عمران 3 : 169 ‘ 170) ” جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کو مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے پروردگار کے پاس ان کو روزی دی جارہی ہے ‘ اللہ نے ان کو اپنی جو مہربانی عطا کی ہے اس پر وہ خوش ہیں جو آج تک ان سے اس زندگی میں ہونے کی وجہ سے نہیں ملے ہیں ان کو خوشخبری دیتے ہیں کہ ان کو نہ کوئی خوف ہے ‘ نہ وہ غم میں ہیں ۔ ان جانثاروں کا نام شریعت کی اصطلاح میں شہید ہے ‘ یہ عشق و محبت کی راہ کے شہید زندہ جاوید ہیں ۔ ہرگز نمیرو آنکہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است برجریدہ عالم دوام ما : یہ اپنے اسی خونی گلگوں پیراہن میں قیامت کے دن اٹھیں گے ۔ (صحیح مسلم ‘ کتاب الجہاد) اور حق کی جو عملی شہادت اس زندگی میں انہوں نے اد کی تھی ‘ اس کا صلہ اس زندگی میں پائیں گے (آیت) ” ولیعلم اللہ الذین امنوا ویتخذ منکم شھدآئ “ (آل عمران 3 : 140) اسی کے ساتھ وہ جانباز بھی جو گو اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اترے تھے لیکن ان کے سر کا ہدیہ دربار الہی میں اس وقت اس لئے قبول نہ ہوا کہ ابھی ان کی دنیاوی زندگی کا کارخانہ ختم نہیں ہوا تھا وہ بھی اپنے حسن نیت کی بدولت رضائے الہی کی سند پائیں گے ‘ اسی لئے ان کو عام مسلمان ادب وتعظیم کے لئے ” غازی “ کے لقب سے یاد کرتے ہیں ۔ (آیت) ” ومن یقاتل فی سبیل اللہ فیقتل اویغلب فسوف نؤتیہ اجراعظیما “۔ (النسائ 4 : 74) ” اور جو اللہ کی راہ میں لڑتا ہے ‘ پھر وہ یا مارا جاتا ہے یا وہ غالب آتا ہے تو ہم اس کو بڑا بدلہ عنایت کریں گے ۔ (آیت) ” فَالَّذِیْنَ ہَاجَرُواْ وَأُخْرِجُواْ مِن دِیَارِہِمْ وَأُوذُواْ فِیْ سَبِیْلِیْ وَقَاتَلُواْ وَقُتِلُواْ لأُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّئَاتِہِمْ وَلأُدْخِلَنَّہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ ثَوَاباً مِّن عِندِ اللّہِ وَاللّہُ عِندَہُ حُسْنُ الثَّوَابِ (آل عمران 3 : 195) ” تو جنہوں نے میری خاطر گھربار چھوڑا اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ان کو میری راہ میں تکلیفیں دی گئیں اور وہ لڑے اور مارے گئے ہم ان کے گناہوں کو چھپا دیں گے ان کو جنت میں داخل کریں گے ‘ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ‘ اللہ کی طرف سے ان کو یہ بدلہ ملے گا اور اللہ کے پاس اچھا بدلہ ہے ۔ ان آیات کی تفسیر وتشریح میں آنحضرت ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ احادیث میں مذکور ہے جس میں شیہدوں کی فضیلتیں اور ان کی اخروی نعمتوں کی تفصیل نہایت مؤثر الفاظ میں ہے اسی شہادت اور غزا کے عقیدے نے مسلمانوں میں مشکلات کے مقابلہ اور دشمنوں سے بےخوفی کی وہ روح پیدا کردی جس کی زندگی اور تاذگی کا تقریبا چودہ سوبرس کے بعد بھی وہی عالم ہے ‘ یہی وہ جذبہ ہے جو مسلمانوں کو دین کی خاطر جان دینے پر اس قدر جلد آمادہ کردیتا ہے اور اس حیات جاوید کی تلاش میں ہر مسلمان بیتاب نظر آتا ہے ‘ یہ وہ رتبہ ہے جس کی تمنا خود آنحضرت ﷺ نے ظاہر کی اور فرمایا کہ ” مجھے آرزو ہے کہ میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں اور دوبارہ مجھے زندگی ملے اور میں اس کو بھی قربان کردو اور پھر تیسری زندگی ملے اور اس کو بھی میں اللہ کی راہ میں نثار کر دوں “ (صحیح مسلم کتاب الجہاد) ذرا ان فقروں پر ایک بار اور نگاہ ڈال لیجئے ‘ ان میں یہ نہیں ہے کہ میں دوسرے کو مار ڈالوں بلکہ یہ ہے کہ حق کے راستہ میں مارا جاؤں اور پھر زندگی ملے ‘ پھر مارا جاؤں ‘ پھر زندگی ملے اور پھر مارا جاؤں ۔ کشتگان خنجرتسلیم را ہر زماں از غیب جان دیگر است : 6۔ دائمی جہاد : وہ جہاد ہے جو عمر بھر جاری رہتا ہے ، یہ تو وہ جہاد ہے جس کا موقع ہر مسلمان کو پیش نہیں آتا اور جس کو آتا بھی ہے تو عمر میں ایک آدھ دفعہ ہی آتا ہے مگر حق کی راہ میں دائمی جہاد وہ جہاد ہے جو مسلمان کو ہر وقت پیش آسکتا ہے اس لئے محمد رسول اللہ ﷺ کے ہر امتی پر یہ فرض ہے کہ دین کی حمایت ‘ حلم دین کی اشاعت ‘ حق کی نصرت ‘ غریبوں کی مدد ‘ زیردستوں کی امداد ‘ سیہ کاروں کی ہدایت ‘ امر بالمعروف ‘ نہی عن المنکر ‘ اقامت عدل ‘ رد ظلم اور احکام الہی کی تعمیل میں ہمہ تن اور ہر وقت لگا رہے یہاں تک کہ اس کی زندگی کی ہر جنبش و سکون ایک جہاد بن جائے اور اس کی پوری زندگی جہاد کا ایک غیر منقطع سلسلہ نظر آئے ، سورة آل عمران کی جس میں جہاد کے مسلسل احکام ہیں آخری آیت ہے : (آیت) ” یا ایایھا الذین امنوا صبروا وصابروا ورابطوا واتقوا للہ لعلکم تفلحون “۔ (آل عمران 3 : 200) ” اے ایمان والو ! مشکلات میں ثابت قدم رہو اور مقابلہ میں مضبوطی دکھاؤ اور کام میں لگے رہو اور اللہ سے ڈرو شاید کہ تم مراد کو پہنچو۔ یہی وہ جہاد محمدی ہے جو مسلمانوں کی کامیابی کی کنجی اور فتح وفیروزی کانشان ہے : لیکن اس کا مطلب کوئی سر پھرا یہ نہ سمجھے کہ ہم جہاد بالسیف کو جہاد نہیں تسلیم کرتے یا یہ کہ اس وقت اس کی ضرورت نہیں یا یہ کہ ہم ” مدافعانہ جہاد “ اور ” جارحانہ جہاد “ کے چکر میں قوم کو پھنسانے کا نظریہ رکھتے ہیں ہرگز نہیں ‘ ہمارے عقیدہ میں صرف ایک مثبت چیز ہے جسے ” جہاد “ کہتے ہیں ۔ مدافعت اگر کوئی چیز ہے تو وہ شروع سے آخر تک مدافعت ہے اور اگر اس کو جارحانہ اقدام کوئی کہتا ہے تو وہ از اول تا آخر جارحانہ اقدام ہے ، بلاشبہ جہاد ایک ضروری اور ناگزیر عمل ہے جو مومن کو ہر حال میں کرنا ہے اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے جس کے لئے وہ وجود میں آیا ہے اگر آپ نظر غور وفکر سے کام لیں تو مدافعانہ جنگ کی کوئی صحیح تعریف نہیں مل سکے گی ، مدافعت کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ جب دشمن تمہارے گھروں میں گھس کر تم پر تلوار اٹھائے اور اس کی دھار تمہاری گردن سے چوتھائی انچ کے فاصلے پر پہنچ جائے تب تم سمجھو کہ دشمن نے واقعی جارحانہ حملہ کردیا اور اب مدافعت کا وقت آگیا ہے ، یہ مقصد تو کسی انسان کا بھی نہیں ہو سکتا ۔ برخلاف اس کے اگر صرف یہ خطرہ ہو کہ دشمن حملہ کرنے والا ہے اور ذرا سی غفلت میں ہمارا صفایا ہوجائے گا اور اگر پہلے ہی اس کا زور توڑ دیا جائے جب ہی ہم اس کی غارت گری سے محفوظ رہ سکتے ہیں تو اس صورت میں آگے بڑھ کر حملہ کردینا ہی عین مدافعت ہے اور تحفظ قدم کا عین فطری تقاضا ہے ، اس کی صورت دیکھنے والوں کو خواہ کیسی ہی جارحانہ نظر آئے لیکن دراصل یہ بھی مدافعت ہی کی ایک ضروری شکل ہے ۔ اس انتظار میں رہنا کہ جب دشمن ہماری سرحدوں میں گھس کر قتل و غارت شروع کر دے گا تب ہم پر مدافعت ضروری ہوگی ایک دیوانہ کے لئے تو صحیح ہو سکتا ہے جس کی دنیا صرف خیال ہوتی ہے لیکن ایک بیدار ‘ زندہ اور جاوید قوم کے فرد کے لئے یہ دیوانگی کے سوا کچھ نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے نقطہ نظر سے دیکھئے تو جس طرح جارحانہ اقدام مدافعت ہی کی ایک دوسری شکل ہے اس طرح مدافعت اس اقدام کا پہلا زینہ ہے ، جو آپ اپنی حفاطت ومدافعت نہ کرسکے وہ آگے کیا بڑھ سکے گا بحیثیت ایک مسلمان قوم کے اگر ہم فقط اپنے بچاؤ پر قانع ہوجائیں تو اس امت کے وجود میں آنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے اس لئے دراصل اسلامی نقطہ نظر سے مدافعت اور جارحانہ اقدام میں کوئی فرق نہیں الا یہ کہ اگر اعلاء کلمۃ الحق جہاد ہوگا تو وہ مدافعت ہوگی اور اگر دوسری اقوام کے ممالک کو اپنے زیر تسلط لانا مقصود ہوگا تو یہ جنگ جارحانہ جنگ کہلائے گی اس لئے اس بات کو یون بیان کیا جاسکتا ہے کہ جہاد صرف ایک مثبت حقیقت ہے اور یہ دونوں اس کی ایک دو صورتیں ہیں جو باہم نظریہ کے مختلف اور عمل کے لحاظ سے دونوں باہم پیوستہ ہیں ۔ لہذا خیال رہے کہ جہاد کی فرضیت میں کوئی شبہ نہیں دیکھنا صرف یہ ہے کہ جہاد کن سے کیا جائے ؟ ان کا کیا جرم ہے ؟ جہاد کی غرض وغایت کیا ہے ؟ کس زمان ومکان میں اس سے باز رہنے کا حکم ہے ؟ اپنا بچاؤ کیوں ضروری ہے ؟ ثابت قدمی کیوں لازم ہے ؟ ثابت قدموں پر کیا انعام اور بھاگنے والوں پر کیا عذاب ہوتا ہے ؟ جہاد کن کن چیزوں سے ہوتا ہے ؟ سامان جہاد کی فراہمی کیوں ضروری ہے ؟ مجاہدین کا کیا درجہ ہے ؟ جہاد کن کن معذروں پر فرض نہیں ؟ یہ فرض کفایہ کب اور فرض عین کب ہوتا ہے ؟ جنگ کے بعد صلح کن بنیادوں پر اور کیوں ضروری ہے ؟ اسیران جنگ کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہئے ؟ جہاد کے بغیر کیوں قوم زندہ نہیں رہ سکتی ؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے اور سوالات ہیں جن کے جوابات قرآن کریم نے نہایت وضاحت سے پیش کئے ہیں اور ہم اس تفسیر میں ساتھ ساتھ بیان کرتے چلے آرہے ہیں ، اس وقت جس چیز کی وضاحت کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں اور ہماری مذہبی امور سیاسی پارٹیاں جو کچھ کر رہی ہیں کیا یہ جہاد ہے ؟ ہے تو کیسے اور نہیں تو کیوں ؟ جہاد اسلامی کے متعلق جھوٹے پروپیگنڈے اور اس کی غرض وغایت : بلاشبہ جہاد بالسیف کا پہلا حملہ آوروں کے حملے کا معقولیت سے جواب دینا ہے اور یہ ایک ایسا حق ہے جس کی معقولیت سے صرف وہی انکار کرسکتا ہے جو معقولیت کو خیر باد کہنے کا اعلان کردے تاہم بعض معقول حق کو نامعقول ثابت کرنے کی کوشش کرنے والوں کی بھی کمی نہیں رہی ۔ مسلمانوں کے عالمگیر زوال کے بعد جب یورپ نے سر اٹھایا اور یہ تمدنی روشنی اس کے اندر اسلام ہی کے باعث آئی تو اس نے پہلا قدم اٹھاتے ہی یہ ” جہاد “ کیا کہ جہاد اسلامی کو نامعقول ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ مسلمانوں کو متاثر کرنے کے لئے سیرت کی کتابیں لکھیں ؓ تاریخیں ، شائع کیں ‘ مقالات سپرد قلم کئے اور ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ وہ یہ ثابت کردیں کہ جہاد وحشت ہے ‘ بربریت ہے ‘ خلاف امن حرکت ہے ‘ انسانیت کے خلاف اقدام ہے ‘ پھر اتنے ہی پر بس نہ کیا بلکہ یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلامی جہاد زبردستی مسلمان بنانے کے لئے ہوتا ہے پھر اس کا اتنا پروپیگنڈا کیا کہ مسلمانوں میں وہ طبقہ جو ان کے سامنے مرعوب ہوچکا تھا وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور ایک بار مرعوب ہونے والی قوم اس رعب کے نیچے آسانی کے ساتھ نہیں نکل سکتی بلکہ دن بدن مرعوب ہی ہوتی چلی جاتی ہے اس کی مثال خود قوم بنی اسرائیل سے دی جاسکتی ہے خصوصا اس وقت جب وہ فرعون مصر سے مرعوب ہوچکی تھی اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس بھی سوائے اس کے کوئی چارہ کار نہ رہا تھا کہ وہ قوم کو ساتھ لے کر اس کے علاقہ حکومت سے نکل جائیں تب ہی یہ مرعوب قوم فرعون کے رب سے نکل سکتی ہے پھر یہ اس قوم کے لوگ تھے جن کو ذاتی طور پر تجربہ ہوچکا تھا اب جب انہوں نے مسلمانوں کو مرعوب کرلیا تو ان کا حق تھا کہ اپنے تجربہ سے فائدہ اٹھاتے انہوں نے وہی کیا اور اس مرعوب طبقہ سے قرآنی تعلیمات جہاد کو قوم مسلم سے نکال پھینکنے کی ہر ممکن کوشش کی تاہم وہ مذہب کا مقابلہ محض استدلال عقل سے نہیں کرسکتے تھے اور نہ ہی کرسکے ؟ پھر انہوں نے اسکیم یہ بنائی کہ مذہبی رنگ میں بعض مجددین پیدا کردیئے جنہوں نے جہاد کے خلاف الماریوں کی الماریاں لکھ ڈالیں اور اپنی جدید شریعت میں اسے ” حرام “ قرار دے دیا ۔ اس طرح اس ان کی یہ چال اتنی کامیاب رہی کہ زیادہ نہیں تو مسلمانوں کا اس جہاد سے رخ موڑ کر ایک نئے جہاد کی داغ بیل ڈال دی جس کی تفصیلات کا یہ موقع نہیں ۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا یورپ فی الواقع جہاد کو خلاف انسانیت و تمدن سمجھتا تھا ؟ کیا وہ فی الحقیقت یہ یقینا رکھتا تھا کہ اسلام نے جبرا مسلمان بنانے کے لئے تلوار اٹھائی تھی ؟ بلاشبہ ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے ، یہ لوگ تو تجربتا اس کی اصلیت کو سمجھ چکے تھے اور جان چکے تھے کہ جہاد ہی فی الحقیقت قومی زندگی کی جان ہے پھر انہوں نے اسلامی جہاد کو ایک بھیانک شکل کیوں دی اور اسے جبرا مسلمان بنانے کا جذبہ جہاد کو سرد کرنا تھا ، اگر فی الواقع جہاد و قتال بری چیز ہوتا تو سب سے پہلے یہ لوگ خود قتال کو ترک کرتے ، ان کا مقصد تو فقد تھا تھا کہ مسلمان جہاد کا خیال ترک کردیں اور یہ لوگ اطمینان سے ان پر حکمرانی کرتے رہیں اس طرح ان کو دنیا میں قوم مسلم سے جہاد کا خیال ترک کردیں اور یہ لوگ اطمینان سے ان پر حکمرانی کرتے رہیں ، اس طرح ان کو دمیں قوم مسلم سے کسی قسم کا خاص خطرہ نہ رہے ، رہ رہ کر ان کی نیند کو خراب کرنے والا صرف یہ خیال تھا کہ اگر کہیں یہ قوم بیدار ہوگئی اور وہی سابق جذبہ جہاد عود کر آیا تو وہ پھر کہیں کے نہی رہیں گے لہذا خیریت ہے تو صرف اس میں ہے کہ عقلی راہ سے ‘ مذہبی راہ سے ‘ تعلیمی راہ سے مالی راہ سے غرض ہر طرح مسلمانوں کے دلوں سے اس کا خیال ہی محو کردیا جائے ، ان کے سروں پر خطرہ جہاد کا ہوا ہر وقت سوار تھا ، حالات نے کئی رخ بدلے لیکن ان لوگوں کا یہ خطرہ ابھی تک زائل نہیں ہوا حالانکہ انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور طرح طرح کے حیلے بہانے بنائے اور انہی حیلوں بہانوں میں سب سے بڑی حیلہ ان کا یہ مغربی جمہوریت ہے تاکہ مسلمان سیاسی پارٹیوں میں تقسیم رہ کر ایک دوسرے سے جہاد کرتے رہی ، دوسرا حیلہ ان کا مسلمانوں کو آپس میں الجھائے رکھنے کا یہ ہے کہ ہر ایک ملک دوسرے اسلامی ملک کے ساتھ برسرپیکار رہے اور تیسرا حیلہ ان کا مسلمانوں کو مذہبی گروہ بندیوں میں تقسیم کئے رکھنے کا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کو برداشت بھی نہ کرسکیں اور چوتھا حیلہ ان کا کھیلوں کا عالمی ادارہ قائم کرنا ہے جس کے اندر ان کی نہایت گہری سازش کام کر رہی ہے اور علاوہ ازیں بہت سے چھوٹے بڑے اور حیلے بھی موجود ہیں ان کی حیلہ سازیوں کے نتیجہ میں ایران عراق جنگ ہوئی ‘ کو یت عراق کا سانحہ ہوا ‘ کابل اور کشمیر کے حالات ان کے حیلوں بہانوں کا نتیجہ ہیں مشرق وسطی کے سارے عرب ممالک کو کمزور سے کمزور تر کرنے کی سکیم ان کے حیلہ کا نتیجہ ہے لیکن ان سارے حیلوں کے باوجود وہ اس گھڑی کو آنے سے نہیں روک سکتے جس گھڑی کے آتے ہیں نہ وہ رہیں گے اور نہ ان کے یہ سارے حیلے بہانے اور یہ گھڑی ان کے انہی حیلے کے نتیجہ میں جہاد اسلامی کے باعث آنے والی ہے کیوں ؟ اس لئے کہ ان کی ان ساری خفیہ تدبیروں کے خلاف نہایت ہی خفیہ تدبیر کرنے والی ایک طاقت موجود ہے جو علیم وبصیر بھی ہے اور خیر الماکرین بھی ۔ کیا یہ حیلہ ساز ان حیلہ سازیوں کی زد میں پہلے نہیں آئے کہ آج نہیں آئیں گے ؟ : ہم نے اوپر جس آنے والی گھڑی کا ذکر کیا ہے اس سے ہماری مراد قطعا قیامت نہیں۔ وہ آنے والی گھڑی یقینا اس اسلامی جہاد کے روکنے کی حیلہ سازیوں کا نتیجہ ہوگی لیکن اس کا آنا یقینی اور لابدی ہے وقت کا تعین کرنا گناہ ہے کہ علام الغیوب صرف اللہ رب ذوالجلال والاکرام ہی کی ذات ہے اور اس کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے اتنی ہی بات کافی ہے کہ یہ حیلہ ساز ان حیلہ سازیوں کے باوجود قبل ازیں دو بار یہ کھیل کھیل چکے ہیں کہ مسلمانوں کو تو یہی باور کراتے رہے کہ جہاد ظلم ہے ‘ زیادتی ہے لیکن انہوں نے دو بار یہ ظلم اور زیادتی قتال ہی کی صورت میں کی اور منہ کی کھائی تفصیلات کا یہ موقع نہیں اور یہ بات دنیا جانتی ہے کہ یہ ظالم گزشتہ دو جنگوں میں خون کی وہ ہولی کھیل چکے ہیں جو اس سے پہلے دنیا میں کبھی نہیں کھیلی گئی تھی حالانکہ جہاد فی سبیل اللہ ایک خاص مقصد کے تحت کیا جاتا ہے جو حاصل زندگی کے سوا کچھ نہیں اور انہوں نے جو کچھ کیا وہ محض قوم ‘ ملک اور نسل کے ترفع و تعلی کے لئے کیا تھا اور یہ لوگ اس غرض وغایت کے پیش نظر آنسانی خون بہاتے رہے اور یہ دونوں جنگیں جنگ عظیم کے نام سے معروف ہوئیں اور تاریخ کے صفحات میں پہلی جنگ عظیم کے مقتولین کے اعداد و شمار اس طرح تحریر کئے گئے اور یہ جنگ تقریبا چار سال تک جاری رہی جس میں کام آنے والوں کی فہرست اس طرح ہے کہ : روس : 17 لاکھ ترکی : 2 لاکھ پچاس ہزار جرمنی : 16 لاکھ بیلجئم : دو لاکھ پچاس ہزار فرانس : 13 لاکھ بلغاریہ : ایک لاکھ اٹلی : 4 لاکھ ساٹھ ہزار رومانیہ : ایک لاکھ اسٹریلیا : 8 لاکھ سرویا ماشیگرو : ایک لاکھ برطانیہ : 7 لاکھ امریکہ : پچاس ہزار اس طرح اس پہلی جنگ عظیم میں کام آنے والوں کی کل تعداد 73 لاکھ 32 ہزار انسان ہوتی ہے اور اب دوسرجن عظیم کے مقتولین کی بھی تعداد ملاحظہ فرمائی ۔ روس : دو کروڑ دس لاکھ ترکی : 2 لاکھ پچاس ہزار جرمنی : ایک کروڑ پچیس لاکھ بیلجئم : ساٹھ ہزار برٹش امپائر : چودھ لاکھ تیس ہزار پولینڈ نولاکھ چین : تیس لاکھ یوگو سلاویہ : سولہ لاکھ پچاس ہزار جاپان : پچاس لاکھ ہنگری : چھ لاکھ فن لینڈ ـ: ایک لاکھ تراسی ہزار ایک سو چھیاسٹھ ہالینڈ دو لاکھ پچھتر ہزار چیکوسلاویکیہ : ساٹھ ہزار فلپائن : تیس ہزار فرانس : 13 دس لاکھ امریکہ : دس لاکھ سلاویکہ : تیس لاکھ پچاس ہزار اٹلی : گیارہ لاکھ رومانیہ : سات لاکھ اسٹریلیا : سات لاکھ سرویا ماشیگرو : ایک لاکھ برطانیہ : 7 لاکھ : پچاس ہزار اور دوسری جنگ عظیم میں مقتولین کی کل تعداد 54238166 تھی جب کہ ان میں قید وبند میں مرنے والے اور زخمیوں میں مرنے والوں کو شمار نہیں کیا گیا اور اس جنگ عظیم میں صرف ایک ملک برطانیہ کے یومیہ خرچ کا اندازہ ساڑھے انیس کروڑ روپے درج کیا گیا اور باقی ممالک کے اخراجات کا اندازہ نقل نہیں کیا گیا ، اب غور طلب بات یہ ہے کہ یہ کن لوگوں کے قتال کی بات ہے جو اسلامی جہاد کو نہایت بھیانک اور غلط شکل دے کر پیش کرتے ہیں اور فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں گویا مسلمان جہاد کا نام لیں تو دہشت گرد ہیں اور یہودی اور عیسائی ان سے دس گناہ سے زیادہ گناہ اور ظلم کرلیں تو وہ عین تہذیب ہے اس کو کہتے ہیں کہ ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ “ ہاں ! اس دوسری جنگ عظیم کے بعد انہوں نے نئی نئی مکاریاں کیں جو اس وقت وہ نہیں کرپائے تھے اور ان مکاریوں کے نتیجہ میں وہ اس کے بعد اپنی جانیں بچاتے چلے آرہے ہیں اور ایسے ایسے طریقے ایجاد کئے ہیں کہ پہلی دونوں جنگوں کی طرح اب ان کا نقصان نہ ہو بلکہ دوسروں قوموں اور خصوصا مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے رہیں اور اس وقت تک ان کی یہ مکاریاں بلاشبہ چل رہی ہیں لیکن اب ان کی ان مکاریوں اور ریشہ دوانیوں کا وقت ختم ہونے والا ہے اور اللہ رب ذوالجلال والاکرام کا ہاتھ عنقریب ان سب کو بھسم کرکے رکھ دے گا اور انکو اپنے کئے کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا ۔ اسلامی حکومت پر عائد ہونے والی ذمہ داریاں جو اس وقت پوری نہیں کی جا رہیں : یہ بات ہم قبل ازیں سورة الانفال اور التوبہ میں بیان کرچکے ہیں کہ اسلام قوت جہاد کو مضبوط سے مضبوط تر دیکھنا چاہتا ہے اس لئے وہ اعداد قوت کا حکم دیتا ہے جس کی غرض وغایت بھی واضح کرتا ہے کہ تمہارا دینی وقومی دشمن تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی جرات نہ کرسکے ، وہ دو ٹوک الفاظ میں کہتا ہے کہ غلام قوم کا کوئی ضمیر اور کوئی کردار نہیں ہوتا اس لئے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے ہرچیز کی بازی لگا دینا فرض ہے جو قوم خود اپنی حریت کو قائم نہ رکھ سکے وہ دوسری مظلوم و غلام قوموں کو ظالموں کی غلامی سے باہر لانے کا فرض کیسے انجام دے سکتی ہے ؟ امت مسلمہ کا تو وجود ہی اس مقصد کے لئے ہوا ہے کہ تمام انسانوں کو باہمی انسانی غلامی سے نکال کر ایک مالک کی غلامی میں لے آئے پس اگر وہ خود ہی اپنے آپ کو دوسروں کی غلامی سے محفوظ نہ رکھ سکے تو وہ دوسرے غلام انسانوں کو قید غلامی سے کیا باہر لاسکے گا ، ہاں ! اعداد قوت غلط استعمال کے لئے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ پہلے اپنی حفاظت کی جاسکے کیونکہ اس کے بغیر کوئی قوم بھی آزاد نہیں رہ سکتی پھر اپنے مقاصد میں نمو اور توسیع پیدا کرسکے ، یہ کوئی انسانیت نہیں کہ ایک قوم کود تو آزاد ہو اور دوسری قوموں کو غلامی میں دیکھتی رہے ۔ اس مقصد عظیم کے لئے اپنے اندر حفاظت خود اختیاری کی قوت سے کہیں زیادہ مزید قوت پیدا کرنی پڑے گی اور اعداد قوت کا بڑا مقصد اس طرح پورا ہو سکے گا ، دنیا میں ہمیشہ یہی کچھ دیکھنے میں آیا ہے کہ معقولیت کو معقولیت کی وجہ سے تسلیم کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں اعلی سے اعلی بات ‘ بہتر سے بہتر انسان کہے اس کی طرف توجہ بھی نہیں دی جاسکتی لیکن اگر وہی شخص کوئی اقتدار یا قوت حاصل کرلے تو اس کی بات توجہ سے سنی جاتی ہے اس نقطہ نظر سے بھی اعداد قوت ایک ضروری فریضہ ہے ، اعداد قوت میں بہت سی چیزیں داخل ہیں اس جگہ سب کا احصار تو ممکن نہیں تاہم چند ایک کا ذکر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اپنے تحفظ کے لئے حکومت کو اور خصوصا اس حکومت کو جو اسلامی حکومت کہلاتی ہے کیا کیا کرنا چاہئے اور پھر خود ہی اس کا اندازہ لگائیں کہ کیا آج کل اسلامی حکومتوں میں سے کوئی ایک حکومت بھی اس فرض منصبی کو پورا کر رہی ہے ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ آج اسلامی حکومتوں میں سے ایک بھی نہیں جو صحیح معنوں میں اس کو ذمہ داری تسلیم کرنے ہی کے لئے تیار ہو۔ ا : اسلامی پروپیگنڈے کا کام یہ ہے کہ وہ جھوٹ کا مکمل رد کرتے ہوئے اپنے سچ میں سے ان باتوں کو جن کا اظہار اپنے عوام اور دوسروں حکومتوں کو خبردار کرنے کے لئے ضروری ہے صحیح صحیح پیش کرے اور مبالغہ آرائی سے قطعا کام نہ لے اور وہ باتیں جن کو خفیہ رکھنا ضروری ہے وہ قومی امانت سمجھتے ہوئے مکمل طور پر خفیہ رکھے کیونکہ ایک بات کو بیان نہ کرنا یا اس کی وضاحت نہ کرنا نہ جھوٹ ہے نہ گناہ اس میں اخبار ‘ رسالے ‘ خفیہ مراسلات ‘ ریڈیو ‘ ٹیوی ‘ تاربرقی ‘ ڈاک وغیرہ سب داخل ہیں بلکہ اس سلسلہ میں نئے نئے آلات کی ایجادات کا فرض بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری میں داخل ہے اور اپنی فوج کو ان سارے شعبوں میں چاک وچوبند رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ ہنوز دلی دور است کا محاورہ ان پر فٹ نہ آئے ۔ ب : اسلام کے محکمہ جاسوسی کے افراد کے ذمہ فرض ہے کہ وہ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر دوسرے ملکوں میں جائیں اور وہاں کی صرف افواج کی خبریں وہ بھی نہایت سچی مکمل تحقیق اسلامی کے تحت تحقیق کرکے اپنی حکومت کے ذمہ دار لوگوں تک پہنچائیں لیکن اس میں مبالغہ اور جھوٹ کی آمیزش نہ ہونے دیں اور ضرورت کے مطابق اپنی پوری دیانت وامانت کے ساتھ کریں اگر کہیں ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہوں تو قومی امانت میں خیانت کی بجائے اپنی جان پر کھیلنا پسند کریں بلاشبہ یہ ان کی شہادت ہوگی جس کے لئے انہوں نے اس شعبہ کو اختیار کیا تھا ۔ ج : ذرئع نقل وحمل کے شعبے جس میں ہماری افواج کی ہوائی ‘ بحری اور بری تمام قسم کے آلات ‘ جانور اور مشینی سواریاں داخل ہیں جو ضرورت کے وقت عین موقع پر ہر وہ سامان پہنچا سکیں جس کی وہاں ضرورت درپیش ہو اور اس میں کام کرنے والے لوگ ہر وقت چاک وچوبند رہیں اگرچہ ان کو زندگی میں ایسے مواقع کم پیش آئیں ۔ جہاد کا یہ شعبہ بہت اہم ہے اور جدید آلات کی پیداواری صلاحیت کے لئے بھی حکومت اسلامی کو خود کفیل ہونا نہایت ضروری ہے دوسروں پر انحصار رکھنا بلاشبہ کمزوری کی علامت ہے اور اسلام کمزوری کو دنیا جہان کے سارے گناہوں سے بڑا گناہ سمجھتا ہے اور خصوصا قومی کمزوری تو ایک بہت بڑی لعنت ہے ۔ د : اسلام آلات حرب وضرب کو بھی بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور جدید آلات کی پیداوار میں اضافہ اور جدید سے جدید تر آلات کی ایجاد بھی وہ اسلامی حکومت کی ذمہ داری قرار دیتا ہے جس میں اسلحہ کے تمام کارخانے داخل ہی جن میں بندوق ‘ توپ ‘ ٹینک ‘ آبدوز کشتیاں ‘ بحری تباہ کن جہاد ‘ بارودی سرنگیں ‘ بمبار طیارے ‘ میزائل اور دوسرے جدید تر آلات اور بم کی تمام اقسام اور اس فن میں پوری مہارت اور جدید آلات کی ایجاد داخل ہے اور اس پوری قوت کو تیار کرنے اور تیار رکھنے کے بعد اللہ رب ذوالجلال والاکرام پر مکمل بھروسہ کی تلقین کرتا ہے اور ان کے صحیح استعمال کی ضرورت پرزور دیتا ہے اسمیں سستی ‘ کاہلی غیر ذمہ داری کی سخت سزائیں بتاتا ہے ۔ ہ : اسلامی شعبہ جہاد میں طبی امداد کے ادارے قائم کرنے اور مجاہدین یعنی افواج اسلام کو طبی سہولتیں دینے میں بہت تاکید کرتا ہے اور نازک سے نازک تر حالات میں بھی اس سے عہدہ بر آ ہونے کی صلاحیت پیدا کرنا ضروری قرار دیتا ہے اور اس شعبہ میں جنس انسان کی دونوں اصناف کو متحرک کرتا ہے اور اس ساری طبی سہولتوں کو فراہم کرنے کی تلقین کرتا ہے جو زیادہ سے زیادہ کام میں لائی جاسکتی ہو کہ صحت بحال رہے اور ہر اس بداعتدالی سے بچانا بھی اس محکمہ کی ذمہ داری ہے جو انسانی صحت کے لئے مضر ہوں ۔ و : اسلام سامان خورد ونوش میں ان ساری چیزوں کو جو انسانی صحت کے لئے مضر ہوں سختی سے روکتا اور منع کرتا ہے اور خصوصا شعبہ جہاد میں ہر وہ غذا جو مفید اور صحت و تندرستی کی ضامن ہو استعمال کرنے کی تاکید کرتا ہے کیونکہ اس نے اشیاء خوردنی میں ملاوٹ کو نہایت سختی سے منع کیا ہے اور اس میں ساری وہ اشیاء آتی ہیں جو انسان بظور غذا استعمال کرتا ہے اور بطور مشروب پیتا ہے خواہ وہ عام پانی ہو یا دوسرے مشروبات : ز : اسلام نے اپنی افواج کے لئے لباس کو بھی عام نقالی کو پسند نہیں کیا تاہم افواج کی وردی کو لازم قرار دیا ہے تاکہ امتیاز قائم رہ سکے اور خصوصا وہ لباس جو انسان کو چاق وچوبند رکھنے میں کام دے اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو لازم قرار دیا ہے اور اپنے اسلحہ کو اپنے جسم پر آویزاں رکھنے کے لئے اس لباس سے کام لینا بھی پسند فرمایا ہے لہذا اس میں زمانے کے حالات کے مطابق اپنی ضرورت کے پیش نظر بنایا جاسکتا ہے جس میں اسلامی روایات کو بھی پیش نظر رکھا جانا چاہئے ۔ ح : اسلام میں مجاہدین کے حوصلے اور ہمت کو بڑھانے کے لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے خصوصا انتظام کرنے کی ہدایت جاری کی ہے جس کا ذکر تفصیل کے ساتھ سورة الانفال اور سورة التوبہ میں ہم کرچکے ہیں اس لئے افواج کو اچھے اور بہترین خطباء ‘ شعرا اور اس طرح کے دوسرے لوگوں کی ضرورت ہے جو وقتا فوقتا تاریخ اسلام کے گزشتہ واقعات اور قرآن کریم کے احکامات کو افواج کے حوصلوں کو بلند کرنے کے لئے صحیح اور درست واقعات ان تک پہنچائیں اور حتی المقدور ترغیب وترہیب سے کام بھی لیں اور اسلامی وقومی گرمی پیدا کرنے کے لئے کام کریں اور ان کو سردی وبرودت سے بچائیں بلکہ افواج اسلامی کے لئے خصوصی لٹریچر شائع کرائیں اور مجاہدین کو ہمہ وقت مصروف رکھنے کا پورا پورا انتظام کریں ۔ اعداد قوت کے بہت سے شعبے ہیں جن میں سے چند کا ذکر یہاں کردیا گیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ ہم کہاں کہاں اور کیسی کیسی سستی کر رہے ہیں جس کا ایک اسلامی حکومت کو ہرگز ہرگز حق نہیں ہے ، اب ہم آپ کو چلتے چلتے جہاد کے احکام وآداب میں اسلام کی ہدایات اور دوسرے لوگوں کی ہدایات سے بھی آگاہ کرتے ہیں تاکہ اس سلسلہ میں بھی کچھ ذہن میں باقی رہ جائے اور آپ کو معلوم ہو کہ اسلام کی اہمیت دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں کیا ہے ۔ تورات میں بنی اسرائیل کے لئے جہاد کی اہمیت اور احکام اس طرح دیئے گئے : ” جب تو کسی شہر میں جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اس کو صلح کا پیغام دینا اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے دے اور پانے پھاٹک تیرے لئے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے جاگداز بن کر تیری خدمت کریں اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کر دے تو تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا لیکن عورتوں اور بال بچوں اور چوپایوں اور اس شہر کے سب مال لوٹ کر اپنے لئے رکھ لینا اور تو اپنے دشمنوں کی اسی لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھ کو دی ہو کھانا ، ان سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہر نہیں ہیں ۔ پر ان قوموں کے شہروں میں جن کو خداوند تیرا خدا میراث کے طور پر تجھ کو دیتا ہے کسی ذی نفس کو جیتا نہ بچا رکھنا بلکہ تو انکو یعنی حتی اور اموری وکنعانی اور فرزی اور حوی اور یبوسی قوموں کو جب خداوند تیرے خدا نے تجھ کو حکم دیا ہے بالکل نیست کردینا ۔ “ (استثناء 20 : 10 تا 18) ” جیسا کہ خداوند نے موسیٰ کو حکم دیا تھا اس کے مطابق انہوں نے مدیانیوں سے جنگ کی اور سب مردوں کو قتل کیا اور بنی اسرائیل نے مدیان کی عورتوں اور ان کے بچوں کو اسیر کیا اور ان کے چوپائے اور بھیڑ بکریاں اور مال واسباب سب کچھ لوٹ لیا اور ان کی سکونت گاہوں کے سب شہروں کو جن میں وہ رہتے تھے اور ان سب چھاؤنیوں کو آگ سے پھونک دیا اور انہوں نے سارا مال غنیمت اور سب اسیر کیا انسان اور کیا حیوان ساتھ لیے ( موسیٰ سرداروں سے جھلا کر) کہنے لگا کیا تم نے سب عورتیں جیتی بچا رکھی ہیں ؟ اس لئے ان بچوں میں جتنے لڑکے ہیں سب کو مار ڈالو اور جتنی عورتیں مرد کا منہ دیکھ چکی ہیں ان کو قتل کر ڈالو ، لیکن ان لڑکیوں کو جو مرد سے واقف نہیں اور اچھوتی ہیں اپنے لئے زندہ رکھو اور جو کچھ مال غنیمت جنگی مردوں کے ہاتھ آیا ہے اسے چھوڑ کر لوٹ کے مال میں چھ لاکھ پچھتر ہزار بھیڑ بکریاں تھیں اور بہتر ہزار گائے بیل اور اکسٹھ ہزار گدھے اور نفوس انسانی میں سے بتیس ہزار ایسی عورتیں جو مرد سے ناواقف اور اچھوتی تھیں۔ (گنتی 31 : 7 تا 35 تلخیصا) دوسری قوموں سے جنگ وجدال میں وید کیا کہتے ہیں : اوپر مشتے از خرورارے تورات کو حوالہ درج کیا گیا ہے اب ” دید “ کے متعلق بھی سن لیجئے جو صلح وآشتی کے درس میں زبان زد خاص وعام ہیں ” وہ اندرا جس نے ورترا کو قتل کیا اور جس نے قصبے اور گاؤں تہ وبالا کردیئے وہ جو کالے داسوں (غلاموں) کی فوجوں کو قتل کرتا ہو۔ “ (قدیم ہندوستان کی تہذیب مصنفہ مسٹر آرسی دت ص 37 بحوالہ رگ وید ‘ منڈل 10 منتر 49 رچا 7) ” ہم نے داسوں کو دو ٹکروں میں کاٹ ڈالا ، قضا وقدر نے انکو اسی واسطے پیدا کیا تھا ۔ “ (ایضا منتر 20 ‘ رچا 6 ‘ 7) ” ہم نے پچاس ہزار سیاہ فام دشمنوں کو لڑائی میں تباہ و غارت کیا ۔ “ (ایضا 34 منتر 16 ‘ رچا 10) ہم چند حوالوں پر اکتفا کرتے ہیں حالانکہ اس کتاب میں جو ہمارے سامنے ہے یعنی ” قدیم ہندوستان کی تہذیب “ میں اور بھی بہت کچھ ہے اور اسی میں رگ وید کے علاوہ دوسروں ویدوں کے حوالہ جات بھی موجود ہیں اور اسل وید ہماری دسترس سے باہر ہے ع ” بوئے خون آتی ہے اس قسم کے افسانوں سے “ اسلامی جنگوں اور غیر اسلامی جنگوں کا فرق کیا ہے ؟ اسلامی جہاد کو بربریت قرار دینے والوں کی اپنی مذہبی پوزیشن آپ پر واضح ہوگئی ہے تو اب اسلامی جہاد کو بربریت اور معترضین کی نبرد آزمائیوں کو تہذیب قرار دیا جائے ‘ کیوں ؟ اور کیسے ؟ ذرا ان دونوں کا فرق ملاحظہ کریں اور فیصلہ خود ہی فرما لیں : 1۔ جہاد اسلامی ایک بلند ترین نصب العین کے لئے ہے اور دوسرین جنگوں کا سوائے وسعت مملکت کے اور کوئی مقصد ہی نہیں فقط ملک گیری ‘ اپنی قومی برتری کا قیام اور مفتوحہ علاقوں کو اپنا غلام بنانا ہے ۔ 2۔ جہاد اسلامی کا نتیجہ عدل و انصاف ‘ فراخ دلی اور رواداری ‘ متوازن تہذیب و تمدن کی شکل میں ظاہر ہوا ہے اور غیر اسلامی جنگوں کا کوئی خوشگوار نتیجہ کسی زمانہ میں بھی ظاہر نہیں ہوا اگر مثال چاہتے ہو تو ان دونوں عظیم جنگوں ہی کے نتائج واثرات پر نظر کرلو بات واضح ہوجائے گی ۔ 3۔ جہاد اسلامی کے تمام قوانین احترام آدمیت ‘ اسیتصال شروفساد ‘ ترک تعدید وانتقام اور احتیاط تقوی پر مبنی ہیں اور دوسری جنگوں میں بوڑھے ‘ بچوں ‘ عورتوں ‘ بیماروں اور گوشہ گیروں کا کوئی لحاظ نہیں کیا گیا جیسا کہ گزشتہ حوالوں میں آپ دیکھ چکے بلکہ غلبہ واستیلا کے بعد انتقام کی آگ مزید مشتعل ہوجاتی ہے اگر کچھ باقی رکھا جائے تو وہ صرف ہوا وہوس کی تکمیل کے لئے ہوتا ہے اور اسلام نے جو ہدایات اس سلسلہ میں پیش کی ہیں آج وہی اصول جنگ قرار پائے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ انہی ظالم قوموں کی طرف پیش کئے جاتے ہیں اور کسی کو معلوم نہیں کہ یہ سب اسلام ہی کی مرہون منت ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی تشہیر کرنے والے آج بھی خود ان کی پابندی نہیں کرتے بلکہ یہ ہاتھی کے دانت ہیں جو کھانے کے اور دکھانے کے اور ہیں ۔ اب اسلامی جہاد کے چند نمونے ملاحظہ کریں ۔ اسلامی آداب جہاد جو قرآن وسنت نے وضاحت سے بیان کیے : قرآن کریم اور احادیث نبوی میں اسلامی جہاد کے آداب کی وضاحت بیان کی گئی ہے ہم اس جگہ چند ایک کو تحریر کرتے ہیں تاکہ مواز نہ کیا جاسکے اور ان کی وضاحت پیچھے سورة آل عمران ‘ الانفال اور التوبہ میں بیان کی جا چکی ہے جہاں بدر ‘ احد اور دوسرے غزوات وسرایا کا بیان آیا ہے : ا : تم دشمنوں کے ساتھ وہی کچھ کرسکتے ہو جو انہوں نے تمہارے ساتھ کیا زیادتی کا حق تم کو نہیں دیا گیا (النحل 16 : 127) ب : اور اگر صبر و درگزر سے کام لو تو تمہارے لئے اور بھی بہتر ہے ۔ (النحل 16 : 126) ج : کسی قوم کی دشمنی تمہیں عدل سے باہر نہ لے جائے ، عدل سے کام لو کیونکہ یہی تقوی سے قریب تر ہے (المائدہ : 5 : 8) د : حد سے تجاوز کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (البقرہ 2 : 190) ہ : اللہ کا نام لے کر اللہ ہی کی راہ میں اللہ کے نافرمانوں سے جہاد کرو۔ و : بدعہدی اور خیانت نہ کرو۔ ز : لاشوں کو مثلہ نہ کرو۔ ح : راہبوں اور گوشہ نشینوں کو مت چھیڑو۔ ط : کھجوروں اور دوسروں پھل دار درختوں اور فصلوں کو تباہ وبرباد مت کرو ۔ ی : عمارات اور وقف شدہ جگہوں کو مت گراؤ البتہ شرک کے اڈوں کو تہس نہس کرسکتے ہو۔ ک : عورتوں ‘ بچوں ‘ بوڑھوں ‘ مریضوں اور غیر محارب لوگوں کو ہرگز نہ چھیڑو۔ فتح مکہ وقت نبی اعظم وآخر ﷺ نے جو ہدایات فرمائیں وہ بھی ملاحظہ فرما لیں ‘ آپ ﷺ نے فرمایا : 1۔ حرم میں خونریزی نہ کرو ۔ 2۔ صرف اس کا مقابلہ کیا جائے جو سامنے آکر مقابلہ کرے ۔ 3۔ جو شخص کعبہ میں داخل ہو اسے پناہ مل گئی ۔ 4۔ جو شخص ابوسفیان کے گھر داخل ہوگیا اس کو بھی امان مل گئی ۔ 5۔ جو شخص اپنے گھرکا دروازہ بند کرلے وہ امان میں رہے گا ۔ 6۔ بھاگنے والوں کا تعاقب نہیں کیا جائے گا مگر امن دینے کے لئے ۔ 7۔ ہتھیار پھینک دینے والے سے کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ 8۔ زخمیوں اور اسیروں کو بھی قتل نہیں کیا جائے گا ۔ یہ مختصر نمونے ہیں ان ہدایات کے جو ہر ایک مجاہد کو جہاد کے موقع پر دی جاتی رہی ہیں ، اور آج بھی اسلام ان ساری باتوں کی پابندی کرتا ہے لیکن اس کے برخلاف اسلامی جہاد کو بربریت قرار دینے والے جو کچھ کرتے ہیں اس کی مثالیں آج بھی تمہارے سامنے ہیں اور جن کے متعلق ہم سے بھی زیادہ آپ کے پاس معلومات ہیں اس لئے جو نتیجہ اس سے نکلتا ہے کہ اسلامی جہاد انسانیت کے لئے ایک رحمت ہے اور بربریت ودرندگی دراصل ان لوگوں کی جنگیں ہیں جو بربریت کا شور مچاتے ہیں اور یہ صحیح ہے کہ جتنا شور وہ مچا سکتے ہیں اتنا دوسرے نہیں مچا سکتے اور ان کے اس شور کا اصل مقصد یہی ہے کہ مسلمان اس اہم فریضہ زندگی سے سبکدوش ہوجائیں اور ان کی درندگی بدستور وحشت پھیلاتی رہے اور یہی کچھ وہ آج کر رہے ہیں اور ڈھیٹ اتنے ہیں کہ خود دہشت گردی کرتے ہیں اور مسلمانوں کو دہشت گرد کہتے ہیں گویا چور ہیں اور چور چور کا شور مچا رہے ہیں اور اب انکی اس چالاکی کو سب جان چکے ہیں لیکن طاقتور ہیں اس لئے سب کچھ جاننے کے باوجود کوئی ادھر انگلی نہیں اٹھا سکتا اللہ ان شاطروں سے بچائے ۔ سورة الحج کی آخری آیت کی دوسری ہدایات جو اس میں بیان ہوئیں : ” اس نے تم کو برگزیدگی کے لئے چن لیا ہے “ گویا دوسری امتوں اور قوموں کے مقابلہ میں اس نے تم کو عالمگیر دعوت توحید کا حامل بنایا ہے اور یہ شرف صرف محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی امت ہی کو حاصل ہے اور یہ ساری دینی دعوتیں جغرافی یا نسلی قیود سے محدود رہیں ‘ صرف اسلام ہی کی بدولت ان قیود وحدود سے بالاتر ہے اور صحیح معنوں میں عالمگیر دعوت ہے اور بلاشبہ اس سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور پوری امت مسلمہ کی مدح کی گئی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو دوسری قوموں کے مقابلہ میں قوم مسلم کی قومیت ثابت کرتی ہے ۔ ” اس نے تمہارے لئے دین میں کسی طرح کی تنگی نہیں رکھی “۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے دوسرے ادیان مروجہ کی طرح دین اسلام کو محدود ومقید نہیں رکھا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جن مذہبوں کو جانتی پہچانتی ہے ان میں کثرت سے مذاہب شرکیہ ہی ہیں اور ہیں بھی قومی اور جماعتی سطح تک یا زیادہ سے زیادہ ایک قوم تک جیسے ہندو مذہب ‘ بودھ مذہب ‘ مجوسی مذہب ‘ عیسائی مذہب ‘ یہودی مذہب اور یہ بھی کہ شرک دراصل نام ہی محدودیت وتنگ نظری کا ہے اس لئے کہ شرک کے مطمح نظر میں ہمہ گیری ووسعت پیدا ہو ہی نہیں سکتی ، مذہب توحید اور دراصل صرف اور صرف اسلام ہے اگرچہ اس کے ماننے والے خود کس حالت سے دوچار ہیں بہرحال تعلیما اور حقیقتا اسلام ہی ایسا دین ہے جس کی دعوت کسی ملک ‘ قوم ‘ نسل اور قبیلہ کے ساتھ محدود نہیں بلکہ اس کا خطا دنیا کے ہر فرد وبشر سے ہے اور اس کی تعلیم ہر چھوٹے بڑے انسان کے لئے اور پھر اس عالمگیری کے ساتھ ہمہ گیری تعلیم بھی اسلام ہی کی ہے اور زندگی کا کوئی شعبہ چھوٹے سے چھوٹا بھی اس کے دائرہ سے باہر نہیں ۔ ” وہی طریقہ تمہارا ہوا جو تمہارے باپ ابراہیم کا تھا “ اسلام ملت ابراہیمی کا دوسرا نام ہے قرآن کریم کے مخاطبین اول یعنی اہل عرب تو نسل ابراہیم سے تھے ہی اور ان کے لئے یہ استشہاد دلا دینے سے ایک خاص پہلو تشویق وترغیب کا بھی نکل رہا ہے اور ان کو بتایا جارہا ہے کہ یہ مذہب کوئی انوکھا اور نیا نہیں اور نہ ہی کہیں باہر سے آیا ہے یہ تو وہی مذہب ہے جو تمہارے جد امجد کا تھا یہ دوسری بات ہے کہ تم نام تو لیتے رہے ابراہیم واسمعیل (علیہما السلام) کا اور مرضی اپنی کرتے رہے جس سے تم نے اس کو مکمل طور پر ہی بدل کر رکھ دیا اور عربوں کے بعد اس سے مراد سارے مسلمان بھی لئے جاسکتے ہیں کیونکہ یہ تعلیمات تو وہی ہیں جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) لے کر آئے تھے اور ان کے داعی محمد رسول اللہ ﷺ بھی اہل عرب ہیں اور خصوصا سیدنا اسمعیل (علیہ السلام) کی نسل میں ہونے کے باعث ابراہیمی ہیں اور ظاہر ہے کہ جو شخص اس ملت سے وابستہ ہوگا اس کے جد امجد بھی ابراہیم (علیہ السلام) ہی ٹھہریں گے اور جس طرح نبی اعظم وآخر ﷺ مسلمانوں کے روحانی باپ ہیں ابراہیم (علیہ السلام) بھی روحانی جدامجد ہی کہلائیں گے اور باپ اور جد دونوں ” ابیکم “ کے ضمن میں آتے ہیں اور یہی اس جگہ فرمایا گیا ہے ۔ ” اسی نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے “ (ھو) سے مراد کیا ہے ؟ بعض نے ابراہیم (علیہ السلام) کو مراد لیا ہے اور بعض نے اللہ تعالیٰ کو ‘ عبداللہ بن عباس ؓ سے اور بہت سے دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے بھی یہی منقول ہے کہ اس ضمیر کو مرجع اللہ تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے لیکن اگر اس ضمیر سے مراد ابراہیم (علیہ السلام) ہی کو لیا جائے تو بھی لیا جاسکتا ہے دونوں طرح بات صحیح ہو سکتی ہے اور مفہوم میں بھی کوئی فرق نہیں آتا اور پھر یہ بھی فرمایا دیا کہ یہ نام قرآن کریم کے نزول سے پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے نزول قرآن کریم نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” ربنا وجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک “ (البقرہ 2 : 128) ” اے ہمارے رب ! ہمیں ایسی توفیق دے کہ ہم دونوں سچے مسلم ہوجائیں اور ہماری نسل میں بھی ایک ایسی امت پیدا کر دے جو تیرے حکموں کی فرمانبردار ہو ۔ “ اور دوسری جگہ اللہ رب العزت نے یہ ارشاد فرمایا کہ : (آیت) ” ولہ اسلم من فی السموات والارض “۔ (آل عمران 3 : 82) ” اس کے لئے فرمانبردار ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے ۔ “ اس لئے اول سے لے کر آخر تک اصل دین فطرت کا نام ہمیشہ سے اسلام ہی ہے باقی سارے نام قوموں جماعتوں اور گروہوں کے اپنے رواج دیئے گئے ہیں اور پھر جب ایک گروہ کا نام معروف ہوگیا تو عرف عام میں اس کو اسی نام سے موسوم کیا گیا اور یہی کچھ آج ہو رہا ہے ۔ ” اور یہ اس لئے ہوا تاکہ رسول تمہارے لئے گواہ ہو اور تم تمام انسانوں کے لئے “ اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ کی پاک وطیب زندگی بطور معیار کام دے گی اور حشر میں بھی تم کو اسی معیار سے جانچا جائے گا کہ تم نے اپنی زندگیوں کو کہاں تک اس نمونہ پر ڈھالا تھا ۔ اس کی تشریح کی بہت ضرورت تھی لیکن چونکہ یہ آیت بعینہ سورة البقرہ کی آیت 142 میں گزر چکی ہے اور وہاں اس کی تشریح بھی کردی گئی ہے وضاحت کے لئے وہیں سے دیکھی جاسکتی ہے ۔ بہرحال آیت کے اس حصہ میں امت مسلمہ کے وجود کا مقصد واضح ہوجاتا ہے ، ہاں ! افسوس کہ اس وقت امت مسلمہ مکمل طور پر اس مقصد کو بھول چکی ہے کاش کہ اس مقصد کو کوئی سمجھنے والا بھی اللہ تعالیٰ پیدا فرما دے ۔ امت مسلمہ کا دوسرے لوگوں پر گواہ ہونے کی حقیقت کیا ہے ؟ یہی کہ اس امت کے نبی محمد رسول اللہ ﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا اور اب یہ ذمہ داری اس امت کے ہر فرد کے ذمہ لازم کردی گئی کہ جتنا وہ جانتا ہے اتنا کم از کم آگے ضرور پہنچا دے لیکن جاننے سے مراد سنی سنائی باتیں نہیں بلکہ علمی تحقیق کے بعد جاننا مراد ہے گویا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو دین اسلام کی صحیح تعلیم رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے ہوئی ہے اور مسلمانوں کے واسطہ سے دین اسلام ساری نسل انسانی کو پہنچا ہے اور قیامت تک پہنچتا رہے گا ۔ ” پس نماز کا نظام قائم کرو ‘ زکوۃ کی ادائیگی سامان کرو “ نظام صلوۃ کا قیام اور زکوۃ کی ادائیگی کا اصل مقصد اس کا ذکر انشاء اللہ آنے والی سورة المومنون میں ہوگا اور اس کا مختصر ذکر پہلے بھی گزر چکا ہے اس جگہ نماز اور زکوۃ کی ہدایت شہادت علی الناس کی ذمہ داری کے پہلو سے ہے اور بلاشبہ یہ اس شہادت کے پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ ” اللہ کا سہارا مضبوط پکڑ لو وہی تمہارا کار ساز ہے تو کیا ہی اچھا کار ساز ہے اور کیا ہی اچھا مددگار “ آیت کے اس فقرہ کی تشریح بھی بہت ہی وسیع ہے اور اس کی تفصیل ہم سورة آل عمران کی آیت 103 میں کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ کرلی جائے ، اس جگہ اس بات کا ذکر کرکے ان مشکلات کا مدوا بتا دیا گیا ہے جو شہادت حق کی راہ میں پیش آئیں گی اور اس سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص شہادت حق پیش کرے اور اس کو مشکلات پیش نہ آئیں اور بغیر کسی غور وفکر کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس کو راہ حق میں مشکلات سے سابقہ نہ پڑے وہ سمجھ لے کہ وہ راہ حق پر نہیں ہے حق بدستور کڑوا تھا ‘ ہے اور رہے گا ، یہاں بتایا گیا ہے جب ایسے حالات پیش آئیں تو پورے عزم وجزم کے ساتھ اپنے موقف حق پر قائم رہنا ضروری ولا بدی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہی کی وہ ذات ہے جس کا سہارا پکڑنا لازم ہے اس لئے اس کو پوری مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہنا ہے اور اس ذات الہ نے اس کے لئے جو چیز مسلمانوں کے ہاتھ میں ظاہری طور پر تھامنے کے لئے دی ہے وہ کتاب اللہ ہے جس میں پوری وضاحت کردی گئی ہے اور اس میں اس کی وضاحت بھی موجود ہے کہ مددونصرت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی جائے اور وہی بہترین مددگار ہی اور اسی کی طرف ہم سب انسانوں کو انجام کار لوٹنا ہے اور جو اپنا انجام اس کے ہاتھ میں دے دے اس کو کوئی کمی نہیں آسکتی اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق بخشے ہم اپنے ذمہ دار خود نہ ہوں بلکہ اس کی ذات اقدس پر پورا پورا بھروسہ رکھیں ۔ آیت 77 ‘ 78 کی تشریح میں زیادہ تفصیل کی گئی ہے اس لئے کہ یہ وقت کی ضرورت تھی لیکن بعض اوقات بات لمبی ہوجائے تو ذہن میں انتشار ہو کر اصلیت بھی یاد نہیں رہتی کیونکہ اس وقت ہمارے ذہنوں کی حالت کچھ اس طرح کی ہو کر رہ گئی ہے اور حالات زمانہ نے ہمیں اسلام سے کچھ زیادہ غافل کردیا ہے اس لئے اس جگہ مذکورہ دونوں آیتوں کا خلاصہ ایک بار پھر عرض کردیا جاتا ہے تاکہ کچھ نہ کچھ ذہن میں رہ جائے چناچہ اس کا خلاصہ اس طرح ہے کہ : 1۔ اے ایمان والو ! اللہ کی بندگی ونیاز میں سرگرم رہو تمہارے سارے کام خیر و صالح پر مبنی ہوں ۔ اگر حسن عمل کی یہ روح تم میں بس گئی تو پھر تمہارے لئے فلاح ہی فلاح ہے ۔ 2۔ جہد فی اللہ تمہاری زندگی کا شعار ہو ” جہد “ کے معنی کمال درجہ کوشش کرنے کے ہیں ، پس مطلب یہ ہوا کہ زیادہ سے زیادہ کوشش جو ایک انسان کسی مقصد کے لئے کرسکتا ہے وہ تمہیں اللہ کے لئے کرنی چاہئے کیونکہ تمہاری مساعی کا نصب العین اس کے سوا اور کچھ نہیں یہ کوشش نیت سے بھی ہے ‘ زبان سے بھی ‘ ہاتھ پاؤں سے بھی ‘ جان دے کر بھی اور حکم الہی کے مطابق کفار کی جان لے کر بھی ۔ 3۔ اللہ نے تم کو یعنی سچے مسلمانوں کو برگزیدگی کے لئے چن لیا ہے ۔ 4۔ اس نے تم کو دین کی بہتر سے بہتر راہ دکھا دی ۔ اس بہتری کا معیار کیا ہے ؟ یہ کہ کسی طرح کی بھی تنگی اور رکاوٹ اس میں نہیں ہے ، سب سے زیادہ سہل ‘ سب سے زیادہ سہل ‘ سب سے زیادہ سبک ‘ سب سے زیادہ واضح ‘ سب سے زیادہ فکر وعمل کی وسعت رکھنے والی ملت حنیفیت جس کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں ہے انسان پر فکر عمل کے ارتقاء کی راہ جس بات نے روک رکھی ہے وہ یہی دین کی تنگی اور رکاوٹ ہے ، اس تنگی نے انہیں اس طرح جکڑ کر بند کردیا ہے کہ ایک قدم بھی وسعت وبلندی کی طرف نہیں اٹھا سکتے تھے اللہ نے اس جکڑ بندی سے تمہیں نجات دے دی اور یہ اس کا بڑے سے بڑا احسان ہے جو کسی انسانی گروہ پر ہو سکتا ہے ۔ 5۔ یہ تنگیاں جس قدر ہیں بعد کی پیدا کئی گئی ہیں ‘ اصل دین میں مطلق نہ تھیں جو تمہارے بزرگ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین تھا اس دین خالص کی راہ تم پر بذریعہ نبی اعظم وآخر ﷺ کھول دی گئی ہے ۔ 6۔ اس نے تمہارا نام ” مسلم “ رکھا کیونکہ دین خالص اول روز سے ” اسلام “ ہی ہے یعنی قوانین حق کی اطاعت ‘ یہی نام پہلے تھا ‘ یہی اب ہے ۔ 7۔ تمہیں اس لئے چنا گیا کہ اللہ کا رسول تمہارے لئے شاہد ہو۔ تم تمام انسانوں کے لئے اپنا چراغ اس سے روشن کرو گے ۔ تمہارے چراغ سے تمام دنیا کے چراغ روشن ہوجائیں گے ۔ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلاشبہ تمام دنیا نے اپنے چراغ اس چراغ سے روشن کئے لیکن ان اغیار سے چالاکی یہ کی کہ اپنے چراغ ہمارے چراغ سے روشن کرکے ہمارے چراغ کو گل کردیا اور ہمیں یہ بات اس لئے بھلی لگی کہ ہمارا تیل بچا اور اس مدھم روشنی میں زندگی بسر کرنے پر قانع ہوگئے اور آج کسی کو یاد ہی نہ رہا ہے کہ یہ روشنی کس چراغ سے حاصل کی گئی تھی ۔ 8۔ یہ فرض کیونکر انجام پاسکتا ہے ؟ اس طرح کی نماز قائم کرو ‘ زکوۃ کا نظام استوار کرو ‘ اللہ کا سہارا مضبوط پکڑ لو اور غیر اللہ کے سارے سہارے ترک کر دو اور خوب سمجھ لو کہ اللہ ہی تمہارا کارساز ہے اور وہی اچھا کارساز اور اچھا مددگار ہے ۔ اس سے جو باتیں قطعی طور پر معلوم ہوئیں وہ دو اور صرف دو ہیں ایک یہ کہ دین کی سچائی کی سب سے بڑی کسوٹی یہ ہے کہ اس میں تنگی ورکاوٹ نہ ہو دوسری یہ کہ مسلمانوں کے لئے دینی نام فقط ” مسلمان ہی ہے اس کے سوا جو نام بھی اختیار کیا جائے گا وہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے نام کی نفی ہوگا۔ پس مسلمانوں کے مختلف فرقوں ’ مذہبوں اور طریقوں نے جو طرح طرح کے خود ساختہ نام گھڑ لئے ہیں اور اب انہی سے اپنے آپ کو شناخت کرانا چاہتے ہیں وہ صریح (سماکم المسلمین) سے انحراف ہے ۔ اسی مضمون پر ہم سورة الحج کا مضمون ختم کر رہے ہیں اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ عبدالکریم اثری ٹھٹہ عالیہ :
Top