Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 9
وَ الْخَامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰهِ عَلَیْهَاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
وَالْخَامِسَةَ : اور اَنَّ : یہ کہ غَضَبَ اللّٰهِ : اللہ کا غضب عَلَيْهَآ : اس پر اِنْ : اگر كَانَ : وہ ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر اللہ کا غضب نازل ہو اگر وہ (میرا خاوند) سچوں میں سے ہے
پانچویں بار وہ قسم کھائے گی کہ اگر یہ سچا ہے تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو : 15۔ چار بار قسمیں کھالینے کے بعد وہ پانچویں بار اس طرح قسم کھائے کی کہ ” اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ سچوں میں سے ہو “ یعنی اس قسم کے کھانے میں اگر میں جھوٹی ہوں اور میرا خاوند سچا ہے تو مجھ پر اللہ کی لعنت پڑے ۔ اس پر عورت بھی اگر اسی طرح پانچویں قسمیں کھالے تو وہ عذاب یعنی اس سزا سے بچ جائے گی جو اس جرم کے لئے بتائی جا چکی ہے یعنی سو کوڑے اور ایک سال تک کی قید ، اب دونوں میں سے سزا تو کسی کو بھی نہ ہوئی تو اس کا نتیجہ کیا رہا ؟ اس کا نتیجہ فریقین کے درمیان جدائی ہے جب لعان کی قسمیں دونوں طرف سے ہوگئیں تو اب عورت کو مرد سے طلاق لینے کی ضرورت نہ رہی اور نہ مرد کسی طرح کی کوئی مزاحمت کرسکتا ہے بلکہ فریقین کے قسمیں کھا چکنے کے بعد خود بخود طلاق واقع ہوجاتی ہے اور یہی اس کا نتیجہ ہے ۔ شریعت اسلامی کی زبان میں اس کو لعان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ کتب احادیث میں اس کی بہت وضاحت کی گئی ہے اور خود نبی کریم ﷺ کے وقت کے تین واقعات کتب احادیث میں بیان کئے گئے ہیں ‘ ہلال بن امیہ ‘ عویمر العجلانی ‘ اور عاصم بن عدی کی مختلف احادیث کو اکٹھا کرکے بیان کیا جائے تو ہمارے خیال میں ہلال بن امیہ کا واقع تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے ہم اس کو اپنے الفاظ میں اس جگہ درج کرتے ہیں اور صرف اسی پر اکتفا کرتے ہیں تفصیلات کے لئے کتب احادیث میں کتاب الطلاق میں باب لعان کا مطالعہ کریں ۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب قرآن کریم میں قذف کی حد سے متعلق احکام کی آیات کا نزول ہوا تو انصار کے قبیلہ بن خزرج کے رئیس سعد بن عبادہ نے جناب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا ” یا رسول اللہ ! کیا یہ آیات اس طرح نازل ہوئی ہیں ۔ “ سعد ؓ کی زبان سے اس طرح کی بات سن کر نبی اعظم وآخر ﷺ خاموش ہوگئے اور پھر انصار سے مخاطب ہو کر آپ ﷺ نے فرمایا ” اے گروہ انصار ! سن رہے ہو اپنے سردار کی باتیں ؟ “ تو حاضرین نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ دراصل غیرت کے باعث ان کے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے ہیں دراصل وہ اس کی مزید وضاحت چاہتے ہیں اس پر سعد بن عبادہ ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ۔ میرا ایمان ہے کہ یہ آیات حق ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہیں ۔ مگر جو بات پریشان کن ہے وہ یہ کہ اگر میں اپنی بےحیاء بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ ملوث دیکھوں تو کیا میں حق پر نہیں ہوں گا ، اگر اسے قتل کر دوں ، تو کیا میرے لئے ضروری ہوگا کہ میں چار گواہ ڈھونڈتا پھروں اور جب تک انہیں اکٹھا کروں ملزم اپنا مطلب پورا کرکے فرار ہوجائے ۔ ان آیات کے نزول اور سعد بن عبادہ کی اس گفتگو پر تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ ہلال بن امیہ کو بعینہ یہی واقعہ پیش آگیا ۔ عشاء کے وقت جب وہ اپنی زمینوں سے واپس ہوئے تو انہوں نے ایک فرد کو اپنی بیوی پر پایا ان کی باتیں بھی سنیں لیکن کوئی قدم نہیں اٹھایا ، صبح دم ہلال جناب سید الکونین ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پورا قصہ من وعن حضور ﷺ کے گوش گزار کیا ۔ جناب رسالت مآب یہ واقعہ سن کر سخت رنجیدہ ہوئے ، اتنے میں انصار کے دوسرے افراد بھی وہاں آپہنچے اور آپس میں کہنے لگے ۔ ” ہمارے سردار سعد بن عبادہ ؓ نے جو بات کہی تھی ‘ ہم اسی ابتلا میں پڑگئے ، ہلال کے بس کا روگ نہیں کہ چار گواہ اکٹھے کرسکے ‘ اس لئے جناب رسالت مآب احکام الہی کے مطابق اسے حد قذف بھی لگائیں اور ساتھ ہی ہمیشہ کے لئے مردود الشہادت بھی قراردیں گے ۔ مگر ہلال نے کہا ۔ بخدا مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین ہے کہ وہ مجھے رسوا نہیں کرے گا ۔ جناب رسالت مآب ﷺ نے ہلال کا واقعہ سن کر فرمایا : اے ہلال ! قرآنی حکم کے مطابق چار گواہ پیش کرو ‘ ورنہ تمہاری پیٹھ پر اسی تازیانے لگائے جائیں گے ۔ ہلال بن امیہ نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ﷺ ! قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں اپنے دعوے میں حق پر ہوں ۔ میرا ایمان ہے کہ ضرور اللہ تعالیٰ کوئی ایسی سبیل پیدا فرمائیں گے جو میری پیٹھ کو حد قذف سے نجات دلائے گی ۔ دوران گفتگو حضرت جبریل امین (علیہ السلام) یہ آیات لے کر حاضر ہوئے : اور جو لوگ اپنی بیویوں پر زنا کا عیب لگائیں اور خود ان کے سوا ‘ ان کا کوئی گواہ نہ ہو ‘ ایسے مدعیوں میں سے ہر ایک کی گواہی یہ ہوگی کہ پہلے چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہرا کر قسم کھائے کہ وہ ضرور اپنے بیان میں سچا ہے ، پھر پانچویں مرتہ کہے : اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی پھٹکار ۔ اور اگر (شوہر کے قسم کھانے کے بعد) عورت بھی چار مرتبہ اللہ کو گواہ ٹھہرا کر قسم کھائے کہ یہ آدمی سراسر اپنے بیان میں جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہہ دے ۔ اگر یہ اپنے بیان میں سچا ہے تو مجھ پر اللہ ہی کا غضب پڑے (اس صورت میں) عورت کے سر سے سزا ٹل سکتی ہے ۔ ( سورة نور 7 : 10) حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب آیات لعان نازل ہوئیں تو جناب رسالت مآب ﷺ نے ہلال بن امیہ کو بلا کر بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے راہ پیدا فرما دی ۔ ہلال نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! میں تو اللہ پاک سے ایسی ہی آس لگائے ہوئے تھا : اس پر جناب رسول اللہ ﷺ نے ہلال کی بیوی کو بھی بلابھیجا ، جب وہ آن پہنچی تو حضور ﷺ نے اس دعوی سے متعلق اس سے باز پرس کی ‘ جس پر وہ کہنے لگی ” یا رسول اللہ ﷺ ! ہلال نے مجھ پر بہتان باندھا ہے ۔ “ جناب رسالت مآب ﷺ نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ علیم وخبیر ہے ، اسے علم ہے کہ تم میں سے کوئی ایک جھوٹا ہے ، کیا تم میں کوئی ہے جو (خدا کا خوف کرتے ہوئے) توبہ کرے اور حق بات ظاہر کر دے ۔ “ اس پر ہلال بن امیہ نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ﷺ ! میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں میں نے حق بات کہی ہے اور جو کچھ کہا ہے سچ کہا ہے ۔ اس پر جناب سید الکونین ﷺ نے حکم صادر فرمایا کہ دونوں میاں بیوی سے قرآنی احکام کے مطابق لعان کرایا جائے ، اس لئے آپ ﷺ نے پہلے ہلال کو حکم دیا کہ وہ چار مرتبہ ان الفاظ سے شہادت دے جو کلام پاک میں مذکور ہیں ‘ چناچہ ہلال نے چار مرتبہ شہادت دی کہ : ” میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں اپنے دعوے میں سچا ہوں ۔ “ جب وہ پانچویں شہادت کے لئے تیار ہوا تو حضور ﷺ نے تاکیدا ہلال سے فرمایا : ” دیکھو ہلال ! اللہ تعالیٰ کا خوف کرو ‘ دنیاوی سزا آخرت کے عذاب سے کہیں ہلکی ہے اور عذاب الہی ‘ لوگوں کی دی ہوئی سزا سے کہیں زیادہ سخت ہے ۔ یہ پانچویں شہادت آخری شہادت ہے۔ اسی پر فیصلہ کا دارومدار ہے ۔ “ اس پر ہلال بن امیہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ مجھے کامل یقین ہے کہ اللہ پاک مجھے اس شہادت پر آخرت کا عذاب نہیں دیں گے اور اس نے پانچویں شہادت دی ۔ ” اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ “ اس کے بعد ہلال بن امیہ کی بیوی آگے بڑی ‘ اس نے بھی چار بار شہادت دی اور قسمیں کھائیں اور ہر بار کہا کہ میرا خاوند جھوٹا ہے ، جب پانچویں شہادت دینے لگی تو آپ ﷺ نے اسے روک دیا اور فرمایا ” اللہ سے ڈرو ‘ یہ پانچویں شہادت آخری شہادت ہے یاد رکھو ! اللہ کا عذاب اس دنیاوی سزا (زنا کی حد شرعی) سے زیادہ المناک ہے ۔ “ اس نے جب یہ سنا تو وہ تھوڑی دیر رکی ‘ جھجھ کی ‘ مگر پھر فورا کہہ اٹھی : واللہ ۔ میں اپنی قوم کو ہرگز رسوا نہیں کروں گی اور پانچویں شہادت بھی دے دی ۔ ” کہ اگر میرا شوہر سچا ہے تو اللہ کہ پھٹکار مجھ پر پڑے ۔ “ جب ملاعنت کی کاروائی مکمل ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے میاں بیوی میں تفریق فرما دی اور حکم دیا کہ : 1۔ اس حمل سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ ماں سے منسوب کیا جائے گا ۔ 2۔ باپ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ 3۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بچے کو مطعون کرے یا اس کی ماں کو ملامت کرے اور اگر کوئی شخص اس کے باوجود الزام تراشی کا مرتکب ہوا تو ۔۔۔۔۔۔ اس پر حد قذف جاری ہوگی ۔ 4۔ عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ ہلال سے زمانہ عدت کے لئے نفقہ اور سکونت کا مطالبہ کرے کیونکہ یہ طلاق اور وفات کے بغیر اپنے خاوند سے الگ کی جا رہی ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا : اس عورت کے ہاں جو بچہ کی ولادت ہو تو دیکھو وہ کس پر گیا ہے ؟ وہ ہلال پر ہو تو سمجھو ہلال کا ہے ۔ اور اگر دوسری صورت پر ہو تو سمجھ لو کہ یہ بچہ اس شخص کا ہے جس کے ساتھ عورت متہم کی گئی ہے ۔ وضع حمل کے بعد جب دیکھا گیا تو بچہ ہلال کی صورت پر نہیں تھا ، جب حضور ﷺ کو اس بات کی اطلاع دی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر اللہ کی کتاب پہلے فیصلہ نہ کرچکی ہوتی تو میں اس پر ضرور حد جاری کرتا۔ (صحیح بخاری ج 2 کتاب المحاربین ص 40 ‘ 44 ج 4 ص 908 ‘ 909 ‘ صحیح مسلم ج 4 ص 133 ‘ 136) عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص اور اس کی بیوی کا مقدمہ بارگاہ سید الکونین ﷺ میں پیش کیا گیا (خاوند نے بیوی پر الزام لگایا کہ وہ دوسرے شخص سے ملوث ہوگئی ہے) ان کے درمیان لعان کرایا گیا ۔ عورت حمل سے تھی ‘ لیکن مرد کو اصرار تھا کہ یہ حمل اس کا نہیں (ملاعنت کے بعد) جناب رسالت مآب ﷺ نے ان کے درمیان تفریق کرا دی اور فیصلہ دیا ۔ کہ بچہ صرف ماں کا ہوگا ۔ (موطا امام مالک ص 480) ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ اسی طرح کا ایک اور معاملہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا ، چناچہ جناب رسالت مآب ﷺ نے لعان کا حکم دیا ، ملاعنت کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا : ” تمہارا حساب اللہ پاک کے ذمہ ہے ، تم میں سے ایک بہرحال جھوٹا ہے ۔ “ پھر آپ ﷺ نے مرد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ” یہ (عورت) اب تیرے حق میں نہیں رہی ، اب تیرا اس کے ساتھ تعلق باقی نہیں رہا ۔ تم اس (عورت) کے خلاف نہ تو کسی قسم کی دست درازی کرسکتے ہو اور نہ کسی منتقمانہ کارروائی کرنے کے مجاز ہو۔ “ اس پر اس شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا : ” یارسول اللہ ﷺ میرا مال (جو اسے میں نے دیا ہے) کا کیا بنے گا ؟ “ جناب رسالت مآب ﷺ نے فرمایا : ” تمہیں مال واپس لینے کا کوئی حق نہیں ۔ اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو بھی (تمہارا) مال اس لذت کا بدل ہے جو تو نے حلال کرکے اس سے حاصل کی۔ اور اگر تمہارا دعوی جھوٹا ہے تو بھی (جس طرح اب وہ عورت تم سے دور ہوگئی ہے) اسی طرح مال بھی تیرے حق ملکیت سے دور چلا گیا ۔
Top