Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 139
فَكَذَّبُوْهُ فَاَهْلَكْنٰهُمْ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً١ؕ وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
فَكَذَّبُوْهُ : پس انہوں نے جھٹلایا اسے فَاَهْلَكْنٰهُمْ : تو ہم نے ہلاک کردیا انہیں اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی وَمَا كَانَ : اور نہیں تھے اَكْثَرُهُمْ : ان کے اکثر مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
(غرض) انہوں نے اس کو جھٹلایا پس ہم نے انہیں بھی ہلاک کردیا ، بلاشبہ اس میں نشانی ہے اور ان میں اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں
قوم نے ہود کو جھٹلایا ہم نے ان کو ہلاک کردیا ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے : 139۔ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کرو تم دیکھو گے کہ کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں غافلوں کو غفلت سے بیدار نہ کیا گیا ہو اور قیامت سے ان کو ڈرایا نہ گیا ہو لیکن غافلوں نے ہمیشہ یہی روش اختیار کی جو قوم ہود نے اختیار کی قیامت کو انہوں نے ایک افسانہ قرار دیا کیوں ؟ اس لئے ہم باپ دادا سے اس کا ذکر ہوتا آیا دیکھ اور سن رہے ہیں آخر وہ آ کیوں نہیں گئی اس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکال لیا کہ وہ نہ آئی اور نہ ہی کبھی آئے گی ، یہی کام قوم ہود نے کیا کہ ہود (علیہ السلام) کو جھٹلایا ‘ ان سے مذاق کیا ‘ ان کو استہزاء کا نشانہ بنایا ‘ ان کو گالیاں اور جھڑکیاں دیں جب وہ اپنی سابق قوموں کی طرح ایک ایک کام کرچکے تو ہم نے بھی ان کو سابق قوموں کی طرح ہلاک کر کے رکھ دیا ۔ ان کے عذاب کی صورت کیا ہوئی اور کون سا عذاب ان پر مسلط کیا گیا اسکی تفصیل ہم نے سورة ہود میں ہود (علیہ السلام) کی سرگزشت میں بیان کردی ہے ایک جگہ قرآن کریم نے ان کے عذاب کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ (آیت) ” فارسلنا علیھم ریحا صرصرا فی ایام نحسات لنذیقنھم عذاب الخزی فی الحیوۃ الدنیا ول عذاب الاخرۃ اخزی وھم لا ینصرون “۔ (فصلت : 16) ” ہم نے چند منحوس دنوں میں سخت طوفانی ہوا ان پر بھیج دی تاکہ انہیں دنیا ہی کی زندگی میں ذلت ورسوائی کے عذاب کا مزہ چکھائیں اور آخرت کا عذاب تو اس بھی زیادہ رسوا کن ہے وہاں کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں ہوگا “ جب ان کی تباہی کا وقت آیا تو افق پر ایک کالی گھٹا نمودار ہوئی ‘ اسے دیکھ کر ان کے دل باغ باغ ہوگئے سمجھے کہ موسلادھار مینہ برسے گا اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا کیونکہ ایک عرصہ سے بارش نہیں ہورہی تھی لیکن وہ گھٹا ان کو خوش حال کرنے کے لئے نہیں بلکہ قہر الہی بن کر ان کو تباہ وبرباد کرنے کے لئے آئی تھی ۔ آٹھ دن اور سات راتیں مسلسل آندھی چلتی رہی جو اتنی تندوتیز تھی کہ ان کی مضبوط عمارتیں بنیادوں سے اکھڑ گئیں اور ان کے باغات اور کھیت خاکستر بن کر رہ گئے تناور درخت یوں بوسیدہ ہوگئے جیسے صدیوں پرانے ٹنڈ منڈ کھڑے ہیں اور اس آندھی کے زور سے یہ لوگ اس طرح گر گر کر مرے اور مر مر کر گرے جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے گر پڑتے ہوں اور یہ سب کے سب ملیا میٹ ہو کر رہ گئے بلاشبہ ان لوگوں کی ہلاکت بھی بعد میں آنے والوں کے لئے ایک زبردست نشانی تھی لیکن کسی نے بھی اس نشانی پر دھیان نہ دیا گزشتہ قوموں کی طرح آنے والے بھی نشانیاں ہی طلب کرتے رہے اور جو نشانی انہوں نے چھوڑی تھی اس کو کسی نے بھی دیکھنے کی کوشش نہ کی بلاشبہ ان کا دور تو گزر گیا لیکن بعد میں آنے والوں نے انکی حالت سے بھی کوئی عبرت حاصل نہ کی اور اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ لوگوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ۔ اس لئے ایک طرف تو یہ ہے کہ ” لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے “ اور دوسری طرف یہ کہ ” دوپیاں وسرگیاں یاراں دیادوربلائیں “ ہر آنے والی قوم کا انجام ہلاکت ہوا لیکن اس طرح ہلاک ہونے والوں سے کسی نے بھی درس عبرت حاصل نہ کیا ۔
Top