Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 73
اَوْ یَنْفَعُوْنَكُمْ اَوْ یَضُرُّوْنَ
اَوْ يَنْفَعُوْنَكُمْ : یا وہ نفع پہنچاتے ہیں تمہیں اَوْ يَضُرُّوْنَ : یا وہ نقصان پہنچاتے ہیں
یا تم کو کچھ نفع دے سکتے ہیں یا کچھ نقصان پہنچا سکتے ہیں
ابراہیم (علیہ السلام) کا دوسرا سوال جو پہلے سوال کے ساتھ ہی منسلک تھا : 73۔ سوال ایک ہی تھا لیکن تفصیل کے لئے آپ جزجز کرکے اس کی وضاحت طلب کی تاکہ انکی بتائی ہوئی وضاحت کے مطابق سوالات کا مزید سلسلہ آگے بڑھ سکے ، آپ نے اپنے سوال کے دوسرے جزء میں یہ استفسار فرمایا کہ کیا تم کو یہ کوئی نفع ونقصان پہنچا سکتے ہیں ؟ اس طرح گویا اس بات کا فیصلہ خود بخود ہوجائے گا کہ آیا وہ نفع ونقصان پہنچانے کا اختیار رکھتے ہیں یا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ اگر وہ نفع ونقصان پہنچا سکتے ہیں تو وہ اختیار بھی رکھتے ہوں گے ، رہی یہ بات کہ نفع کے لئے تو خیر پکارا نقصان کرانے کے لئے کسی کو کوئی کیا پکارے گا ؟ تو اس کا مطلب یہ نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان جس کے متعلق یہ علم رکھے کہ فلاں آدمی میرا یہ نقصان کرسکتا ہے تو اس سے اپیل کی جاسکتی ہے کہ مہربانی فرما کر وہ میرا یہ نقصان نہ کرے اس طرح ہونے والے نقصان سے آدمی بچ سکتا ہے اگر وہ اپیل نہیں کرے گا تو نقصان پہنچانے والا کہہ سکتا ہے کہ تم نے مجھے بتایا تو نہیں تھا کہ اس طرح میرا نقصان ہے لہذا آپ میرا نقصان نہ کریں اور اس بات کو ہر آدمی اچھی طرح سمجھتا ہے ، والد نے اور قوم کے لوگوں نے آپ کی بات کو سنا اور اچھی طرح سمجھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہونے والے نبی ورسول نے کتنا پیارا انداز اختیار فرمایا اور انہی سے ان لوگوں کے معبودوں کی بےبسی کا اعتراف کرانا پسند کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ والد نے اور قوم کے ایک ایک فرد نے آپ کی بات کو سمجھ لیا اور کسی شخص کو کوئی ابہام نہ رہا اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی تلخی پیدا ہوئی جیسا کہ اکثر اوقات بات کرنے کا سلیقہ نہ ہونے کے باعث ہوجاتی ہے ایسے حساس مسئلہ میں قوم کے لوگ اور والد بزرگوار جو کچھ جواب دے سکے اس کا ذکر آ رہا ہے ۔
Top