Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 61
اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ جَعَلَ خِلٰلَهَاۤ اَنْهٰرًا وَّ جَعَلَ لَهَا رَوَاسِیَ وَ جَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزًا١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَؕ
اَمَّنْ : بھلا کون کس جَعَلَ : بنایا الْاَرْضَ : زمین قَرَارًا : قرار گاہ وَّجَعَلَ : اور (جاری) کیا خِلٰلَهَآ : اس کے درمیان اَنْهٰرًا : ندی نالے وَّجَعَلَ : اور (پیدا) کیے لَهَا : اس کے لیے رَوَاسِيَ : پہاڑ (جمع) وَجَعَلَ : اور بنایا بَيْنَ : درمیان الْبَحْرَيْنِ : دو دریا حَاجِزًا : آڑ (حد فاصل) ءَ اِلٰهٌ : کیا کوئی معبود مَّعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : ان کے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
بھلا وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا ؟ اور اس کے درمیان میں نہریں بہائیں اور اس کے لیے بھاری پہاڑ بنائے اور دو دریاؤں کے درمیان حجاب بنایا ، کیا اللہ کے سوا کوئی معبود ہے (جو یہ سارے کام کرسکتا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ) ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں
بےقرار کی دعائیں کون سنتا ہے اور تم کو زمین میں خلیفہ کس نے بنادیا ؟ : 61۔ ذرا تقابل کرکے تو دیکھو کہ وہ لوگ جن کو تم اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہراتے ہے اور وہ بہتر ہیں یا وہ ذات جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا ہے اور اس کے درمیان دریا بنائے اور زمین میں بڑے بڑے بھاری پہاڑ گاڑ دیئے اور دو دریاؤں کے درمیان ایک خاص حد فاصل بنا دی کٹنی موٹی اور عام فہم بات ہے لیکن اس کو سمجھنے کی کیوں کوشش نہ کی گئی تعجب ہے کہ اس کو نہ کلدانیہ والے سمجھے ‘ نہ مصر والے ‘ نہ ایران والے اور نہ ہندوستان والے ‘ نہ روم والے اور نہ یونان والے سب نے اپنے کمال اور عروج و تمدن کے زمانہ میں پرستش کی تو دوسروں کی کی اور اب تک لوگ دوسروں کی پرستش میں زیادہ رغبت رکھتے ہیں ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ ان میں سے کوئی ہے جو زمین کو قرار دینے والا یا زمین کے اندر دریا بہانے اور پیدا کرنے کرنے والا ‘ زمین کے اندر پہاڑ گاڑنے والا ‘ پھر زمین کے اندر اور سمندر کے اندر مختلف پانیوں میں غیر مرئی پردے قائم کرنے والا اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے ساتھ کوئی اور ہے بھی ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر اتنی موٹی سی بات بھی آخر تم کیوں نہیں سمجھتے ؟ زیر نظر آیت میں چار سوال اٹھائے گئے ہیں جیسا کہ گزشتہ آیت میں تین سوالوں کا جواب دریافت کیا گیا تھا اس آیت میں پہلا سوال کیا ہے ؟ وہ ذات جس نے زمین کو جائے قرار بنایا جس میں تم اربوں ‘ کھربوں انسان آباد ہو اور تمہاری ضرورت کی ساری چیزیں بھی اس میں رکھ دی گئی ہیں اور پھر یہ زمین ہے کہ اپنی ایک خاص حرکت کے باوجود تم کو قرار دے رہی ہے ذرا غور تو کرو کہ تمہارا یہ کرہ ارض کس طرح اس فضا میں معلق ہے اور کسی چیز پر اس کو ٹکایا بھی نہیں گیا لیکن اس کے باوجود اس میں ذرا برابر بھی اضطراب نہیں ذرا پھر غور کرو کہ اگر اس میں اضطراب واہتزاز ہوتا تو ہم کس طرح زندہ رہ سکتے تھے جبیہ ایک ذرہ اس کے کسی ایک خاص حصہ کو اضطراب کو ہم نہیں برداشت کرسکتے اگر اس میں مسلسل اضطراب ہوتا تو کسی جاندار کا زندہ رہنا ممکن تھا اور پھر یہ کرہ کس باقاعدگی کے ساتھ اس سورج کے سامنے آتا اور غائب ہوتا چلا جاتا ہے اگر اس کا ایک رخ ہر وقت سورج کے سامنے رہتا اور دوسرا ہر وقت اندھیرے میں ہوتا تو اس کے دونوں طرف ہی آبادی ممکن نہ تھی کیونکہ ایک طرف کو تو سورج کی مسلسل کرنیں جلا کر راکھ کر دیتیں اور دوسری طرف مسلسل اندھیرے میں رہنے کے باعث بانجھ ہوجاتی ۔ آج جس سائنس پر تم مفتوں ہو اس کا آخر کمال کیا ہے ؟ زیادہ سے زیادہ یہی کہ تم کو کچھ ایسی معلومات بہم پہنچائیں ہیں کہ تم پہلے انکو نہیں جانتے تھے لیکن کیا ان معلومات کے جن لینے اور ان کے نہ جاننے میں کوئی فرق ہے ؟ کیا جس وقت انسان یہ سمجھتا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج متحرک ہے تو کیا زندگی اس وقت موجود نہ تھی ؟ جب اس وقت بھی تھی اور آج بھی ہے تو آخر فرق کیا نکلا ؟ پھر کسی چیز کا معلوم کرلینا کہ یہ کام کیسے ہو رہا ہے کیا اس کے برابر ہے کہ ایک اس کام کو کر رہا ہے اور دوسرا دیکھ رہا ہے ؟ کیا کام کرنے والا اور دیکھنے والا دونوں برابر ہوتے ہیں ؟ اگر عقل وفکر سے کام لیا جائے تو اس شخص کا ایمان زیادہ مضبوط ہونا چاہئے جس نے مشاہدہ کرلیا کہ یہ کام اس طریقہ سے ہو رہا ہے اور کرنے والا پر اس کو یقین آنا چاہئے کیونکہ اس کے علم میں ہے کہ یہ کام اس طرح خودبخود نہیں ہوا چلا جارہا بلکہ اس کام کا باقاعدگی کے ساتھ جاری ہونے ہی کا یہ مطلب ہے کہ اس کا باقاعدگی کے ساتھ کوئی چلانے والا ہے اور میں کتنا کو تہ بیں ہوں کہ وہ مجھے دکھائی بھی نہیں دیتا ، پھر اس قادر وقدیر اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے اس زمین میں کس طرح دریا بہائے جو فراز سے نشیب کی طرف رواں دواں ہیں اور حیوانی زندگی کے لئے وہ کس قدر ضروری ہیں اگر دریا نہ ہوتے تو تیری آب پاش کا کیا ہوتا ؟ پھر زمین کو اس کے محور پر قائم رکھنے کے لئے اس میں کسی طرح پہاڑ گاڑ کر رکھ دیئے کہ ایک طرف وہ زمین کو ہچکولے لینے سے باز رکھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف انسان کے فائدے کی کیا کیا چیزیں ان میں رکھ دی گئی ہیں پھر کچھ ایسی ہیں جو نکالی جا رہی ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو خودبخود نکل آتی ہیں اور ہمیں اس وقت علم ہوتا ہے جب وہ ہماری آنکھوں کے سامنے آتی ہیں پھر ان سامنے آجانے والی اشیاء کو معلوم کرلینا زیادہ اہم ہے یا ان اشیاء کے ذخائر کا پیدا کرنا ؟ تعجب ہے کہ جن لوگوں نے ان اشیاء کو معلوم کیا ان پر تو آپ لوگ مفتوں ہیں اور جو ان ذخائر کا پیدا کرنے والا ہے اس کی طرف سے بالکل غافل ہیں کتنی ہی عجیب غفلت ہے کہ کبھی بھول کر بھی اس کا خیال نہیں آیا زمین کے اندر میٹھے اور کھاری پانی کے ذخائر موجود ہیں اور لطف یہ ہے کہ میٹھے اور کھاری پانی کو بالکل الگ الگ کر کے رکھا گیا ہے اور وہ کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملتا ۔ زمین کا اندر تو اندر ہی ہے لیکن باہر بظاہر ہر سمندر کے اندر میٹھے اور کھاری پانی کو الگ الگ چلایا گیا ہے اور اس طرح ٹھنڈے اور گرم پانی کو بھی ایک دوسرے سے الگ الگ رکھا گیا ہے تفصیل اس کے پیچھے سورة الفرقان آیت 53 میں گزر چکی ہے وہاں سے ملاحظہ کرلیں ‘ سورة الفرقان عروۃ الوثقی کی اسی جلد میں پیچھے موجود ہے ۔
Top