Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 65
قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ
قُلْ : فرما دیں لَّا يَعْلَمُ : نہیں جانتا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین الْغَيْبَ : غیب اِلَّا اللّٰهُ : سوائے اللہ کے وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں جانتے اَيَّانَ : کب يُبْعَثُوْنَ : وہ اٹھائے جائیں گے
(اے پیغمبر اسلام ! ) آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جو کوئی بھی آسمان و زمین میں ہیں وہ غیب کی باتیں نہیں جانتے اور نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے
اے پیغمبر اسلام ! ﷺ اعلان کیجئے کہ آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب جاننے والا نہیں ہے : 65۔ گزشتہ آیات میں توحید الہی کے لئے اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی تخلیق ‘ تدبیر اور رزاقی کی صفات سے استدلال کیا گیا تھا اور اب زیر نظر آیت میں توحید الہی کے لئے علم سے استدلال کیا گیا ہے کہ علم کے معاملہ میں بھی اللہ رب العزت کا کوئی شریک نہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی غیب کا جاننے والا نہیں خواہ وہ کوئی ہو اور کہاں ہو ؟ یعنی آسمان و زمین کے کسی حصہ میں ہو یا کوئی کتنی اہم شخصیت کیوں نہ ہو جیسے اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی ورسول ‘ کوئی فرشتہ یا جن ‘ اولیائے کرام یا بزرگان دین میں سے کوئی ہی کیوں نہ ہو گویا انسان ‘ جن اور فرشتوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جو علم غیب رکھتا ہو اور نہ ہی ان میں سے کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ خود کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے ، اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام اشیاء کا علم صرف ذات اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے لئے خاص ہے ، عالم الغیب صرف اللہ ہی کی ذات ہے ، انبیاء کرام کو بھی کسی شے کا علم اس وقت تک حاصل نہیں ہوتا جب تک کہ ان پر وحی نازل نہ ہوجائے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے متعلق علم غیب کا عقیدہ رکھنا ‘ اعتراف عظمت نہیں بلکہ انتہائی گمراہی اور ضلالت ہے ، سیرت کی مخالفت ہے بلکہ یہ عقیدہ اسلامی روح کے خلاف ہے جن لوگوں کا عقیدہ یہ ہو کہ انبیاء واولیاء کو ہر اس واقعہ کا علم ہے جو ہوچکا ہے یا ہونے والا ہے ‘ ان کی نظر سے کوئی چیز مخفی نہیں ‘ سارا علم ان کی نظروں کے سامنے ہے ‘ وہ دلوں کے حالات کو جاننے والے ‘ ہر راز سے باخبر اور تمام مخلوقات سے واقف ہیں ‘ انہیں قیامت کا علم ہے ‘ مادر رحم میں جو کچھ ہے اس سے وہ آشنا ہوتے ہیں ‘ ہر حاضر وغیب پر ان کی نظر ہوتی ہے غرض کہ دنیا میں جو کچھ ہوچکا ہے ‘ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے اولیاء کرام سے کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے ، بلاشبہ ایسا عقیدہ اسلام کا عقیدہ نہیں کیونکہ علم غیب اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے ، مخلوق کا کوئی فرد بھی اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں اس کا شریک و ساجھی نہیں ہے ، اس عقیدہ کی اصل جڑ اس سورت نمل کی زیر نظر آیت ہے کہ (آیت) ” قل لا یعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ وما یشعرون ایان یبعثون “۔ ” اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ان لوگوں سے کہہ دو کہ اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتے اور وہ نہیں جانتے کہ وہ دوبارہ کب اٹھائے جائیں گے اس کی وضاحت پیچھے سورة الانعام کی آیت 59 ‘ سورة یونس کی آیت 2 ‘ سورة ہود کی آیت 123 کی تفسیر میں گزر چکی ہے وہاں سے ملاحظہ کریں ۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قریش مکہ اور دنیا کی دوسری قوموں کی طرح بعض مسلمانوں کے فرقے بھی اس شرک میں ان کے برابر کے شریک ہیں بلکہ بعض حالات میں موجودہ لوگوں کا شرک گزشتہ لوگوں کے مقابلہ میں زیادہ سخت اور زیادہ برا ہے جو اسلام کے عقیدہ کے کھلا خلاف ہے مثلا تحریر ہے کہ ” انبیاء پیدائش کے وقت ہی علم غیب رکھتے ہیں ۔ “ (مواعظہ نعیمیہ 192) نبی کریم ﷺ کو تمام جزئی وکلی علم حاصل تھے اور آپ ﷺ نے سب کا احاطہ فرما لیا (الدولۃ المکیہ ص 230) ” لوح قلم کا علم جس میں تمام ماکنان وما یکون ہے حضور ﷺ کے علوم سے ایک ٹکڑا ہے ۔ “ (خالص الاعتقاد والبریلوی ص 38) ” نبی کریم ﷺ سے عالم کی کوئی شے پردہ میں نہیں یہ روح پاک عرش اور اس کی بلندی و پستی ‘ دنیاو آخرت ‘ جنت و دوزخ سب پر مطلع ہے کیونکہ یہ سب اسی ذات جامع کمالات کے لئے پیدا کی گئی ہیں “ (الکلمۃ العلیا نعیم الدین مراد آبادی 14) ” حضور ﷺ اللہ کو بھی جانتے اور تمام موجودات ‘ مخلوقات ان کے جمیع احوال کو بتام و کمال جانتے ہیں ، ماضی ‘ حال ، اور مستقبل میں کوئی شے کسی حال میں ہو حضور ﷺ سے مخفی نہیں “ (تسکین الخواطر احمد سعید کا ظمی ص 65) ” صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین یقین کے ساتھ حکم لگاتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کو غیب کا علم ہے “ (خالص الاعتقاد ص 28) ” جس جانور پر سرکار قدم رکھیں اس کی آنکھوں سے حجاب اٹھا دیئے جاتے ہیں ‘ جس دل کے سر پر حضور ﷺ کا ہاتھ ہو اس پر سب غیب و حاضر کیوں نہ ظاہر ہوجائیں ۔ “ (مواعظ نعیمیہ ص 192) یہ مشتے از خروارے نہیں بلکہ حبہ از خرواے سے ہے اور یہ اس لئے پیش خدمت ہے کہ مشرکین مکہ کے شرک اور امت محمدیہ میں شمار ہونے والے لوگوں کے شرک میں آپ موازنہ کرکے خود ہی فیصلہ کرلیں کہ دونوں میں فرق کیا ہے اور دونوں میں سخت کونسا شرک ہے ؟ پھر یہ کہ مکہ والوں کے شرک کو تو شرک سمجھا اور کہا جائے لیکن اس امت میں وابستہ ہونے والوں کے شرک کو شرک کہنا بھی ممنوع قرار دیا جائے کیا سراسر تحکم نہیں تو اور کیا ہے ؟
Top