Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 64
اَمَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
اَمَّنْ : بھلا کون يَّبْدَؤُا : پہلی بار پیدا کرتا ہے الْخَلْقَ : مخلوق ثُمَّ يُعِيْدُهٗ : پھر وہ اسے دوبارہ (زندہ) کریگا وَمَنْ : اور کون يَّرْزُقُكُمْ : ت میں رزق دیتا ہے مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے وَالْاَرْضِ : اور زمین ءَاِلٰهٌ : کیا کوئی معبود مَّعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ قُلْ : فرما دیں هَاتُوْا : لے آؤ تم بُرْهَانَكُمْ : اپنی دلیل اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
بھلا کون ہے جس نے مخلوقات کو پہلی بار پیدا کیا اور پھر دوبارہ پیدا کرے گا ؟ اور کون تم کو آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (جو ایسا کرسکے ؟ ! اے پیغمبر اسلام ! ) آپ ﷺ کہہ دیجئے اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو
اچھا بتاؤ کیا پیدائش اول یا دوم یا رزق دینے والا کوئی اللہ کے سوا ہے ؟ 64۔ اس آیت میں استفسار کیا جا رہا ہے کہ وہ کون ہے جس نے خلق کی ابتدا کی اور پھر اس کا اعادہ کرتا رہتا ہے ؟ اور وہ کون ہے جو تم کو آسمان و زمین سے رزق عطا کرتا ہے ؟ سائنس ترقی کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن ابھی تک اس ابتدائی تخلیق کا راز بدستور تشنہ ہے اور پھر تخلیق کے لئے جو ضابطہ مقرر کردیا گیا اس ضابطہ الہی کے آگئی ‘ یہ جرثومے جن کی پہچان میں تم نے بیسیوں سال خرچ کئے کیا ان میں زندگی موجود نہیں اگر ہے تو وہ کہاں سے آئی کیا یہ جرثومے ڈیڈ بھی ہوتے ہیں یا نہیں اگر ہوتے ہیں تو ان کو ڈیڈ کس نے کردیا ہے ؟ پھر تم فقط انکی شناخت کرکے پھولے نہیں سمائے تو جس نے اپنے کلمہ کن سے ان کو پیدا کردیا ہے ؟ تم ان دو جرثوموں کو مصنوعی طریقہ سے ملانے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے ہو ذرا غور تو کرو لیکن جس نے انکو ملانے کے لئے ایک فطری طریقہ تم کو القا کردیا اور پھر تم ہی کا ہر ایک خواہ وہ صاحب عقل وفکر ہے یا کوتاہ اندیش دونوں کو ایک ہی طرح کا ایسا فطری طریقہ ودیعت کیا گیا کہ کسی تعلیم وتربیت کی اس میں کوئی ضرورت نہیں ہے پھر تم کو پیدا کر کے اس نے لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا بلکہ پوری زندگی کے لئے خاص انتظامات کے مطابق تم کو رزق بہم پہنچایا اور عین عمر کا لحاظ رکھتے ہوئے اس رزق کا بندوبست کیا جبھی تم نے ماں کے پیٹ سے باہر کو جھانکا تو تمہاری غذا اپنے مکمل اقوام کے ساتھ تیار تھی ‘ نہ فیڈر میں ڈالنے کی زحمت اور نہ فیڈر کو صاف کرنے اور گرم پانی سے ابالنے کی کوئی ضرورت پھر غور کرو کہ تمہاری عمر کے ساتھ ساتھ تمہاری غذا بھی بدلتی چلی گئی ‘ تمہارے دانت نکل آئے اور معدہ نے تقویت حاصل کرلی تو آسمان و زمین کو جو تمہاری پرورش کے لئے لگایا گیا تو تمہاری غذا انہوں نے مہیا کردی کہ آسمان سے بارش اتری اور زمین کو اس نے ہرا بھرا کردیا پھر تم نے دیکھا تو تمہاری چوطرفہ تمہاری غذا کے ذخائر موجود ہیں جن سے جتنا تم چاہتے ہو حاصل کرتے رہتے ہو کیا تمہارے معبودوں میں سے کوئی ہے جو پہلی پیدائش کا دعوی کرے یا یہ موجودہ باضابطہ تخلیق اس کے اختیار میں ہو اچھا مرنے کے بعد کی زندگی اس کے قبضہ واختیار میں دی گئی ہو پھر تم کو معلوم ہے کہ اس زندگی کی بیشمار متنوع صورتیں پائی جاتی ہیں کسی ایک نوع میں کوئی دعوی کرے اگر نہیں اور یقینا نہیں تو آخر اللہ کے ساتھ جو تم نے اس کے شریک ٹھہرا رکھے ہیں آخر یہ کس مرض کی دوا ہیں اور کیا وجہ ہے کہ تم ان سب کو مخلوق سمجھ کر صرف اپنے خالق کی طرف کیوں متوجہ نہیں ہوتے ؟ اس مضمون کے اندر اتنا پھیلاؤ ہے کہ اگر اس کو پھیلایا جائے اور توحید الہی کے نشانات اس میں تلاش کئے جائیں تو اس قدر یہ مضمون پھیلاتا چلا جائے کہ اس کے لئے سینکڑوں صفحات کی ضرورت ہو۔ قرآن کریم نے اشارات کئے ہیں اور انہی اشارات سے حقیقت کو پایا جاسکتا ہے اس وقت تک ان آیات کریمات میں یعنی آیت 60 تا 64 پانچ آیات میں بارہ سوالات کئے گئے ہیں اور ہر ایک سوال کے متعلق یہ پوچھا گیا ہے کیا سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی شخصیت ایسی ہے جو ان میں سے کسی ایک سوال کا جواب رکھتی ہو کہ وہ اس کو کر دے گی اگر نہیں اور یقینا نہیں تو جو دلیل نہ رکھتا ہو اس کی صداقت تام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہوتی پھر تعجب ہے کہ تم دلیل بھی پیش نہیں کرتے اور شرک کے باز بھی نہیں آتے اور پھر اس کے باوجود تم جھوٹے بھی نہیں ہو تو جھوٹ پھر کس بلا کا نام ہے ؟ ایک بار ان بارہ سوالوں کو پھر دہراؤ تاکہ بات کی مزید وضاحت ہوجائے فرمایا گیا ہے کہ : 1۔ وہ کون ہے جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے ؟ ۔ 2۔ وہ کون ہے جو آسمانوں سے پانی برسانے والا ہے ؟ ۔ 3۔ وہ کون ہے جو اس پانی سے تمہارے لئے خوش نماباغات اگانے والا ہے ؟ ۔ 4۔ وہ کون ہے جس نے تمہارے لئے اس زمین کو جائے قرار بنایا ہے ؟ ۔ 5۔ وہ کون ہے جس نے زمین کے اندر دریا بہائے اور پہاڑوں کو میخوںٗ کی طرح گاڑ دیا ؟ ۔ 6۔ وہ کون ہے جس نے دو پانیوں میٹھے اور کھاری ‘ ٹھنڈے اور گرم کے درمیان پردہ حائل کردیا ہے کہ وہ دونوں آپس میں مل ہی نہیں رہے ؟ ۔ 7۔ وہ کون ہے جو مضطر کے اضطرار کو دور کرنے والا ہے جب وہ اپنے اضطرار کے دور کرنے کی اپیل پیش کرتا ہے ؟ ۔ 8۔ وہ کون ہے جس نے تم کو پہلووں کی جگہ لا کر آباد کردیا ہے اور اس طرح آرام سے کیا ہے کہ نہ جانے والوں نے انکار کیا اور نہ آنے والوں نے کوئی اصرار کیا ہے ؟ ۔ 9۔ وہ کون ہے جس نے بری اور بحری اندھیروں میں تمہیں راہ دکھانے کا ایسا بندوبست کردیا ہے جس میں کبھی سرمو بھی فرق نہیں آیا ؟ ۔ 10۔ وہ کون ہے جو ہواؤں کے ذریعہ سے تم کو بارش کی خوشخبریاں سناتا ہے اور پھر بارش کو برسانا شروع کردیتا ہے ؟ ۔ 11۔ وہ کون ہے جس نے تم کو پہلی بار پیدا کیا اور پھر تم کو دوبارہ لوٹائے گا ؟ ۔ 12۔ وہ کون ہے جس نے تمہارے رزق کا مکمل طور پر بندوبست کردیا ہے کہ آسمان و زمین دونوں کو اس خدمت پر لگا دیا ہے ؟ ۔ فرمایا کوئی ہے جو ہاتھ کھڑا کردے کہ میں ہوں ، نہیں اور یقینا نہیں تو کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو کسی کی نشاندہی کردے ؟ اگر یہ بھی نہیں تو پھر یہ سارے کام کرنے والا آخر ہے کون ؟ بلاشبہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ذوالجلال والاکرام ہے پھر تم نے جو حاجت روا اور مشکل کشا گھڑ رکھے ہیں ان کے کام کی کوئی تو تشریح کرو کہ وہ کیا کرتے ہیں ؟ اچھا اگر نہیں کرسکتے تو پھر شرک سے باز کیوں نہیں آتے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو مشکل کشا اور حاجت روا کیوں نہیں سمجھتے ؟ کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ صرف تم انسان ہی ایک مخلوق ہو ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں بلکہ تمہارے جیسی لاکھوں سے بھی متجاوز انواع مخلوق کی گئی ہیں کہ اگر تم ان کو شمار کرنے بیٹھ جاؤ تو کبھی شمار نہیں کر ستے پھر تعجب ہے کہ ان لاکھوں مخلوقات میں سے تم ہی ہو جو شرک کے مرتکب ہوتے ہو باقی مخلوقات میں سے تو کسی ایک کا بھی نام نہیں لیا جاسکتا جس نے اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا ہو کیا باقی سب کی ضروریات وہ اکیلا پوری کر رہا ہے اور تم ہی ایسے ہو کہ تمہاری ضروریات وحاجات کے لئے اس کو دوسروں کی ڈیوٹیاں لگانا پڑی ہیں ؟ کچھ تو بولو آخر خاموش کیوں ہو ؟ ان لاکھوں سے متجاوز مخلوقات میں سے کسی ایک کو ان بتوں کے سامنے ‘ ان قبروں کے سامنے ‘ ان درختوں کے سامنے ‘ ان پیروں اور بزرگوں کے سامنے جا کر سلامیاں پیش کرنے کی ‘ منتیں ماننے اور چڑھاوے چڑھانے کی کبھی کوئی ضرورت پیش آئی ہو ۔ ان لاکھوں مخلوقات میں سے کوئی ایک ہی ایسا دکھا دو جس نے غیر اللہ کے نام کے ورد کئے ہوں ‘ وظیفے پڑھے ہوں ‘ کسی کے سامنے سجدہ کیا ہو ؟ کیا تم ہی ایسے ناکارہ ہو کہ تمہارے بڑے بڑے وزیر مشیر ‘ وزیر اعلی اور وزیر اعظم تمہارے بڑے بڑے سیاسی لیڈر اور تمہارے مذہبی پیشواؤں کی اکثریت اس شرک کی نجاست میں پھنسی ہوئی ہے ‘ کوئی قبروں پر پھول چڑھا رہا ہے ‘ کوئی قبروں پر چادریں چڑھانے میں مصروف ہیں ‘ کوئی کسی قبر کو عرق گلاب سے غسل دے رہا ہے ‘ کوئی قبروں پر سجدہ ریز ہے اور کوئی نیازیں چڑھا رہا ہے ؟ کیا تم ہی اشرف المخلوقات ہو ‘ کیا تم ہی شاہکار اللہ رب ذوالجلال والاکرام ہو ؟ کیا تم ہی کو قرآن کریم میں (احسن تقویم) کا خطاب دیا گیا ہے ؟ ہاں ! ہاں ! تم ہی ہو لیکن تم نے انسانیت کو نہیں سمجھا ہاں ! بلاشبہ تم وزیراعظم اور ملک کے صدر تو بن گئے اور وزیر اعلی تو تم کو بنادیا گیا اور وزارتوں میں کوئی ایک وزارت تو تم کو مل گئی ‘ تم اپنی قوم میں سیاسی مقام حاصل کرکے سیاسی لیڈر بن گئے ‘ تم شمس العلماء کا خطاب حاصل کر کے مذہبی پیشواؤں میں شامل تو ہوگئے لیکن ابھی تم نے انسانیت کے صحیح راز کو نہیں پایا اس لئے کہ تم کو تمہارے کرتوتوں کے باعث (احسن تقویم) پیدا کرنے والے نے الٹا پھیر کر سب نیچوں سے نیچا کردیا تم (احسن تقویم) سے نکل کر (اسفل سافلین) میں داخل ہوگئے تم ملک کے صدر بنے ‘ وزیر اعظم بنے ‘ وزیر اعلی بنے ‘ سیاسی لیڈر بنے ‘ مذہبی پیشوا بنے سب صحیح اور درست لیکن (احسن تقویم) میں رہ کر نہیں بلکہ (اسفل سافلین) میں داخل ہو کر کیونکہ تم نے جو عہدہ حاصل کیا اور جس عہدہ پر تم فائز ہوئے اس پر تم محض اس لئے فائز ہوگئے اور اس لئے تم نے اس کو حاصل کیا کہ تم (احسن تقویم) سے نکل کر (اسفل سافلین) میں داخل ہوئے تھے اس داخلہ کے باعث تم کو وہ عہدہ حاصل ہوا اگر تم (احسن تقویم) ہی رہتے اور وہیں رہ کر یہ عہدہ حاصل کرلیتے یا یہ عہدہ آپ کو عطا کیا جاتا تو آپ کے اعمال واقوال احسن التقویم جیسے ہوتے اور تم کو معلوم ہو یا نہ ہو حقیقت یہ ہے کہ جنس انسان کو اوصاف کے لحاظ سے دو اقسام میں رکھا گیا ہے جو عہدہ تم نے حاصل کیا وہ دونوں اقسام کو مل سکتا تھا اس لئے تم کو بھی مل گیا یا یوں کہہ لو کہ اس عہدہ کو دونوں اقسام حاصل کرسکتی ہیں اس لئے تم نے اس کو حاصل کرلیا اور تمہارے اعمال اس بات کی وضاحت پکار پکار کر کر رہے ہیں کہ حقیقت میں تم (اسفل سافلین) میں ہو یہی وجہ ہے کہ تمہارے اعمال دنیا کی لاکھوں مخلوق میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی میل نہیں کھاتے ، دوسری ساری مخلوقات وہ کچھ کر رہی ہیں جس کے لئے وہ پیدا ہوئی ہیں لیکن ایک حضرت انسان ہی ہے جو سب کچھ کرتا ہے لیکن وہ نہیں کرتا جس کے کرنے کے لئے اللہ رب العزت نے اس کو (احسن تقویم) کہا تھا کیونکہ دنای کی ساری مخلوقات سے الگ اختیار کا کوئی حصہ ملا تو صرف اور صرف اس (احسن تقویم) ہی پیدا ہونے والے کو ملا اور اسی اختیار کے باعث وہ (اسفل سافلین) میں داخل ہوگیا اور اب وہ جدھر جاتا ہے دھکے کھاتا جاتا ہے اور حیوان ناطق ہونے کے باوجود ‘ انسانوں جیسا ڈھانچا رکھنے کے باوجود وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوگیا ہے کہ وہ (احسن تقویم) میں ہے یا (اسفل سافلین) میں ؟ اللہ کرے کہ ہمارے ان صدوروزراء ‘ سیاسی لیڈروں اور مذہبی پیشواؤں کی سمجھ میں یہ بات بھی آجائے تو ممکن ہے کہ اس ملک عزیز کی حالت بھی سنبھل جائے لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ اگر ناممکن نہیں تو نہایت مشکل ضرور ہے اور بلاشبہ یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ اصلاح اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب کوئی یہ تسلیم کرلے کہ میرے اندر افساد موجود ہے لیکن جس صورت حال سے ہم دوچار ہیں اس میں ہوتا یہی ہے کہ سارے و ڈیرے فساد کرتے ہیں اور اس کا نام اصلاح رکھتے ہیں اور ہمارے ملک میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے اس لئے فی الوقت اس کے چانسز بہت ہی کم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ کی توفیق عطا فرما دے ۔ آمین۔
Top