Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 16
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قَالَ : اس نے عرض کیا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں ظَلَمْتُ : میں نے ظلم کیا نَفْسِيْ : اپنی جان فَاغْفِرْ لِيْ : پس بخشدے مجھے فَغَفَرَ : تو اس نے بخشدیا لَهٗ : اس کو اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
موسیٰ نے عرض کی اے میرے رب ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے پس تو مجھ کو معاف کر دے ، اللہ نے اس کو بخش دیا ، بلاشبہ وہ بہت ہی بخشنے والا بہت ہی پیار کرنے والا ہے
موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی زیادتی کا اعتراف کیا اور اللہ سے حفاظ طلب کی : 16۔ قتل اگرچہ عمدا انہیں کیا گیا تھا تاہم قتل ہی تھا پھر مخالفین کو کیسے باور کرایا جاسکتا ہے کہ یہ اتفاقی ہے کیونکہ ان کو تو کوئی بہانہ چاہئے تھا اور وہ ان کو مل گیا اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے گویا ظالموں کو اپنے اوپر ظلم کرنے کا ایک موقع فراہم کردیا اگرچہ وہ اتفاق تھا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے رب ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے میری حفاظت فرما سو اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت فرمائی اور بلاشبہ وہ حفاظت کرنے والا ‘ پیار کرنے والا ہے ۔ ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس اتفاقیہ معاملہ کو نہ چھپایا اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی غلط بیانی کی بلکہ اپنے خاندان اور گھر والوں کو سارا ماجرا سنایا اور حکومت کی مداخلت کرنے سے پہلے ہی یہ قضیہ فیصل ہوگیا ۔ اس قضیہ کا فیصلہ کیسے ہوا قرآن کریم نے اس کی وضاحت نہیں کی تاہم جن کا قتل ہوا تھا انہوں نے جیسے کیسے بھی ہوا اس معاملہ کو ختم کردیا خواہ دیت لے کر ختم کیا یا معاف کر کے اور بلاشبہ یہ تب ہی ہوا جیسا کہ واضح ہوگیا کہ یہ قتل عمد نہیں تھا اور نہ ہی موسیٰ (علیہ السلام) کا کوئی ایسا ارادہ تھا اور یہ بھی کہ آپ بنی اسرائیل کے جس گھرانہ کے فرد تھے وہ گھرانہ بھی ایک مذہبی گھرانہ تھا اور فرعون کے دربار میں بھی آپ کو ابھی عزت سے دیکھا جاتا تھا اور اگر سارے نہیں تو بہت سے لوگ آپ کے ساتھ مانوس تھے اور آپ کو شہزادہ ہی سمجھتے تھے اس طرح کے سارے عوامل مل گئے اور قتل کا یہ سلسلہ تقریبا دب گیا بلکہ اس کا فیصلہ ہو کر ختم ہوگیا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جو یہ فرمایا ہے کہ ” میں ہرگز مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا “ تو بلاشبہ کوئی نبی بھی کبھی مجرموں کا مددگار نہیں ہوا چناچہ نبی اعظم وآخر ﷺ کا ارشاد گرامی بھی اس طرح ہے کہ : من مشی مع مظلوم لیعینہ علی مظلتہ ثبت اللہ قدمیہ علی الصراط یوم القیمہ یوتزل فیہ الاقدام ومن مشی مع الظالم لیعینہ علی ظلمہ ازل اللہ قدمیہ علی الصراط یوم فدحض فیہ الاقدام : ۔ ” جو شخص کسی مظلوم کی مدد کے لئے اس کے ساتھ چلے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جو قدموں کے پھسلنے کا دن ہے اس کے قدموں کو پل صراط پر ثابت قدم رکھے گا اور جو شخص ظالم کے ساتھ اس کے ظلم پر اس کی مدد کرنے کے لئے جاتا ہے تو اس دن اس کے قدم پل صراط سے پھسل جائیں گے ۔ “ بلاشبہ سارے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تعلیم یکساں تھی اور کوئی نبی بھی کبھی ظلم کا ساتھ دینے کے لئے نہیں آیا کاش کہ آج یہ بات ورثۃ الانبیاء کہلانے والوں کو یاد رہتی لیکن بالکل یاد نہیں رہی اسی لئے وہ دنیا کے ظالم ترین انسانوں کے ساتھی بن کر رہ گئے ” والی اللہ المشتکی فنعم المولی ونعم النصیر “۔
Top