Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 15
وَ دَخَلَ الْمَدِیْنَةَ عَلٰى حِیْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا فَوَجَدَ فِیْهَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلٰنِ١٘ۗ هٰذَا مِنْ شِیْعَتِهٖ وَ هٰذَا مِنْ عَدُوِّهٖ١ۚ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِهٖ عَلَى الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّهٖ١ۙ فَوَكَزَهٗ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَیْهِ١٘ۗ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ
وَدَخَلَ : اور وہ داخل ہوا الْمَدِيْنَةَ : شہر عَلٰي حِيْنِ : وقت پر غَفْلَةٍ : غفلت مِّنْ اَهْلِهَا : اس کے باشندے فَوَجَدَ : تو اس نے پایا فِيْهَا : اس میں رَجُلَيْنِ : دو آدمی يَقْتَتِلٰنِ : وہ باہم لڑتے ہوئے هٰذَا : یہ (ایک) مِنْ : سے شِيْعَتِهٖ : اس کی برادری وَهٰذَا : اور وہ (دوسرا) مِنْ : سے عَدُوِّه : اس کے دشمن کا فَاسْتَغَاثَهُ : تو اس نے اس (موسی) سے مدد مانگی الَّذِيْ : وہ جو مِنْ شِيْعَتِهٖ : اس کی برادری سے عَلَي : اس پر الَّذِيْ : وہ جو مِنْ عَدُوِّهٖ : اس کے دشمن سے فَوَكَزَهٗ : تو ایک مکا مارا اس کو مُوْسٰى : موسیٰ فَقَضٰى : پھر کام تمام کردیا عَلَيْهِ : اس کا قَالَ : اس نے کہا هٰذَا : یہ مِنْ : سے عَمَلِ الشَّيْطٰنِ : شیطان کا کام (حرکت) اِنَّهٗ : بیشک وہ عَدُوٌّ : دشمن مُّضِلٌّ : بہکانے والا مُّبِيْنٌ : صریح (کھلا)
اور (موسیٰ جوان ہوگیا تو) وہ شہر میں آیا جب کہ اس کے باشندے بیخبر تھے تو اس نے وہاں (ایک جگہ) دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے پایا ایک کا اس کی قوم (بنی اسرائیل) سے تعلق تھا اور ایک اس کے دشمنوں (فرعونیوں) سے تھا ، پس اس نے جس کا تعلق موسیٰ کی قوم سے تھا اس کے خلاف جو اس کے دشمنوں (فرعونیوں) سے تھا فریاد کی تو موسیٰ نے اس کو ایک گھونسا رسید کیا جس سے اس کا کام تمام ہوگیا ، موسیٰ نے کہا کہ یہ تو شیطانی کام ہے بلاشبہ شیطان بہکانے والا پکا دشمن ہے
اس دوران ایک عجیب طریقہ کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) سے ایک قتل سرزد ہوگیا : 15۔ اب وہ وقت آگیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اکثر لوگوں کے آرام کے اوقات میں شرہ کا گشت کرتے اور حالات معلوم کرتے کہ بنی اسرائیل کیا کر رہے ہیں اور آپ کی مخالف جماعت یعنی قبطی لوگ کس حال میں ہیں ۔ اس طرح ایک روز جب آپ شہر کی طرف نکلے تو ایک جگہ پر دو آدمیوں کو الجھتے دیکھا کہ دونوں آپس میں دست و گریبان ہیں ایک اسرائیلی ہے اور دوسرا قبطی ۔ اسرائیلی نے جب آپ کو دیکھا تو مدد کے لئے آواز دی آپ آگے بڑھے کہ قبطی کو دست درازی سے منع کریں جب اس نے بات نہ مانی اور زیادتی سے باز نہ آیا تو آپ نے اس کو ایک مکا رسید کردیا یا پیچھے کرنے کے لئے دھکا دے دیا اور یہ بات محض آپ نے دونوں کا الجھاؤ ختم کرنے کے لئے کی اسے مارنے اور قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن وہ مکا یا دھکا جو کچھ بھی تھا جان لیو ثابت ہوا اور اتنے ہی میں اس کا قصہ تمام ہوگیا اچانک یہ حادثہ رونما ہوگیا تو یقینا آپ کو روحانی اذیت بھی ہوئی کہ ناحق ایک جان تلف ہوگئی بلاشبہ وہ قبطی بھی کوئی سرکش قسم کا آدمی تھا جو شراب پینے اور بدکاری کرنے کے باعث اندر سے کھوکھلا ہوچکا تھا لیکن وہ جو کچھ بھی تھا آپ نے اس کو جان سے مار دینے کا کوئی ارادہ نہیں کیا تھا بس یہ اتفاق ہوگیا اور اتنے میں لوگ ادھر ادھر جمع ہوگئے تو اس وقت تک آپ ادھر ادھر ہو کر روپوش ہوگئے لیکن دل کے اندر تو ضرور کھٹکا تھا کہ فرعون پہلے ہی اب مجھ سے بیزار رہنے لگا ہے اور اب اگر یہ راز کھل گیا کہ اس قبطی کا قتل بھی مجھ سے ہوا ہے تو حالات یقینا بگڑ جائیں گے چناچہ جذبات و افکار کی اس کشمکش میں آپ کی زبان سے جو فقرہ نکلا وہ یہ تھا کہ (ھذا من عمل الشیطن) یہ کام شیطان کی ایگخت سے ہوا ہے کہ بلاشبہ وہ انسان کا کھلا دشمن ہے اور اس جملہ کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا اس سے کسی انسان کا اس طرح مارا جانا ثابت کرتا ہے کہ شیطانی کاموں کے باعث اس کا کام ایسے اخیر کو پہنچا ہوا تھا اس کو میرا دھکا دینے یا مکا مارنے کی دیر ہوئی ہے کہ وہ گویا پہلے ہی مرا پڑا تھا۔ قرآن کریم کا بیان بسلسلہ قتل موسیٰ آپ نے پڑھا کہ اس نے کس صفائی کے ساتھ بیان دیا کہ یہ قتل آپ سے بلا ارادہ سرزد ہوا جس کو قتل خطا کا نام دیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود آپ نے اس پر اظہار دکھ وغم کیا بلکہ نہایت وضاحت سے بیان کیا کہ یہ شیطان کے عمل سے ہے کہ وہ انسان کا ابدی دشمن ہے لیکن آپ کے امتیوں نے جس طرح بائبل میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے اس کو بھی ذرا دیکھتے چلو تاکہ بات واضح ہوجائے ” اتنے میں موسیٰ جب بڑا ہوا تو باہر اپنے بھائیوں کے پاس گیا اور انکی مشقتوں پر اس کی نظر پڑی اور اس نے دیکھا کہ ایک مصری اس کے ایک عبرانی بھائی کو مار رہا ہے پھر اس نے ادھر ادھر نگاہ کی اور جب دیکھا کہ وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے تو اس مصری کو جان سے مار کر اسے ریت میں چھپا دیا ۔ “ (خروج 2 : 11 ‘ 12) قرآن کریم کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے مونہہ پر لگے ہوئے سارے داغوں کو دھو کر صاف کردیا خواہ وہ داغ ان کے دشمنوں نے دانستہ لگائے تھے خواہ ان کے نادان دوستوں نے کرم فرمائی کی تھی کہ پیار ہی پیار میں ان کا کردار بدنما داغوں سے داغدار کردیا تھا ۔ ان دونوں کی لڑائی کی اصل وجہ کیا تھی ؟ قرآن کریم نے اس کا ذکر نہیں کیا اور یہ بات قبل ازیں کئی بار عرض کی جا چکی ہے کہ قرآن کریم بےجابحثوں کو نہیں اٹھاتا ‘ صرف اتنی بات بیان کرتا ہے جس کا ہماری زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نکلتا ہے تاکہ ہم ایسی باتوں سے پرہیز کریں اور ان کے قریب نہ جائیں بعض لوگوں نے اس کی وجہ اس طرح بیان کی ہے کہ وہ قبطی اسرائیلی کو لکڑیوں کا ایک بھاری گٹھا اٹھانے کا حکم دے رہا تھا اور اس نے اس کو اٹھانے سے انکار کردیا چناچہ اس قبطی نے حاکم وقت قوم کا فرد ہوتے ہوئے اسے زدوکوب کرنا شروع کردیا کہ اتنے میں موسیٰ (علیہ السلام) ادھر سے گزرے اور اسرائیلی نے آپ سے مدد طلب کی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کی مدد کے لئے آگے بڑھے اور بلاشبہ آپ کا آگے بڑھنا محض قومی ہمدردی ہی نہ تھا بلکہ ایک مظلوم کی مدد کرنا تھا اگرچہ اس مظلوم کا تعلق آپ کی قوم سے تھا اور بلاشبہ مظلوم کی مدد کرنا ہر دین میں لازم وضروری قرار دیا گیا ہے زیرنظر آیت میں (وکز) کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی پورے ہاتھ کی ضرب لگانے کے ہیں وہ مکا مارنے کی صورت ہو یا دھکا دینے کی اور کہا گیا ہے کہ لوکز ‘ للکزو ‘ للھزو ‘ للھدو چاروں کے معنی ایک ہی ہیں ۔
Top