Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 86
وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّلْقٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِیْرًا لِّلْكٰفِرِیْنَ٘
وَمَا كُنْتَ : اور تم نہ تھے تَرْجُوْٓا : امید رکھتے اَنْ يُّلْقٰٓى : کہ اتاری جائے گی اِلَيْكَ : تمہاری طرف الْكِتٰبُ : کتاب اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب فَلَا تَكُوْنَنَّ : سو تو ہرگز نہ ہوتا ظَهِيْرًا : مددگار لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے
اور (اے پیغمبر اسلام ! ) تم کو تو امید نہ تھی کہ مجھ پر کتاب نازل ہوگی (یہ تو) تمہارے پروردگار کی رحمت ہے (کہ اس نے آپ ﷺ پر کتاب نازل کردی) لہٰذا تم ہرگز ان کافروں کے مددگار نہ بنو
جس بات کی امید نہ ہو وہ عطا کردی جائے تو یہ رحمت الہی نہیں تو اور کیا ہے ؟ : 86۔ یہ گزشتہ مضمون کی مزید وضاحت بیان کی جا رہی ہے کہ بلاشبہ ہر انسان میں اس کی جبلی چیزوں کو ودیعت کردیا جاتا ہے لیکن کیا ان کا اظہار روز اول ہی سے شروع ہوجاتا ہے ؟ ہرگز نہیں ہر بیج میں اس کا پورا درخت پنہاں ہوتا ہے لیکن وہ بیج ایسا لطیف و باریک بھی ہوتا ہے کہ ہر آنکھ اس کو دیکھ بھی نہیں سکتی ہو پھر جب وہ بیج ہی نظر نہیں آتا تو وہ پورا درخت وپودا کیا نظر آئے گا لیکن کیا حقیقت میں اس کے اندر وہ موجود بھی نہیں ہوتا اگر ہوتا ہے اور یقینا ہوتا ہے تو اس کا اظہار کب ہوتا ہے جب اس کو وہ ماحول ملتا ہے اور اس ماحول میں وہ اکتا اور بڑھتا ہے اور پھر جوں جوں وہ بڑھتا ہے سب اس کو دیکھتے ہیں لیکن جب وہ پنہاں ہوتا ہے تو کسی کو بھی نظر نہیں آتا یہی فطری بیان اس جگہ کیا جا رہا ہے کہ جس نعمت نبوت و رسالت سے اب چالیس سال کی زندگی کے بعد آپ ﷺ کو نوازا جا رہا ہے اس کے متعلق آپ ﷺ جانتے ہی نہیں تھے کہ آپ ﷺ کو نبوت و رسالت سے سرفراز کیا جائے گا اور چونکہ نبوت و رسالت کوئی کسبی چیز نہیں ہے اس لئے کبھی آپ ﷺ نے اس کو طلب بھی نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ اس منصب کو حاصل کرنے لئے کبھی آپ ﷺ نے کوئی کوشش اور خواہش نہیں کی تھی اور نہ ہی یہ داعیہ کبھی آپ ﷺ میں پیدا ہوا لیکن چونکہ اللہ رب کریم نے اس کو آپ ﷺ کی جبلت میں رکھ دیا تھا اس لئے جب اس کا وقت آیا اور اس کو وہ ماحول میسر ہوا تو اس کا اظہار ہوگیا اب اس کو آپ کیا کہیں گے یہی کہ یہ خاص رحمت خداوندی ہے کہ اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اپنی طرف آپ ﷺ کو کھینچ لیا اور تم بھی ایسے تھے کہ اس کی طرف کھچے ہی چلے گئے اس طرح آپ ﷺ کو جو کچھ علاوہ ازیں ملا وہ بلاشبہ بن مانگے اور بن حاصل کئے مل گیا اور اس لئے کہ یہ عہدہ کسبی اور اختراعی نہیں ہے اب اس کا حق آپ پر کیا ہے ؟ یہی کہ آپ ﷺ کی ساری قوتیں اور محنتیں اس کی علمبرداری پر صرف ہوں ظاہر ہے کہ یہ ایک اتنا بڑا منصب ہے جو آپ ﷺ کو عطا کیا گیا ہے کہ جب مخالفین ومعاندین کو پتہ چلے گا تو دو ایک دفعہ آپ ﷺ کو ہلا دینے کیلئے اپنا پورا زور صرف کریں گے کہ یا تو اس پیغام سے آپ ﷺ کو باز رکھیں یا یہ کریں کہ آپ ﷺ کو مجبور کرکے مداہنت سے کام لینے کا کہیں تاکہ قدرے بات نرم ہوجائے کیونکہ ایسا ہوتا آیا ہے اس لئے آپ ﷺ کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ وہ لوگ اپنے رسولوں میں ایسی کوئی امید لگائے بیٹھے ہوں ان کی ساری امیدوں پر اس طرح پانی پھیر دیتا ہے کہ وہ پھر کبھی اس طرح کی حرکت تو حرکت اپنے دل و دماغ میں بھی اس کا خیال نہ لاسکیں اور انجام کار تنبیہہ کہا جا رہا ہے کہ خبردار آپ کبھی ایسے منکروں کے مددگار نہ بنیں اور دل میں اس کا پختہ یقین رکھیں کہ جو عہدہ اللہ تعالیٰ بغیر طلب کے کسی کو عطا کردیتا ہے تو اس سے وہ اس کی مدد بھی ضرور کرتا ہے اور پھر جب یہ سنت اللہ ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اللہ وقت آنے پر آپ ﷺ کی مدد نہیں کرے گا ، بلاشبہ وہ آپ ﷺ کی ضرور مدد کرے گا لیکن یہ مدد بلاشبہ مشروط ہے اور یہ شرط محض تنبیہہ کے طور پر ہے وہ شرط کیا ہے ؟ یہی کہ قرآن کریم کے معاملہ میں مداہنت سے کام لینے والا ہمیشہ مجرموں کا ساتھ ہوتا ہے ، آپ ﷺ کو مخاطب کر کے یہ بات کیوں کی گئی ہے ؟ اس لئے کہ قرآن کریم آپ ﷺ کے دل اقدس پر نازل کیا گیا تھا لیکن دراصل یہ بات تو دنیا کے سارے لوگوں کو سنائی جا رہی ہے جو اس پر ایمان لانے کے دعویدار ہیں لیکن آج ہم کیا کر رہے ہیں ؟ ہمارے سارے کے مذہبی پیشوا قرآن کریم ہی کے بارے میں مداہنت سے کام لے رہے ہیں یا نہیں ۔ اس جگہ واضح طور پر سمجھ لو کہ مداہنت کیا ہے ؟ مداہنت خوشامد ‘ چرب زبانی ‘ جھوٹ ‘ جو دل میں ہو اس کے خلاف ظاہر کرنا اور سستی کو کہا جاتا ہے اور اس کی مزید تفصیل انشاء اللہ العزیز سورة القمر میں ہوگی وہاں سے ملا حظہ کرلینا :
Top