Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 168
اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِهِمْ وَ قَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا١ؕ قُلْ فَادْرَءُوْا عَنْ اَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قَالُوْا : انہوں نے کہا لِاِخْوَانِھِمْ : اپنے بھائیوں کے بارے میں وَقَعَدُوْا : اور وہ بیٹھے رہے لَوْ : اگر اَطَاعُوْنَا : ہماری مانتے مَا قُتِلُوْا : وہ نہ مارے جاتے قُلْ : کہدیجئے فَادْرَءُوْا : تم ہٹادو عَنْ : سے اَنْفُسِكُمُ : اپنی جانیں الْمَوْتَ : موت اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ خود تو اپنے گھروں میں بیٹھ رہے لیکن اب اپنے بھائیوں کے حق میں کہتے ہیں کہ اگر ہماری بات پر چلے جاتے تو کبھی نہ مارے جاتے ، تم کہہ دو اچھا ! اگر تم واقعی سچے ہو تو جب موت تمہارے سرہانے آ کھڑی ہو تو اسے نکال باہر کرنا اور بالکل نہ مرنا
اب تم ان سخن سازو کے دل کا حال سن لو کہ وہ کیا ہے : 309: اللہ تعالیٰ نے اب ان کے دلوں کا حال کھول دیا ان کا عمل اس کی تصدیق کرتا ہوا لوگوں نے اپنی آنگھوں سے دیکھ لیا اور بعد میں آنے والوں نے اپنے کانوں سے سن لیا۔ فرمایا کہ یہ خود تو سخن سازی کر کے گھروں میں بیٹھے رہے لیکن ان کے جو بھائی بند جہاد میں شریک ہو کر شہید ہوگئے ان کی بابت انہوں نے کہا کہ اگر ہو ہماری بات مانتے تو یوں قتل نہ ہوتے۔ مثل ہے کہ ” دروغ گورا حافظ بنا شد “ اور اس کو یوں بھی کہتے ہیں کہ ” جھوٹ کے پاؤں کہاں “ مظلب یہ ہے کہ اصل چیز جو ان کے لئے مانع ہوئی وہ تو ہے ” موت کا خوف “ لیکن انہوں نے بات یہ بنائی کہ ” وہ اس لئے نہیں اٹھ رہے ہیں کہ جنگ ونگ کچھ نہیں وہ گی۔ “ اسی کو کہتے ہیں کہ ” آپ اپنے جال میں صیاد پھنس گیا “ دیکھو جس چیز کو وہ اپنے دلوں کے اندر بند کئے ہوئے تھے۔ کس صفائی سے ظاہر ہوگئی۔ اچھا اگر موت کے ڈرنے تم کو جہاد سے باز رکھا ہے تو اب بالکل نہ مرنا : 310: زندگی اور موت کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے۔ کون ہے جو اس دنیا میں اپنی مرضی سے آیا اور کون ہے جو یہاں سے اپنی مرضی سے جاتا ہے ؟ حقیقت تو یہی ہے کہ نہ کوئی مرضی سے آیا اور نہ ہی مرضی سے جاتا ہے۔ بلکہ وہی ذات ” خالق کل شی “ جو لانے والا ہے اپنے قانون کے مطابق لاتا ہے اور اپنے قانون کے مطابق مقررہ وقت پر لے جاتا ہے۔ آنے والے کی خواہش ؟ کہ میں کبھی نہ جاؤں۔ کسی کی یہ خواہش پوری بھی ہوئی ؟ کبھی نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی اس کا امکان ہے۔ جب تک یہ نظام قائم ہے اس طرح چلاتا رہے گا۔ کب تک ؟ جب تک اس کے چلانے والے نے اس کا چلاتا رہنا مقرر کردیا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ ” اے پیغمبر اسلام ! تم ان سے کہہ دو کہ اچھا اگر تم موت و زندگی کے مواقع سے ایسے ہی باخبر ہو جیسے تم کہہ رہے ہو کہ ہماری بات پر چلتے تو کبھی نہ مارے جاتے۔ “ تو اب تم اپنے آپ کو مت سے بچائے رکھنا اور کبھی نہ مران۔ قرآن کریم نے اس طرھ چھوٹے چھوٹے جملوں میں ہر بات کو سمجھانے کی کوشش کی تاکہ بات ہر ایک کی سمجھ میں آتی جائے لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے ایک عرصہ سے قرآن کریم ہی کے ساتھ مداہنت برت رکھی ہے۔ حالانکہ یہ کافروں ، منافقوں ، اور فاسقوں کا شیوہ تھا سچے مسلمانوں کا نہیں۔ مداہنت کیا ہے ؟ جواب قرآن کریم سے سن لو ارشاد فرمایا : تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ اَفَبِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُدْہِنُوْنَہ وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ (الواقعہ 56:80 ، 82) ” یہ قرآن رب العلمین کا نازل کردہ ہے۔ پھر کیا اس کلام کے ساتھ بےاعتنائی برتتے ہو اور اس نعمت میں تم نے اپنے حصہ یہ رکھا ہوا ہے کہ اسے جھٹلاتے ہو۔ “ مُدھنون۔ ادھان کے معنی ہیں کسی چیز سے بےاعتنائی برتنا ، اس کو کچھ اہمیت نہ دینا ، اس کو سنجیدہ تو جہ کے قابل ہی نہ سمجھنا۔ مخالفین نے قرآن کریم کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا ؟ اور اس نعمت عظمیٰ کو کیوں جھٹلایا ؟ امام رازی (رح) کہتے ہیں کہ یہاں ” رزق “ معاشی کے معنی میں ہے۔ چونکہ کفار قریش جو مخاطبین اول تھے۔ قرآن کریم کی دعوت کو اپنے معاشی مفاد کے لئے نقصان دہ سمجھتے تھے۔ اور ان کا یہ خیال تھا کہ یہ دعوت اگر کامیاب ہوگئی تو ہمارا رزق مارا جائے گا اس لئے اس آیت کا ییا مطلب ہے کہ تم نے اس قرآن کی تکذیب کو اپنے پیٹ کا دھندا بنا رکھا ہے۔ تمہارے نزدیک حق اور باطل کا سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اصل اہمیت تمہاری نگاہ میں روٹی کی ہے اور اس کی خاطر حق کی مخالفت کرنے اور باطل کا سہارا لینے میں تمہیں کوئی تامل نہیں ہے۔ یہ تو کفار قریش کا حال تھا۔ اس لئے کہ وہ قرآن کریم کے معنی بہر حال سمجھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے روٹی کی خاطر قرآن کو نہ مانا اور ہمارے عوام اور ملاؤں کی اکثریت چونکہ قرآن کریم کے معنی نہیں سمجھتی اس لئے انہوں نے روٹی کمانے کی خاطر قرآن کو مانا اور اس کو روٹی کا ایک ذریعہ بنایا۔ اس طرح قرآن کریم اتارنے کے اصل مقصد سے بےاعتنائی برتئی گئی اور یہی مداہنت ہے۔
Top