Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 169
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : ہرگز خیال کرو الَّذِيْنَ : جو لوگ قُتِلُوْا : مارے گئے فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتًا : مردہ (جمع) بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ : زندہ (جمع) عِنْدَ : پاس رَبِّھِمْ : اپنا رب يُرْزَقُوْنَ : وہ رزق دئیے جاتے ہیں
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں ان کی نسبت ایسا خیال نہ کرنا کہ وہ مر گئے ، نہیں وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں رزق پا رہے ہیں
شہید کبھی مرتا نہیں بلکہ صحیح معنوں میں زندہ ہوجاتا ہے : 311: یہ گویا منافقین کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ سمجھ رہے ہو نہیں۔ نہیں وہ مردہ نہیں بلکہ مردہ تو دراصل تم ہو وہ تو زندہ ہیں اور اپنے رب کے جوار رحمت میں اس کی نعمتوں سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ تم اپنی جہالت اور بےبصیرتی سے ترس کا رہے ہو کہ وہ مار دیئے گئے اور خیال کر رہے ہو بلکہ پکار پکار کر کہہ رہے ہو کہ اگر وہ تمہاری رائے پر چلتے اور تمہاری ہی طرح گھروں میں بیٹھے رہتے تو پھر وہ مارے نہ جاتے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ اس فضل و نعمت پر فرحاں و شاداں ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نواز رکھا ہے۔ شہداء کی زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟ جواب ملتا ہے : ” وَلٰکِنْ لَاّ تَشْعُرُوْنَ “ کہ تم ان کی زندگی کو سمجھنے کا شعور نہیں رکھتے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس سے دنیا کی زندگی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ہے آخرت کی کامیاب و کامران زندگی۔ جس کے بعد موت نہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آخرت کی کوئی چیز دنیاوی زندگی میں مشاہدہ نہیں کی جاسکتی۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے نزدیک تو زندگی اس دنے کی زندگی کا نام ہے جو آدمی مرا یا مار دیا گیا بس وہ ختم ہوگیا۔ لیکن ایک مؤمن اور ایمان بالاخرۃ رکھنے والے کے نزدیک یہ دنیاوی زندگی چند روزہ اور فانی زندگی ہے۔ اصل زندگی کا آغاز جو ابدی زندگی ہے اس کے نزدیک اس وقت سے ہوتا ہے جب یہ زندگی ختم ہوتی ہے۔ پھر جہاں تک موت کے بعد کی زندگی کا تعلق ہے یہ حاصل تو مؤمن و کافر سب ہی کو ہوتی ہے لیکن کفار کی زندگی چونکہ کلفت اور عذاب کی ہوتی ہے اس لئے وہ قابل ذکر نہیں لیکن اہل ایمان برزخ کی زندگی میں بھی اپنے اپنے مراتب و مدارج کے لحاظ سرور و شاد کام ہوتے ہیں مالخصوص ان میں سے جو لوگ راہ حق میں شہادت کا مرتبہ حاصل کرتے ہیں ان کی برزخی زندگی کی کامرانیوں کا تو اس ناسوتی زندگی بخشتے ہیں اس کے انعامات ان کو عالم برزخ ہی سے ملنے شروع ہوجاتے ہیں۔ چناچہ احادیث میں آتا ہے کہ : ” حضرت مسروق ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت عبداللہ ؓ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا ” ان کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں۔ عرش کی قندیلین ان کے لئے ہیں۔ ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں جائیں ، کھائیں اور پیئیں اور ان قندیلوں میں آرام کریں۔ ان کی طرف ان کے رب نے ایک مرتبہ نظر کی اور دریافت فرمایا کچھ چاہتے ہو ؟ کہنے لگے اے رب العزت اور کیا مانگیں ساری جنت میں سے جہاں کہیں چاہیں گھائیں پیئیں اختیار ہے پھر کیا طلب کریں ؟ اللہ تعالیٰ نے ان سے پھر یہی سوال کیا جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر کچھ مانگے چارہ نہیں تو کہنے لگے اے رب ! ہم چاہتے ہیں کہ تو ہماری روحوں کو جسموں کی طرف لوٹا دے پھر ہم دنیا میں جا کر تیری راہ میں جہاد کریں اور مارے جائیں۔ اب یہ بات واضح ہوگئی کہ انہیں کسی اور چیز کی طلب نہیں جو آخرت کی زندگی سے تعلق رکھتی ہو یعنی اخروی انعامات میں سے جو کچھ چاہتے ہیں ان کو ملتا ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو لوگ مر جائیں اور اللہ کے ہاں بہتری پائیں وہ ہرگز دنیا میں آنا پسند نہیں کرتے مگر شہید کہ وہ تمنا ہی یہ کرتا ہے کہ دنیا میں دوبارہ لوٹا دیا جائے اور دوبارہ فی سبیل اللہ شہید ہو کیونکہ شہادت کے درجات کو وہ دیکھ چکا ہوتا ہے۔ “ (صحیح مسلم ، مسند احمد) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے فرمایا ” اے جابر ! تمہیں معلوم ہے کہ اللہ نے تمہارے والد کو جب عالم برزخ میں زندہ کیا اور اس سے کہاں اے میرے بندے مانگ تو کیا مانگتا ہے ؟ تو اس نے کہا اے اللہ ! مجھے دنیا میں ایک بار پھر بھیج تاکہ میں دوبارہ تیری راہ میں مارا جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تو میں فیصلہ کرچکا ہوں کہ کوئی یہاں سے دوبارہ لوٹا یا نہیں جائے گا۔ اس طرح یہ بات وضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فیصلہ کو نہیں بدلتا اگر اس میں کوئی گنجائش ہوتی تو خود ہی سوال کر کے کہ مانگو جو کچھ مانگتے ہو پھر جب بندہ مانگے تو اس کو یہ جواب چہ من دارو ؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ قادر مطلق ہے اس نے جو فیصلے اپنی ذات سے ، اپنی قدرت سے پورے علم کے ساتھ کئے ہیم وہ جانتا ہے کہ بندہ کیا طلب کرے گا لیکن پھر پوچھتا ہے کیوں ؟ اس لئے تاکہ لوگوں پر یہ بات واضح ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے بدلا نہیں کرتے نہ وہ خود بدلتا ہے نہ ہی وہ کسی کو بدلے ند یتا ہے اور یہی دراصل اس کے قدر مطلق ہونے کی دلیل ہے۔ فیصلوں کو ہمیشہ کمزور بدلتے ہیں یا ان سے بدلوا لئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کی کمزوری سے پاک ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ یہ جو داستانیں بنائی گئی ہیں کہ گلاں نے نظر کی تو اس کو زندہ کردیا فلاں نے بارہ سال کے بعد ڈوبی بیڑی کو تار دیا اور اس کے سواروں کے سواروں کو دوبارہ زندہ کردیا اور ولی اللہ جب وفات پاتے ہیں تو ان کو کئی کئی جسم عطا کردیئے جاتے ہیں اور وہ دنیا میں جہاں چاہیں پھرتے رہتے ہیں اور اپنے مریدین کی مرادیں بر لاتے ہیں اور ان کی حاجات کو پورا کرتے رہتے ہیں سب کی سب من گھڑت اور بناوٹی ہیں اور یہ جو کچھ خوابات میں دیکھا جاتا ہے سب خیالی اجسام ہوتے ہیں ان کو حقیقت پر محمول نہیں کیا جاسکتا اور ترغیب و ترہیب کے لئے جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ سب شبہی اور مثالی باتیں ہیں۔ حقیقت کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ولی اللہ ، شہدا اور صالحین اگر اصل حقیقت میں فی الواقع آسکتے ہوتے تو رسول اللہ ﷺ ان شہداء سے ایسا کیوں فرماتے۔ غور کرو کہ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ بڑھ کر بھی کوئی سچا ہو سکتا ہے ؟ حاشا للہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایسا تصور کرنے والا دائرہ اسلام اور حدود اللہ کو پھلانک جاتا ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں کی اکثریت نے دین اسلام کو کیا سمجھا ؟ ان دو رکعت کے اماموں اور پیسواؤں نے دین کو کیا بنادیا ؟ قرآن کریم نے بہت سی جگہ خود اس کی نفی فرمائی ہے کہ اس دار فانی سے رخصت ہوجانے والے کتنی اپیلیں بھی کرتے رہیں ان کی ایک نہیں سنی جائے گی اور نہ ہی دوبارہ کسی کو اس دنیا میں بھیجا جائے گا۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ0099 لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ کَلَّا 1ؕ اِنَّهَا کَلِمَةٌ ہُوَ قَآىِٕلُهَا 1ؕ وَ مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ 00100 (المؤمنون 23 : 99۔ 100) ( جب ان میں سے کسی کے سرہانے موت آکھڑی ہوگی تو اس وقت کہنے لگے گا اے اللہ ! مجھے پھر دنیوی زندگی میں لوٹا دے کہ زندگی کے جو مواقع میں نے کھو دیئے ہیں شاید ان میں نیک کام کرلوں۔ ارشاد ہوگا ہرگز نہیں۔ یہ محض ایک کہنے کی بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اب ایسا ہونے والا نہیں ان لوگوں کے مرے پیچھے ایک آڑ ہے جو اس دن تک رہے گی کہ وہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے : ” کاش تم اس وقت کی حالت کو دیکھتے جو یہ آتش دوزخ کے کنارے کھڑے ہوں گے۔ یہ اس وقت کہیں گے۔ اے کاش ! ایسا ہو کہ ہم پھر دنیا میں ایک بار لوٹا دیئے جائیں اور اپنے پروردگار کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور ان میں سے ہوجائیں جو ایمان والے ہیں۔ “ (الانعام 6 : 27۔ 28) ایک جگہ ارشاد ہوا : ” اس دن ظلم کرنے والے کہیں گے اے پروردگار ! تھوڑی سی مدت کے لیے ہمیں مہلت دے دے ہم تیری پکار کا جواب دیں گے اور پیغمبروں کی پیروی کریں گے۔ لیکن ان کو جواب دیا جائے گا کہ کیا تم وہی نہیں ہو کہ اب سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ ہمیں کسی طرح کا زوال نہ ہوگا ؟ تم انہیں لوگوں کی بستیوں میں بسے تھے نہوں نے اپنی جانوں کے ساتھ ناانصافی کی تھی اور تم پر اچھی طرح واضح ہوگیا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا ؟ نیز تمہیں سمجھانے کے لیے طرح طرح کی مثالیں بھی ہم نے بیان کردیں پھر تم سرکشی سے باز نہ آئے۔ ان لوگوں نے اپنی ساری تدبیریں کر ڈالی تھیں اگر وہ ان کی تدبیریں ایسی تھیں کہ پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلادیں مگر اللہ کے پاس ان کی ساری تدبیروں کا جواب تھا۔ پس ایسا خیال مت کرو کہ اللہ اپنے رسولوں سے جو وعدہ کرچکا ہے کبھی اس کے خلاف کرے گا۔ ایسا ہونا ممکن نہیں وہ غالب ہے اور اعمال بد کی سزا دینے والا ہے۔ “ (الاعراف 7 : 53) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! دراصل ہماری بدبختی ہم پر چھا گئی تھی۔ ہمارا گروہ گمراہوں کا گروہ تھا۔ اب ہمیں اس حالت سے نکال دے۔ اگر ہم پھر ایسی گمراہی میں پڑیں تو بلاشبہ نافرمان ہوئے۔ اللہ فرمائے گا جہنم میں جاؤ اور زبان مت کھولو۔ ہمارے بندوں میں سے ایک گروہ ایسا بھی تھا جو کہتا تھا اے اللہ ! ہم ایمان لے آئے پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما تجھ سے بہتر رحم کرنے والا کوئی نہیں۔ لیکن تم نے انہیں اپنے تمسخر کا مشغلہ بنا لیا تھا یہاں تک کہ اس مشغلہ نے ہماری یاد بھی بھلا دی تھی۔ تم ان لوگوں کی باتوں پر ہنسا کرتے تھے آج دیکھو ہم نے انہیں ان کے صبر کا بدلہ دیا وہی ہیں جو فیروز مند ہوئے۔ “ (ابراہیم 14 : 44 ، 45) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” وہ کہیں گے اب نہ ہمارا کوئی سفارشی ہے اور نہ کوئی جگری دوست۔ کاش ہمیں ایک دفعہ پھر پلٹنے کا موقع مل جائے تو ہم مؤمن ہوں۔ “ (الشعراء 26 : 100۔ 102) یہ جو فرمایا کہ وہ کہیں گے ” ہمارا کوئی سفارشی نہیں ہے۔ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنہیں ہم دنیا میں سفارشی سمجھتے تھے اور جن کے متعلق ہمارا عقیدہ تھا کہ ان کا دامن جس نے تھام لیا بس اس کا بیڑا پار ہے۔ ان میں سے آج کوئی بھی سعی سفارش کرنے کے لئے زبان کھولنے والا نہیں۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” تم دیکھو گے کہ یہ ظالم جب عذاب دیکھیں گے تو کہیں گے اب پلٹنے کی بھی کوئی سبیل ہے ؟ “ (الشوریٰ 42 : 44) یعنی آج جب پلٹ آنے کا موقع ہے یہ پلٹنے سے انکار کر رہے ہیں۔ کل جب فیصلہ ہوچکے گا اور سزا کا حکم نافذ ہوجائے گا اس وقت اپنی شامت دیکھ کر یہ چاہیں گے کہ اب انہیں پلٹنے کا موقع ملے۔ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” وہ عذاب دیکھ کر کہے گا کاش ! مجھے ایک موقع اور مل جائے اور میں بھی نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں۔ اس کو جواب لے گا ایسا نہیں۔ میری آیات تیرے پاس آچکی تھیں پھر تو نے انہیں جھٹلایا تکبر کیا اور تو کافروں میں سے تھا۔ “ (الزمر 39 : 95)
Top