Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 176
وَ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ١ۚ اِنَّهُمْ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰهَ شَیْئًا١ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَلَّا یَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِی الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
وَلَا : اور نہ يَحْزُنْكَ : آپ کو غمگین کریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يُسَارِعُوْنَ : جلدی کرتے ہیں فِي الْكُفْرِ : کفر میں اِنَّھُمْ : یقیناً وہ لَنْ يَّضُرُّوا : ہرگز نہ بگاڑ سکیں گے اللّٰهَ : اللہ شَيْئًا : کچھ يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَلَّا : کہ نہ يَجْعَلَ : دے لَھُمْ : ان کو حَظًّا : کوئی حصہ فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ کفر کی راہ میں دوڑ رہے ہیں ان کی یہ حالت دیکھ کر تم آزردہ خاطر نہ ہو ، یاد رکھو وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے بلکہ قانون الٰہی چاہتا ہے کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے
مسلمانوں کو ہدایت کہ دیکھو تم شیطان کے ہتھے مت چڑھو : 319: اب مسلمانوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ یہ شیطان بہت ہی شرارتی ہے یہ دراصل تم کو ” اپنے ساتھیوں سے ڈرانا چاہتا ہے اگر تم ایمان رکھنا والے ہو تو شیطان کے ساتھیوں سے مت ڈرو بلکہ فقط اللہ ہی کی ذات سے ڈرو۔ “ فرماتا ہے کہ وہ غازیان اسلام تو صحیح معنوں میں اللہ کے بندے تھے وہ شیطان کے مکر میں نہ آئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب شیطان نے شیطنت ترک کردی ہے۔ اس کا جوڑ توڑ تو ” اِلٰی یوم یُبعَثُونَ “ جاری رہے گا اس لئے اے مسلمانو ! تم بھی اس کے مکر و فریب میں نہ آنا۔ تم کو بار بار یاد دلایا جارہا ہے اس لئے کہ اس کے داؤ بڑے ہی گہرے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ مضمون بار بار اور کئی طریقوں سے سمجھایا گیا ہے۔ اس جگہ چند ارشادات الٰہی کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے۔ آپ ان ہدایات کی روشنی میں حوالہ دیئے گئے مقامات مطالعہ کرتے رہیں انشاء اللہ یہ مطالعہ بہت مفید رہے گا۔ خصوصاً تفسیر عروۃ الوثقیٰ میں مقررہ مقامات کا مطالعہ آپ کی انشاء اللہ راہنمائی کرے گا۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” اللہ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اور اسی کے لئے دین ہے دائمی۔ پھر کیا تم اللہ کے سوا دوسری ہستیوں سے ڈرتے ہو۔ ” (النحل 16 : 25) ” جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ واحد کے سوا وہ کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبہ کے لئے بس اللہ ہی کافی ہے۔ “ (الاحزاب 33 : 39) اس جگہ الفاظ قرآنی ہیں کَفٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا جس کے دو معنی ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی اس جگہ درست ہیں ایک یہ کہ ” ہر خوف اور خطرے کے مقابلے میں اللہ کافی ہے۔ “ دوسرے یہ کہ ” حساب لینے کے لئے اللہ کافی ہے “ اس کے سوا اور کسی کی بار پرس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ” فی الحقیقت مسجدوں کو آباد کرنے والا تو وہ شخص ہے جو اللہ ، آخرت کے دن پر ایمان لایا ، نام قائم کی ، زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا اور کسی کا ڈر نہ مانا۔ جو لوگ ایسے ہیں انہیں سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ سیدھی راہ پانے والے ثابت ہوں گے۔ “ (التوبہ 9 : 18) ” اور جو اللہ سے ڈرے گاو مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ تو وہ اس کے گناہ اس سے دور کردے گا اور آخرت میں اس کو بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔ “ (الطلاق 65 : 5) ” اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا رہتا ہے تو اللہ اس کے لیے غم اور مصیبت سے نکلنے کی صورت پیدا کردیتا ہے اور اس کو روزی عطا کرتا ہے جہاں سے اس کو کبھی خیال بھی نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اس کے لئے کافی ہے۔ بیشک اللہ اپنا کام پورا کرتا ہے بیشک اللہ نے ہرچیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔ “ (الطلاق 65 : 3) ” آپ ﷺ تو صرف اسی کو ڈرا سکتے ہیں جو آپ ﷺ کے سمجھانے پر چلے اور رحمٰن سے بلا دیکھے ڈرے۔ پس آپ ﷺ اس کو مغفرت اور بڑے اجر یا بڑے درجہ کے ثواب کی بشارت دیجئے جو ہر جگہ اس کے لئے بڑی عزت کا باعث ہوگی۔ “ (یس 36 : 11) ” کیا اللہ اپنے بندہ کو کافی نہیں ہے۔ اور یہ منکر آپ ﷺ کو اس کے سوا اوروں سے ڈراتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ جس کو گمراہ کرے یعنی اپنی مشیت کے مطابق اس کو پھر کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہوتا۔ “ (الزمر 39 : 36) یہاں قرآن کریم کے الفاظ ہیں اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ 1ؕ اور اس کے مخاطب اول خود محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس اور یہ ارشاد اس لئے فرمایا کہ کفار مکہ نبی کریم ﷺ سے کہا کرتے تھے کہ تم ہمارے معبودوں کی شان میں گستاخیاں کرتے ہو اور اس کے خلاف زبان کھولتے ہو تمہیں معلوم نہیں کہ یہ کیسی زبردست باکرامت ہستیاں ہیں۔ ان کی توہین تو جس نے بھی کی وہ برباد ہوگیا۔ تم بھی اگر اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو یہ تمہارا بھی تختہ الٹ دیں گے۔ اور آج کے مشرکین بھی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں حالانکہ تخت الٹ دینا یا تخت بچھا دینا یقیناً ذات الٰہی کے سوا کس دوسرے کا کام نہیں خواہ وہ کوئی ہو۔ ” مسلمانو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو یعنی اس کی نافرمانی سے بچو تو وہ تمہارے لئے حق و باطل میں امتیاز کرنے والی ایک قوت پیدا کردے گا اور تم سے تمہاری برائیاں یعنی کمزوریاں دور کردے گا اور بخش دے گا۔ اللہ تو بہت ہی فضل کرنے والا ہے۔ “ (الانفال 8 : 29) ” اے پیغمبر اسلام ! اللہ تیرے لئے کفایت کرتا ہے اور ان مؤمنوں کے لئے بھی جو تیرے پیچھے چلنے والے ہیں۔ “ (الانفال 8 : 64) ” اے پیغمبر اسلام ! جو کچھ تمہیں حکم دیا گیا ہے لوگوں پر آشکارا کرو اور مشرکوں کی کچھ پروا نہ کرو۔ ان ہنسی اڑانے والوں کے لئے ہم تمہاری طرف سے بس کرتے ہیں۔ “ (الحجر 15 : 94 ، 95) ” اے پیغمبر اسلام ! اس گروہ میں سے جس نے زبان سے کہا ، ایمان لائے مگر ان کے دل مؤمن نہیں ہوئے اور اس گروہ میں سے جو یہودی ہے جو لوگ کفر میں تیز گام ہیں تو ان کی حالت تمہیں غمگین نہ کرے۔ یہ لوگ جھوٹ کے لئے کان لگانے والے ہیں اور اس لئے کان لگاتے ہیں کہ ایک دوسرے گروہ کو جو تمہارے پاس نہیں آیا خبریں پہنچائیں۔ “ (المائدہ 5 : 41) مدینہ کے علماء یہود منافقوں کو بھیجتے تھے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی مجلسوں میں بیٹھیں اور انہیں خبریں پہنچائیں اور ان کو یہ بھی کہتے کہ معاملات و قضایا ان کے سامنے پیش کرو اور دیکھو کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر ہمارے حق کے مطابق ہو تو مانو نہ ہو تو قبول نہ کرو ، اور اس طرح کی شرارتیں آج بھی باقاعدہ طور پر مسجدوں اور درسگاروں میں سکھائی جاتی ہیں اور فی زماننا تو علماء کا شیوہ ہی یہ رہ گیا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف جہاں تک بھڑکایا جاسکتا ہے بھڑکائیں اور طلباء یہی کچھ سیکھ رہے ہیں اور ایک دوسرے کے جلسوں میں جا کر خوب بھگدڑ مچایا جاتا ہے۔ یہی دین ہے اور یہی دین کا درد۔ اِنَّا للہ وَاِنّٓا اِلیہِ رَاجِعُونَ ۔ منافقین کی آخرت برباد ہوگی اور وہ عذاب میں پڑے رہیں گے : 320: فرمایا جا رہا ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! جو لوگ تیزی سے کفر میں گھس رہے ہیں اور پھر گھستے ہی چلا جا رہے ہیں تم ان کے لئے رنجیدہ خاطر نہ ہو۔ یہ کون لوگ ہیں ؟ ظاہر ہے کہ یہ وہی منافق ہیں جن کا سردارابن ابی تھا چونکہ یہ لوگ اندر ہی اندر کفار کی مدد کر رہے تھے اور ہر معاملہ میں ان کے معین و مددگار بلکہ قریش مکہ کا ہتھیار تھے اور وہ جب چاہتے تھے ان سے کام لے لیتے تھے اور یہ بھی ان کا کام دینے کے لئے ہر وقت مستعد رہتے تھے اس لئے ان کو کف میں تیزی سے بڑھنے والے کہا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو مطلع کیا جارہا ہے کہ ان کی حرکتوں سے اللہ کا کچھ نہیں بگڑ رہا جو کچھ بگڑ رہا ہے وہ ان کا اپنا ہی بگڑ رہا ہے اور ” اللہ کا کچھ نہ بگڑنے “ کا مغلب بھی خود واضح ہے کہ اللہ والوں یعنی سچے مسلمانوں کا ان کی حرکتوں سے کچھ نہیں بگڑے گا بلکہ یہ خود اپنی شرارتوں کے جال میں پھنس کر رہ جائیں گے۔ جو کسی کے لئے کنوا کھودتا ہے وہ خود ہی ایک روز اس میں جا گرتا ہے۔ ہاں ! آپ ﷺ کو جو جذبہ رحم رکھنے کی وجہ سے ان کا یہ رویہ غمگین کرتا ہے کہ کاش ! یہ لوگ ان حرکتوں سے باز آجائیں اور اپنے آپ کو ہلاکت کے منہ میں نہ دیں اور اس طرح یہ دوزخ کا ایندھن نہ بنیں۔ جب وہ خود اپنے لئے غمگین نہیں تو آپ ﷺ ان کے لئے کیوں غمگین ہوں ؟ یہ بدبخر مخلوق ہے اللہ اپنے قانون مشیت کے مطابق ان کو آخرت میں حصہ دار نہیں بنائے گا اور اللہ نے ان کی مدد نہیں کی اس لئے کہ قانون خداوندی یہی ہے کہ وہ کبھی ان کی مدد نہیں کرتا جو خود اپنی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خود تو کفر کی طرف بڑھ رہے ہوں لیکن اللہ ان کے سامنے اسلام کی راہیں کشادہ کردے۔ ان آخڑت سے محرومین کے لئے تم بھی کڑھنا چھوڑ دو اس لئے کہ اس آگ کا ایندھن ہیں جو اللہ نے دوزخ میں سلگا رکھی ہے۔ ان کے لئے بلاشبہ وہ عذاب عظیم ہے جس کو یہ اپنے ہاتھوں خود تیار کر رہے ہیں۔۔ دوسری جگہ ان کا حال اس طرح بیان فرمایا ہے کہ : یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاہِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ کَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ 008 (الصف 631 : 8) ” یہ لوگ اپنے منہ کے پھوکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نوت کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار گزرے۔ “ یہ گویا معجزات محمدی ﷺ میں سے ایک معجزہ ہے ؟ یہ کیسے ؟ یہ اس طرح کہ یہ آیت یعنی الصف کی آیت 8 جنگ احد 3 ھ میں نازل ہوئی جبکہ اسلام صرف مدینۃ النبی تک محدود تھا۔ مسلمانوں کی تعداد چنو ہزار سے زائد نہ تھی اور سارا عرب اس دین کے مٹا دینے پر تلا ہوا تھا۔ احد کے معرکے میں جو مصیبت مسلمانوں کو پہنچی تھی اس کی وجہ سے ان کی ہوا اکھڑ گئی تھی اور گردو پیش کے قبائل ان پر شیر ہوگئے تھے۔ ان حالات میں فرمایا گیا کہ اللہ کا یہ نور کسی کے بجھائے بجھ نہ سکے گا بلکہ پوری طرح روشن ہو کر اور دنیا بھر میں پھیل کر رہے گا۔ غور کرو کہ اللہ کے سوا اس وقت اور کون یہ جان سکتا تھا کہ اسلام کا مستقبل کیا ہے ؟ انسانی نگاہیں تو اس وقت یہ دیکھ رہی تھیں کہ یہ ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ہے جسے بجھا دینے کے لئے بڑے زور کی آندھیاں چل رہی ہیں۔
Top