Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 36
فَاِنْ حَآجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِیَ لِلّٰهِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِ١ؕ وَ قُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَ الْاُمِّیّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ١ؕ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اهْتَدَوْا١ۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ۠   ۧ
فَاِنْ : پھر اگر حَآجُّوْكَ : وہ آپ سے جھگڑیں فَقُلْ : تو کہ دیں اَسْلَمْتُ : میں نے جھکا دیا وَجْهِيَ : اپنا منہ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے وَمَنِ : اور جو جس اتَّبَعَنِ : میری پیروی کی وَقُلْ : اور کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : وہ جو کہ اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دئیے گئے (اہل کتاب وَالْاُمِّيّٖنَ : اور ان پڑھ ءَاَسْلَمْتُمْ : کیا تم اسلام لائے فَاِنْ : پس اگر اَسْلَمُوْا : وہ اسلام لائے فَقَدِ اھْتَدَوْا : تو انہوں نے راہ پالی وَاِنْ : اور اگر تَوَلَّوْا : وہ منہ پھیریں فَاِنَّمَا : تو صرف عَلَيْكَ : آپ پر الْبَلٰغُ : پہنچا دینا وَاللّٰهُ : اور اللہ بَصِيْرٌ : دیکھنے والا بِالْعِبَادِ : بندوں کو
پھر اگر یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں تو تم کہہ دو میرا اور میرے پیروؤں کا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم نے اللہ کے سامنے سراطاعت جھکا دیا ہے اور اہل کتاب اور اَن پڑھ لوگوں سے پوچھو تم بھی اللہ کے سامنے جھکتے ہو یا نہیں ؟ اگر وہ اب بھی اللہ کے سامنے جھک جائیں تو انہوں نے راہ پا لی ، اگر روگردانی کریں تو پھر تمہارے ذمے پیام حق پہنچا دینا ہے اور اللہ اپنے بندوں کے حال سے غافل نہیں وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے
جھگڑنے والوں سے مراد اہل کتاب اور خصوصاً نصاریٰ ہیں : 56: اہل کتاب ہی وہ لوگ تھے جن کو پیغمبر اسلام ﷺ سے جھگڑنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اس لیے کہ وہ اپنی مذہبی کتابوں تورات و انجیل میں نبی اعظم و آخر ﷺ کے نشانات اپنی آنکھوں سے دیکھ اور کانوں سے سن چکے تھے اور اس بات کی طلبگار بھی تھے کہ وہ نبی اعظم ﷺ جل آئے تاکہ اس کی رسالت کا اقرار کر کے اس کی ہدایت پر عل کر کے ہم دنیا و آخرت میں آمیاب ہوں۔ لیکن جب وہ موعود نبی اعظم و آخر ﷺ مبعوث ہوگیا اور انہوں نے اس کو اچھی طرح پہچان بھی لیا کیونکہ ان کے پاس نشانات و علامات اس نبی اعظم و آخر ﷺ کی موجود تھیں تو انہوں نے بجائے اقرار کے انکار کردیا کیوں ؟ محض اس لیے کہ وہ بنی اسرائیل سے کیوں نہیں اور وہ بنی اسماعیل سے کیوں ہے ؟ پیغمبر اسلام ﷺ سے کہا جارہا ہے کہ تم کہه دو میرا اور میرے پیرو وں کا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم نے اللہ کے سامنے سر اطاعت جھکادیا ہے اور اس کے قانون مشیت پر راضی ہیں جو ہو سو ہو۔ جھگڑا ہمارا شیوہ نہیں ہے اور یہی نہیں کہ ہم جھگڑا نہیں ڈالتے بلکہ ہم جھگڑنے والوں کو کوئی جواب بھی نہیں دیتے کیونکہ جھگڑا تب ہی ہوتا ہے جب کوئی دلیل موجود نہ ہو۔ جس کے پاس دلیل موجود ہو اس کو جھگڑے کی آخر ضرورت کی ہے ؟ ہمارے پاس دلیل موجود ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی علامتا کی دلیل موجود ہے۔ پھر دلیل بھی ایسی جو تمہاری کتابوں میں ہو اگر تم نبی آخر کا انکار کرتے ہو تو نبی کا انکار ہی کیوں ہوا ؟ خود تمہاری اپنی کتابوں کا انکار کیوں نہ ہوا ؟ اور پھر جب تم اپنی ہی کتابوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں تو اس سے ہمارا کیا نقصان ہوگا ؟ جو نقصان ہوگا ظاہر ہے کہ وہ تمہارا ہی ہوگا۔ سورج طلوع ہوجائے اور کوئی ضدی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر سورج کا طلوع ہونا تسلم نہ کرے تو آخر سورج کا کیا نقصان ہوگا ؟ جو نقصان ہوگا وہ اس کا ہوگا جو اس کے طلوع ہونے سے انکار ہے اگر کوئی اندھا ہے اس کو سورج نظر نہیں آتا تو بھی اسکے انکار کا سورج کو کوئی نقصان نہیں۔ اے پیغمبر اسلام ! کہه دیجیے کہ میں تو اپنا رخ الہل کی طرف کرچکا اور جو میرے پیرو ہیں وہ بھی۔ اب تم مانو یا نہ مانو تمہیں اختیار ہے یہ کیوں فرمایا ؟ اس لیے کہ جب وضوح حق کی پوری پوری کوشش ہو لے اور مخاطب پھر بھی قبول نہ کرے تو با بحث مباحثہ بالکل فضول ہے اس سے قبل و قال ترک کردینا ہی مناسب ہے۔ اے اہل کتاب اور مکہ کے لوگو ! کیا تم بھی اپنی پوزیشن بنا سکتے ہو ؟ 57: اب اہل کتاب اور خصوصاً اہل کتاب کا گروہ نصاری اور دوسرے معاندین سے مخاطب ہو کر پوچھا جارہا ہے کہ ہم نے تو پوزیشن واضح کردی کیا تم بھی اپنی پوزیشن بنا سکتے ہو یا نہیں ؟ تمہارا کیا ارادہ ہے کیا تم بھی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری قبول کرتے ہو یا نہیں ؟ ” اسلمتم “ کے معنی تو وہی ہیں جو اوپر بیان کیے جاچکے ہیں کہ ” کیا تم بھی اسلام لاتے ہو ؟ “ ” کیا تم بھی اللہ کے سامنے جھکتے ہو یا نہیں ؟ “ لیکن اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ” اسلام لاؤ “ یعنی صیغہ امر کے لحاظ سے اور نحوین نے کہا ہے کہ الف استفہام کبھی امر کے بھی معنی دیتا ہے بلکہ امر کے معنی میں زور اور زیادہ پیدا کردیتا ہے : قال النحویون انما جاء الامر فی صورة الاسفہام (کبیر) پھر استفہام کی صورت میں بھی استفادر محض مراد نہیں بلکہ مقصود تہدید ہے جیسے اردو محاورہ میں بھی تہدید کے موقع پر کہتے ہیں ” کیوں جی سنتے ہو کہ نہیں “ ” الامیین “ مطلقاً ان پڑھ اور یہ لقب ہے مکہ والوں کا خصوصاً کیونکہ وہ اسی لقب سے ملقب تھے۔ ان پڑھ اور اجڈ قسم کے لوگ۔ بدو ، آسمانی کتابوں سے نابلد اور لاعلم۔ ماد بہرحال مشرکین مکہ ہیں۔ مختصر الفاظ میں اس بات کو یوں سمجھیے کہ میں اور میرے پیرو تو اس دین ” اسلام “ کے ماننے والے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے۔ اب تم بتاؤ کیا تم اپنے اسلاف کے بڑھائے ہوئے چاشیوں کو چھوڑ کر اصل و حقیقی دین کی طرف آتے ہو ؟ اگر انہوں نے مان لیا اور ” ہاں “ کہه دی تو راہ پا لی : 58: ان کو ہدایت کی طرف دعوت دیتے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا۔ انہوں نے ہر سنی کو اَن سنی کردیا۔ آخر کب تک ان کی اس حرکت کو برداشت کیا جائے گا ؟ نبی اعظم و آخر ﷺ کی رسالت کو تسلیم بھی نہ کیا اور تسلیم نہ کرنے کا کوئی عذر بھی پیش نہ کرسکے۔ اب اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوچکا انجام کار اس کا فیصلہ ہونا بھی تو لازمی ہے۔ آخر کچھ تو بتاؤ ؟ اچھا ان سے آخری بات یہ ہے کہ وہ اللہ کے سامنے جھک جائیں تو انہوں نے راہ راست پا لی اور اگر روگردانی کریں تو اے پیغمبر اسلام ! آپ زیادہ غمگین نہ ہوں آپ ﷺ کے ذمہ جو کچھ ہے وہ صرف پیغام پہنچانے کی حد تک ہے وہ آپ ﷺ نے پہنچا دیا اور بار بار پہنچایا۔ آپ ﷺ کی ذمہ داری پوری ہو گئی وہ ” ہاں “ کریں گے یعنی مان لیں گے تو ان کا اپنا فائدہ ہے اور اگر نہیں مانتے تو نہ ماننے والوں کا علاج ہمارے پاس موجود ہ۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہمارے ہاں ایک کام کے لیے ایک وقت مقرر ہے اور جبوہ آجاتا ہے تو جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ ان کا مقررہ وقت بھی آئے گا تو یقیناً ان کا کام بھی تمام ہوجائے گا۔ اللہ ان کی حالت سے خوب اچھی طرح واقف ہے : 59: ” بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ “ اللہ خود اپنے بندوں کے معاملات کو دیکھنے والا ہے۔ ” بصیر “ یعنی وہ ذات پاک ہے جو زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ہر ایک کے ذرہ ذرہ کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ گہرے سمندر کی تہه میں جو چیز ہو یا سربفلک پہاڑ کی جڑ میں جو چیز پوشیدہ ہو ہر ایک اس کی نظر کے سامنے موجود ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کے شیشہ کو ہر عیب سے پاک رکھے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی حق تلفی ، آبرو ریزی ، دل آزاری کا خیال تک دل میں نہ لائے۔ ہر وقت اس تصور کو یکائے کہ میرے دل پر ہر وقت ہر گھڑی اس ذات کی نگاہ پڑ رہی ہے۔ میری کوئی شوپیدہ سے پوشیدہ حرکت بھی اس سے مخفی نہیں۔ میں اپنے دل کے راز کو بھی اس سے چھپا نہیں سکتا کہ وہ بذات الصدور ہے۔ اس تصور کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آدمی گناہوں سے پرہیز کرتا کرتا انشاء اللہ بالکل ہی پاک ہوجائے گا۔ وَمَا ذلِكَ عَلَى اللّٰهِ بِعَزِیْزِ اللہ کے لیے بھی مشکل نہیں ہے۔ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” اللہ تعالیٰ نے تم کو آنکھیں دی ہیں تاکہ تم اس کی آیات تکوینیہ جو کھلی کائنات میں موجود ہیں اور آیات تنزیلیہ جو کتب آسمانی کے اندر ہیں کو دیکھ کر اس پر ایمان لے آؤ اور اس کا شکر ادا کرو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تم میں شکر گزار بہت کم ہیں۔ “ (المؤمنون 23 : 78) ” زمین و آسمان میں کتنی نشانیاں ہیں جن پر تمہارا گزر ہوتا ہے اور تم ان سے اعراض کرتے ہو۔ “ (یوسف 12 : 105 ) ” جو لوگ اپنی آنکھوں سے حق کو نہیں دیکھتے۔ وہ جانوروں کی مانند ہیں بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ “ (الاعراف 7 : 179) ” جو لوگ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں خواہ وہ انکار قولی ہوی اعلمی ان کی آنکھیں بھی ان کے کام نہیں آتیں اور بصیرت بھی وہ ضائع کرچکے ہیں۔ “ (المائدہ 46 : 26) ” اللہ تعالیٰ تو تمہاری آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور جو کچھ تمہارے سینوں میں چھپا ہے وہ بھی اس کو معلوم ہے۔ “ (المؤمن 40 : 19 ) اب پوری آیت کا ماحصل یہ ہوا کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب سے اتمام حجت کا اصل دین خدا پرستی ہے ساری باتیں چھوڑو یہ بتاؤ کہ تمہیں خدا پرستی سے اقرار ہے یا انکار ؟ اگر اقرار ہے تو سارا جھگڑا ختم ہوگیا۔ کیونکہ اسلام کی حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اگر انکار ہے تو پھر جن مدعیان مذہب کو خدا پرستی ہی سے انکار ہو ان سے بحث و نزاع کیا سود مند ہو سکتی ہے ؟
Top