Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 34
ذُرِّیَّةًۢ بَعْضُهَا مِنْۢ بَعْضٍ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۚ
ذُرِّيَّةً : اولاد بَعْضُهَا : وہ ایک مِنْ : سے بَعْضٍ : دوسرے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
یہ ایک ہی نسل تھی جس میں سے بعض بعض سے پیدا ہوئے تھے اور اللہ سننے والا اور صحیح علم رکھنے والا ہے
یہ سب انبیا کرام ایک نسل اور اصل سے تعلق رکھتے تھے : 86: مذکورہ بالا انبیائ کرام اور اللہ کے برگزیدہ بندے ایک دوسرے کی ذریت ہیں۔ ذریہ اس لفظ کا وزن ” فعلة “ اور ” فعولہ “ ہے صورت اول میں اس کا مادہ وہ ” ذر “ چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کو کہتے ہیں اور دوسری صورت میں ذرئ مادہ ہوگا اور ذر کے معنی پیدا کرنے کے ہیں۔ ذریت کا اطلاق اولاد پر بھی ہوتا ہے اور باپ دادا پر بھی۔ اولاد پر تو عام اور عام بول چال میں بھی لوگ اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں کہ فلاں فلاں کی ذریت یعنی اولاد سے ہے اور دوسری صورت کے لیے بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوا : وَ اٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ0041 (یسٰین 36 : 41) اولاد ذریت اس لیے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو باپ سے پیدا کرتا ہے اور آبائ کو ذریت اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اولاد کا مبدائ تخلیق ہوتے ہیں۔ ذریت کا اطلاق واحد پر بھی ہوتا ہے اور جمع پر بھی۔ ” بَعْضًا مَّنْ بَعْضٍ “ بعض بعض کی ذریت سے ہیں مراد ایک دوسرے کی نسل سے ونا جیسے آل عمران ابراہیم کی نسل ہے اور آل ابراہیم آل نوح کی نسل سے ہے اور آل نوح سیدنا آدم (علیہ السلام) کی نسل سے ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں اشارہ اتحادنسل کی طرف نہیں بلکہ ایک اور قسم کی یگانگت کی طرف ہے جو دین سے تعلق رکھتی ہے چناچہ یہ تفسیر قتادہ ﷺ سے مروی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ” سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ “ کے یہاں لانے سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ ” سننے والا ہے تمام زبان سے نکلے ہوإے الفاظ و کلمات کا “ اور ” جاننے والا ہے تمام اندر کے جذبات و خیالات کا “ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی دعایں کو سنتا ہے اور پھر جانتا ہے کہ کون شخص کس بلندمقام پر کڑھا کیے جانے کے لائق ہے اور دونوں ہی باتیں صحیح اور درست ہیں۔
Top