Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 71
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لِمَ : کیوں تَلْبِسُوْنَ : تم ملاتے ہو الْحَقَّ : سچ بِالْبَاطِلِ : جھوٹ وَتَكْتُمُوْنَ : اور تم چھپاتے ہو الْحَقَّ : حق وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ھو
اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل کے ساتھ ملا جلا کر مشتبہ کردیتے ہو اور حق کو چھپاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو
اہل کتاب سے خطاب کہ تم حق و باطل کو کیوں ملاتے ہو اور خصوصاً حق کو کیوں چھپاتے ہو ؟ 148: اس آیت زیرنظر یعنی سورة آل عمران کی آیت 71 میں یہود پر تین الزامات متعین طور پر لگائے گئے اور وہ ایک کی بھی تردید نہیں کرسکے اس لیے کہ تینوں الزامات صحیح اور واضح ہیں۔ (1) حق کو باطل کے ساتھ ملا جلا کر مشتبہ کردینا یعنی اپنی الہامی کتابوں کے احکامات کی ایسی ایسی تاویلیں کرتے ہیں کہ حق بالکل باطل کے تحت میں دب کر رہ جاتا ہے۔ باطل حق کو ڈھانپ لیتا ہے اور تاویل تاویل نہیں رہتی بلکہ تاویل سے بڑھ کر صریح تحریف بن جاتی ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہیں اور پھر باز بھی نہیں آتے۔ دوسرے یہ کہ حق کو سرے سے چھپا ڈالتے ہیں اور کتب آسمانی میں جہاں جہاں بشارتیں پیغمبر اسلام کی صاف صاف موجود ہیں وہاں ان عبارتوں کو کچھ سے کچھ کردیتے ہیں اور ذرا نہیں جھجکتے کہ یہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کس سے کر رہے ہیں ؟ تیسرے یہ کہ یہ سب کچھ اپنے قصد و ارادہ سے کر رہے ہیں۔ محض اتفاق طور پر نہیں ہو رہا ہے۔ تحریفات اہل کتاب پر پوری بحث سورة بقرہ آیت نمبر 42 تا 46 کے تحت گزر چکی ہے وہاں ملاحظہ کریں۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج یہ تینوں بیماریاں علمائے اسلام کی اکثریت میں پائی جا رہی ہیں اور زمرہ علماء ہے کہ وہ ٹس سے مس بھی نہیں۔ قرآن و حدیث کو بالکل چھوڑ کر قوم کو قصوں اور کہانیوں پر لگا دیا گیا ہے ضمناً اگر قرآن کریم کی کوئی آیت اگر پیش بھی کی جاتی ہے تو اپنے اصل مطلب و مفہوم سے بالکل الگ کر کے اپنی خواہشات کی بھینٹ اسی کو چڑھا دیا جاتا ہے۔ عوام بےچارے تو ناواقف ہیں لیکن علماء جن کو علماء کہا جاسکتا ہے سب کچھ جان بوجھ کر کر رہے ہیں ہاں ! دو رکعت کے امام جن کو عرف عام میں ” ملانے “ کہا جاتا ہے وہ زمرہ علماء میں شامل نہیں بلکہ وہ تو چھوٹے چھوٹے دکاندار اور دیہات کے ساتویں کمین ہیں جو ملاں کا بچہ ملاں کے لحاظ سے کام کر رہے ہیں اور علاقائی رسومات کی ادائیگی کے لیے رکھے گئے ہیں جو مذہبی رسوم کے نام سے ادا کی جاتی ہیں۔
Top