Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 23
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِ١ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ١ۖ٘ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاۙ
مِنَ : سے (میں) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) رِجَالٌ : ایسے آدمی صَدَقُوْا : انہوں نے یہ سچ کر دکھایا مَا عَاهَدُوا : جو انہوں نے عہد کیا اللّٰهَ : اللہ عَلَيْهِ ۚ : اس پر فَمِنْهُمْ : سو ان میں سے مَّنْ : جو قَضٰى : پورا کرچکا نَحْبَهٗ : نذر اپنی وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو يَّنْتَظِرُ ڮ : انتظار میں ہے وَمَا بَدَّلُوْا : اور انہوں نے تبدیلی نہیں کی تَبْدِيْلًا : کچھ بھی تبدیلی
مومنوں میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے جس بات کا عہد کیا تھا وہ سچ کر دکھایا پھر بعض نے تو اپنی ذمہ داری کو پورا کیا اور بعض وہ ہیں جو منتظر ہیں اور (اپنے عہد و پیمان میں) ذرا بھی نہیں بدلے
ایمانی طاقت وقوت کا اظہار کرکے مومنوں نے بھی اپناعہد پورا کردکھایا 23 ۔ { نحب } مضاف ہ مضاف الیہ نذر ، منت کنایہ ہے موت سے کیونکہ ہر جاندار کے گلے میں موت بھی نذر کی طرح لازم ہے۔ { قضی نحبہ } اپنی منت پوری کردے یا اپنی زندگی پوری کردے ، شہید ہوجائے یا وفات پاجائے۔ بلا شبہ صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ جب بھی آپ ﷺ کی رفاقت میں جنگ کا موقع پیش آئے گا تو وہ اپنی جانیں تک لڑادیں گے گویا وہ جام شہادت نوش کریں گے لیکن میدان جنگ سے کبھی فرار نہیں ہوں گے اور اس طرح جب بھی وقت آیاتو انہوں نے اپنے کیے ہوئے وعدہ کو پورا کیا یعنی وہ شہید ہوگئے یا اپنی طبعی موت پاگئے اور بہت سے ایسے ہیں جو ابھی منتظر ہیں یعنی وہ شہید ہونے کے لئے بالکل تیار ہیں کہ جب بھی ان کو لڑنے کا حکم دیا جاتا تو وہ تیار ہوتے ہیں اور کبھی بھی انہوں نے کس طرح کا کوئی عذروبہانہ پیش نہیں کیا گویا ان کا وعدہ کرنا کوئی لاف زنی نہ تھی بلکہ جب بھی وقت آیا تو وہ بےدھڑک شریک ہوگئے اب شہادت تو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے جن کے لئے اللہ نے شہادت مقرر کی تھی وہ شہید ہوگئے اور جن لوگوں کو غازی بن کر میدان جنگ سے نکلنا تھا اور کافروں کو بھاگ نکلنے پر مجبور کردینا تھا وہ اس وقت تک لڑتے رہے جب تک لڑائی جاری رہی اور اس طرح آنے والوں پر دونوں ہی گروہوں نے ثابت کردیا کہ اسلام کے ساتھ ان کا کیا ہوا وعدہ پورا ہوا اور چونکہ وعدہ کا تعلق ایمان سے ہے اس لئے گویا انہوں نے اپنے ایمان پر کسی انگشت نمائی نہیں کرنے دی اور انہوں نے جنگی تکلیفیں بخوشی قبول کیں اور قوم کو قوی زندگی سے روشناس بھی کرادیا اور اس طرح وہ مستحق جزا ہوئے۔ زیر نظر آیت میں جن نفوس قدسیہ کا ذکر ہے اسلام کی زبان میں ان کو صحابہ کرام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور پھر ان میں دو طرح کے لوگ تھے ایک وہ جو شہادت کا جام بخوشی نوش کرگئے اور دوسرے وہ جن کو ہمیشہ یہ خواہش رہی لیکن وہ پوری نہ ہوئی اور وہ میدان جہاد میں بےدردی کے ساتھ جنگ کرنے کے باوجود بخیریت واپس لوٹے ، خیانت ہوگی کہ اگر ان کا کچھ ذکر اس جگہ نہ کیا جائے اس لئے کسی ایک دو یا تین چار کو مخصوص کرکے ان کا ذکر باقی کے ساتھ خیانت ہے اس لئے مجموعی طور پر عہد صحابہ کی ایک تصویر پیش کردینا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ صحابہ کرام لاریب انسان تھے لیکن انسانوں میں ان کا امتیاز تا قیامت قائم رہے گا قرآن کریم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے { اشداء……… بینھم } (29:49) ” وہ کافروں کے حق میں تو بہت سخت ہیں لیکن آپس میں بہت ہی رحم دل بھی ہیں “ ان کی زندگی ، ان کے آپس کے تعلقات ، ان کا ایک دوسرے کے ساتھ سلوک وباہمی محبت اور اکرام واحترام پاسداری اور ادائے حقوق کے واقعات اس آیت قرآنی کی تائید کرتے ہیں اس کے خلاف جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے یا بیان کیا جائے وہ بلا شبہ قرآن کریم کی تکذیب ، تاریخ کی تغلیط اور تربیت نبوی ﷺ کے بارے میں بدگمانی اور تشکیک کے مترادف ہے اس لئے بطور دلیل اس جگہ صرف دو صحابہ کے واقعات ملاحظہ کریں۔ حضرت زید بن حارثہ ؓ سعدی بنت ثعلبہ اپنی قوم بنو معن سے ملاقات کے لئے اپنے بیٹے زید بن حارثہ ؓ کے ہمراہ روانہ ہوئی ، وہ اپنی برادری کے ایک گھر میں ابھی فروکش ہوئی ہی تھی کہ بنی قین کے ڈاکوئوں نے لوٹ مار شروع کردی ، ان کا مال اپنے قبضے میں لے لیا ، مویشی ہانک کرلے گئے اور بچوں کو قید کرلیا۔ ان قیدیوں میں زید بن حارثہ ؓ بھی تھے ، اس وقت ان کی عمر صرف آٹھ سال تھی ، وہ انہیں فروخت کرنے کے لئے عکاظ منڈی میں لے گئے ، ایک دولت مند سردار حکیم بن حزام بن خویلد نے چار سو درہم میں اسے خرید لیا ، اس کے علاوہ اس نے اور بھی غلام خریدے اور ان سب کو اپنے ہمراہ مکہ معظمہ لے آیا ، جب اس سردار کی آمد کا حضرت خدیجہ بنت خویلد کو پتہ چلا تو وہ اسے خوش آمدید کہنے کے لئے اس کے گھر تشریف لے گئیں ، کیونکہ رشتے میں یہ اس کی پھوپھی تھیں حکیم بن حزام نے کہا پھوپھی جان میں عکاظ منڈی سے کافی تعداد میں غلام خرید کر لایا ہوں ، ان میں سے جو غلام آپ کو پسند ہو ، اسے میں آپ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کر کے خوشی محسوس کروں گا۔ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے تمام غلاموں کو دیکھا اور ان میں سے زید بن حارثہ ؓ کا انتخاب کیا ، کیونکہ ذہانت اور شرافت اس کے چہرے سے ٹپکتی تھی ، تھوڑے ہی عرصے بعد حضرت خدیجہ ؓ نے سردار دو جہاں حضرت محمد ﷺ سے شادی کرلی ، اس موقعے پر آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حضرت خدیجہ ؓ نے تحفہ پیش کرنے کا ارادہ کیا تو انہیں زید بن حارثہ ؓ سے بہتر کوئی چیز دکھائی نہ دی ، چناچہ حضور ﷺ کی خدمت میں زید کو بطور تحفہ پیش کردیا۔ اس طرح یہ خوش نیبب غلام آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺ کے اعلیٰ وارفع اخلاق سے فیض یاب ہونے لگا۔ اس کی غمزدہ ماں کو پل بھر کے لئے چین نہ آرہا تھا ، وہ اس کی گمشدگی کے غم میں رو ، رو کر بےحال ہوچکی تھی ، کبھی آنسوخشک نہ ہوتے ، اپنے لاڈلے بیٹے کی محبت کا شعلہ جوالہ دل پر مسلسل دہکتا رہا ، غم واندوہ کے ایسے مہیب بادل چھائے کہ چھٹنے کا نام نہ لیتے ، ہر وقت اسی سوچ میں غلطاں وپریشان رہتی ، کیا میرا لخت جگر زندہ ہے کہ اس کی آمد کا انتظار کروں ؟ یا فوت ہوچکا ہے کہ ناامید ہوجائو ؟ باپ نے اپنے لخت جگر کی تلاش میں ملک کا کونہ کونہ چھان مارا ، ہرگز رنے والے قافلے سے پوچھا کہ لوگو ! مجھے بتائو میرا لخت جگر کہاں ہے ؟ میرے نور چشم کو زمین نگل گئی یا آسمان اچک کرلے گیا ؟ بعض اوقات غم واندوہ میں مبتلا ایسے دلدوز انداز میں شعر کہنے لگتا کہ سننے والوں کی جگر چھلنی ہوجاتے فی الحال چند اشعار کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔ ٭میں اپنے لخت جگر کی گمشدگی پر آنسو بہاتا ہوں ، مجھے علم نہیں کہ اس پر کیا گزری ، کیا وہ زندہ ہے کہ اس کی آمد کا انتظار کروں ؟ یا موت کے بےرحم پنجے نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا ؟ ٭بخدا میں نہیں جانتا میرے بیٹے تجھے کیا ہوا ؟ میں تو ہر راہی سے پوچھتا ہوں ، تجھے نرم زمین نے اپنی دامت میں چھپا لیا یا بلند وبالا پہاڑ نے۔ ٭ آفتاب اپنے طلوع کے وقت بیٹے کی یاد دلاتا ہے اور غروب کے وقت پھر اس کی یاد تازہ کردیتا ہے۔ ٭میں روئے زمین پر تیری تلاش میں اونٹ پر سوار سرگرداں پھر رہا ہوں اور میں اس سرگردانی سے نہیں اکتائوں گا۔ ٭بیٹے زندگی بھر تیری تلاش جاری رکھوں گا ، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے ، بالآخر ہر شخص کو فنا ہے اگرچہ امیدیں اسے دھوکے میں مبتلارکھیں۔ ایک سال حج کے موقع پر زید بن حارثہ ؓ کے خاندان کے چند افراد مکہ مکرمہ میں آئے ، وہ لوگ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر زید بن حارثہ ؓ پر پڑی ، انہوں نے اسے پہچان لیا اور زید ؓ نے بھی انہیں پہچان لیا ، آپس میں ایک دوسرے کے حالات معلوم کیے ، جب وہ حج سے فارغ ہوئے اور اپنے وطان واپس لوٹے تو ان کے باپ حارثہ کو اطلاع دی کہ تیرا بیٹا زندہ سلامت ہے اور وہ اس وقت مکہ میں ہے ، ہم نے بچشم خود اسے دیکھا ، اس سے باتیں کیں اور اس کے حالات معلوم کیے ہیں۔ خوشی کی یہ خبر سن کر حارثہ نے فوراً اپنی سواری تیار کی ، کچھ نقدی بھی اپنے ساتھ لے لی تاکہ بطور فدیہ ادا کی جاسکے اور اپنے بھائی کعب کہ ہم سفر بنایا ، دونوں تیز رفتاری کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے ، وہاں پہنچتے ہی رسول اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر بنایا ، دونوں تیزرفتاری کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے ، وہاں پہنچتے ہی رسول اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی : آپ ﷺ بیت اللہ کے ہمسایہ ہیں۔ مانگنے والوں کی جھولیاں بھردیتے ہیں ، بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں ، بےکسوں کی فریاد رسی کرتے ہیں ، ہم آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں اپنے بیٹے کے لئے حاضر ہوئے ہیں ، ہم نور چشم کو حاصل کرنے کی غرض سے بہت سا مال بھی لائے ہیں ، خدا را ہم پر رحم کیجئے۔ جو آپ ﷺ اس کی قیمت لینا چاہیں ہم بخوشی دینے کو تیار ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے ان باتیں سن کر ارشاد فرمایا : کون ہے تمہارا بیٹا جس کا مطالبہ کر رہے ہو ؟ ، عرض کیا : آپ ﷺ کا غلام زید بن حارثہ ؓ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں ایک ایسی تجویذ دوں جو فدیہ سے کہیں بہتر ہو ؟ دونوں نے تعجب سے پوچھا وہ کیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں اسے تمہارے سامنے بلاتا ہوں۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا پسند کرے تو اسے اختیار ہے ، بڑی خوشی سے لے جائیں ، میں اس کے بدلے کچھ بھی نہیں لوں گا ، لیکن اگر اس نے میرے پاس رہنے کو ترجیح دی تو پھر میں اسے تمہارے ساتھ جانے پر مجبور نہیں کروں گا۔ یہ تجویز سن کر دونوں خوشی سے بولے : آپ نے خدا لگتی ہے۔ آپ ﷺ نے عدل و انصاف کا حق ادا کردیا ہے ، ہمیں آپ ﷺ کی تجویز منظور ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید ؓ کو بلایا اور دریافت کیا : یہ دونوں کون ہیں ؟ عرض کی : یہ میرا باپ حارثہ بن شراجیل ہے اور یہ میرا چچا کعب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میری طرف سے تمہیں اختیار ہے ان کے ساتھ چلے جائو یا میرے پاس رہو ۔ حضرت زید ؓ نے یہ فرمان سنتے ہی بغیر کسی تردد کے عرض کی ۔ حضور ﷺ میں تو آپ ﷺ ہی کے ساتھ رہوں گا۔ باپ نے بیٹے کے منہ سے یہ کلمات سنے تو کیا : زید بڑے افسوس کی بات ہے ، کیا تو اپنے ماں باپ پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے۔ زید نے کہا : ابا جان ! میں نے یہاں حضور ﷺ کے جن اوصاف حمیدہ کا مشاہدہ کیا ہے اور جس طرح آپ ﷺ مشفقانہ انداز میں میرے ساتھ پیش آتے ہیں ، میں ان سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہوں ، لہٰذا میں انہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ جب رسول اکرم ﷺ نے زید بن حارثہ ؓ کا یہ اندازدیکھا اور اس کی طرف سے والہانہ محبت کے مظاہرے کا مشاہدہ کیا تو آپ ﷺ بہت خوش ہوئے ، جلدی سے اٹھے ، اس کا ہاتھ پکڑا سیدھے بیت اللہ تشریف لے گئے ، سردار ان قریش کے سامنے بآواز بلند ارشاد فرمایا : اے خاندان قریش گواہ رہنا ، یہ میرا بیٹا ہے ، یہ میرا وارث ہے اور میں اس کا وارث ہوں ، یہ اعلان سن کر حضرت زید ؓ کے چچا اور باپ حیران بھی ہوئے اور خوش بھی ، بہرحال یہ خوش آئند اعلان سن کر شاداں وفرحاں اپنے گھر روانہ ہوگئے ، اس دن سے زید بن حارثہ ؓ زید بن محمد ﷺ کے نام پکارنے جانے لگے ، آنحضرت ﷺ کے اعلان نبوت کے بعد حضرت زید ؓ کو زید بن محمد ﷺ کے نام سے پکارے جانے لگے ، آنحضرت ﷺ کے اعلان نبوت کے بعد حضرت زید ؓ کو بن محمد ﷺ کے نام سے پکارا جاتا رہا ، اور یہ سارے واقعات نبوت کے پیشتر کے ہیں۔ بعثت کے بعد ان سارے حالات کی اصلاح رسول اکرم ﷺ نے فرمادی اور اس اصلاح میں غلاموں کی درستگی کی الاح بھی شامل تھی۔ آپ ﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ لوگو ! تم نے ان کو غلام کیوں بنا لیا ماں کے پیٹ سے تو یہ آزاد ہی پیدا ہوئے تھے۔ حضرت زید بن حارثہ ؓ نے جس وقت رسول اکرم ﷺ کو اپنے ماں باپ پر ترجیح دی تھی ، اس وقت انہیں یہ علم نہ تھا کہ انہوں نے کوئی سی غنیمت حاصل کی ہے ، وہ یہ بھی نہ جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ بلند مرتبہ پر فائز ہونے والے ہیں یا آپ ﷺ کے سر پر نبوت کا تاج رکھا جائے گا اور آپ ﷺ کو پوری دنیا کی راہنمائی کے لئے رسول بنا کر بھیجا جائے گا ، انہیں یہ کبھی خیال تک نہ تھا کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جس میں آسمانی حکومت روئے زمین پر قائم ہوگی اور خطہ ارض کو عدل و انصاف اور امن و سکون کا گہوارہ بنادے گی اور انہیں اس عظیم سلطنت کے عالیشان محل کی پہلی اینٹ بننے کا شرف حاصل ہوگا۔ بلا شبہ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے ، وہ جسے چاہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑا ہی فضل وشرف والا ہے۔ حبیب کبریا ﷺ کو اپنے ماں باپ پر ترجیح دینے کے واقعے کو ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کو توحید خالص اور دین حق کا پیغام دینے کے لئے رسالت کے عظیم منصب پر فائز کردیا ، زید بن حارثہ ؓ وہ خوش نصیب انسان ہیں جو سب سے پہلے آپ ﷺ پر ایمان لائے۔ بھلا اس سے بڑھ کر کوئی شرف انسانی ہوسکتا ہے ، جس حصول کے لئے بڑھ چڑھ کر کوشش کی جائے ، حضرت زید بن حارثہ ؓ کو رازدان رسول ﷺ اور سپہ سالار لشکراسلام بننے کا اعزاز حاصل ہوا اور مدینہ منورہ میں حضور ﷺ کی نیابت کا عظیم شرف بھی ان کے حصے میں آیا۔ آپ ﷺ ایک غزوہ میں شرکت کے لئے باہر تشریف لے گئے تھے۔ جس طرح حضرت زید بن حارثہ ؓ نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ والہانہ محبت کا مظاہرہ کیا اسی آپ ﷺ بھی ان سے شفقت بھرے انداز سے پیش آئے اور انہیں اپنے خاندان کا ایک فرد بنا لیا ، جب کسی مشن کے لئے حضرت زید ؓ روانہ ہوتے تو آپ ﷺ ان کے لئے دعا کرتے ، جب اس مشن سے واپس لوٹتے تو آپ ﷺ دلی مسرت ہونے کا اظہار کرتے۔ پھر اس بات کو عملی طور پر ثابت کرنے کے لئے غلامی کا جھوٹا خطاف اسلام میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا اس کی عملی اصلاح کے لئے آپ ﷺ نے زید کو نکاح اپنی پھوپھی کی بیٹی زینب سے کروا دینا پسند کیا حالانکہ زید کے گھر اس سے پہلے ام ایمن آباد تھیں اور ان ام ایم میں سے اسامہ زید کا بیٹا بھی پیدا ہوا تھا۔ یہ نکاح اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر کے تحت ہوا جس میں ایک معاشرتی برائی کی اصلاح کی گئی تفصیل اس کی ام المومنین حضرت زینب بنت جحش ؓ کے عنوان میں آگے آنے والی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضرت زید بن حارثہ ؓ کی رسول اکرم ﷺ کے ساتھ ایک ملاقات کا منظر بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ : ایک دفعہ کا ذکر ہے زید بن حارثہ ؓ ایک سفر سے واپس مدینہ منورہ آئے ، رسول اکرم ﷺ میرے گھر تشریف فرما تھے ۔ اس نے دروازے پر دستک دی ، آپ ﷺ جلدی سے دروازہ کھولنے کے لئے اٹھے ، دروازہ کھولا تو سامنے زید بن حارثہ کو کھڑے پایا ، آپ ﷺ کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ، انہیں گلے لگایا ، ماتھا چوما ، بخدا میں نے پوری زندگی اس طرح کسی صحابی کو خوش آمدید کہتے ہوئے نہیں دیکھا ، اسی لئے حضرت زید بن حارثہ ؓ مسلمانوں میں حبیب رسول اللہ کے نام معروف تھے اور صحابہ نے حضرت زید ؓ کے بیٹے کو فرزند حبیب خدا کا نام دے رکھا تھا۔ 8؍ہجری میں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے چاہا کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے ایک جانثار اور اولاد کی طرح پیارے صحابی کی جدائی میں مبتلا کرے۔ ہوا یہ کہ آنحضرت ﷺ نے حارث بن عمیر ؓ کو ایک خط دے کر شاہ بصریٰ کی طرف روانہ کیا تاکہ اسے اسلام کی طرف دعوت دی جائے ، جب حضرت حارث بن عمیر ؓ یہ خط لے کر اردن کی مشرقی جانب مقام ” موتہ “ پر پہنچے تو وہاں امیر غسانہ شرجیل بن عمرو آپ کے سامنے آیا اور انہیں گرفتار کرکے قتل کردیا ، یہ اندوہناک خبر جب رسول اکرم ﷺ کے پاس پہنچی تو آپ ﷺ کو بہت صدمہ ہوا ، تین ہزار مجاہدین پر مشتمل لشکر جنگ موتہ کے لئے روانہ کیا اور اس لشکر کا سپہ سالار حضرت زید بن حارثہ ؓ کو مقرر کیا۔ ارشاد فرمایا کہ : اگر زید شہید ہوجائیتوجعفر بن ابی طالب ؓ کو لشکر کی قیادت سونپی جائے اور اگر جعفر شہید ہوجائیتو عبداللہ بن رواحہ ؓ کو قائد لشکر بنادیا جائے اور اگر اسے بھی شہید کردیا جائے تو پھر مجاہدین اسلام اپنے سے جسے بہتر سمجھیں اپناقائد بنالیں۔ لشکر اسلام اللہ کا نام لے کر روانہ ہوا۔ اردن کی مشرقی جانب ” معان “ مقام پر پہنچا تو شاہ روم ایک لاکھ فوج لے کر مقابلے میں اترا اور اس کے ساتھ مشرکین عرب میں سے ایک لاکھ افراد شامل ہوگئے اور یہ لشکر خم ٹھونک کر مسلمانوں کے بالمقابل آکھڑا ہوا۔ مسلمان ” معان “ مقام پر دو راتیں آپس میں مشورے اور جنگی نقطہ نگاہ سے منصوبہ بندی کرتے رہے ۔ ایک مجاہد نے رائے دی کہ ہمیں دشمن کی تعداد کے متعلق رسول اکرم ﷺ کو بذریعہ خط اطلاع دینی چاہیے اور آپ ﷺ کے حکم کا انتظار کرنا چاہیے۔ دوسرے نے کہا : اللہ کی قسم نہ تو ، ہم تعداد کے بل بوتے پر پڑتے ہیں اور نہ ہی قوت اور کثرت کی بنیاد پر ! ہم تو صرف اس دین متین کی حفاظت کے لئے برسرپیکار ہیں۔ میرے ساتھیوں ! جو مقصد لے کر میدان جہاد کی طرف نکلے ہو ہمیشہ اسے پیش نظر رکھو۔ اللہ تعالیٰ نے دو انعامات میں سے ایک کی تمہیں ضمانت دی ہے۔ یا فتح نصیب ہوگی… یا پھر جام شہادت نوش کرو گے۔ مقام ” موتہ “ پر دونوں فوجیں بالمقابل آئیں۔ لشکراسلام صرف تین ہزار افراد پر مشتمل تھا لیکن دشمن کی فوج دو لاکھ افراد پر مشتمل تھی ، اس جنگ میں مسلمان ایسی بےجگری سے لڑے کی رومی فوج کے چھکے چھڑا دیئے ، دشمنوں کے دلوں پر لشکر اسلام کی دھاک بیٹھ گئی۔ رسول اللہ ﷺ کے عطا کردہ جھنڈے کی حفاظت کے لئے سپہ سالار حضرت زید بن حارثہ ؓ نے ایسی جوانمردی کے ساتھ جنگ لڑی کہ جنگی کارناموں کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ بالآخر دشمن کے نیزوں نے آپ کے جسم کو چھلنی کردیا اور آپ شہید ہوگئے ، ان کے بعد جھنڈا حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ نے تھام لیا اور اس کی حفاظت کے لئے بڑی جانفشانی سے دشمن کے مقابلے میں نبرد آزما رہے۔ یہاں تک کہ جام شہادت نوش کیا ، ان کے شہید ہوجانے کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے آگے بڑھ کر جھنڈا تھام لیا اور ایسی بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا کہ دیکھنے والے ششدرہ رہ گئے ، لیکن بالآخر لڑتے لڑتے اللہ کو پیارے ہوگئے ، ان کے بعد حضرت خالد بن ولید ؓ کو سپہ سالار منتخب کیا گیا ، ابھی آپ نئے نئے حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے لیکن آپ نے اپنے تجربات کی بنا پر ایسی جنگی تدبیر اختیار کی کہ لشکر اسلام کی ہزیمت سے بچا لیا۔ جب جنگ ” موتہ “ کی خبر رسول اللہ ﷺ کو پہنچی اور لشکر اسلام کے تین سپہ سالاروں کی شہادت کا علم ہوا تو آپ ﷺ اتنے غمگین ہوئے کہ اس سے پہلے کبھی آپ ﷺ کو اس طرح حالت غم میں نہیں دیکھا گیا اور آپ ﷺ خبر سنتے ہی فوری طور پر تعزیت کے لئے ان کے اہل خانہ کے پاس گئے۔ جب آپ ﷺ حضرت زید بن حارثہ ؓ کے گھر پہنچے تو ان کی چھوٹی بیٹی آپ سے چمٹ کر زاروقطار رونے لگی ، رسول اللہ ﷺ بھی آبدیدہ ہوگئے ، یہ منظر دیکھ کر حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ ! کیا آپ ﷺ بھی رو رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اس رونے سے میں نے کب منع کا و ہے ؟۔ یہ ایک حبیب کا اپنے حبیب کے غم میں رونا ہے۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ ہجرت سے سات سال پہلے مکہ معظمہ میں رسول اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ قریش کے ہاتھوں ظلم وستم کا نشانہ بنتے ہیں۔ تبلیغی میدان میں مسلسل آپ ﷺ پر حزن وملال ، غم واندوہ اور مصائب وآلام کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں ، اسی تلاطم خیز دور میں آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں ایک خوشی کی لہر دوڑتی ہے ، کسی نے آپ کو خوشخبری سنائی کہ ام ایمن کے گھر اللہ نے بیٹا عطا کیا ، یہ خبر سن کر آپ ﷺ کے روئے انور پر بےانتہا خوشی کے آثار دکھائی دینے لگے ، کیا آپ کو معلوم ہے یہ خوشی بخت نومولود کون ہے جس کی ولادت سے رسول ﷺ کو اس قدر خوشی ہوئی ؟ ” یہ نومولود اسامہ بن زید ؓ تھے۔ “ صحابہ کرام میں سے کسی کو بھی رسول اکرم ﷺ کی اس بےانتہا خوشی پر تعجب نہ ہوا کیونکہ سبھی اس نومولود کے والدین کا حضور ﷺ کے ساتھ قریبی تعلق جانتے تھے ، اسامہ کی والدہ برکت نامی ایک حبشی عورت تھی ، جو ام ایمان کے نام سے مشہور ہوئی اور یہ رسول اکرم ﷺ کی والدہ ماجدہ کی کنیز بھی رہ چکی تھی ، انہیں یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ جب حضور ﷺ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تو انہوں نے آنحضرت ﷺ کو اپنی گود میں لے لیا اور آپ ﷺ کی نگہداشت کی ، آپ ﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ام ایمن میری ماں کی مانند ہے اور یہ میریاہل بیت میں سے ہے۔ یہ تو ہے اس خوش نصیب نومولود کی والدہ محترمہ کا تعارف ، رہا اس کا باپ تو وہ محبوب خدا ﷺ کا متنبی حضرت زید بن حارثہ ؓ ہیں نزول قرآن مجید سے پہلے آپ ﷺ نے اسے اپنا بیٹا قرار دیا تھا ، حضروسفر میں انہیں آپ ﷺ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا ، علاوہ ازیں راز دان رسول ﷺ ہونے کی سعادت بھی ان کے حصے میں آئی۔ حضرت اسامہ بن زید کی ولادت پر سبھی مسلمان اتنے خوش ہوئے کہ کبھی کسی ولادت پر اتنے خوش نہیں ہوئے تھے ، اس لئے کہ جس چیز سے نبی کریم ﷺ کو خوشی حاصل ہوتی صحابہ کرام کے لئے بھی وہ خوشی کا باعث بنتی۔ صحابہ کرام نے اسامہ کو لقب حب النبی دے دیا ، انہوں نے اس نومولود کو یہ لقب دینے میں کسی مبالغے سے کام نہیں لیا تھا ، حقیقتاً رسول اللہ ﷺ کو ان سے اتنا پیار تھا کہ سب مسلمان اس پر رشک کناں تھے۔ حضرت اسامہ ؓ حضور ﷺ کے نواسے حضرت حسن بن فاطمۃ الزہرا کے ہم عمر تھے ، حضرت حسن ؓ تو اپنے نانا ﷺ کی طرح حسین و جمیل تھے لیکن اسامہ اپنی حبشی والدہ ام ایمن کی ماند سیاہ رنگ اور چپٹے ناک والے تھے ، لیکن رسول اکرم ﷺ ان دونوں سے یکساں پیار کرتے تھے۔ شفقت بھرے انداز میں اسامہ کو ایک ران پر ، کبھی دونوں کو اپنے سینے سے لگاتے اور یہ دعا کرتے۔ الٰہی ! میں ان دونوں بچوں سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی انہیں اپنا محبوب بنالے۔ غرضیکہ اسامہ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کو بہت پیار تھا ، ایک دفعہ اسامہ ؓ دروازے کی دہلیز پر لڑکھڑا کر گر پڑے ، جس سے پیشانی پر زخم آیا اور خون بہنے لگا ، نبی اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو اشارہ کیا کہ اس کا خون صاف کردیں لیکن صدیقہ کائنات ؓ کسی مصروفیت کی وجہ سے اس طرف فوری توجہ نہ دے سکیں ، نبی ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے ان کا خون صاف کیا۔ جس طرح بچپن میں حضرت اسامہ ؓ سے آپ ﷺ نے پیار کیا اسی طرح جوانی میں بھی ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک قریش سردار حکیم بن حزام نے ایک قیمتی لباس رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیا ، جسے اس نے یمن سے پچاس دینار میں خریدا تھا اور یہ لباس شاہ یمن کے لئے بطور خاص تیار کیا گیا تھا ، آپ ﷺ نے یہ تحفہ لینے سے انکار کردیا ، کیونکہ حکیم بن حزام ان دنوں مشرک تھا ، البتہ آپ ﷺ نے اس سے وہ لباس قیمتاً خرید لیا ، یہ بہترین لباس آپ ﷺ نے صرف ایک مرتبہ جمعہ کے روز پہنا ، پھر حضرت اسامہ بن زید ؓ کو عطا کردیا اور وہ یہ لباس پہن کر صبح وشام شاداں وفرحاں اپنے مہاجر وانصار نوجوان ساتھیوں کے پاس آیا کرتی تھے۔ جب اسامہ بن زید ؓ جوان ہوئے تو عمدہ عادات اور اعلیٰ اخلاق سے متصف تھے ، اسکے علاوہ حد درجہ کے ذہین ، بہادر ، دانش مند ، پاکدامن ، نرم خو اور پرہیزگار تھے ، ان اوصاف حمیدہ کی بنا پر وہ لوگوں کی نگاہ میں پسندیدہ شخصیت قرار دیئے گئے ، غزوہ احد میں اسامہ بن زید ؓ اپنے ہم عمر بچوں کے ہمراہ میدان جہاد کی طرف نکلے۔ ان میں بعض کو تو جہاد کے لئے قبول کرلیا گیا اور بعض کو بہت چھوٹی عمر کی بنا پر شامل جہاد نہ کیا گیا ، جنہیں شامل نہ کیا گیا ان میں اسامہبن زید ؓ بھی تھے ، جب واپس لوٹے تو زاروقطار رو رہے تھے کیونکہ انہیں رسول اکرم ﷺ کے جھنڈے تلے راہ خدا میں جہاد کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔ غزوہ خندق میں حضرت اسامہ بن زید ؓ اپنے ہم عمر نوجوانوں کے ہمراہ میدان کی طرف نکلے تو اپنے پنجوں کے بل اونچے ہو کر چلنے لگے کہ کہیں آج بھی نوعمری کی بنا پر جہاد میں شریک ہونے سے محروم نہ کردیئے جائیں ، ان کی یہ حالت دیکھ کر نبی اکرم ﷺ بہت خوش ہوئے اور انہیں جہاد میں شریک ہونے کی اجازت دے دی ، جب حضرت اسامہنے راہ خدا میں جہاد کے لئے تلوار اٹھائی اس وقت اس کی عمر صرف پندرہ برس تھی۔ غزوہ حنین میں جب مسلمان شکست سے دو چار ہوئے تو اس نازک ترین موقعے پر اسامہ بن زید ؓ حضرت عباس ؓ ، ابوسفیان بن حارث ؓ اور دیگر چھ صحابہ کرام میدان کار زار میں ثابت قدم رہے ، اس چھوٹے سے بہادج تھے کی بنا پر رسول اکرم ﷺ کے لئے یہ آسانی پیدا ہوئی کہ اللہ نے شکست کو فتح میں بدل دیا اور بھاگنے والے مسلمانوں کہ ہزیمت سے بچا لیا۔ جنگ موتہ میں حضرت اسامہ نے اپنے باپ زید بن حارثہ ؓ کی قیادت میں جہاد کیا ، اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال سے بھی کم تھی ، اپنی آنکھوں سے اپنے باپ کی شہادت کا منظر دیکھا ، لیکن حوصلہ نہ ہارا ، بلکہ حضرت جعفر بن ابی طالب کی قیادت میں کفار سے نبرد آزما رہے ، یہاں تک کہ یہ سپہ سالار بھی اللہ کو پیارا ہوگیا۔ پھر عبداللہ بن رواحہ ؓ نے لشکر اسلام کی قیادت سنبھالی لیکن تھوڑی ہی دیر بعد یہ بھی شہید ہوگئے تو حضرت خالد بن ولید ؓ کے جھنڈے تلے کفار سے نبردآزمائی کا موقع آیا انہوں نے ایسی جنگی حکمت عملی اختیار کی کہ جس سے یہ لشکر اسلام کو روم کے مضبوط آہنی پنجے سے چھڑانے میں کامیاب ہوگئے۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ نے رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے لشکر اسلام کو تیاری کا حکم صادر فرمایا اور اس لشکر میں حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت سعد ابی وقاص ؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ جیسے جلیل القدر صحابہ موجود تھے۔ حضور ؓ نے اس لشکر کا امیر حضرت اسامہ بن زید ؓ کو مفرر کیا جبکہ ان کی عمر ابھی صرف بیس سال تھی ، انہیں حکم دیا کہ علاقہ بلقاء اور قلعہ داروم کو اپنے پائوں تلے روند ڈالیں ، جو کہ بلاد روم کے غزہ نامی شہر کے قریب وقع ہے۔ یہ لشکر ابھی تیاری میں مصروف تھا کہ رسول اکرم ﷺ بیمار ہوگئے ، جب مرض نے شدت اختیار کی تو لشکر اس صورت حال کو دیکھ کر روانہ ہوا۔ حضرت اسامہ ؓ فرماتے ہیں : جب نبی اکرم ﷺ پر بیماری کا شدید حملہ ہوا تو میں اور میرے چند ساتھی تیمار داری کے لئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، بیماری کی شدت کی بنا پر آپ ﷺ بالکل خاموش تھے ، آپ ﷺ اپنا ہاتھ اوپر اٹھاتے پھر اسے مجھ پر رکھ دیتے ، میں سمجھ گیا کہ آپ ﷺ میرے حق میں دعا کر رہے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد حبیب کبریا ﷺ اللہ کو پیارے ہوگئے ، اب حضرت ابوبکر ؓ کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔ تمام صحابہ نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ نے خلیفہ منتخب ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ حضرت اسامہ بن زید ؓ کی قیادت میں لشکر اسلام کو اس مشن پر روانہ کیا جس کا حکم رسول اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں دیا تھا لیکن انصار میں سے چند صحابہ کی یہ رائے تھی کہ لشکر کی روانگی میں کچھ تاخیر کی جائے تو بہتر ہوگا ، انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں حضرت حضرت ابوبکر ؓ سے بات کریں اور ساتھ ہی یہ مشورہ دیا کہ اگر حضرت ابوبکر ؓ لشکر کی فوری روانگی پر مصر ہوں تو ہماری طرف سے انہیں یہ پیغام دیں کہ ہمارا امیر کسی ایسے کو بنایا جائے جو حضرت اسامہ بن زید ؓ سے زیادہ عمررسیدہ اور تجربہ کار ہو ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت عمر ؓ کی زبانی انصار کا یہ پیغام سنا تو غضبناک ہوگئے اور غصے کی حالت میں فاروق اعظم ؓ سے فرمایا : اے ابن خطاب کتنے افسوس کی بات ہے رسول اللہ ﷺ نے تو اسامہ کو امیر لشکر بنایا اور تم مجھے مشورہ دیتے ہو کہ میں اسے معزول کردوں ، اللہ کی قسم یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ جب حضرت عمر ؓ لوگوں کے پاس واپس لوٹے تو انہوں نے دریافت کیا کہ خلیفۃ المسلمین نے کیا جواب دیا ؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : تمہیں تمہاری مائیں گم پائیں ، جلدی سے اپنے مشن پر چل نکلو ، میں نے آج تمہاری وجہ سے خلیفہ رسول کو ناراض کیا۔ جب یہ لشکر اپنے نوجوان قائد کی زیر کمان روانہ ہوئے تو خلیفہ رسول سیدنا ابوبکر ؓ انہیں الوداع کہنے کے لئے تھوڑی دیور تک پیدل چلے جبکہ حضرت اسامہ بن زید ؓ گھوڑے پر سوار تھے۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ نے کہا : اے خلیفہ رسول ! بخدا یا تو آپ بھی گھوڑے پر سوار ہوجائیں ورنہ میں گھوڑے سے اترتا ہوں۔ صدیق اکبر ؓ نے ارشاد فرمایا : بخدا ! نہ تو آپ نیچے اتریں گے اور نہ ہی میں سوار ہوں گا… پھر فرمایا : کیا میرے لئے یہ عزاز نہیں کہ کچھ عرصے کے لئے اپنے پائوں اللہ کی راہ میں غبار آلود کروں ؟ حضرت اسامہ بن زید ؓ کو دعائیں دے کر جہاد پر روانہ کیا اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے تمہیں جو وصیت کی ہے اس کے مطابق سرگرم عمل رہنا ، پھر سرگوشی کے انداز میں فرمایا اگر حضر عمر ؓ کو میری معاونت کے لئے میرے پاس رہنے دیں تو بہتر ہوگا۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ نے آپ کی رائے سے اتفاق کیا اور حضرت عمر ؓ کو وہیں رہنے دیا۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ لشکر کو لے کر چل پڑے اور اس مشن کی کامیابی کے لئے ہر وہ کوشش کی جس کا رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا ، پہلے مرحلے پر لشکر اسلام نے سرزمین فلسطین میں بلقاء اور قلعہ داروم کو فتح کیا ، مسلمانوں کے دلوں سے روم کی سلطنت کا رعب ودبدبہ ختم کردیا۔ دیار شام ، مصر اور شمالی افریقہ کو فتح کرکے بحر ظلمات تک اسلامی سلطنت کا جھنڈا لہرا دیا۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ اس مہم کو سر کرکے بڑی شان و شوکت سے اپنے والد گرامی کے تیزرفتار گھوڑے پر سوار ہوئے اور کثیر مقدار میں مال غنیمت کے ساتھ بخیروعافیت لوٹے ، یہاں تک کہ یہ بات لوگوں میں مشہور ہوگئی کہ حضرت اسامہ ؓ کے لشکر سے بڑھ کر آج تک کوئی لشکر اتنی کثرت سے مال غنیمت نہیں لایا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا مسلمانوں کے دلوں میں حضرت اسامہ بن زید ؓ کی قدرو منزلت بڑھتی گئی اور یہ عزت ووقار اور عظمت وشان رسول اکرم ﷺ کے ساتھ وفاداری کے نتیجے میں آپ کو میسر آئی۔ فاروق اعظم ؓ نے اپنے دور خلافت میں حضرت اسامہ بن زید ؓ کے لئے اپنے بیٹے سے زیادہ وظیفہ مقرر کیا تو بیٹے نے عرض کی اباجان ! آپ نے اسامہ کے لئے چار ہزار اور میرے لئے تین ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا ہے حالانکہ اس کے باپ کو وہ فضیلت حاصل نہ تھی جو آپ کو حاصل ہے اور اسامہ کو وہ مقام نہیں جو میرا ہے۔ بیٹے کی یہ بات سن کر فاروق اعظم ؓ نے ارشاد فرمایا : بیٹے افسوس تجھے علم نہیں۔ سنو ! اس کا باپ تیرے باپ سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کو عزیز تھا اور یہ خود بھی آنحضرت ﷺ کو تجھ سے زیادہ پیارا تھا۔ یہ جواب سن کر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ خاموش ہوگئے اور اسی وظیفہ پر راضی ہوگئے جوان کے لئے مقرر لیا گیا تھا ، حضرت عمر بن خطاب ؓ جب بھی اسامہ ؓ سے ملتے تو خوشی سے پکار اٹھتے ، خوش آمدید میرا سردار آگیا ، جب کوئی ان سے اس والہانہ انداز پر تعجب کرتا تو فرماتے ، تمہیں معلوم نہیں ایک موقع پر رسول اکرم ﷺ نے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو میرا امیر بنایا تھا۔ ان قدسی نفوس پر اللہ رحمت کی برکھا برسائے ، بلا شبہ رسول اکرم ﷺ کے صحابہ کرام انسانیت کے اعلیٰ واکمل اور افضل مقام پر فائز تھے ، تاریخ نے کبھی ان جیسے قدسی انسانوں کو نہیں دیکھا۔ مختصر یہ کہ صحابہ کرام کے سینوں پر انوار رسالت براہ راست پڑتے تھے ، انہوں نے اپنا گھر بار اور اپنا مال ومتاع بلکہ یوں کہئے کہ اپنا سب کچھ نبی اعظم وآخر ﷺ کی خاطر لٹا دیا تھا ، اس کی ایک مختصر جھلک ایمان کی تازگی بخشے گی کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کا تذکرہ بلا شبہ ایمان کی اصل غذا ہے اور اس تذکرہ میں بعض صحابہ کرام کا نام آنا ناگزیر ہے کیونکہ اس تذکرہ سے صحابہ کرام کے مدارج کی وضاحت بھی ہوجاتی ہے اور ظاہر ہے کہ پہلے آنے والے کا نام پہلے ہی آتا ہے اور اسی سے ان کے درجات کی وضاحت بھی ہوجاتی ہے جو ایک فطری امر ہے۔
Top