Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 22
وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ١ۙ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ١٘ وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّ تَسْلِیْمًاؕ
وَلَمَّا
: اور جب
رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ
: مومنوں نے دیکھا
الْاَحْزَابَ ۙ
: لشکروں کو
قَالُوْا
: وہ کہنے لگے
ھٰذَا
: یہ ہے
مَا وَعَدَنَا
: جو ہم نے کو وعدہ دیا
اللّٰهُ
: اللہ
وَرَسُوْلُهٗ
: اور اس کا رسول
وَصَدَقَ
: اور سچ کہا تھا
اللّٰهُ
: اللہ
وَرَسُوْلُهٗ ۡ
: اور اس کا رسول
وَمَا
: اور نہ
زَادَهُمْ
: ان کا زیادہ کیا
اِلَّآ
: مگر
اِيْمَانًا
: ایمان
وَّتَسْلِيْمًا
: اور فرمانبرداری
اور جب مومنوں نے لشکروں کو دیکھا تو وہ بول اٹھے کہ یہ تو وہی (شکار) ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا تھا اور ان کا ایمان اور اطاعت شعاری مزید بڑھ جاتی ہے
(سابقہ آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ) نبی اعظم وآخر ﷺ کا صدق نبوت سے پہلے بھی معروف تھا 13 ۔ نبی کریم ﷺ کے صدق وسچائی کے متعلق کچھ لکھنے کی حاجت نہیں ہے کیونکہ یہ تو آپ ﷺ کا وہ وصف خاص ہے جس میں آپ ﷺ کو بعثت سے برسوں پہلے ہی شہرت حاصل ہوچکی تھی اور جس سے آپ ﷺ کے اس زمانہ کے شدید ترین اعداء نے بھی انکار نہیں کیا اس کے سواریوں بھی صدق باقی تمام محاسن اخلاق کا سنگ بنیاد ہے اور جب تک کسی طبیعت میں پوری سچائی نہ ہو تب تک اس میں کوئی اور اعلیٰ خوبی ہونی ممکن ہی نہیں ہے اس لئے اس جامع صفات حسنہ ﷺ کے صدق پر واقعات سے استدلال کرنا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ اس معاملہ میں جو کچھ عرض کررہا ہوں محض تقلید اور اتباع کے لئے ہے کہ یہ آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کا بیان ہے اس لئے اس کا بیان اس میں آجائے تاکہ کوئی شخص اس کو خارج نہ قرار دے چونکہ کذب کا یہاں گزرہی نہیں بلکہ اس راہ میں جو کچھ ہے صدق ہی صدق ہے۔ اس لئے سچائی کے بیان میں نبی کریم ﷺ کی تعلیم کا اندازہ اسی ایک ہی حدیث سے کیا جاسکتا ہے اور اگر گوش شنوا ہو تو یہی ایک نصیحت عمر بھر کی اصلاح کے لئے کفایت کرتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ! جنت پانے کا عمل کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا صدق کیونکہ جب آدمی سچا ہوتا ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا ہی تو نور ایمان پیدا ہوتا ہے اور جب ایماندار ہوتا ہے تو جنت میں داخل ہوتا ہے۔ (ترغیب و ترہیب ص 501) ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ خبردار ہمیشہ سچے رہو خواہ تم کو سچائی میں ہلاکت ہی کیوں نہ نظر آئے کیونکہ بلا شبہ نجات اسی میں ہے۔ (ترغیب وترہیب ص 501) ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا دیکھو ہمیشہ صدق پر جمع رہو کیونکہ صدق نیکوکاری کی طرف لے جاتا ہے اور نیکوکاری جنت کی طرف رہبری کرتی ہے اور جو شخص ہمیشہ سچ پر قائم رہتا ہے وہ بارگاہ الٰہی میں صدیق لکھا جاتا ہے اور خبردار جھوٹ سے بچو ! کیونکہ جھوٹ بدکاری کی طرف لے جاتا ہے اور بدکاری آگ کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور جو شخص جھوٹا ہوتا ہے وہ بارگاہ کبریائی میں کذاب لکھا جاتا ہے۔ (بخاری ، مسلم ، ابودائود ، ترمذی)… آپ ﷺ کی سچائی اور راست بازی اتنی اعلیٰ درجہ کی تھی کہ زبان صدق بیان پر تو کیا کبھی آپ ﷺ کے خیال میں بھی کوئی غلط بات نہیں گزری تھی اور گزشتہ کے متعلق آپ ﷺ جو کچھ فرماتے تھے وہ تو درست ہوتا ہی تھا لیکن خیالات کی راست بازی کا اتنا اثر تھا کہ آئندہ کی بات بھی جو آپ ﷺ کی زبان مبارک سے نکلتی تھی اللہ تعالیٰ اس کو سچ کردیتا تھا چناچہ اس کے بیسیوں مستند واقعات ہیں کہ آپ ﷺ نے کسی شخص یا کسی واقعہ کی بابت کچھ فرمایا اور وہ بعد میں بعینہ وہی ہوا لیکن اس پر آپ ﷺ نے کبھی پیش گوئی یا غیب دانی کا دعوی نہیں کیا بلکہ اس سے قطعی انکار فرمایا۔ آپ ﷺ کی یہ صفت اتنی مشہور ومعروف تھی کہ آپ ﷺ کے اعداء و مخالفین تک کو اس سے انکار نہ تھا چناچہ روایت ہے کہ جنگ بدر میں اخنس بن شریک ابوجہل سے ملا تو اس نے اس سے کہا اے ابوالحکم ! میں تجھ سے ایک بات پوچھتا ہوں یہاں ہم دونوں کے سوا اور کوئی تو ہماری بات سننے والا نہیں ہے تو مجھے سچ سچ بتادے کہ آیا محمد ﷺ سچا ہے یا جھوٹا ؟ تو ابوجہل نے جو ای دیا کہ واللہ بلا شبہ محمد ﷺ سچ بولتا ہے اور اس نے کبھی غلط بیانی نہیں کی۔ (شفا قاضی عیاض 59) اور بلا شبہ بات کی تو آپ ﷺ نے وحی آتے ہی قوم سے تصدیق کرالی تھی کہ سچائی میں آپ ﷺ سے بڑھ کر اس دھرتی میں اور کوئی وجود نہیں دیکھا اور پوری قوم اس بات کا اعتراف کرتی تھی۔ حالی نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ؎ وہ فخر عرب زیب محراب و منبر تمام اہل مکہ کو ہمراہ لے کر گیا ایک دن حسب فرمان داور سوئے دشت اور چڑھ کے کوہ صفا پر نہ فرمایا سب سے کہ اے آل غالب سمجھے ہو تم مجھ کو صادق کہ کاذب “ کہا سب نے قول آج تک کوئی تیرا کبھی ہم نے جھوٹا سنا اور نہ دیکھا کہا گر سمجھتے ہو تم مجھ کو ایسا تو باور کرو گے اگر میں کہوں گا ؟ کہ فوج گراں پشت کوہ صفا پر پڑی ہے کہلوٹے تمہیں گھات پاکر کہا تیری ہر بات کا یاں یقین ہے کہ بچپن سے صادق ہے تو اور ا میں ہے کہا گر مری بات یہ دل نشیں ہے تو سن لو خلاف اس میں اصلا نہیں ہے کہ اس سب قافلہ یاں سے ہے جانے والا ! ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نصیر بن حارث ایک دن آپ ﷺ کے متعلق اکابر قریش سے کہنے لگا کہ محمد ﷺ جب تم میں نو عمر لڑکا تھا تب وہ تم میں سب سے زیادہ پسندیدہ کردار ، راست گفتار اور امانت دار سمجھا جاتا تھا مگر اب جب کہ اس کی داڑھی کے بال سفید ہوگئے اور اس نے تم سے وہ باتیں کہنی شروع کیں جو وہ کہتا ہے تو اب تم کہتے ہو کہ وہ جادوگر ہے۔ نہیں خدا کی قسم وہ جادوگر نہیں ہی ہم نے جادو گروں کے شعبدے دیکھے ہیں اور تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے تو واللہ وہ کاہن بھی نہیں ہم شعر کی تمام اصناف سے بھی واقف ہیں پس اے معشر قریش ! تم اس معاملہ پر غور کرو اللہ تم پر یہ ایک امر عظیم واقع ہے۔ (سیرت ابن ہشام ص 159) بلا شبہ قریش مکہ زیادہ تر اپنی ضد اور غرور ونخوت کی وجہ سے اسلام نہیں لاتے تھے بہرحال اس سے ہم کو بحث نہیں لیکن یہ یقینی امر ہے کہ آپ ﷺ کی کامل راست بازی پر آپ ﷺ کے سخت سے سخت دشمن کو بھی کسی حرف گیری کا موقع نہیں ملا۔ ابوسفیان جیسے مخالف نے قیصر کے سامنے بھری مجلس میں یہ اعتراف کیا کہ محمد ﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور آج تک جو کچھ کہا بالکل سچ کہا تو اس سے بڑی شہادت وگواہی اور کیا ہوسکتی ہے۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کا حیاء بلا شبہ ضرب المثل تھا 14 ۔ قدرت نے انسان کے جذبات حیوانی کی لگام اور اس کے قوائے شہوانی کا انتظام حیا کے ہاتھ میں رکھا ہے اور فقط یہی نہیں بلکہ اس کے ذریعہ سے اور بہت سی برائیوں کی بھی روک تھام کی ہے۔ آج کل کی تہذیب میں حیا کی کچھ زیادہ تاکید نہیں کی جاتی بلکہ اسے ایک حد تک صرف صنف ضعیف کے لئے مخصوص اور فرقہ اناث کے واسطے موذوں سمجھا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ اس تہذیب کی غلطی ہے اور الحیاء من ال ایمان کے اصول کی صحت میں کچھ تغیر نہیں ہوا چونکہ غالباً ناظرین خود اپنے ذاتی تجربے سے اس کی تصدیق کرسکیں گے اس لئے مجھے اس بحث کی مزید ضرورت نہیں بہرحال فضائل انسانی میں سے حیا کو نکال لیجئے اور دیکھئے کہ انسانیت کا کتنا بڑا جز غائب ہوجاتا ہے اور ایک گھوڑے اور آدمی میں کتنا فرق رہ جاتا ہے ۔ بلا شبہ یہ درست ہے کہ مکارم اخلاق کی طرح حیا کا بھی غلط استعمال ہوسکتا ہے اور اس میں بھی افراط وتفریظ ممکن ہے لیکن اس سے اس صفت کی پاکیزگی پر کچھ اثر نہیں پڑتا اور اگر ہم ذرا غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اتنی عمدہ خصلت ہے کہ اگر کسی شخص میں حیا کے سوا اور کوئی خوبی نہ ہو تب بھی وہ صرف اس کی وجہ سے ہر قسم کی برائیوں سے بچ سکتا ہے کیونکہ بےحیائی کو ارتکاب فواحش کا دروازہ سمجھنا چاہیے۔ جب تک یہ درازہ نہیں کھلتا اور آنکھوں میں شرم اور دل میں غیرت باقی رہتی ہے تب تک ناکردنی حرکات کی طرف قدم ہی نہیں بڑھتا اور یوں اگر آدمی نیکی نہ بھی کرے تب بھی بدی سے محفوظ رہتا ہے۔ حیاء کے کئی درجے ہیں سب سے پہلا درجہ تو یہ ہے کہ آدمی کو غیروں کے سامنے کوئی ناشائستہبات کرتے ہوئے شرم آئے اور اگرچہ یہ درجہ بہت ابتدائی اور معمولی ہے مگر پھر بھی بہت سی ظاہری برائیاں اس سے چھوٹ جاتی ہیں ، اس سے ترقی ہوتی ہے تو آدمی اپنے عزیزوں اور گھر والوں سے بھی شرم کرنے لگتا ہے اور اس سے بہت سی ایسی قباحتیں دور ہوجاتی ہیں جو بیرونی نظروں کی دنیا سے چھپ کر گھر کی چار دیواری کے پردے میں ظاہر ہوتی ہیں لیکن سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی کو اپنے آپ سے بھی شرم آنے لگے یا بہ الفاظ دیگر وہ اللہ تعالیٰ سے شرم کرنے لگے ظاہر ہے کہ اس صورت میں وہ اپنے آپ کو بدکرداریوں ہی سے نہیں بلکہ بدگمانیوں سے بھی بچائے گا اور حتی المقدور اپنے دل میں کسی قسم کا ناپاک اور شرمناک خیال تک نہ گزرنے دے گا کیونکہ وہ اپنے آپ کو کسی خلوت کدے میں بھی تنہا نہ پائے گا اور اسے دل کے مخفی پردوں اور دماغ کے تاریک گوشوں میں گناہ کی تصویر کو پناہ دینے کی جسارت نہ ہوگی اسی لئے ارشاد نبوی ہے کہ خلق الاسلام الحیاء (مشکوٰۃ ص 268) ” اسلام کی خاص خصلت حیاء ہے “ نبی اعظم وآخر ﷺ کی ذات بابرکات یوں تو تمام صفات حمیدہ کی بہترین مثال ہے اس لئے آپ ﷺ میں حیاء کا بھی علیٰ وجہ الکمال پایا جانا کچھ عجیب بات نہیں ہے لیکن تعجب تو یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے کس زمانے میں کس قسم کے لوگوں کے سامنے حیا اور غیرت کا کیسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ پیش کیا کہنے کو تو عرب اپنے آپ کو بڑی ناک والا کہتے تھے مگر حالت یہ تھی کہ برہنگی ان کے لئے کچھ باعث شرم نہ تھی یہاں تک کہ حج میں ننگے ہو کر طواف کرتے تھے ، پھر جب ستر غلیظ چھپانے کی پروانہ ہو وہاں شرم و غیرت کیا ہوگی۔ شان خداوندی کہ انہی لوگوں میں نبی کریم ﷺ مبعوث ہوئے اور آپ ﷺ کے حیا کی یہ حالت تھی کہ امہات المومنین تک نے کبھی آپ ﷺ کو برہنہ نہیں دیکھا۔ (شمائل ترمذی ص 28) اور ابو سعید خدری ؓ کی معروف حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ شریف پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے اور جب کوئی بات آپ ﷺ کو ناپسند ہوتی تھی تو ہم لوگ فوراً آپ ﷺ کے چہرے سے سمجھ جاتے تھے اگر آپ ﷺ کو کسی کی بات اچھی نہ معلوم ہوتی تو اسے اشارے کنائے سے آگاہ فرمادیتے تھے تاکہ وہ خفیف نہ ہو۔ (بخاری ص 901 شفاص 52) لیکن یہ رعایت فقط انہی باتوں میں تھی جو آپ ﷺ کو ذاتی طور پر ناپسند ہوتی تھیں ورنہ احکام الٰہی میں پہلو تہی کرنے والے کو آپ ﷺ کبھی یوں طرح نہیں دیتے تھے اور اعلاء کلمۃ الحق میں آپ ﷺ کی اواز کسی وجہ سے پست نہیں ہوتی تھی اور حقیقت میں اگر ایسا ہوتا تو وہ حیاء کا غلط استعمال ہوتا مگر اس عین صداقت اور محض خیر ﷺ سے کسی بات میں کبھی حد اعتدال سے تجاوز کیونکر ہوسکتا تھا وہاں تو غلطی کا امکان ہی نہ تھا۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ ایک شخص خدمت بابرکت میں حاضر ہوا جس پر زعفران یا کسی ایسی ہی چیز کی زردی کا نشان تھا اگرچہ آپ ﷺ اپنی امت میں اس قسم کے زنانہ پن کے بنائو سنگھار کو پسند نہ فرماتے تھے لیکن آپ ﷺ نے اس شخص سے کچھ نہیں کہا البتہ جب وہ چلا گیا تو حاضرین مجلس سے فرمایا کہ اگر تم اس سے اس کے دھوڈالنے کے لئے کہتے تو اچھا ہوتا۔ (ابودائود ص 576 ، شمائل ترمذی ص 27) آپ ﷺ اس طرح کی بات براہ راست کسی کو نہ فرماتے تو اس میں حکمت یہ تھی کہ اگر وہ آپ ﷺ کے کہنے کے بعد بھی اس سے باز نہ آیا تو گویا ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا اس لئے آپ ﷺ حتی المقدر اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتیں کسی کو براہ راست نہ کہتے تھے جو محبت و شفقت کے تقاضے کے خلاف ہوتیں۔ یہ آپ ﷺ کی فرط حیا ہی کی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کو قرآن کریم میں آپ ﷺ کی طرف سے لوگوں کو یہ آداب ملاقات سکھانے کی ضرورت پڑی کہ جب کوئی کسی کے ہاں ملنے جائے تو یہ جائز نہیں کہ وہاں بیٹھ کر اور لوگوں سے ادھر ادھر کی غپ لگانے لگے اور اس طرح صاحب خانہ کی تکیف اور کو فت کا باعث ہو۔ آپ ﷺ کے صحابہ کرام حاضر خدمت ہوتے تو وہاں آپس میں دیر تک باتیں کرتے رہتے اور نبی کریم ﷺ اپنی تکلیف کو ان کی دل شکنی پر ترجیح دیتے مگر ان سے کچھ نہ فرماتے تھے اس پر ارشاد الٰہی ہوا کہ ” بلا شبہ تمہاری اس بات سے پیغمبر کو تکلیف ہوتی ہے اور ورہ تم لوگوں سے شرم کرتے ہیں اور اللہ کو سچ بات کہنے میں کسی کا کچھ لحاظ نہیں ہے “۔ (احزاب 53:33) نبی اعظم وآخر ﷺ وقار ومتانت جائز حد تک موجود تھا 15 ۔ متقضائے قیاس ہے کہ جو شخص اس قدر حلیم اور شفیق ، اتنا رقیق القلب اور منکسر المزاج ہو لوگوں کے دلوں سے اس کا وقار کم ہوجائے اور اس کا رعب وداب قائم نہ رہے مگر اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے اپنی قدرت سے جناب نبی کریم ﷺ کو کچھ ایسا مزاج عطا فرمایا تھا کہ ان تمام باتوں کے باوجود بھی جو رعب کا اثر ان پر تھا وہ شاہان عالی وقار کو بھی نصیب نہ ہوگا حالانکہ آپ ﷺ کسی کو کچھ نہیں کہتے تھے ، ہر ایک سے بےانتہا نرمی اور محبت سے پیش آتے تھے اور آپ ﷺ کے صحابہ بھی آپ ﷺ کے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانے کو سعادت دارین سمجھتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی سادہ اور بےتصنع وضع کو اپنے جمال و جلال کا مظہر بنایا تھا۔ آپ ﷺ اکثر اوقات خاموش رہتے تھے ، بلا ضرورت بات نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص کوئی نازیبا بات کرتا تھا تو اس سے اعراض فرماتے تھے۔ آپ ﷺ کا کلام صاف اور واضح ہوتا تھا ، نہ اتنا طویل کہ اس میں کوئی بات فضول اور زائد از ضرورت ہو نہ اتنا مختصر کہ کوئی کام کی بات رہ جائے یا سمجھ میں نہ آئے۔ آپ ﷺ کبھی قہقہہ مار کر اس طرح نہیں ہنستے تھے۔ آپ ﷺ کی مجلس میں حلم ومتانت اور حیاء و نیکی کی بات ہوتی تھی لوگ آپ ﷺ کے سامنے بلند آواز سے بات نہیں کرتے تھے اور وہاں کسی قسم کی نازیبا اور ناپسندیدہ گفتگو نہیں کی جاتی تھی۔ جب آپ ﷺ کلام فرماتے تھے تو سب اہل مجلس ادب سے سرجھکا لیتے تھے اور بالکل سکوت سا ہوجاتا تھا۔ آپ ﷺ نہایت صحت اور وضاحت سے گفتگو کرتے تھے۔ چناچہ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ اس قدر تکلم فرماتے تھے کہ اگر کوئی گننے والا گننا چاہتا تو ایک ایک حرف الگ الگ لیتا تھا (مشکوٰۃ ص 442) آپ ﷺ کی چال نہایت معتدل اور متوسط قسم کی تھی نہ تو آپ ﷺ بہت تیز چلتے تھے کہ ساتھ والوں پر گراں ہو نہ اس قدر آہستہ چلتے تھے کہ اس سے تکان اور سستی مترشح ہو ، غرض اعتدال ومیانہ روی آپ ﷺ کی ہر ایک بات سے ہویدا تھی۔ ابو مسعود ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن ایک شخص نے حاضر خدمت ہوکر کچھ عرض کرنا چاہا مگر رعب نبوی سے اس کے بدن میں لرزہ پڑگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا گھبرائو مت اطمینان سے بات کہو میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں بلکہ میں بھی قریش خاندان کی ایک عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی۔ (شفا ص 59) صلح حدیبیہ کی شرائط کے طے ہونے سے پہلے قریش کا ایک سردار عروہ ابن مسعود اہل مکہ کا سفیر بن کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اثنائے گفتگو میں اس نے آپ ﷺ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگانا چاہا اور یہ بات عادتاً تھی۔ مغیرہ بن شعبہ نبی کریم ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے جب عروہ کا ہاتھ دوبارہ آپ ﷺ کی ریش مبارک کی طرف بڑھا تو انہوں نے تلوار کی انی سے اس کو پیچھے ہٹایا اور فرمایا آپ ﷺ کی ریش مبارک کی طرف ہاتھ نہ بڑھائو بہرحال جب وہ وہاں سے رخصت ہوا تو اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا اے قوم ! واللہ میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار دیکھے ہیں اور میں قیصر اور کسریٰ اور نجاشی کے پاس سفیر بن کر گیا ہوں مگر اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے احباب اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد (رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ان کی عزت اور ادب کرتے ہیں واللہ اگر وہ تھوکنا چاہتے ہیں تو لوگ اس کو زمین پر گرنے نہیں دیتے بلکہ اپنے اپنے کپڑوں کو آگے آگے کرتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ کے تھوک کو اپنے کپڑے میں وصول کرکے آپ ﷺ کے منہ کو اس کپڑے کے ایک پلو سے صاف کردیں اور اس طرح جب آپ ﷺ وضو کرتے ہیں تو ان کے وضو کرانے کے لئے جان دینے تک کو ترجیح دیتے ہیں یعنی ہر ایک کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ یہ سعادت مجھے نصیب ہو اور جب کوئی حکم دیتے ہیں تو صحابہ تعمیل ارشاد کے لئے دوڑتے ہیں اور جب آپ ﷺ بات کرتے ہیں تو ان کے پاس بیٹھنے والے لوگوں کی آوازیں دھیمی ہوجاتی ہیں اور فرط تعظیم و تکریم سے ان کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے اور نہ ہی کبھی آپ ﷺ سے آنکھ ملاتے ہیں ، انہوں نے تم کو امن کا پیغام بھیجا ہے تو تم کو چاہیے کہ اسے قبول کرلو۔ (بخاری ص 379 , 378) بلا شبہ یہ شان نبوت تھی شان حکومت نہ تھی یہ بات کسی کو کہاں نصیب ہوسکتی ہے لیکن ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی اپنے رسول ﷺ کے طرز عمل کی تیدٓ میں وہ طریقہ اختیار کریں جس سے ہمارے ملنے جلنے والے ہماری عزت اور لحاظ بھی کریں کیونکہ اس سے بھی آدمی بہت سی برائیوں سے بچ جاتا ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی زندہ دلی اور شگفتہ مزاجی 16 ۔ انسانی طبیعت میں ظرافت کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کھانے میں نمک اس کی بھی بڑی خوبی یہی ہے کہ اندازے سے ہو ورنہ اگر نمک کی طرح زیادہ ہوگئی تو متانت وسنجیدگی اور بہت سی اخلاقی خوبیوں کو مٹا کر آدمی کو نکما اور بےکار کردے گی اور اگر کم ہوئی تو زندہ دل اور شگفتہ مزاجی نہ ہوگی اور زندگی بالکل پھیکی اور بےلطف رہے گی دنیا میں ظریفوں کی کمی تو نہیں ہے مگر ایسا کم ہوتا ہے کہ متانت اور سنجیدگی بھی ہو اور شگفتہ مزاجی بھی ہو اور بالخصوص بزرگان ملت ومقتدیان مذہب تو اپنی شان کو خوش طبعی اور مذاق سے بہت ارفع سمجھتے ہیں اس میں شک نہیں کہ ایک حد تک ان کا ایسا سمجھنا بجا بھی ہے کیونکہ جو دل و دماغ موت وزیست کے مسائل اور دنیا وعقبیٰ کے مباحث پر غور وفکر کرتے رہتے ہیں ان کو ہنسی ، دل لگی کا بہت کم موقع ملتا ہے اور رفتہ رفتہ ان کی طبیعت خود ہی ان باتوں سے اچاٹ ہوجاتی ہے لن کہ اگر مزاج میں کامل اعتدال ہو تو البتہ یہ ممکن ہے کہ طبیعت میں تفکر وتدبیر بھی ہو اور شگفتگی بھی باقی رہے لیکن ایسے مزاج النادر کا لمعدوم ہیں۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی مزاج عطا فرمایا تھا ، آپ ﷺ میں اس قدر متانت اور سنجیدگی اور بزرگی کے ساتھ زندہ دلی اور شگفتہ مزاجی بھی اعلیٰ درجہ کی تھی اور باوجودیکہ آپ ﷺ کا عرفان الٰہی میں ڈوبا ہوا قلب مطہر کسی وقت دم بھرکے لئے بھی صناع ازل کے آثار قدرت پر غور وخوض سے غافل نہ ہوتا تھا پھر بھی آپ ﷺ زاہد خشک ہرگز نہ تھے ، چہرہ مبارک ہر وقت بشاش رہتا تھا اور آپ ﷺ ہر شخص سے نہایت خندہروئی سے ملتے تھے چناچہ جریر ین عبداللہ کہتے ہیں کہ میں جب سے اسلام لایا آپ ﷺ نے مجھے اپنے ہاں آنے سے منع نہیں فرمایا اور آپ جب مجھے دیکھتے تھے تو مسکراتے تھے۔ (شمائل ترمذی ص 17) کبھی کبھی آپ ﷺ بچوں کے ساتھ کھیل کھیلتے اور ان کو خوش کرنے کے لئے اس طرح کی باتیں بھی کرتے جس طرح کی باتیں چھوٹے بچے کرتے ہیں چناچہ بعض اوقات آپ ﷺ محبت اور مزاح سے حضرت انس ؓ کو جو ابھی چھوٹے بچے تھے ” ذوالاذنین “ (دو کانوں والا) کہہ کر خطاب فرماتے۔ (شمائل ص 47) ایک مرتبہ حضرت علی ؓ اور سیدہ فاطمہ ؓ میں کوئی شکر رنجی ہوگئی تو سیدنا علی ؓ مسجد میں جاکرلیٹ گئے اتفاق سے آپ ﷺ ان کے ہاں تشریف لے گئے اور یہ قصہ سن کر مسجد میں گئے اور وہاں جاکر آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو اٹھایا چونکہ وہ زمین پر لیٹے ہوئے تھے کہ چٹائیاں مسجد میں ہوتی ہی نہ تھیں ، اس لئے ان کے جسم کے ساتھ مٹی لگ گئی اس لئے جب وہ اٹھے تو آپ ﷺ نے ان کو ” ابوتراب “ کہہدیا تو اس دن سے ان کی یہ کنیت ایسی مقبول ہوئی کہ گویا اس کے سوا سیدنا علی ؓ کی کوئی کنیت ہی نہ رہی۔ (بخاری ص 929)… ایک مرتبہ آپ ﷺ نے کسی کو ایک اونٹ دینے کا وعدہ کیا جب وہ آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” میں تجھے اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں “ اس پر وہ بگڑ گیا اور کہنے لگا کہ میں اونٹنی کا بچہ کیا کروں گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کیا اونٹ اونٹنی کے بچے نہیں ہوتے تو کیا ہوتے ہیں۔ وہ شخص آپ ﷺ کا مطلب صحیح نہیں سمجھا تھا کیونکہ آپ ﷺ نے یونہی خوش طبعی سے اونٹ کہنے کی بجائے اونٹنی کا بچہ کہہ دیا تھا اور اس نے یہ خیال کیا کہ شاید آپ نے اونٹ کے کم عمر بچے کے لئے ارشاد فرمایا ہے۔ (شمائل ترمذی ص 18) … ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بوڑھی عورت ام زبیر ؓ آپ ﷺ کی خدمت میں آئیں اور آپ ﷺ سے کہا یارسول اللہ ! ﷺ میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے جنت میں جگہ دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے ام زبیر ! بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی۔ یہ دل شکن جواب سن کر وہ بیچاری بہت مایوس ہوئیں اور انہوں نے پوچھا کہ کیوں بوڑھی عورتوں نے کیا کیا ہے کہ وہ جنت میں نہیں جائیں گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے قرآن کریم میں پڑھا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت والیوں کو نوجوان اور دوشیزہ پدرا کرے گا تو پھر بوڑھیاں وہاں کیسے جاسکتی ہے۔ آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ ان کا بڑھاپا باقی نہ رہے گا اس لئے ان کو اس حالت کے لحاظ سے بوڑھی کہنا درست نہیں ہے ۔ آپ ﷺ نے بطور خوش طبعی ام زبیر سے اس طرح فرمایا کہ ان کو آپ ﷺ کا مطلب سمجھنے میں مغالطہ ہوا حالانکہ آپ ﷺ نے جو کچھ فرمایا تھا وہ بالکل درست تھا۔ (شمائل ترمذی ص 18) اس سے آپ ﷺ کی شگفتہ مزاجی کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی راست گفتاری کا اندازہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ ہنسی اور مزاح سے بھی غلط بیانی نہیں فرماتے تھے چناچہ ایک بار لوگوں نے آپ ﷺ سے کہا یارسول اللہ ﷺ آپ ْ ہم سے مزاح فرماتے ہیں یہ بات ان لوگوں کو عجیب معلوم ہوتی تو آپ ﷺ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا ہاں ! مگر میں کبھی حق وصداقت کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ (شمائل ترمذی ص 18) اس طرح آپ ﷺ نے اپنے متبعین کو سچ کیا تنی تاکید فرمائی ہے کہ مزاح میں بھی جھوٹ بولنے سے منع کیا… آپ ﷺ نے لوگوں کو کھیلنے کو دنے اور خوشی منانے سے بھی منع نہیں فرمایا صرف کھیلنے کو دنے اور خوشی منانے کے آداب سکھائے اور بلا شبہ ہر معاملہ کا ایک ادب ہوتا ہے۔ اور کچھ حدود ہوتی ہیں ان سے تجاوز اچھا نہیں ہوتا انبساط روح کے لئے ایک حد تک تفریح بھی ضروری ہے بلکہ ضرور ہونی چاہیے یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی آپ ﷺ خود بھی اس طرح کی تفریح میں شریک ہوجاتے چناچہ سیدہ عائشہ ؓ سیروایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ میرے ہاں تشریف رکھتے تھے کہ اتنے میں ابوبکر ؓ بھی آگئے اور وہ دن عید کا دن تھا اور دو لڑکیاں وہی گیت گا رہی تھیں جو انصار نے جنگ بعاث کے دن گایا تھا خیال رہے کہ یہ جنگ آپ ﷺ کی ہجرت سے تین سال قبل اوس اور خزرج میں ہوئی تھی۔ ابوبکر ؓ نے ان کو دیکھ کر کہا یہ شیطان کے باجے ہیں مگر آپ ﷺ نے کچھ خیال نہ فرمایا تو انہوں نے دوبارہ یہی کہا اس پر آپ ﷺ نے فرمایا اے ابوبکر ان کو کچھ مت کہو کہ ہر قوم میں خوش کا دن ہوتا ہے اور آج کا دن ہمارے لئے عید کا دن ہے۔ (بخاری ص 559) ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” افسوس ہے اس شخص پر جو لوگوں کہ ہنسانے کے لئے جھوٹی باتیں بناتا ہے۔ (مشکوٰۃ ص 352) ان باتوں سے واضح ہے کہ بلا شبہ آپ ﷺ شگفتہ مزاج تھے اور آپ ﷺ کے اعتدال اور میانہ روی کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور ہم کو یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہم کو آپس میں کیسے تعلقات رکھنے چاہئیں اور ایک دوسرے سے اگر مذاق و مزاح کریں تو کس حد تک اور یہ بھی کہ ہر وقت منہ پھیلائے رکھنا اچھا نہیں ہوتا اور اس طرح ہر وقت بات بات کے ساتھ دل لگی بھی اچھی نہیں اور یہ بھی کہ طبیعت اور ماحول کو دیکھ کر کچھ کہنا چاہیے آدمی کو نہ تو ایسا ہونا چاہیے کہ ” افسردہ دل افسردہ کندانجمنے را “ کا مصداق ہو اور نہ ایسا کہ لوگ اس کو ہر وقت کی چھیڑ خانی اور ہنسی مذاق سے تنگ آجائیں چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ خبردار ! بہت ہنسنے سے پرہیز کرو کیونکہ اس سے دل مرجاتا ہے اور چہرے کا نور جاتا رہتا ہے۔ “ دیکھو اللہ نے مجھے قریش کی گالیوں اور کو سنے سے کیسے بچایا ہے کہ وہ لوگ مجھے ” مذمم “ کہہ کر بددعائیں دیتے ہیں حالانکہ میں محمودہوں۔ (مشکوٰۃ) مطلب یہ ہے کہ وہ مذمم کو کو ستے ہیں تو جو مذمم ہوگا اس کو وہ کو سنا لگتا ہوگا اور وہی ان کی گالیوں کا برا مانتا ہوگا ہم جب مذمم ہیں ہی نہیں بلکہ ہم تو محمد ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہم کو ان کی بدزبانیوں سے محفوظ رکھا ہے اور اگر وہ ہم کو محمد سمجھ لیں تو پھر برا ہی کیوں کہیں اور کیسے کہیں۔ سبحان اللہ ! کیا شان ہے اس شاناں والے محمد رسول اللہ ﷺ کی۔ الھم صل علی محمد وعلی ال محمد۔ خلاصۃ الکلام فی الاسوۃ الحسنۃ خیرالانام نبی اعظم وآخر ﷺ کے اسوہ حسنہ اور مکارم اخلاق کا بیان اتنا وسیع ہے کہ اس کو مفصل تو درکنار مختصر سے مختصر بھی اس جگہ بیان نہیں کیا جاسکتا یہ تو محض اس لئے چند سطریں تحریر کی ہیں کہ اس جگہ آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کا ذکر آگیا تھا۔ اور میں نے سمجھا کہ یہ نہایت بخل ہوگا کہ اس کے متعلق کچھ بھی نہ کہا جائے حاش اللہ جو کچھ میں نے تحریر کیا ہے اس کو مشتے از خروارے بھی نہیں کہا جاسکتا مسلمانوں کا یہ ذاتی فرض ہے کہ وہ ہر معاملہ ، ہر بات اور ہر کام میں نبی کریم ﷺ کا اسوہ حسنہ تلاش کریں اور اس کی راہنمائی میں ہر قدم اٹھائیں تاکہ ان کی یہ دنیوی زندگی بھی درست ہو اور آخرت بھی سنور جائے افسوس کہ آج ہم دینی کاموں میں بھی آپ کا اسوہ حسنہ اپنانے سے گریز کر رہے ہیں ہمارے پیدا ہونے سے سے لے کر مرنے اور مرنے کے بعد کی ساری رسوم تک جن کو ہم نے اسلام کا نام دے رکھا ہے آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کے سراسر خلاف کر رہے ہیں الا ماشاء اللہ حالانکہ ہم پر لازم وضروری ہے کہ ہم کھانے پینے کے آداب وطریقے وہ اپنائیں جن آداب وطریقوں سے آپ ﷺ کھاتے اور پیتے رہے۔ لباس و آرائش میں وہ طریقہ پسند کریں جو آپ ﷺ نے پسند کیا اور کم از کم آپ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق لباس و آرائش کریں ظاہری اور باطنی بھی۔ نہانے دھونے کا وہ طریقہ اپنائیں جو آپ ﷺ نے اپنایا یا جس کی آپ نے تعلیم دی اور اپنے سفر وحضر میں آپ کی دی ہوئی راہنمائی سے فائدہ حاصل کریں۔ چونکہ آپ ﷺ کی ذات پر دین مکمل کردیا گیا تھا دین کے معاملہ میں کوئی ایسی بات ہرگز ہرگز نہ کریں جو آپ ﷺ نے نہ کی ہو یا نہ بتائی ہو اور جس کے لئے آپ ﷺ نے حکم دیا کہ وہ کریں اس کو کریں اور جس جس کو ترک کرنے کا حکم دیا اس کو ترک کردیں۔ نماز اور متعلقات نماز میں آپ کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق عمل کریں طہارت بدن کا طریقہ آپ سے سیکھیں کہ آپ سے زیادہ کوئی شخص ظاہری طہارت کا بھی پابند نہیں ہوسکتا اور باطنی طہارت تو کسی دوسری جگہ میسر ہی نہیں ہے۔ غسل کریں ، وضو کرنا چاہیں ، صلوٰۃ ادا کریں یا صلوٰۃ ادا کرنا چاہیں تو آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ ان ساری باتوں میں ہمارے پیش نظر رہے۔ صلوٰۃ کی جتنی حرکات و سکنات ہیں ان کا اندازہ وہی پسند کریں جو آپ ﷺ کو پسند تھا اور کم از کم جس فعل نسبت آپ ﷺ کی طرف مل جائے اس فعل کو کسی امام و پیشوا اور ہادی و راہنما کی خاطر برانہ سمجھیں کیونکہ سب سے ارفع واعلیٰ امام اور سب سے بلند وبالا پیشوا اور ہادی و راہنما آپ ﷺ ہیں۔ ہم کو قطعاً یہ حق نہیں کہ ایک فعل آپ ﷺ کی طرف منسوب ہو اور ہم اس نسبت کو دلیل سے ہٹا بھی نہ سکیں اور پھر اس فعل کی تحقرا بھی کریں اور اس کو برا بھی جانیں تو ہم سے زیادہ بدبخت کون ہوگا جس نے آپ ﷺ کے فعل وقول کو برا سمجھا ، افسوس کہ ہم کو جو قدر کرنا چاہیے تھی وہ قدر نہ تو اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی کی اور نہ ہی محمدرسول اللہ ﷺ کی وہ قدر کی جو ہم کو کرنا چاہیے تھی۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم زبان سے کوئی درود ووظیفہ ادا کرنا چاہیں ، کوئی تسبیح وتحمید پیش کرنا چاہیں تو وہی طریقہ اختیار کریں جو طریقہ آپ ﷺ نے اختیار کیا یا آپ ﷺ نے ہم کو بتایا بلا شبہ عمل وقول وہی صحیح اور درست ہوسکے گا جس پر نبی اعظم وآخر ﷺ کی مہرثبت ہوگی اور جس پر آپ کی مہر ثبت نہیں ہوگی وہ بلا شبہ جہل اور بناوٹی ہوگا جس کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی وقعت نہیں ہوئی اور کھوٹے سکے کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں بہرحال وہ کھوٹے ہی ہیں۔ انسان کی ایک ایک حرکت کے لئے آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ موجود ہے کیونکہ آپ ﷺ بھی انسانوں ہی میں سے ایک انسان تھے اور جو جو حالات انسان کو پیش آسکتے ہیں وہ سب کے سب آپ کو پیش آئے۔ جس طرح ہر انسان رشتہ داریوں میں جکڑا ہوا ہے آپ ﷺ بھی جکڑے ہوئے تھے جس طرح ہر انسان اولاد واحفاد رکھتا ہے آپ بھی رکھتے تھے اگر پوتے پوتیاں نہیں تھے تو دوہتے دوہتیاں تو ضرور موجود تے جس طرح ہر انسان کو اپنی زندگی میں خوشی وغمی سے دو چار ہونا ہی پڑتا ہے آپ ﷺ بھی خوشی وغمی میں مبتلا ہوتے رہے پھر ایک سچے مسلمان کو اپنی خوشی وغمی میں وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو آپ ﷺ نے اختیار کیا ہو ہم کو چاہیے کہ مستعار زندگی انہیں طریقوں کے مطابق بسر کریں جو طریقے آپ نے اس زندگی کے بسر کرنے کے لئے بنائے اور سمجھائے ہوں انہیں میں ہماری خیر ہے اگر ہم سچے مسلمان ہیں یا سچے مسلمان بننا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم کو سچے اور کھرے مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے اور بلا شبہ ہم کو ہدیات بھی اسی کی دی گئی ہے چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ { ان کنتم ………………… ذنوبکم } (آل عمران 31:3) ” اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا “۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ؎ وضع میں طرز میں اخلاق میں سیرت میں کہیں نظر آتے نہیں کچھ حرمت دیں کے آثار آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کے متعلق مزید دیکھنا چاہیں تو عروۃ الوثقی جلد ششم کے ص 670 پر ایک مضمون ملاحظہ فرمالیں۔ ۔۔۔۔ مومنوں نے جب ان لشکروں کو دیکھا تو ان کی ایمانی قوت بہت بڑھ گئی 22 ۔ اگر آپ بھول نہیں گئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پیچھے جنگ خندق یا احزاب کا ذکر ہورہا تھا اور اس دوران جو منافقوں کی حالت ہوئی اس کا بیان جاری تھا کہ ان کی بزدلی اور بدباطنی اس جنگ نے واضح کردی اور کوئی بات ان کی مبہم نہ رہی اور اب زیر نظر آیت میں بیان کیا جارہا ہے کہ جہاں منافقوں کی حالت واضح ہوئی وہاں مومنوں کی حالت بھی کوئی پوشیدہ نہ تھی ، ان احزاب کے اجتماع نے مومنوں کے ایمان کو تازہ کردیا جنہوں نے بنی اعظم وآخر ﷺ کے قدموں میں اپنی جانیں اور دل پیش کردیئے تھے فرمایا ان لوگوں نے جب کفار کا لشکر جرار اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا کہ ہم تو ان مہیب خطرات میں گھر گئے جن میں گھر کر مسلمانوں کی ایمانی طاقت وقوت میں بےپناہ اضافہ ہوجاتا ہے اور ان کے نور ایمان کو اس سے جلا پیدا ہوتی ہے کیونکہ قضائے الٰہی کے سامنے تسلیم ورضا کا جو درس ان کو دیا جاتا رہا تھا ان کو دیکھتے ہی تازہ ہوگیا اور ان کو یاد آگیا کہ ہم پر یہ وہ وقت آگیا جس وقت چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آتی ہیں بلا شبہ ہماری جماعت چھوٹی ہے لیکن وعدہ الٰہی کے مطابق اس بڑی جماعت پر غالب آنا ہمارا مقدر بن کر رہ گیا ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم غالب نہ ہوں اور جو کچھ یہ وعدہ الٰہی ہے جس کے خطا ہونے کا کوئی احتمال ہی نہیں اور خندق کو کھودتے وقت جب وہ چٹان نمودار ہوئی تھی جو ہم سے ٹوٹ نہیں رہی تھی جس پر نبی اعظم وآخر ﷺ نے تین ضربیں لگائیں تھیں اور وہ پاش پاش ہوگئی تھی اور جب اس کے ٹکڑے گر رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ شام ، ایران اور یمن کی فتح کی خوشخبری ہے اس بات کو اچھی طرح سن لو اور یادرکھو۔ وہ زبان سے پڑھ رہے تھے اور دلوں کو سکون آرہا تھا کہ ” صدق اللہ ورسولہ “ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے سچ فرمایا تھا اور ان کے دلوں میں وہ ایمانی قوت پیدا ہوئی کہ اس کا مقابلہ دنیا کا کوئی ایٹم بم بھی نہیں کرسکتا تھا اور بلاشبہ مرنا جن لوگوں کے لئے خوشی کا باعث ہوجائے اس زندہ قوم کو دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کرسکتی۔
Top