Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 31
وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَاۤ اَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ١ۙ وَ اَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِیْمًا
وَمَنْ : اور جو يَّقْنُتْ : اطاعت کرے مِنْكُنَّ : تم میں سے لِلّٰهِ : اللہ کی وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَتَعْمَلْ : اور عمل کرے صَالِحًا : نیک نُّؤْتِهَآ : ہم دیں گے اس کو اَجْرَهَا : اس کا اجر مَرَّتَيْنِ ۙ : دوہرا وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کیا لَهَا : اس کے لیے رِزْقًا كَرِيْمًا : عزت کا رزق
اور (اے پیغمبر کی بیویو ! ) جو کوئی تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک کام کرے گی تو ہم اس کو اس کا اجر دو گنا ہی دیں گے اور ہم نے ان کے لیے عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے
جتنا بڑا مقام اتنا ہی بڑا انعام ، امہات المومنین بلا شبہ اسی مقام کی مستحق ہیں۔ 31 ۔ گزشتہ آیت میں بڑوں کی لغزش کا ذکر کیا گیا تھا کہ ان کی معمولی لغزش بھی معمولی نہیں ہوتی بلکہ وہ دوہرے عذاب کی موجب ہوتی ہے جب بصورت لغزش اتنی سخت سزا کا ذکر کیا گیا تو ضروری تھا کہ ان کے انعام کا ذکر بھی ان کے مقام کے مطابق ہی کیا جاتا تاکہ ترازو برابر ہے۔ زیر نظر آیت میں اس انعام کے دوگنا ہونے کا اعلان بھی کردیا گیا لیکن اس انعام کے دوگنا ہونے کا بیان نہایت عجیب طریقے سے بیان ہوا جیسا کہ گزشتہ آیت میں بیان ہوا تھا کہ تم میں جو بھی کسی لغزش کی مرتکب ہوگی تو اس کو دوگنا ، دو برابر ، دوچند اور دونا عذاب دیا جائے گا گویا عذاب کا تعلق آخرت کے ساتھ لازم ہے اور وہ جتنا عام لوگوں کو دیا جائے گا یا دیا جاسکتا ہے اس سے دونا تم کو دیا جائے گا ، کیوں ؟ اس لئے کہ تمہارا مقام بہت بلند ہے اور بلند مقام کے لوگوں سے لغزش جس طرح ان کے لئے لغزش ہوتی ہے اسی طرح ان کی لغزش سے دوسروں کا اس لغزش میں مبتلا ہونا بھی یقینی ہے لہٰذا اس مقام کے لوگوں کو عذاب دوگنا یا دونا ہی ہونا چاہیے اور یہ عین قانون الٰہی کے مطابق ہے۔ زیر نظر آیت میں جب انعام کا وقت آیا تو کہا گیا کہ اگر انعام کے مستحق ہوئیں جو یقینا ان کو ہونا ہی ہے تم کو دوگنا ، دو برابر ، دو چند اور دونا انعام نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کہ تم کو دوباراجر دیا جائے گا اور ظاہر ہے اس دو بار اجر ملنے کا مطلب ایک بار دنیا میں اور دوسری بار آخرت میں ہی ہوسکتا ہے اور یہی اس کا مطلب بنتا ہے یعنی تم میں سے ملنے کا مطلب ایک بار دنیا میں اور دوسری بار آخرت میں ہی ہوسکتا ہے اور یہی اس کا مطلب بنتا ہے یعنی تم میں سے جس نے اطاعت و فرمانبرداری کا شیوہ اختیار کیا اسے اجر بھی دو بار (ایک بار دنیا میں اور ایک بار آخرت میں) دیا جائے گا اور یہ بھی کہ اسے ہم باعزت رزق عطا کریں گے ، اس دنیاوی زندگی میں بھی آخرت میں بھی { مرتین } کا لفظ خود تقاضا کرتا ہے کہ مرۃ بعد مرۃ مراد ہے اور قرآن کریم میں جہاں بھی یہ لفظ بیان ہوا ہے یہ مفہوم ہر جگہ موجود ہے اگر آپ نے یہ اصول یادرکھا تو انشاء اللہ قرآن کریم کے سمجھنے میں بہت آسانی دے گا اور آپ کی اس طرح مدد کرے گا کہ انشاء اللہ آپ کو اس سے تسلی اور انشراح پیدا ہوگا۔ اگر اس اصول کی مزید وضاحت چاہتے ہو تو عروۃ الوثقی جلد اول سورة البقرہ 2 کی آیت 229 ، جلد چہارم سورة التوبہ کی آیت 126 , 101 جلد پنجم سورة بنی اسرائیل کی آیت 4 جلد ششم سورة القصص کی آیت 54 کی تفسیر دیکھیں۔
Top