Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 36
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مومن مرد کے لیے وَّلَا مُؤْمِنَةٍ : اور نہ کسی مومن عورت کے لیے اِذَا : جب قَضَى : فیصلہ کردیں اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَمْرًا : کسی کام کا اَنْ يَّكُوْنَ : کہ (باقی) ہو لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : کوئی اختیار مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ : ان کے کام میں وَمَنْ : اور جو يَّعْصِ : نافرمانی کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ ضَلَّ : تو البتہ وہ گمراہی میں جا پڑا ضَلٰلًا : گمراہی مُّبِيْنًا : صریح
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ کسی کام کا فیصلہ فرما دے تو پھر ان کا اس معاملہ میں (جس کا فیصلہ کیا گیا ہے) کچھ اختیار باقی رہ جائے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی تو وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہوا
(حاشیہ گزشتہ صفحہ) 11 ۔ ام المومنین صفیہ ؓ کا مختصر حال صفیہ بنت حی بن اخطب بن شعبہ سبط ہارون (علیہ السلام) تھیں۔ ان کی والدہ کا نام برہ بنت سموال تھا ان کا پہلا نکاح سلام بن مشکم سے ، دوسرا نکاح کنانہ بن ابی الحقیق سے ہوا۔ وہ جنگ خیبر میں مارا گیا تھا اور حضرت صفیہ اس جنگ کے سبایا میں تھیں۔ وحید کلبی کو دحیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے نے عرض کیا کہ مجھے ایک عورت ملک یمین سے مل جائے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا لے لو۔ انہوں نے صفیہ کو لینا چاہا لیکن اس میں اختلاف رونما ہوگیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی سیدہ ہے اور ایسی عورت دحیہ کو مل جانے کی کوئی وجہ ؟ اس بحت وتمحیص کے بعد یہ طے پایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس رہنی چاہیے۔ چناچہ وہ رسول اللہ ﷺ ہی کے سپرد ہوئیں۔ آپ ﷺ نے ان کو فوراً آزاد فرما دیا اور بعد میں ان کی رضا سے آپ ﷺ نے ان سے نکاح کرلیا۔ ان کیوالد بنو نضیر کے سردار تھے اور والدہ قبیلہ بنو قریظہ کے سردار کی بیٹی تھیں اس لئے حضرت صفیہ ؓ کو بنو نضیر اور بنو قریظہ کی سردار کہا جاتا تھا ۔ صفیہ ؓ کا اصل نام تو زینب تھا۔ چونکہ وہ نبی کریم ﷺ کے لئے منتخب ہوئی تھیں اور زینب نام سے ام المومنین پہلے ہی موجود تھیں اس لئے آپ ﷺ نے ان کو صفیہ کے نام سے پکارا اور صفیہ کے معنی دراصل ” منتخب کردہ “ کے ہیں بعد میں یہی نام معروف ہوگیا۔ صفیہ ؓ سے نکاح رسول اللہ ﷺ نے اس مہم کے سفر ہی کے دوران کیا تھا اور سفر ہی کے دوران ولیمہ بھی کیا۔ خیبر سے فاتحانہ واپسی ہوئی تو راستہ میں بمقام صہبا آپ ﷺ نے قیام کیا اور اس مقام پر قیام کے دوران یہ تقریب معرض وجود میں آئی۔ ام المومنین ام سلیم اور ام سنان نے صفیہ کی تیاری کا سارا بندوبست کیا۔ ان کے ولیمہ میں گوشت روٹی کے بجائے متفرق اشیاء پیش کی گئیں جن میں کھجوریں ، پنیر اور گھی وغیرہ تھا اور لشکر کے لوگوں ہی کو ایک جگہ جمع کرکے یہ سب کچھ ولیمہ کے نام سے پیش کیا گیا۔ اس طرح سیدہ صفیہ ام المومنین قرار پائیں۔ یہ 7 ہجری کا واقعہ ہے۔ مدینہ پہنچ کر رسول اللہ ﷺ نے حضرت حارثہ بن نعمان سے ایک مکان لیا اور وہاں حضرت صفیہ کو ٹھہرایا۔ اس لئے کہ ساری امہات المومنین کے الگ الگ مکان تھے۔ ام المومنین صفیہ ؓ بہت بالغ النظر اور عاقلہ وافاضلہ تھیں۔ ظاہری حسن و خوبی کے ساتھ باطنی حسن و خوبی کی بھی مالک تھیں۔ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ صفیہ رو رہی ہیں ، پوچھا کیوں روتی ہو ؟ کہنے لگیں کہ میں نے سنا ہے کہ حفصہ مجھے بہت حقیر سمجھتی ہیں اور اپنے لئے بڑے فخر سے کہتی ہیں کہ ہمارا نسب تو نبی کریم ﷺ سے ملتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم نے کیوں نہ کہہ دیا کہ تم مجھ سے بہتر کیونکرہوسکتی ہو کہ میرا باپ ہارون ہے اور میرا چچا موسیٰ ہے اور میرا شوہر محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور یہ تینوں ہی اللہ کے رسول ہیں۔ (ترمذی بروایت انس ؓ ۔ رسول اللہ ﷺ سے پہلے بھی کسی خاوند کے ساتھزیادہ دیر نہ رہ سکیں اس لئے کہ سترہ سال کی عمر میں وہ رسول اللہ ﷺ کے انتخاب میں آئیں تھیں اور اس سے پہلے دو خاوندوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے نکاح ہوا لیکن کسی کے ساتھ بھی رہنا نصیب نہ ہوا اور رسول اللہ ﷺ کی مصاحبت میں بھی صرف تین ساڑھے تین سال رہ چکی تھیں کہ نبی کریم ﷺ کا انتقال ہوگیا۔ عمر فاروق ؓ کی خلافت کے زمانہ میں ان کے پاس صفیہ کی ایک باندی نے شکایت کی۔ صفیہ ہفتہ کے دن کا بہت احترام کرتی ہیں اور یہود کی عورتوں کو عطیات اور ہدایا پیش کرتی ہیں۔ امیر المومنین سیدنا فاروق ؓ نے دریافت فرمایا کہ یہ بات میرے علم میں آئی ہے ؟ صفیہ ؓ نے فرمایا جب سے مجھے اللہ تعالیٰ نے جمعہ عطا فرمایا ہے سبت کو میں نے کبھی پسند نہیں کیا اور یہود سے قرابت کے تعلقات ہیں اور ان کو ضرور میں کچھ نہ کچھ بھجواتی رہتی ہوں۔ پھر پوچھا کہ آپ کے علم میں یہ بات کیسے آئی ؟ فرمایا کہ تمہاری فلاں باندی نے کہا تھا۔ باندی سے دریافت کیا کہ تم نے یہ شکایت کیوں کی ؟ وہ کہنے لگی کہ دراصل مجھے شیطان نے بہکا دیا تھا۔ ام المومنین اس کا جواب سن کر خوش ہوگئیں اور فوراً اس باندی کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں آزاد کردیا۔ ان کی زندگی کے واقعات ایک سے ایک بڑھ کر پر حکمت اور تقویٰ وورع پر مبنی ہیں۔ ام المومنین حضرت صفیہ ؓ کی وفات رمضان المبارک 50 ہجری میں ہوئی۔ (الاستیعاب) اس طرح ان کی عمر عزیز ساٹھ سال ہوتی ہے۔ 12 ۔ ام المومنین ماریہ قبطیہ ؓ کا مختصر حال یہ ام المومنین ماریہ قبطہ کے نام سے معروف ہیں۔ شاہ مصر نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ان کو بھیجا تھا اور آپ ﷺ نے ان سے نکاح کیا۔ جس طرح سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے ہم عصر بادشاہ مصر نے سدہ ہاجرہ خاتون کو ابراہیم السلام کی خدمت میں پیش کیا تھا بالکل اسی طرح شاہ مصر نے محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ماریہ کو پیش کیا جس طرح ہاجرہ شہزادی تھیں اسی طرح یقینا ماریہ بھی شہزادی تھیں لیکن تاریخ میں ان کو بھی باندی کہا گیا اور ان کو بھی ہاں ! فرق ہے تو یہ ہے کہ ہاجرہ خاتون کو ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں پیش کرنے والا ایک بت پرست بادشاہ تھا لیکن ماریہ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنے والا ایک پابند مذہب عیسائی بادشاہ تھا۔ ماریہ خاتون کس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کی گئیں یقین کیساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں ! ان کے بطن اطہر سے جو بچہ پیدا ہوا یہ رسول اللہ ﷺ کا تیسرا لڑکا تھا جس کا نام آپ ﷺ نے اپنے جد امجد کی نسبت سے ابراہیم رکھا۔ 13 ۔ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کا مختصر حال ام المومنین حضرت میمونہ ؓ حارث بن حزن بن بحیربن محرم بن رویبہ عبداللہ بن ہلال بن عامربن صعمہ کی بیٹی ہیں اور یہ مضر سے رسول اللہ ﷺ کے سلسلہ نسب میں مل جاتی ہیں۔ سیدہ میمونہ ؓ پہلے ابی رہم بن عبدالعزی کے نکاح میں تھیں اور اس سے پیشتر حویطب بن عبدالعزیٰ سے بیاہی گئی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے 7 ہجری میں جب عمرہ کیا تو اس وقت یہ بیوہ ہوچکی تھیں۔ حضرت عباس بن علدالمطلب جو نبی کریم ﷺ کے چچا تھے اور ان کے گھر میں سیدہ میمونہ کی بہن ام الفضل تھیں۔ اس لئے حضرت عباس ہی نے یہ تحریک کی اور رسول اللہ ﷺ سے فرمایا کہ آپ ﷺ میمونہ سے نکاح کرلیں۔ رسول اللہ ﷺ نے منظورفرمالیا۔ میمونہ اپنی ماں کی طرف سے آٹھ بہنیں رکھتی تھیں اور زیادہ تر وہ مدینہ طیبہ ہی میں تھیں۔ زینب بنت خزیمہ جو ام المومنین میں شامل ہو کر وفات پاگئی تھیں وہ میمونہ کی ماں کی طرف سے ان کی بہن تھیں۔ اس طرح گویا رسول اللہ ﷺ سے دوہرا رشتہ موجود تھا ایک حسب ونسب سے اور دوسرا زینب کے بہن ہونے سے سالی کا رشتہ بھی تھا۔ مکہ سے جب رسول اللہ ﷺ عمرۃ القضا ادا کرنے کے بعد تشریف لا رہے تھے تو میمونہ بھی اپنی بہنوں کے ساتھ یعنی ام الفضل جن کا اصل نام لبابۃ الکبریٰ تھا جو فضل بن عباس اور عبداللہ بن عباس کی والدہ ماجدہ تھیں اور اسماء بنت عمیس جو حضرت جعفرطیار کے گھر میں تھیں وہ بھی ان کی بہن تھیں ان کے ہمراہ مدینہ میں آرہی تھیں کہ راستہ میں ہی نکاح طے پا گیا اور عباس ؓ ہی میمونہ کے وکیل ٹھہرے اور اس طرح اس سفر میں حضرت میمونہ کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کردیا گیا اور یہ تقریب مقام سرف میں طے پائی ۔ سیدہ میمونہ ؓ جب رسول اللہ ﷺ کے عقد میں آئیں تو 36 سال کی تھیں اور 51 ھ میں بعمر 80 سال مقام شرف میں وفات پائی اور یہیں مدفون ہوئیں۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس جگہ رسول اللہ ﷺ سے نکاح طے پایا تھا اس مقام یعنی مقام سرف میں وافت ہوئی اور اسی جگہ مدفون ہیں یہ مقام مکہ کے قریب مدینہ طیبہ کے راستے پر ہے۔ اس طرح ازواج مطہرات میں سے 9 ام المومنین کا تعلق رسول اللہ ﷺ کے حسب ونسب سے ہے اور 14 ازواج مطہرات خاندان سے باہر کی تھیں۔ جو اپنے قبیلوں کی تھیں اور جو قریب وعبید خاندان نبوی سے تھیں ان کے اسماء گرامی یہ ہیں۔ ام المومنین خدیجہ ؓ ، ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ ، ام المومنین سودہ ؓ ، ام المومنین حفصہ ؓ ، ام المومنین زینب بنت خزیمہ ؓ ، ام المومنین زنیب بنت جحش ؓ ، ام المومنین ام سلمہ ؓ ، ام المومنین ام حبیبہ ؓ اور ام المومنین میمونہ ؓ ۔ وہ چار ام المومنین جو نبی کریم ﷺ کے خاندانی حسب ونسب سے باہر تھیں وہ ام المومنین جو یریہ ؓ ، ام المومنین صفیہ ؓ ، ام المومنین ریحانہ ؓ اور ام المومنین ماریہ قبطیہ ہیں۔ اس جگہ ہم نے صرف تعارف کے طور پر اپنی مائوں کے ذکر پر اکتفا کیا ہے۔ تفصیل کتب سیر میں ملے گی جن کا ذکرہم نے ” مراجع “ میں کردیا ہے۔ نبی اعظم وآخر ﷺ اور امہات المومنین کی کثرت کا راز کثرت ازواج خصوصیات انبیاء میں سے ایک خصوصیت ہے اور خصوصیات انبیاء کرام متفق علیہ مسئلہ ہے خصوصا محمد رسول اللہ ﷺ کی خصوصیات کا ذکر قرآن کریم اور احادیث میں بکثرت ملتا ہے اس لئے یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں اور یہ بات بھی واضح ہے کہ آپ ﷺ کی کوئی خصوصیت بھی بلا مقصد نہ تھی بلکہ ہر خصوصیت میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور موجود تھی اس طرح ازواج مطہرات کی کثرت کی خصوصیت بھی خالی از حکمت نہ تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی مبارک زندگی پر نظر ڈالو کہ 63 سال میں سے 25 سال آپ ﷺ کے کمال تجرد سے گزرتے ہیں۔ جس بزرگ نے 25 سال تک عفوان شباب اور جوش جوانی کا زمانہ کمال تقویٰ اور نہایت ہی ورع کے ساتھ پورا کیا ہو اور جس کے مردانہ کمال نے اعلیٰ سے اعلیٰ خواتین کو اس سے تزویج کا آرزو مند کردیا ہو پھر بھی وہ ربع صدی تک اس کے تجرد وتفرد پر کوئی شے غالب نہ آئی ہو کیا ایسے شخص کی نسبت اعلیٰ رائے نہیں ہوتی ؟ جس مقدس ہستی نے 25 سے 50 سال تک کی عمر کا زمانہ ایک ایسی خاتوں کے ساتھ بسر کیا ہو جو عمر میں ان سے 15 سال لڑی اور ان سے پیشتر دو شوہروں کی بیوی رہ کر کئی بچوں کی ماں بن چکی ہو اور پھر اس ربع صدی کے زمانہ میں ان کے دل بستگی و محبت میں ذرا کمی نہ آئی ہو بلکہ اس کے وفات پاجانے کے بعد بھی ہمیشہ تاحین حیات ہی اس کی یاد کو تازہ رکھا ہو کیا ان کی نسبت کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اس تزویج کی وجہ وہی تھی جو عام طور پر پرستان حسن کی شادیوں میں پائی جایا کرتی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا 5 ہجری سے 9 ہجری تک کی درمیانی مدت یعنی پانچ سالہ زمانہ ایسا ہے جب ازواج مطہرات سے حجرات آباد ہوئے تھے اس لئے ہر صاحب عقل کا حق بنتا ہے کہ وہ خود غورکرے کہ آپ ﷺ کی زندگی مبارک 55 سالہ رویہ سے بڑھ کر جو عمل ہوا اس کے اسباب کیا تھے ؟ خصوصاً جب رسول اللہ ﷺ کا یہارشاد بھی موجود تھا کہ مالی فی النساء من حاجۃ ” مجھے عورتوں کی کوئی حاجت نہیں “۔ (دارمی بروایت سہیل بن سعد) جو شخص بھی ذرا غور وفکر کرے گا وہ یقینا یہ بات پالے گا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدہ خدیجہ ؓ کے علاوہ جس قدر بھی نکاح کئے ان کی بنیاد فوائد کثیرہ دین اور مصالح جمیلہ ملک اور مقاصد حسنہ قوم پر قائم تھی نہ کہ نفسانی خواہشات کا ازالہ اور ان فوائد ومصالح ومقاصد ملی کا اس قدیم ترین زمانہ اور عرب جیسے جمود پسند ملک میں حاصل ہونا تزویج کے بغیر ممکن نہ تھا۔ عورتوں کے متعلق کام اور ان کی تعلیم وتربیت کے بہت سے مقامات ایسے ہیں جو عورتیں ہی سرانجام دے سکتی ہیں مرد نہیں۔ صرف اس مقصد کے حاصل کرنے کے لئے کوئی مرد جس عورت کو منتخب کرے گا الگ صنف اور ایک جنس ہونے کی وجہ سے یقینا وہ مطعون ہوجائے گا اور بہت سے مقامات ایسے بھی آئیں گے کہ وہ مجبور ہوگا اور بات منہ سے نہیں نکال سکے گا۔ اشارہ نہیں کرسکے گا ، ہاتھ تک نہیں ہلا سکے گا لیکن اگر ان سارے مقامات پر اپنی منکوحہ ہوگی تو پھر اس کے لئے کوئی رکاوٹ مطلق نہ ہوگی۔ پھر ملی اور قومی فوائد تو اس کے علاوہ ہیں اس ترح غور کرو گے تو بات بالکل واضح ہوجائے گی۔ مثلاً : ام المومنین حضرت صفیہ ؓ کے نکاح کو دیکھو کہ اس سے پیشتر جس قدر لڑائیاں مسلمانوں کے ساتھ کفار لڑیں ان میں سے ہر ایک میں یہود کا تعلق سراً یا اعلاناً ضرور ہوتا تھا۔ مگر تزویج صفیہ کے بعد یہود مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک نہ ہوئے اس لحاظ سے یہ نکاح کتنا باعث برکت اور کس قدر ضروری تھا۔ ام المومنین ام حبیبہ ؓ کے نکاح پر غور وفکر کرو کہ ان کا باپ ابوسفیان عمائد قریش میں سے تھا اور قوم نشان جنگ اس کے گھر میں رکھا ہوتا تھا جب یہ نشان باہر کھڑا کیا جاتا تو تمام قوم پر آبائی ہدایات اور قومی روایات کے پیش نظر لازم ہوجاتا تھا کہ سب کے سب اس جھنڈے کے نیچے فورا ً جمع ہوجائیں۔ ابوسفیان نے رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں اس نشان سے کیا کیا فائدے حاصل کئے اور کن کن طریقوں سے اسلام کو نقصان پہنچایا لیکن اس تزویج کے بعد دیکھو کہ وہ کس جنگ میں مسلمانوں کے خلاف فوج کشی کرتا نظرآتا ہے ؟ ہرگز نہیں ! بلکہ کچھ مدت کے بعد وہ خود اسلام کے جھنڈے کے نیچے آکر پناہ لیتا ہے کہ اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ نکاح رسول اللہ ﷺ نے بغیرمقصد یا خواہش نفس کی بنا پر کیا تھا ؟ ام المومنین ریحانہ ؓ کے نکاح کے بعد بنی قریظہ کو کبھی اسلام کے خلاف سازش کرنے کی جرات نہیں ہوئی حالانکہ جو تکلیف ان کو احزاب کے بعد پہنچی تھی اس کے عوض میں کچھ نہ کچھ وہ کرنے کی ضرورت سوچ سکتے تھے کیونکہ ان کی خاندانی کمزوری اس سے قبل ایک سے زیادہ بار ظاہرہوچ کی تھی ام المومنین جو یریہ ؓ کے نکاح پر غور کرو کہ ان کا باپ مشہور راہزن اور ڈکیتی پیشہ تھا اور مسلمانوں سے خاص دلی عداوت رکھتا تھا۔ بنو مصطلق کا مشہور طاقتور اور جنگجو قبیلہ جو بہت سے شعوب پر محتوی تھا اس کے اشارہ پر کام کرتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس تزویج سے پیشتر ہر ایک جنگ میں مسلمانوں کے خلاف اس قبیلہ کی شرکت لازم وضروری ہوتی تھی لیکن اس نکاح کے بعدیہ سب مخاصمتیں نابودہوکر رہ جاتی ہیں۔ تمام قبیلہ قزاقی چھوڑ کر متمدن زندگی اختیار کرلیتا ہی اور پھر اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف کسی ایک جنگ میں بھی شامل نہیں ہوتا۔ انصاف اگر کوئی چیز ہے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ نکاح ضروری نہیں تھا۔ ام المومنین میمونہ ؓ کے نکاح کو دیکھو کہ اس کا نتیجہ کیا رہا ؟ ان کی ایک بہت سردار نجد کے گھر تھیں اس نکاح نے ملک نجد میں صلح کے اور امن اور اسلام کے پھیلانے میں بہترین نتائج پیدا کئے حالانکہ قبل ازیں یہی اہل نجد وہ تھے جنہوں نے سترواعظان دین کو اپنے ملک میں لے جاکردھو کہ سے قتل کردیا تھا اور ان سے کئی بار نقص امن اور فساد انگیزی کے واقعات ظہور میں آچکے تھے اس لحاظ سے یہ نکاح کس قدر باعث برکت ہوا جو شخص امن عامہ اور اصلاح ملک کے فوائد کا منکر نہیں وہ خود بخود اعتراف کرے گا کہ یہ عقد مبارک بھی یقینا دینی مصالح سے نہایت ضروری اور اہمیت کا حامل تھا۔ ام المومنین زینب بنت جحش ؓ کے عقد نے دو گھرانوں میں صلح وصفائی کرانے کے ساتھ ساتھ تبنیت کی غیر اسلامی رسم کو بیخ وبن سے اکھیڑ پھینکا اور تثلیث کے بت پر ایسی ضرب لگائی کہ عیسائیت کو دوبارہ اٹھنے کا نہ چھوڑا اور اس درخت کی جڑیں ایسی کھوکھلی کیں کہ وہ کبھی بھی اس سرزمین میں دوبارہ اگتا نظر نہ آیا۔ ام المومنین عائشہ ؓ اور حفصہ ؓ کے نکاح نے کتاب اللہ کی حفاظت اور احادیث کی نشرواشاعت اور تعلیم نسواں کے بارے میں وہ فوق العادت کام کئے جن کی مثال پوری دنیا میں ممکن نہیں اور پھر صدیق ؓ وفاروق ؓ کی خلافتوں کو زیادہ بابرکت اور زیادہ منفعت بنانے میں بہت بڑاکام کیا اور یہ سارے فوائد ایسے ہیں جو رسول کریم ﷺ کی عمدہ تدبیر کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ ہم نے جن فوائد کا ذکر کیا ہے یہ نمونے ہیں اور ان کا احصاء اس جگہ ممکن نہیں۔ اب بھی کوئی دریدہ دہن یہ کے کہ یہ نکاح ازالہ خواہش کے لئے تھے تو یہ اس کی ہٹ دھرمی ہوگی جس کا زمانہ میں کوئی علاج نہیں ہے۔ مخالفین اسلام نے اس باب میں جو ہرزہ سرائی کی ہے ہم اس سے واقف ہیں اس لئے ہم نے اس جگہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کا ہلکاسا ذکر کردیا ہے کہ ان کی یا وہ گوئیوں کا مختصر جواب ہوجائے لیکن اپنوں نے جو اپنی نادانی کے باعث رسول اللہ ﷺ کی خاندانی اور ازواجی زندگی کی روایات کے تراجم کئے ہیں اور جس طرح ان کے مفہوم ومطالب بیان کئے ہیں وہ بھی کسی حال میں صحیح نہیں۔ بلا شبہ رسول اللہ ﷺ نے جس سلیقہ شعاری سے ازواج مطہرات کے حقوق وذمہ داریوں کو پورا کیا ہے وہ آپ ﷺ کا ایک بہت بڑا کمال ہے جس کی مثال پوری دنیا میں ممکن نہیں۔ بلاناغہ سب کا پتہ لینا اور جس جس چیز کی جہاں جہاں ضرورت ہوئی اس کو اس جگہ پہنچانا اور ہر ایک بیوی کی حالت سے ہر وقت واقف رہنا بغیر مطالبہ کئے ان کے ہاں اشیائصرف پہنچانا۔ سب کی خبرگیری کرنے کے بعد اپنی باری کی رات باری ہی کی جگہ گزارنا ان کاموں سے ہے جو عام انسان کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ خصائص نبوت ہی میں سے ایک خصوصیت ہے اور آپ ﷺ میں یہ بدرجہ اتم موجود تھی اور یہی وہ کمالات ہیں جن کی وجہ سے آپ ﷺ امت کے سارے لوگوں سے درود وسلام کے حق قرار پائے اور یہ درود وسلام نہ پیش کرنے والے مستحق عقوبت ٹھہرے اور ایک مسلم کی زندگی میں لازم قرار دیا گیا کہ جب آپ ﷺ کا اسم گرامی آئے تو آپ ﷺ کے محاسن کا اقرار کرے۔ اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد (حاشیہ آیت ھذا) اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کو رد کرنے والا مومن نہیں ہوسکتا 36 ۔ اس سورت کے شروع میں آپ تفصیل کے ساتھ پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مخاطب کرکے اس کی وضاحت کردی ہے کہ لوگو ! میں نے تو ایک انسان کے جسم میں ایک ہی دل پیدا کیا ہے ، یہ کیوں فرمایا ؟ اس لئے کہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ جب دل ایک ہے تو ضروری ہے کہ یا تو اس میں دنیا اور اہل دنیا کی محبت خیمہ زن ہوگی یا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری کا پرچم اس میں لہرائے گا۔ اب ان دو میں سے ایک کا انتخاب ناگزیر ہے۔ اس جگہ اس کی وضاحت کی جارہی ہے کہ ایک مومن کے دل میں تو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اور ان ہی کی محبت رچی بسی ہوتی ہے اس لئے جب ان کو اللہ کا حکم اور اس کے رسول کا حکم بتایا جاتا ہے تو وہ اپنی مرضی کبھی نہیں کرتا بلکہ اپنی مرضی کو بالائے طاق رکھ کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اس جگہ اس کے بیان کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ جب نبی اعظم وآخر ﷺ نے اپنی پھوپھی امیمہ کی بیٹی کو زید بن حارثہ کے لئے جو اس وقت تک زید بن محمد ہی کے نام سے یاد کیے جاتے تھے جن کا ذکر پیچھے گزر چکا طلب کیا تو زینب نے خود اور ان کے بھائیوں نے اس بات کو پسند نہ کیا اس لئے صاف انکار کردیا کہ یہ رشتہ نہیں ہوسکتا ادھر یہ بات ہوئی اور ادھر اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو یہ آیات کریمات دے کر محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف بھیج دیا۔ جب یہ آیات کریمات زینب اور سا کے بھائیوں نے سنیں تو وہ فوراً نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور آپ ﷺ کا پیغام قبول کرنے کی وضاحت کردی کہ اگر آپ ﷺ کا حکم ہے تو ہم قطعاً حکم عدولی نہیں کرسکتے بلا شبہ یہ ایک وقتی واقعہ تھا جو اس طرح تکمیل کو پہنچ گیا اور زینب کا نکاح زید ؓ ؓ سے کردیا گیا اور زید زینب کو لے کر چلے گئے لیکن ان آیات کریمات میں جو حکم دیا گیا وہ خاص اس ایک واقعہ کے لئے مخصوص نہیں تھا بلکہ حکم عام ہے اس وقت بھی عام تھا اور آج بھی حکم عام ہے اور قیامت تک رہے گا اس لئے کسی مسلمان فرد ، قوم ، حکومت یا حکومت کے کسی کمیشن اور قانون سازادارہ کو اس امر کا اختیار نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ رسول ﷺ کے ارشاد کو نظر انداز کرکے اپنے لئے کوئی نئی راہ عمل تجویز کرے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ ازروئے قرآن کریم مومن نہیں رہے گا اس لئے مسلمان ہوتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی اطاعت کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ اب قابل غور امر یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ، اپنے ماحول کو ، اپنی حکومت کو اور رعایا سب کو دیکھیں کہ ان حکم کے مطابق عمل ہورہا ہے ؟ اگر جواب نفی میں ہے تو ہمیں خود ہی اپنی حیثیت کے بارے میں سمجھ کر اپنی اصلاح کرنی ہوگی اگر ہم نے اس حالت پر غور نہ کیا تو روز بروز ضلالت کے گڑھے ہی میں گرتے جائیں گے اور اس وقت دنیا میں جو ہماری حالت ہے اس سے بھی ابتر ہوتی چلی جائے گی اللہ تعالیٰ ہم کو سمجھ کی توفیق دے اور ہمارے خواص وعوام اس حقیقت کو سمجھ جائیں۔ یاد رہے کہ اصل فوزوفلاح وہی ہے جو آخرت کی ہے اور آخرت کی کامیابی اور فوز عظیم کا تاج صرف اسی کے سر پر رکھا جاتا ہے جو پیکر تسلیم ورضا بن کر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر ارشاد کے سامنے بصد شوق اور بہ ہزار مسرت اپنا سر نیاز جھکا دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی زندگی اور اپنے پیارے رسول ﷺ کی صحیح اور سچی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اختراعی اور مصنوعی اور بناوٹی فرمانبرداری سے بچائے۔ سچی اور صحیح فرمانبرداری کی حقیقت خود نبی اعظم وآخر ﷺ نے واضح فرمادی جیسا کہ ارشاد فرمایا کہ لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین (صحیح بخاری) ” تم میں سے اس وقت تک کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ میں اسے اپنے باپ ، اپنی اولاد ، تمام احباب و اقرباء اور مال وجان کے مقابلہ میں محبوب نہ ہوجائوں “۔ نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا علامہ اقبال (رح) نے بھی اسی طرح اس کو قلم بند کیا ہے ؎ یہ مصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر باد نہ رسیدی تمام بو لمی است اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہی دراصل گمراہی ہے گزشتہ آیت میں فرمایا گیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کردے تو کسی مومن مرد اور مومن عورت کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس فیصلے کو ناپسند کریں یا اس فیصلے کے مقابلے میں خود کوئی فیصلہ کرنے لگیں یا آپ ﷺ کے فیصلے پر کسی قسم کی تنقید کریں اور اب زیر نظر آیت میں واضح کردیا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی سے بڑھ کر اور کوئی نافرمانی بھی نہیں ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اتنی بڑی گمراہی ہے کہ اس میں گرنے والا انسان سیدھا جہنم کے گڑھے میں پہنچ جاتا ہے اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی سنت کیا ہے ؟ یہی کہ راستے کا چنائو ہم خود کریں گے ، نیکی کا راستہ خواہ بدی کا راستہ ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ پر جاں نثاری کا راستہ یا ان کی مخالفت کا راستہ لیکن جو راستہ ہم اختیار کرلیتے ہیں اسی راستے پر اللہ تعالیٰ بڑھاتے ہی چلا جاتا ہے اور اس کی توفیق دیتے چلا جاتا ہے۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ناک ، کان ، آنکھ ، ہاتھ ، پائوں اور دوسرے تمام اعضاء وجوارح عنایت فرمائے ہیں ان کا پابند کیا ہے کہ خواہ ہم صحیح راستے پر چلیں یا غلط راستے پر یہ ہمارا ساتھ دیں گے۔ ہاں ! یہ الگ بات ہے کہ مرنے کے بعد یہی ہاتھ ، پائوں اور کان وغیرہ ہمارے خلاف استغاثے کے عین گواہ بن جائیں اور ہمارے خلاف بولنا شروع کردیں جیسا کہ اس کی تفصیل پیچھے سورة النور کی آیت 24 میں وضاحت سے گزر چکی ہے اور آگے انشاء اللہ العزیز سورة فصلت اور سورة یٰسٓ میں بھی آئے گی۔
Top