Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 37
وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ اَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللّٰهَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ وَ تَخْشَى النَّاسَ١ۚ وَ اللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُ١ؕ فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَیْ لَا یَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا
وَاِذْ : اور (یاد کرو) جب تَقُوْلُ : آپ فرماتے تھے لِلَّذِيْٓ : اس شخص کو اَنْعَمَ اللّٰهُ : اللہ نے انعام کیا عَلَيْهِ : اس پر وَاَنْعَمْتَ : اور آپ نے انعام کیا عَلَيْهِ : اس پر اَمْسِكْ : روکے رکھ عَلَيْكَ : اپنے پاس زَوْجَكَ : اپنی بیوی وَاتَّقِ اللّٰهَ : اور ڈر اللہ سے وَتُخْفِيْ : اور آپ چھپاتے تھے فِيْ نَفْسِكَ : اپنے دل میں مَا اللّٰهُ : جو اللہ مُبْدِيْهِ : اس کو ظاہر کرنے والا وَتَخْشَى : اور آپ ڈرتے تھے النَّاسَ ۚ : لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ اَحَقُّ : زیادہ حقدار اَنْ : کہ تَخْشٰىهُ ۭ : تم اس سے ڈرو فَلَمَّا : پھر جب قَضٰى : پوری کرلی زَيْدٌ : زید مِّنْهَا : اس سے وَطَرًا : اپنی حاجت زَوَّجْنٰكَهَا : ہم نے اسے تمہارے نکاح میں دیدیا لِكَيْ : تاکہ لَا يَكُوْنَ : نہ رہے عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں حَرَجٌ : کوئی تنگی فِيْٓ اَزْوَاجِ : بیویوں میں اَدْعِيَآئِهِمْ : اپنے لے پالک اِذَا : جب وہ قَضَوْا : پوری کرچکیں مِنْهُنَّ : ان سے وَطَرًا ۭ : اپنی حاجت وَكَانَ : اور ہے اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم مَفْعُوْلًا : ہوکر رہنے والا
اور جب تم (اے پیغمبر اسلام ! ) اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے احسان فرمایا اور تم نے بھی کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور آپ ﷺ کے دل میں وہ بات چھپی تھی جس کے (ظاہر) ہونے سے آپ ﷺ ڈر رہے تھے (کہ اگر طلاق ہوگئی تو لوگ کیا کہیں گے) لیکن اللہ اس کو ظاہر کرنا چاہتا تھا آپ ﷺ لوگوں (کے طعنوں) سے ڈرتے تھے اور اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرا جائے پھر جب زید ؓ نے اپنی بیوی کو بیوی بنانے کے بعد (طلاق دے دی تو) ہم نے اس عورت کو آپ ﷺ کے نکاح میں دے دیا (یعنی ہم نے حکم دیا کہ اس سے تم خود نکاح کرلو) تاکہ مسلمانوں پر اپنے متبنٰی بیٹوں کی بیویوں (کے ساتھ نکاح کرنے) میں کوئی حرج نہ ہو (جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں) جب کہ ان کے لے پالک اپنی بیویوں کو بیویاں بنا چکے ہوں (اور پھر طلاق دے دیں) اور اللہ کا حکم یعنی (فیصلہ) پورا ہو کر رہتا ہے
زیر نظر آیت زیدوزینب کے مہتم بالشان واقع کی طرف اشارات کررہی ہے 37 ۔ ہر قوم میں کچھ رسومات پائی جاتی ہیں جن رسومات کی وہ اس قدر پابند ہوتی ہے کہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتی ہے کہ یہ رسم باقی رہے ، ہمارا کچھ باقی رہے با لکل نہ رہے اگرچہ ان رسومات کی حقیقت کچھ بھی نہ ہو الا یہ کہ اس قوم کے آباء و اجداد وہ کرتے رہے ہیں اور یہی وہ دلیل ہے جو ہزار ہا دلیلوں پر حاوی ہوتی ہے۔ یہودیوں میں یہ رسم گھر کرگئی کہ کوئی شخص جو بیت المقدس کا خادم ہو کر اپنی زندگی بیت المقدس کے لئے وقف کردے اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس خدمت کو قبول کرلینے کے بعد بھی ازواجی زندگی قائم کرے اور یہ رواج اتنا پختہ تھا کہ لوگ حرام کاریاں کرتے لیکن اس حلال کی کوئی جرات نہ کرسکتا تھا اس رسم بد کو توڑنے کے لئے خانوادہ عمران نے ایک نہایت ہی اہم رول ادا کیا اور کسی ملامت کرنے والی کی ملامت کی کوئی پروانہ کرتے ہوئے اس رسم کو ایک اللہ کی خاص بندی سیدہ مریم ؓ نے توڑا اگرچہ لوگوں نے اس کو بہت ہی پریشان کیا۔ مختصر یہ کہ جو رسمیں کسی معاشرہ میں جڑ پکڑ جاتی ہیں لوگ ان کے اتنے گرویدہ ہوجاتے ہیں کہ ان سے دست کش ہونا کسی طرح بھی پسند نہیں کرتے خواہ وہ رسمیں کتنی ہی لغو اور بیہودہ کیوں نہ ہوں کہ نہ سے دست کش ہونا کسی طرح بھی پسند نہیں کرتے خواہ وہ رسمیں کتنی ہی لغو اور بیہودہ کیوں نہ ہوں عوام الناس تو محض قدامت پسندی اور کو رانہ تقلید کے باعث ان رسوم کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے اور اہل دانش وفہم اس خوف سے ایسا کرنے کی جرات نہیں کرتے کہ اس طرح ان کا معاشرتی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ قوم ذہنی انتشار میں مبتلا ہوجائے گی اور لاقانونیت پھیل جائے گی۔ اس لئے عوام اپنے نقطہ نظر سے اور خواص اپنے اندیشوں کے باعث مروجہ رسوم کو نہیں چھیڑتے اور اگر کوئی شخص ان میں ردوبدل اور اصلاح کی کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ عرب میں دیگر لغو رسموں کے علاوہ یہ بیہودہ رسم بھی تھی کہ جب کوئی شخص کسی کو اپنا متنبی بنا لیتا ہے تو اسے وہی حقوق حاصل ہوجاتے ہیں جو حقیقی فرزند کو حاصل ہوتے ہیں۔ وہ متنبی بنانے والے کے مرنے کے بعد اس کا وارث ہوتا ، اس کی زوجہ کی بھی وہی حیثیت ہوتی جو سگے بیٹے کی بہو کی ہو۔ وہ اجنبی لڑکا اس قبیلہ کا فرد شمار ہونے لگتا۔ اس طرح اس رسم کے باعث طرح طرح کی خرابیاں مترتب ہورہی تھیں ، نسب میں خلط ہورہا تھا ، بیٹا وہ کسی کا ہوتا لیکن متنبی بننے سے اپنے خاندان سے کٹ جاتا اور دوسرے خاندان کا فرد شمار ہوتا۔ اگ رکسی کی حقیقی اولاد نہ ہو تو اس کے دوسرے قریبی رشتہ دار اس کے مال متروکہ کے حقدار بنتے ہیں لیکن متنبی ہونے کی صورت میں یہ اجنبی بچہ ان کے سارے حقوق کو غضب کرلیتا اور خونی اور نسبی قرابت رکھنے والے قریبی رشتہ دار بھائی بھتیجے محروم کردیئے جاتے جو صریح ظلم تھا ، پھر ایسے متنبی کی بہو کے ساتھ اگر بعینہ وہی سلوک کیا جائے تو حرمت مصاہرت کا دائرہ بہت وسیع ہوجاتا ہے۔ متنبی بنانے والے پر اس کے متنبی کی بیوی حرام ، اس کی بیوی کی ماں حرام ، اگر کوئی اس کی بیٹی ہو تو حرام۔ یہ عورتیں جن سے نکاح حلال ہے ان سے اس رسم کے باعث نکاح حرام ہوجاتا تھا۔ اس جاہلانہ رسم سے طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہورہی تھیں اور معاشرہ گوناگوں مشکلات میں مبتلا تھا لیکن سماج کے اس رواج کی اصلاح کرنے کی ہمت کسی میں نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر رحم فرماتے ہوئے جب نبی کریم ﷺ کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا تو نبی کریم ﷺ نے ان تمام رسم و رواج کو ختم کردیا ۔ نبی کریم ﷺ سوسائٹی کے دبائو کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایسا جرات مندانہ اقدام نہ فرماتے تو اور کون اصلاح کرتا۔ اگر یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل جاتا تو قیامت تک ان محرومیوں کا سلسلہ جاری رہتا۔ سورة پاک کے آغاز میں حکم دیا کہ متنبی تمہارا حقیقی بیٹا نہیں۔ یوں ہی صرف زبان ہلادینے سے کسی کا بیٹا اپنا بیٹا نہیں بن سکتا۔ اس لئے نہ ان کو اپنا بیٹا سمجھو ، نہ زبان سے اس کی فرزندی کی نسبت اپنی طرف کرو۔ اس ارشاد پر عمل کی ابتداء بھی ذات رسالت مآب ﷺ سے ہوئی۔ حضرت زید ؓ جنہیں زید بن محمد ﷺ کہہ کر پکارا جاتا تھا ، اب پھر اپنے حقیقی بات کی طرف منسوب ہو کر زید بن حارثہ کہے جانے لگے۔ لیکن ابھی تک اس رسم و رواج کے کئی غلط اثرات باقی تھے جن کے متعلق قوم کے جذبات ازحد حساس واقع ہوئے تھے ، ان کے خلاف سوچنا بھی ان کے اختیار میں نہ تھا۔ اپنے متنبی کی زوجہ ان کے نزدیک بعینہ اس حیثیت کی مالک تھی جو اپنے حقیقی بیٹے کی بہو کی حیثیت تھی۔ عرب کا قانون بھی اپنے بیٹے کی بیوی مطلقہ ہو یا بیوہ سے نکاح کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ قرآن نے بھی اس کی حرمت کو برقرار رکھا۔ متنبی کی بیوی کی حیثیت بھی وہی تھی ، اس کے حرام ہونے میں انہیں قطعاً کوئی شبہ نہ تھا۔ اسلام نے اس قبیح رسم اور اس پر مترتب ہونے والے نتائج کو منسوخ کردیا۔ جب حضرت زید ؓ نے حضرت زینب ؓ کو طلاق دے دی تو نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق انہیں اپنی زوجیت کا شرف بخشا۔ اس طرح اس رسم بد پر کاری ضرب لگا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کا خاتمہ کردیا۔ واقعہ کی صحیح صورت تو یہ ہے جو آپ کے سامنے بلاکم وکاست پیش کردی گئی لیکن یورپ کی متعصب اور تنگ نظر پادریوں نے جنہوں نے دنیا کو دھوکا دینے کے لئے مورخ ، محقق اور مستشرق کا لباس اوڑھ رکھا ہے تاریخ اسلام کے اس سادہ سے واقعے کو یوں اچھالا اور اسے ایسا رنگ دیا کہ اچھے اچھے سمجھ دار ان کے دام فریب میں پھنس گئے اور دولت ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آئیے ! قرآن کریم کے کلمات طیبات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور جہاں جہاں انہوں نے ٹھوکر کھائی یا دانستہ اپنی بدباطنی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی نشاندہی کریں تاکہ حقیقت اپنی رعنائیوں کے ساتھ آشکارا ہوجائے۔ بعض غلط اور بالکل باطل روایات کا سہار لے کر یہ کہا جاتا ہے کہ جب حضرت زینب ؓ کا نکاح حضرت زید ؓ سے ہوگیا تو ایک روز اچانک نبی کریم ﷺ ان کے گھر تشریف لے گئے وہ گھر پر موجود نہ تھے۔ حضرت زینب ؓ بےدھیانی کے عالم میں بیٹھی تھیں۔ اچانک جب ان پر نظر پڑی تو نبی کریم ﷺ ان پر فریفتہ ہوگئے (نعوذ باللہ) اور یہ کہتے ہوئے واپس ہوئے : سبحان اللہ مقلب القلوب پاک ہے دلوں کو بدلنے والا۔ یہ آواز حضرت زینب نے سن لی۔ زید آئے ساری بات کہہ سنائی۔ حضرت زید ؓ نے یوں ہی مناسب سمجھا کہ وہ اپنی زوجہ کو طلاق دے دیں تاکہ نبی کریم ﷺ ان سے نکاح کرسکیں انہیں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا ارادہ ظاہر کیا۔ نبی کریم ﷺ نے زبان سے تو یہ فرمایا کہ زید اپنی زوجہ کو طلاق نہ دے اور اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈر۔ لیکن نبی کریم ﷺ کی دلی خواہش یہی تھی کہ زید طلاق دے دے تو نبی کریم ﷺ ان سے نکاح کریں۔ محض ظاہر داری کے طور پر نبی کریم ﷺ نے انہیں طلاق دینے سے منع فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات پر عتاب فرمیا اور کہا کہ تم زبان سے کچھ کہہ رہے ہو اور دل میں کچھ چھپاتے ہو۔ میں تمہارے دل کے پوشیدہ رازوں کو ظاہر کردوں گا۔ چناچہ ان بد باطنوں نے اس آیت کے ان جملوں { امسک علیک زوجک واتق اللہ وتخفی فی نفسک ماللہ مبدیہ } کا یہی معنی لیا ہے اور اپنی خبث باطنی کے باعث بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں گستاخی کی جرات کی۔ دل ہرگز برداشت نہیں کرتا کہ ان کی اس یا وہ گوئی کو لکھنے کی جرات کرے لیکن جب تک اس لکھا نہ جاتا اس کا رد ممکن نہ تھا۔ میں آپ کو ایک عقیدت مند کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک حقیقت پسند کی حیثیت سے ان کی اس ہزہ سرائی پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں ، صداقت خودبخود نکھر کر سامنے آجائے گی۔ اگر حضرت زینب ؓ ایک اجنبی خاتون ہوتیں ، کسی غیر قبیلہ کی فرد ہوتیں جنہیں نبی کریم ﷺ نے کبھی نہ دیکھا ہوتا تو پھر ان کی اس بےسروپا حکایت کو ماننے کی وجہ بھی ہوتی کو اچانک دیکھا اور دل میں ان کی خوبصورتی کو دیکھ کر جذبہ الفت پیدا ہوا حالانکہ واقعہ ایسا نہیں۔ آپ نبی کریم ﷺ کی پھوپھی زاد ہیں ، حضرت عبدالمطلب کی نواسی ہیں ، نبی کریم ﷺ کے سامنے ولادت ہوئی ، نبی کریم ﷺ کے گھر کے صحن میں ان کا بچپن گزرا ، نبی کریم ﷺ کی آنکھوں کے سامنے وہ جوان ہوئیں۔ صبح وشام اپنی پھوپھی کے ہاں آمدورفت رہتی۔ کون سی ایسی بات تھی جس کا نبی کریم ﷺ کو علم نہ تھا ۔ ان کی زندگانی کو کون سا ایسا پہلو تھا جو نبی کریم ﷺ پر مخفی تھا جو اس روز اچانک آشکارا ہوا اور حجت کا طوفان امڈ آیا۔ نعوذ باللہ۔ اور سنئے ! حضرت زینب ؓ ان سعادت مند خواتین میں سے تھیں جو اسلام کے ابتدائی دور میں ایمان سے مشرف ہوئیں۔ پھر نبی کریم ﷺ کی ہجرت کے بعد مکہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ میں آگئیں۔ مزید غور فرمائیے جب نبی کریم ﷺ نے انہیں حضرت زید ؓ کے لئے شادی کا پیغام بھیجا تو انہوں نے اور ان کے بھائی نے یہ خیال کیا کہ نبی کریم ﷺ اپنی ذات اقدس کے لئے بہ رشتہ طلب فرما رہے ہیں ، اس خیال کے پیش نظر انہوں نے بطیب خاطر بصد مسرت اس پیغام کو قبول کیا لیکن جب پتہ چلا کہ یہ پیغام زید کے لئے تھا ، تو پھر وہ صورت حال پیدا ہوئی جس کا ذکر ابھی گزر چکا ہے۔ جب حقیقت حال یہ ہے تو کوئی غیرت مند اور حقیقت پسندشخص اس داستان سراپا ہذیان کو قبول نہیں کرسکتا۔ یہ عجیب بات ہے کہ جب حضرت زینب ؓ کنواری تھیں اور نبی کریم ﷺ کے حرم کی زینت بننے کو اپنے لئے اور اپنے کنبہ کے لئے باعث صد عزت محسوس کرتی تھیں ، اس وقت نبی کریم ﷺ کے دل میں کوئی کشش پیدا نہ ہوئی اور جب ایک سال سے زائد عرصہ آپ کے آزاد کردہ غلام کے ساتھ ازواجی زندگی بسر کرچکیں تو اچانک یہ صورت پیدا ہوگئی جو ان عقل کے اندھوں کو نظر آنے لگی۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ پھر قرآن کریم کے ان جملوں کا مطلب کیا ہے ؟ (1) { امسکل علیک زوجک واتق اللہ } کہ اپنی بوی کو اپنے پاس روکے رکھو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرو ۔ نبی کریم ﷺ کے یہ فرمانے کی کیا وجہ تھی ؟ (2) { تخفی فی نفسک } وہ کیا بات تھی جسے نبی کریم ﷺ اپنے دل میں چھپانا چاہتے تھے۔ (3) { تخشی الناس } کا معنی کیا ہے ۔ نبی کریم ﷺ لوگوں سے کیوں خوف فرما رہے تھے ؟ آئیے یہ بھی سن لیجئے تاکہ آپ کے دل کی ہر خلش دور ہوجائے۔ بفضلہ تعالیٰ ۔ حضرت زینب ؓ نے ارشاد نبوی کے مطابق حضرت زید ؓ سے نکاح تو کرلیا تھا لیکن مزاد اور طبعیت کا تفاوت قائم رہا۔ آپ کو اپنے عالی خاندان اور شریف النسب ہونے پر جو فخر تھا اس سے ان کی خانگی زندگی تلخیوں سے دور چار ہوتی رہتی تھی۔ وہ اپنے خاوند کے ساتھ وہ سلوک روانہ رکھتیں جو روا رکھنا چاہیے تھا۔ تلخ کلامی اور توں توں میں میں کی نوبت اکثر آتی رہتی تھی۔ حضرت زید ؓ بھی غیرت مند جوان تھے۔ وہ آئے دن کی یہ بےعزتی اور تذلیل برداشت کرتے کرتے تھک گئے تھے ، ان کا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا تھا۔ خانگی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے ان کی ساری کوششیں ناکام ہوچکی تھیں ۔ سال کی ترش کلامی کے باعث زید دلبرداشتہ ہوگئے۔ باہمی مودت والفت کی جگہ شدید نفرت نے لے لی اور طلاق کے بغیر اس الجھن کا انہیں کوئی حل نظر نہیں آتا تھا کیونکہ یہ نکاح نبی کریم ﷺ نے خود کروایا تھا ، اس لئے ان کی یہ مجال نہ تھی کو چپکے سے طلاق دے کر انہیں فارغ کردیتے۔ نبی کریم ﷺ کی خدمت عرض کرنا ضروری تھا چناچہ حاضر ہوئے اور اپنی ساری بپتا کہہ سنائی ۔ نبی کریم ﷺ کو بھی زید کے اس ارادے سے بڑی تشویش ہوئی اور یہ بالکل قدرتی عمل تھا۔ کل اتنا مجبور کرکے نکاح کیا اور آج زید نے طلاق دے دی ، لوگ کیا کہیں گے ؟ چناچہ نبی کریم ﷺ نے انہیں یہی سمجھایا کہ تم طلاق دینے سے باز آئو اور اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ کل میں نے بڑے شوق سے تمہارا نکاح کیا ہے آج اگر تم طلاق دے دو تو حضرت زینب اور ان کے عزیزوں کی دل شکنی ہوگی لیکن حضرت زید کے لئے یہ ممکن نہ رہا تھا ، اصلاح احوال کے لئے انہوں نے سارے جتن کئے تھے اور ہر امکانی کوشش کی تھی لیکن حضرت زینب کے مزاج کو بدلنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ سیدہ زینب کا رشتہ جو بنی کریم ﷺ نے طلب کیا تھا وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے طلب کیا تھا اور جب زینب اور اس کے بھائیوں نے اس کو ناسند کیا تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر وحی نازل فرمائی جس میں واضح کیا گیا کہ یہ رشتہ محض مشورے کے طور پر نہیں طلب کیا گیا بلکہ حکم الٰہی اور ہدایت خداوندی کے مطابق طلب کیا گیا ہے اس لئے اس سے انکار تو کفر کے مترادف ہوگا۔ یہ بات جب زینب اور ان کے بھائیوں نے سنی تو یقینا انہوں نے اس کو مکمل طور پر دلی رغبت کے ساتھ قبول کیا حالانکہ زید غلام بھی مشہور تھے اور اس سے پہلے نہ صرف یہ کہ وہ شادی شدہ تھے بلکہ صاحب اولاد بھی تھے اور دوسری طرف زینب ابھی تک کنواری تھیں اگرچہ عمر زیادہ ہوچکی تھی پھر حالات کی کشیدگی ، آخر کیوں ؟ اس لئے کہ علم الٰہی میں تو وہ سارے کا سارا واقعہ موجود تھا جس واقعہ کے تحت یہ معاملہ طے ہوا اور وہ یہی تھا کہ زید کے ساتھ نکاح اور میاں بیوی میں ازواجی تعلق قائم ہونے کے بعد اس طلاق کا ہونا ضروری ہے تاکہ ایک خاندانی بت کے ٹوٹنے کے بعد تبنیت کا بت بھی پاش پاش کردیا جائے اور ظاہر ہے نوشتہ الٰہی خطا نہیں ہوتا اور تدبیر الٰہی کے فیصلے ساری دنیا مل کر بھی غلط نہیں کرسکتی بلکہ اس کے رسولوں تک کو یہ اجازت نہیں کہ اللہ رب ذوالجلال والا کرام کے فیصلوں کو بدل دیں جب مشیت ایزدی میں طے تھا کہ اس طلاق کو ہونا ہے تو پھر کون تھا جو اس کو روک سکتا۔ یہی وہ خاص وجہ تھی کہ زید وزینب میں نباہ نہ ہوسکا ، نوشتہ خداوندی کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتا اس لئے وہی ہوا جو پروردگار عالم کو منظور تھا۔ اس جملہ سے یہ معنی اخذ کرنا نبی کریم ﷺ محض ظاہر داری کی وجہ سے یہ فرما رہے تھے انسانیت ، شرافت اور حقیقت حال کے ساتھ بہت بڑی بےانصافی ہے بلکہ اس جملہ کا یہ مفہوم ہے جو میں نے عرض کیا۔ وتخفی فی نیسک پر ان عیاروں نے بڑی لے دے کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس چیز کو نبی کریم ﷺ چھپا رہے تھے وہ حضرت زینب ؓ سے محبت تھی ، لیکن ان کی اس ہرزہ سرائی کو آیت کا اگلا حصہ باطل کردیتا ہے۔ ارشاد ہے { ما اللہ مبدیہ } یعنی آپ وہ چیز دل میں چھپارہی ہیں جسے اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا ہے۔ معلوم ہوا جسے نبی کریم ﷺ چھپا رہے تھے ، وہ وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا۔ اب آپ یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس چیز کو ظاہر فرمایا ہے تو جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا وہی وہ چیز ہے جس کو نبی کریم ﷺ چھپا رہے تھے۔ اس کے علاوہ کسی اور چیز کا تصور کرنا باطل ، کذب اور محض افتراء ہے ، خود بتائیے کسی جگہ اللہ تعالیٰ نے اس عشق و محبت کو ظاہر کیا ، صراحتا نہ سہی کنایتاً ، لفظاً نہ سہی اشارتاً ۔ اگر ایسی بات کسی بات کا نام ونشان نہیں تو پھر { تخفی فی نفسک } کا یہ معنی بیان کرنا جو ان لوگوں نے کیا ہے کتنی بڑی گستاخی ہے۔ وہ بات جسے نبی کریم ﷺ چھپا رہے تھے اور جسے اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا ، وہ کیا تھی ؟ اس کے متعلق وضاحت زین العابدین علی بن حسین علیہ وعلی ابیہ وجدہ افضل الصلوٰۃ والسلام والتسلیم کے اس بیان سے ہوتی ہے۔ اوحی اللہ تعالیٰ ماواحی اللہ تعالیٰ بہ ان زینب سیطلقھا زید وتتزوجھا بعدہ (علیہ الصلوٰۃ والسلام) الی ھذا ذھب اھل لتحقیق من المفسرین کالزھری وبکر بن علاء والقشیری والقاضی ابوبکر بن العربی وغیرھم (روح المعانی ، قرطبی) آپ ﷺ زید کو روکتے رہے اور منع کرتے ہی رہے تا آنکہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے رسول پر یہ وحی فرمائی تھی کہ زید ؓ حضرت زینب ؓ کو طلاق دے دیں گے اور آپ ﷺ ان سے نکاح فرمائیں گے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے زید کو منع کرنا بند کردیا اور حکم الٰہی کے آنے کے بعد خاموش ہوگئے ۔ مفسرین میں سے اہل تحقیق کا یہی قول ہے کیونکہ یہی وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے { زوجنا کھا } سے تعبیر فرمایا ہے اس اور اس کی حکمت بھی خود ہی بیان فرما دی کہ پہلے جو رسم چلی آرہی ہے کہ اپنے متنبی کی زوجہ سے نکاح حرام ہے ، اس کا خاتمہ کردیا جائے تاکہ لوگ اس رسم قبیح کے باعث جن پریشانیوں سے دو چار ہیں ، ان کا ازالہ ہوسکے۔ ایک بار پھر { وتخشی الناس } کے کلمات پر بھی غور کیجئے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو بتا دیا کہ اس رسم بدکو ختم کرنے کے لئے اس کا فیصلہ یہ ہے کہ زید طلاق دے گا اور آپ ﷺ ان سے نکاح کریں گے۔ نبی کریم ﷺ جانتے تھے کہ کفار ومنافقین اس پر بہتان طرازی کا طوفان برپا کردیں گے ، حقیقت کو مسخ کر کرکے لوگوں کے سامنے پیش کریں گے اور پراپیگنڈہ کا جو موث موقع انہیں ملا ہے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے ۔ ان کی زبان درازیوں کے باعث ہوسکتا تھا کہ بعض کمزور ایمان والے پھسل جائیں۔ یہ اندیشہ تھا جو نبی کریم ﷺ دل ہی دل میں محسوس فرما رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بھی پسند نہیں کہ ایسے اندیشوں کو اس کا رسول ﷺ پرکاہ کی بھی وقعت دے۔ جھوٹ کے طوفان باندھنے والے باندھا کریں۔ دین اسلام کا پرچم سرنگوں نہیں ہوگا۔ نبی کریم ﷺ کی عزت و عظمت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ اگر کوئی بدبخت ان کی ہرزہ سرائی سے متاثر ہو کر اسلام سے اپنا رشتہ توڑتا ہے تو آپ کو میرے محبوب کیا پروا ایک بار نہیں سو بار انہیں روٹھنے دو ۔ اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ { فلماقضی زید منھا وطرا } پھر جب زید نے اپنی بیوی سے خواہش پوری کرلی یعنی طلاق دے دی اور طلاق کے بعد وہ مدت بھی گزر گئی جس مدت کے اندر خاوند طلاق واپس لینے کا حق رکھتا ہے اس طرح گویا اب زید کی اپنی بیوی زینب کی کوئی خواہش باقی نہ رہی اور ان کا مکمل طور پر منقطع ہوگیا { وطرا } کے معنی خواہش ، ضرورت اور حاجت کے ہیں اس لئے بعض مفسرین نے اس سے یہ مراد بھی لی ہے کہ زید نے زینب سے جب مخصوص تعلق قائم کرلیا تھا لیکن اس کے باوجود فریقین کے درمیان جو سکون درکار ہوتا ہے وہ میسر نہ آیا تو انجام کار زید نے طلاق دینے کا حق استعمال کر ہی دیا باوجود اس کے کہ آپ ﷺ اس کو روکتے رہے کیونکہ یہ روکنا صرف ایک مشورہ کی حد تک تھا اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اصل صورت حال سے آگاہ کیا تو آپ ﷺ خاموش ہوگئے اور زید ؓ نے زینب ؓ کونہ یہ کہ صرف طلاق ہی دی بلکہ طلاق کے دینے کے بعد رجوع کی مدت بھی پوری ہوگئی تو ہم نے یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو یعنی نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ﷺ خود اس سے یعنی زینب سے نکاح کرلیں تو آپ ﷺ نے حکماً نکاح کرلیا گویا آپ ﷺ نے عدت کے دن پورے ہونے کے بعد زینب کو نککاح کی دعوت دی جو اس نے بخوشی قبول کرلی اور اس طرح باقاعدہ حبالہ عقد میں آگئیں اور آپ ﷺ نے زفاف کی رات گزارنے کے بعد ولیمہ کی دعوت کی اور صحابہ کی کثیر تعداد اس میں شامل ہوئی۔ اس طرح تبنیت کی رسم اور پھر متنبی کی بیوی سے نکاح جائز نہ ہونے کی رسم کا قیامت تک کے لئے خاتمہ ہوگیا۔ آخر میں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے وہ یہ کہ ہم نے اوپر یورپ کے مستشرقین کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اس پر بہت لے دے کی ہے حالانکہ انہوں نے یہ باتیں اپنے پاس سے تو نہیں گھڑی ہیں بلکہ ہمارے ہاں کی تفاسیر میں اس طرح کی باتیں موجود ہیں جہاں سے انہوں نے اخذ کی ہیں اور جب ایسا ہے تو ان کا قصور کیا ؟ بلا شبہ ہمارے ہاں کی بعض تفاسیر میں بھی یہ سب کچھ موجود ہے اور انہوں نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ یہیں سے حاصل کیا ہے تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ جہاں اس طرح کی چیزیں ہمارے ہاں پائی گئی ہیں تو ان کا رد بھی ہمارے پاس موجود ہے اور جب ایک چیز لکھ مٹا دی گئی ہو تو اس لکھنے کو آخرکون لکھنا کہے گا اگر انہوں نے ایسی باتوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھا تو کم از کمان کا رد بھی ساتھ ہی بیان کردیتے تو یہ دیانت ہوتی یہ نہایت بددیانتی کی بات ہے کہ آدمی یک طرفہ بات کرے جب کہ وہ بات اچھی بھی نہ ہو عین ممکن ہے کہ ان لوگوں نے جنہوں نے ایسی باتیں تحریر کیں ان کا مقصد صرف تاریخی حیثیت سے یہ بتانا ہی ہوا کہ بعض نے اس طرح کی باتیں بھی کیں ہیں اور اس طرح نقل کفر کفر نہ رہے گی لیکن مستشرقین نے تو ان کی حقیقت پر مبنی رکھ کر ان کو وہ لبادہ پہنایا جو ایک طرح سے بدکرداری واضح کررہا ہے حالانکہ خاکم بدہن کہ آپ میں کوئی ایسی بات موجود ہو جس سے آپ ﷺ کے کردار واخلاق پر کوئی حرف آئے۔ رہے زید تو ان کے متعلق پیچھے مضمون گزر چکا جو آپ لوگ پڑھ چکے۔
Top