نبی اعظم وآخر ﷺ کو حکم عام اور حکم خاص دیا جارہا ہے
50 ۔ ” اے پیغمبر اسلام ہم نے آپ ﷺ کے لئے آپ ﷺ کی بیویاں جن کو آپ ﷺ مہر دے چکے ہیں حلال کردی ہیں “ سورة النساء میں یہ وضاحت تو تفصیل سے گزر چکی ہے کہ اسلام نے عام آدمیوں کے لئے چار تک شادیاں بیک وقت کرنے کی اجازت دی ہے بشرطیکہ شرعی ضرورت پیش آئے اور ان کے حقوق میں برابری بھی وہ کرسکیں تاہم چار سے زیادہ نکاح بیک وقت نہیں کئے جاسکتے اور ایک شادی کو مستحسن سمجھنا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ کی یہ خصوصیات میں سے ہے کہ آپ ﷺ بیک وقت چار سے زیادہ شادیاں کرسکتے تھے بلکہ آپ ﷺ نے کی ہیں جیسا کہ ہم نے پیچھے اس سورت کی آیت 36 میں وضاحت کردی ہے اور اس کے بعد تمام امہات المومنین کا مختصر تعارف بھی ان کی روحانی اولاد کو کرادیا ہے اب مزید اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ زیر نظر آیت میں دوسرا حکم اس طرح دیا گیا کہ ” اور وہ عورتیں بھی جو آپ ﷺ کی ملک میں ہیں اور جو اللہ نے آپ ﷺ کو مال غنیمت میں دلوائی ہیں۔ “ اس میں ان عورتوں کا ذکر کیا گیا جو مال غنیمت میں آئیں اور آپ ﷺ کو بطور حصہ دی گئی تھیں ان میں سے جن کو ازدواجی زندگی میں آپ ﷺ کو مال غنیمت میں دلوائی ہیں “۔ اس میں ان عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو مال غنیمت میں آئیں اور آپ ﷺ کو بطور حصہ دی گئی تھیں ان میں سے جن ازدواجی زندگی میں آپ ﷺ نے چاہا لے آئے تاکہ اس سے قومی ، اسلامی اور سیاسی فوائد حاصل کیے جاسکیں اور بلاشبہ ان سے نکاح کرکے آپ ﷺ نے وہ فوائد حاصل کیے۔ اس کی وضاحت بھی ہم پیچھے کرچکے ہیں کہ یہ نظریہ کہ ملک یمین سے بغیر نکاح کیے مجامعت جائز و حلال ہے قطعاً درست نہیں نہ آپ ﷺ کے لئے یہ کبھی جائز ٹھہرایا گیا اور نہ ہی عام مسلمانوں کے لئے ہاں آزاد عورت کے مقابلہ میں لونڈی سے نکاح اس لئے آسان ہے کہ اس کے لونڈی ہونے کے باعث آزاد عورت کے برابر حقوق نہیں ہیں اور یہ رعایت رکھ کر اسے لونڈی ہی رکھ کر نکاح کرنے کی اجازت دی گئی ہے اگرچہ بہتر یہی سمجھا ہے اور اس کی تاکید بھی فرمائی ہے کہ ان کو آزاد کرکے نکاح کرنا یا نکاح کرکے آزاد کردینا زیادہ اچھا اور زیادہ بہتر ہے یہی حکم آپ ﷺ کے لئے بھی تھا اور یہی دوسرے سارے مسلمانوں کے لئے بھی ہے پھر آپ ﷺ نے اس طرح کی آئی ہوئی عورتوں سے جب بھی نکاح کیا تو ان کے آزاد کرنے کے بعد آپ ﷺ نے نکاح کیا ان کو حق مہر ادا کیا ، ان کا ولیمہ بھی کیا۔ تفصیل ان کے ذکر میں گزر چکی ہے۔
” اور آپ ﷺ کے چچائوں کی بیٹیاں اور آپ ﷺ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ ﷺ کے ماموئوں کی بیٹیاں اور آپ ﷺ کی خالائوں کی بیٹیاں “ یہ وہ حکم ہے جو عام انسانوں کے لئے اور رسول ﷺ کے لئے برابر ہے اور اس کی وضاحت پیچھے سورة النور میں کی گئی ہے اور دوسرے نشانات پر بھی چچائوں ، پھوپھیوں ، ماموئوں اور خالوئوں کی اولاد سے نکاح جائز اور درست ہے اگر قرابت داری اور رشتہ داری کا پاس ولحاظ رکھا جاسکے لیکن ضروری نہیں کہ اتنا قریب ہی کا رشتہ ہو حالات کی رعایت کا خیال ہر انسان کا اپنا ذاتی فرض ہے۔
” جنہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ اسلام کی خاطر ہجرت کی “ یہ جملہ معترضہ کے طور پر ہے اگر انہوں نے ہجرت نہ کی یہ تو آپ ﷺ کے لئے نکاح جائز اور درست نہیں اگر یہی مطلب ہے تو بلا شبہ یہ حکم نبی اعظم وآخر ﷺ کے ساتھ خاص ہے اور اس کا یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ اتنے قریب کا رشتہ ہونے کے باوجود انہوں نے ہجرت نہیں کی آپ ﷺ اب ان سے نکاح نہیں کرسکتے یہ پابندی آپ ﷺ کے لئے خصوصاً لگائی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ جس طرح بعض چیزوں کی اجازت ہے اسی طرح بعض درست چیزوں سے آپ ﷺ کو منع بھی کیا گیا ہے اور بلا شبہ اس کے اندر کوئی نہ کوئی حکمت بھی ضرور ہوگی لیکن ہمیں تفصیل میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
” اور اس طرح کوئی دوسری مومن عورت اگر وہ اپنے آپ کو نبی ﷺ کے لئے ہبہ کرچکی ہو اور نبی بھی اس سے نکاح کے لئے راضی ہو “۔ کسی عورت کا یہ ہبہ نفس کردینا ایک خاص معاملہ ہے جو نبی کریم ﷺ کی خصوصیات سے تعلق رکھتا ہے جیسا کہ خود قرآن کریم نے اس کی وضاحت فرمادی کہ اگر کوئی مومن عورت اپنے آپ کو آپ ﷺ کے لئے ہبہ کردے اور آپ ﷺ بھی نکاح کرنا چاہیں تو ایسا کرسکتے ہیں اور فرمایا ہے کہ خالصۃ لک من دون المومنین یہ نبی کریم ﷺ کے لئے خاص اور دوسرے ایمان والوں کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی عورت جس کو اس کا جی چاہے اپنے نفس کو ہبہ کردے اور مرہوب لہ اس کو قبول کرے جیسا کہ کتب فقہ میں اس کو جائز اور صحیح بتایا گیا ہے۔
” بلا شبہ ہم کو معلوم ہے جو ہم نے ان پر یعنی ایمان والوں پر ان کی بیویوں اور ملک یمین کے متعلق مقرر کردیا ہے “۔ عام مومنوں کے لئے آزاد عورتوں اور ملک یمین کی جو حدود مقرر کی گئی ہیں یہ کیوں ضروری تھیں ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کے لئے یہ جائز کیوں نہیں رکھا گیا کہ اگر کوئی عورت کسی کو اپنا نفس ہبہ کردے تو وہ مرہوب لہ کے لئے جائز ہوجائے یہ سہولت ہم نے عام مسلمانوں کو کیوں نہیں دی اس بات کو بھی ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں اس لئے اس بحث کی اس جگہ ضرورت نہیں ہے ظاہر ہے کہ اگر دیانت وامانت کا فقدان ہوجائے جیسا کہ اس وقت ہو بھی چکا ہے تو اس سے زنا کا چور دروازہ کھل سکتا تھا اس لئے عالم الغیب والشہادۃ نے اس سلسلہ کو عام مسلمانوں سے روک دیا اور متعارف نکاح کے سوا کوئی دوسری صورت جائز نہ رکھی۔
” تاکہ اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ پر کوئی تنگی نہ ہو اللہ بخشنے والا بہت ہی پیار کرنے والا ہے “۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی اللہ کی بندی دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا چاہے اور آپ بھی سمجھتے ہوں کہ اس سے دین کا یہ کام بدرجہ احسن لیا جاسکتا ہے لیکن محض اس لئے اس سے باز رہیں کہ اس وقت آپ کے پاس حق مہر ادا کرنے کی بھی کوئی چیز نہیں ہے تو نکاح کیسے اور کیونکر ہو ہم نے اس تنگی کو آپ ﷺ سے اٹھالیا اور اتنی روک آپ کے لئے اٹھالی گئی اگر کوئی عورت اپنا آپ آپ ﷺ کو پیش کردے اور آپ ﷺ پر مالی ذمہ داری نہ ڈالے تو اس کو دینی خدمت کے لئے قبول کرلینا ہی بہتر ہے تاکہ نفس کی حفاظت بھی ہو اور لوگوں کے طعن وتشنیع سے بھی فریقین بچ جائیں اور اصل مدعا بھی پورا ہوجائے رہے وہ لوگ جن کیذہنوں میں اس دی گئی سہولت سے کسی طرح کی بات نے گزر کیا ہے تو انسانی نفس اس طرح کی بائیں سوچتا اور کرتا ہی رہتا ہے آپ اس کے درپے نہ ہوں بلکہ اسے دعا دیں کہ اللہ تعالیٰ غفورورحیم ہے وہ اس سے بخشش طلب کریں اور وہ یقینا بخش دینے والا ، پیار کرنے والا ہے۔ زیر نظر آیت کا مفہوم واضح ہوگیا لیکن ایک سوال حل طلب ہے کہ زیر نظر آیت میں جو نبی اعظم وآخر ﷺ کو چار عورتوں سے زیادہ کے ساتھ نکاح کی اجازت دی گئی وہ کیوں دی گئی ؟ جن لوگوں نے اس اجازت کو نشانہ تضحیک بنایا اس کو کیا جواب دیا جاسکتا ہے ؟
نشانہ تضحیک بنانے والے کون لوگ ہیں ؟ یہود ونصاریٰ اور دوسرے معروف مذاہب سب ہی سے جو بن پڑا کہا اور اپنا فرض پورا کیا اور پھر ان کے دیکھا دیکھی مسلمان کہلانے والوں نے بھی ہرزہ سرائی کی قدرے کوشش کی جو وہ کرسکے۔
ہمیں تعجب ہے کہ ان لوگوں نے اس طرح کی تضحیک کرنے سے پہلے اپنے ان بزرگوں کی زندگیوں کی طرف کیوں غور نہ کیا جن کو وہ بھی مقدس انسان سمجھتے تھے یہودیوں کے ہاں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور پھر موسیٰ (علیہ السلام) سے بڑھ کر اور کون ہوسکتا ہے ؟ اور تورات سے بڑھ کر کون زیادہ سچی کتاب ہوسکتی ہے ؟ اگر نہیں اور بلا شبہ نہیں تو تورات میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی تین بیویوں کا واضح ذکر موجود ہے۔ 1 ۔ سیدہ سارہ کا ذکر (پیدائش 15:18) 2 ۔ سیدہ ہاجرہ کا ذکر (پیدائش 4:16) 3 ۔ سیدہ قطورا خاتون (پیدائش 1:25) پھر سیدہ سارہ سے اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہوئے ، سیدہ ہاجرہ سے اسمعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور سیدہ قتورا سے زمران ، یقسان ، مدان ، مدیان وغیرہ پیدا ہوئے اور پھر ان کی نسل در نسل کا ذکر بھی موجود ہے جیسے اسحاق سے یعقوب پیدا ہوئے اور آپ کی چار بیبیوں کا ذکر تورات میں موجود ہے۔ لیاہ کتاب پیدائش (23:29) ۔ 2 ۔ زلفہ کتاب پیدائش (24:29) 3 ۔ رافل کتاب پیدائش (28:29) 4 ۔ بلہہ کتاب پیدائش (29:29) اور ان سب کی اولادوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی چار بیویوں کا ذکر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ 1 ۔ صورا خاتون (کتاب خروک 31:2) 2 ۔ میبثہ۔ 3 ۔ ایک بیوی جس کے باپ کا نا قینی تھا۔ (قاضیون 16:1) 4 ۔ اور ایک اور بیوی جس کے باپ کا نام حباب تھا۔ (قاضیون 16:4) چار کے ذکر کے علاوہ بیویوں کے جواز میں اس طرح بیان آیا ہے کہ ” جب تو لڑائی کے لئے دشمنوں پر خروج کرے اور خداوند تیرا خدا ان کو تیرے ہاتھوں سے گرفتار کرے اور تو انہیں اسیر کر لائے اور ان اسیروں میں تو خوب صورت عورت دیکھے اور تیرا جی اسے چاہے کہ اسے اپنی جورو بنائے تو تو اسے اپنے گھر میں لا ، اسکا سر منڈا اور ناخن کٹوا تو وہ اپنا اسیری کا لباس اتارے اور تیرے گھر میں رہے اور ایک مہینہ بھر اپنے باپ اور اپنی ماں کے سوگ میں بیٹھے بعد اس کے تو اس کے ساتھ خلوت کر اور اس کا خصم بن اور وہ تیری جرو بنے۔ (کتاب استثناء 10:21 تا 13)
دائود (علیہ السلام) کی بیویوں کے لئے 1 ۔ سموئیل 23:26 ، 1 ۔ سموئیل ۔ 2 ۔ 37:18 سموئیل باب 2 سموئیل 26 , 3:11 سموئیل 30:20 کا مطالعہ کریں ان ستور میں تقریباً 10 تا 19 حرموں کا ذکر کیا گیا ہے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی بیگمات کے متعلق سات سو جوروئیں اور تین سو حرموں کا ذکر سلاطین 3:11 میں ہے اور علاوہ ازیں دوسرے نبیوں اور رسولوں کا ذکر دیکھنا ہو تو حزقیل باب 23 درس 1 یا 4 پڑھو اس طرح 4:23 , 2:23 , 1:23 ۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل جتنے نبی ورسول تھے سب یہودونصاریٰ کے ایک ہی جیسے نبی ورسول تھے کیونکہ اس وقت تک اہل کتاب صرف یہودہی تھے عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے آخری رسول ہیں ان کے بعد اس سلسلہ میں کوئی رسول نہیں آیا اور جن لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو رسول مانا وہ عیسائی کلہوائے اور جن لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو رسول نہ مانا وہ بدستور یہودی کہلاتے رہے اس طرح گزشتہ سارے کے سارے حوالہ جات میں یہودونصاریٰ دونوں گروہ شامل ہی رہے بعد کے عیسائی تو ان کے لئے خصوصاً پڑھنا چاہتے ہوں تو انجیل متی کا باب 25 پڑھو اور حضرت مسیح نے اپنی آمد کی خبریں دس کنواریوں کا ذکر کیا ہے کہ پانچ نے دولہا کے ساتھ شادی کی ، گھر میں گئیں اور پانچ جو پیچھے رہ گئی تھیں ان کے لئے دروازہ نہ کھولا گیا۔ عیسائی کہیں گے کہ یہ بیان آپ کا تمثیل ہے کیونکہ تمثیل کے سوا آپ بات کم ہی کرتے تھے تاہم اگر یہ تمثیل ہے تو بھی اگر عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک ایک سے زیادہ بیویوں کا ہونا پسند نہ تھا تو آپ یہ تمثیل ہرگز ہرگز نہ دیتے پھر عیسائی اپنے راہنمائوں ہی کی طرف دیکھ لیں کہ انہوں نے ایک سے زیادہ بیوی کا تذکرہ کس رنگ میں کیا اس سلسلہ میں عیسائیوں کا تسلیم شدہ شاعر ملٹن اس معاملہ میں جو کچھ کہہ گیا ہے اس سے کون ناواقف ہوگا اگر مزید دیکھنا چاہو تو عبرانیوں جو عیسائیوں کی خاص کتاب ہے اس کا 4:13 پڑھیں کہ ” بیا کرنا سب میں بھلا ہے اور بستر ناپاک نہیں پر خدا حرام کاروں اور زنیوں کی عدالت کرے گا “۔
اس وقت ہمارے قریب کے ہمسائے ہندو ہیں جو بہت بڑی اقوام میں شامل ہوتے ہیں اور ان کی طرف سے بھی اس طرح کے اعتراضات لگائے گئے ہیں اور بدقسمتی سے بعض تو اتنے برے ہیں کہ ان کا ذکر کرنا بھی ہمیں مناسب نہیں معلوم ہوتا اور یہ بھی کہ ہم کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں چاہتے ورنہ ” رنگیلا رسول “ والے جو کچھ بیان کیا ہے کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اور ان کے اپنے بزرگوں کا حال یہ ہے کہ 1) سری رام چندرجی کے والد مہاراجہ دسرت کی تین بیویاں تھیں۔ پٹ رانی ، کو شیلیا والدہ رام چندر۔ رانی سمترا والدہ لچھمن جی ، رانی کی کی والدہ بھرت جی اور 2) سری کرشن کی سینکڑوں بیویاں تھیں جن میں سے لالہ چیت رائے نے اپنی کتاب کرشن چرتر میں صرف اٹھارہ رانیاں تسلیم کی ہیں اور ظاہر ہے کہ ہمارے مدعا کے لئے اتنی تعداد بھی کافی ہے۔ 3) راجہ پانڈو جو مشہور پانڈو وں کا جد اعلیٰ ہے اس کی دو بیویاں تھیں۔ کنتی… والدہ یدہشترو بھیک سین وار جن ، مادری… والد نکل وسہدیو۔ 4) سای طرح راجہ شتن کی دو بیویاں تھیں۔ گنگاوالدہ بھیکم ، ستیاوتی والدہ بیاس جی۔ 5) بھتر اوپرج کی دو بیویاں اور ایک لونڈی تھی۔ میکلہ… والدہ دھرتراشٹ پسر بیاس جی ، امسبا لکا والدہ پاندو پسر بیاس جی۔ لونڈی والدہ بدرین بیاس جی۔ حوالہ کے لئے انہی پر اکتفا کیا جاتا ہے ورنہ ہنود کا لٹریچر دیکھا جائے تو مزید بھی بہت کچھ نظر آسکتا ہے۔
بزرگ تو سب ہی بزرگ تھے لیکن بہرحال منہاج نبوت میں تو ہم مسلمان بھی برابر کے حصہ دار ہیں لیکن انبیاء کرام کے متعلق کتاب وسنت میں اس طرح کی ایک بات بھی مذکور نہیں بلکہ اگر کہیں کچھ ذکر کیا بھی گیا ہے تو وہ وہی اسرائیلی روایات ہی میں جو ہم مسلمانوں میں بھی بیان کی جاتی ہے اس لئے وہ اسلام ماخذ سے نہیں ہیں بلکہ ان کا ماخذ وہی اسرائیلی روایات ہیں جو ہمارے بزرگوں نے اپنے طور پر بیان کی ہیں اور وہ بزرگ وہی تھے جو بنی اسرائیل میں سے مسلمان ہو کر اسلام میں داخل ہوئے تھے اور اس طرح قصص پڑھ کر ہمارے بعض مسلمانوں نے بھی ان کی چھان بین کرنے کی بجائے ان روایات کو روایات اسلام سمجھ کر اپنی تنقید کا نشانہ بنایا لیکن انہوں نے اس کا تجزیہ کرنے سے کیوں گریز کیا ؟ محض اس لئے کہا نہوں نے اس کو مشکل سمجھا اور اپنے لئے آسان راہ اختیار کی حالانکہ ان کے صاحب علم ہونے کی یہ نشانی نہیں ہے بلکہ کوتاہ عقلی کی دلیل ہے اور زیادہ تر ان میں ایسے اردو خواں ہیں جو ترجمہ کے سوا اصل روایت کے مفہوم کو سمجھ ہی نہیں سکتے اور انہوں نے ترجمہ ہی کی اصل خیال کیا اور بےسوچے سمجھے اعتراض داغ دیئے حالانکہ اس خصوصیت نبوی کو حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو بات بالکل واضح ہوسکتی تھی۔
1 ۔ ابنبی اعظم وآخر ﷺ کی مبارک زندگی پر نظر ڈالو کو 63 سال سے ابتدائی 25 سال آپ ﷺ کے کمال تجرد سے گزرے ہیں جس اللہ کے بندے نے 25 سال تک عنفوان شباب اور جوش جوانی کا زمانہ کمال تقویٰ اور نہایت ہی درع کے ساتھ پورا کیا ہو اور جس کے حسن مردانہ کے کمال نے اعلیٰ سے اعلیٰ خواتین کو اسے تزویج کا آرزو مند کردیا ہو پھر بھی ربع صدی تک اس کے تجرد وتفرد پر کوئی شے نہ غالب آئی ہو کیا ایسے شخص کی نسبت اعلیٰ رائے قائم نہیں ہوتی پھر جس مقدس ہستی نے 25 سے 50 سال تک کی عمر کا زمانہ ایک ایسی خاتون کے ساتھ بسر کیا ہو جو عمر میں اس سے 15 سال بڑی ہو اور پیشتر دو خاوندوں کی بوی رہ کر کئی بچوں کی ماں بن چکی ہو اور پھر اس ربع صدی کے زمانہ میں آپ ﷺ کی دل بستگی اور محبت میں ذراکمی نہ آئی ہو بلکہ اس کی وفات پاجانے کے بعد بھی ہمیشہ اس کی یاد کو تازہ رکھا ہو کیا اس کی نسبت کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اس تزویج کی وجہ بھی وہی تھی جو عام طور پر پرستاران حسن کی شادیوں میں پائی جاتی ہے ؟ نبی کریم ﷺ کی زندگی 55 سے 59 تک کی درمیانی مدت کا صرف پنج سالہ زمانہ ایسا ہے جب ان ازواج مطہرات سے حجرے آباد ہوئے تھے اس لئے ہر ایک شخص کو غور کرنا چاہیے کہ زندگی مبارک کے 55 سالہ رویہ سے بڑھ کر جو عمل ہوا اس کے آخر اسباب کیا تھے ؟ یہ وہ وقت ہے کہ جب اکثر نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے کہ مالی فی النساء من خاجۃ (دارمی بروایت سہل بن سعد) ” مجھے عورتوں کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ ذرا توقف کرو اور اس جگہ فکر کرو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ آپ ﷺ نے جس قدر نکاح کیے ان کی اصل بنیاد فوائد کثیر دینی اور مصالح جمیلہ ملک اور مقاصد حسنہ قوم پر قائم تھی اور ان فوائد ومصالح اور مقاصد کا اس قیدیم ترین زمانہ اور عرب جیسے جمود پسند ملک میں حاصل ہونا تزویج کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔
2 ۔ سیدہ خدیجہ کی وفات کے بعد یقینا آپ ایک ایسے ساتھی سے محروم ہوئے جو دل وجان قران کرنے والا ساتھی تھا جس کا یقینا آپ کے دل پر بہت اثر ہوا اور ازیں بعد آپ کو اس موانست کے لئے اللہ نے سودہ ؓ کا ساتھ دیا۔ سودہ ؓ ایک نہایت ہی سلجھی ہوئی عورت تھیں اور سابق ال ایمان لوگوں میں شامل تھیں اپنے پہلے خاوند کے ساتھ ہجرت حبشہ بھی کی تھی جب خاوند نے وفات پائی تو سیدہ خدیجہ کی بہن ہالہ کے ایماء پر نبی اعظم وآخر ﷺ سے نکاح کرنے کے لئے تیار ہوئیں اور آپ کے والد نے آپ کی دوسری شادی گویا نبی کریم ﷺ سے کردی آپ ﷺ نے اس سے شادی مکہ مکرمہ ہی میں کی اور نکاح کے تیسرے سال آپ ﷺ نے مکہ سے ہجرت کی اور بعد میں وہ بھی ہجرت کرکے یہاں چلی آئیں گویا خدیجہ ؓ کے بعد آپ کا گھر بسانے والی پہلی ام المومنین یہی ہیں۔
3 ۔ سیدہ عائشہ ؓ ہی پہلی کنواری خاتون ہیں جو نبی کریم ﷺ کے گھر میں آباد ہوئیں جس کی اصل وجہ بھی یہ تھی کہ ابوبکر صدیق ؓ کی بیٹی ہونے کا شرف ان کو حاصل تھا اور پندرہ سولہ سال کی نوجوان عورت تھیں ، مکہ میں جو حالات ہو رہے تھے ان حالات کے پیش نظر ایک جواں سال لڑکی کو گھر میں رکھنا بھی لوہے کے چنے چبانے کے مرادف تھا اور ایمان لانے والوں کی تعداد ابھی بہت ہی کم تھی۔ اسی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ابوبکر صدیق ؓ نے اپنی بیٹی کو آپ ﷺ کے حبالہ عقد میں دے دیا۔ اس بات کو اس سے تقویت پہنچتی ہے کہ عائشہ کی منگنی آپ سے پہلے ایک اور جگہ ہوچکی تھی لیکن ابوبکرصدیق ؓ کے ایمان لانے کے باعث انہوں نے ابوبکر صدیق کو جواب دے دیا تھا کہ ادھر آپ ﷺ سے یہ رشتہ طے ہوگیا اور ہجرت کے بعد رخصتی کردی گئی اور قدرت نے عائشہ ؓ سے دین کی وہ خدمت لی کہ ایسی خدمت آپ کی ذات کے سوا شاید ممکن نہ تھی۔
4 ۔ سیدہ حفصہ ؓ عمر ؓ کی بیٹی تھیں ان کا پہلا نکاح خنیس ہی حذیفہ سے تھا ان کی وفات کے بعد عمر فاروق ؓ رشتہ کی تلاش میں تھے انہوں نے ابوبکر صدیق ؓ اور عثمان ؓ سے ذکر بھی کیا تھا لیکن ادھر نبی اعظم وآخر ﷺ بھی اپنی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ چاہتے تھے اللہ نے آپ ﷺ کے دل میں یہ بات ڈالی تو ام کلثوم عثمان غنی ؓ کے عقد میں دے گئیں اور حفصہ سے خود رسول اللہ ﷺ نے نکاح کرلیا بلا شبہ عائشہ ؓ اور حفصہ ؓ کے نکاح نے حفاظت کتاب اللہ ونشر احادیث اور تعلیم کے بارہ میں فوق العادت کام کیے اور اس طرح آخر میں صدیق ؓ اور فاروق ؓ کی خلافتوں کو زیادہ بابرکت اور زیادہ پر منفعت بنانے میں بہت بڑا کام کیا اور یہ ایسے ہیں جن سے کوئی ذی عقل بھی انکار نہیں کرسکتا۔
5 ۔ ام المومنین صفیہ ؓ کے نکاح پر غور کرو کہ اس سے پہلے جس قدر لڑائیاں مسلمانوں کے ساتھ کفار مکہ نے کیں ان میں سے ہر ایک میں یہود کا تعلق سرایاً اعلاناً ضرور ہوتا تھا مگر تزویج کے بعد یہود مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہ ہوئے ، غور کرو کہ اس نکاح سے کیا تقویت اسلام کو ملی اور یہ نکاح کس قدر بابرکت ثابت ہوا۔
6 ۔ ام المومنین سیدہ ام حبیبہ ؓ کے نکاح پر غور کرو کہ ان کا باپ ابوسفیان تھا جو عمائد قریش میں سے تھا اور قوم کا نشان جنگ اس کے گھر میں رکھا رہتا تھا۔ جب یہ نشان باہر کھڑا کیا جاتاتو تمام قوم پر آبائی ہدایت اور قومی روایت کے اتباع میں لازم ہوجاتا تھا کہ سب کے سب اس جھنڈے کے نیچے فوراً جمع ہوجائیں اور حمر الاسد ، بدر الاخری اور احزاب وغیرہ لڑائیوں میں ابوسفیان ہی اس نشان کو لیے ہوئے قائد قریش نظر آتا تھا لیکن اس تزویج مبارک کے بعد دیکھو اور غور کرو کہ کیا وہ کسی جنگ میں مسلمانوں کے خلاف فوج کشی کرتا نظر آتا ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعدوہ خود بھی اسلام کے جھنڈے کے نیچے آکر پناہ لینے پر مجبور ہوجاتا ہے کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ نکاح نہایت ضروری نہ تھا۔
7 ۔ ام المومنین سیدہ جو یریہ ؓ کے نکاح کی طرف دیکھو کہ ان کا باپ مشہورراہزن اور زبردشت ڈکیت تھا اور مسلمانوں سے خاص دلی عداوت رکھتا تھا بنو مصطلق کا مشہور طاقت ور اور جنگ جو قبیلہ جو چند درچند شعوب پر محتوی تھا اس کے اشاروں پر کام کرتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس کی تزویج سے پیشتر ہر ایک جنگ میں جو مسلمانوں کے خلاف ہوئی اس قبیلہ کی شرکت لازماً پائی جاتی تھی لیکن اس نکاح کے بعد یہ سب مخاصمتیں نابود ہوجاتی ہیں تمام قبیلہ قزاقی چھوڑ کر متمدن زندگی اختیار کرلیتا ہے اور پھر مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں بھی شامل نہیں ہوتا ذرا دل لگتی کہو کہ یہ نکاح لازم نہیں تھا ؟
8 ۔ ام المومنین زینب بنت خزیمہ جن کا لقب ام المساکین تھا آپ ﷺ سے پہلے ان کے تین نکاح ہوچکے تھے پہلے دونوں خاوند وفات پاچکے تھے اور دونوں ہی رسول اللہ ﷺ کے حقیقی چچا کے بیٹے تھے اور پھر تیسرا نکاح ان کا عبداللہ بن حجش سے ہوا جو نبی کریم ﷺ کا پھوپھی زاد تھا وہ بھی جنگ احد میں شہید ہوگیا ایسی عورت کہ جس کے یکے بعددیگرے تین خاوند وفات پا جائیں لوگ اس کے متعلق جو کچھ جو کچھ کہتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ان کے دل پر اس سے کیا گزرتی ہوگی ان حالات کے پیش نظر آپ ﷺ نے ان سے نکاح کرلیا ، دو تین ماہ کے بعد وہ خود وفات پاگئیں۔
9 ۔ ام المومنین ام سلمہ ؓ کا اصل نام ہند تھا جو ابی امیہ کی بیٹی تھیں اور قدیم الاسلام تھیں۔ ابو سلمہ کا اصل نام عبداللہ بن عبدالاسد تھا ، ابو سلمہ اسلام لانے والوں میں گیارہویں شخص تھے۔ ابوسلمہ کی وفات حسرت آیات کے بعد ام سلمہ کے دل کو سخت چوٹ لگی اور ویسے بھی عبداللہ بن عبدالاسد رسول اللہ ﷺ کے پھوپھی زاد تھے ، ام سلمہ اور ابو سلمہ کی محبت ایک مثالی محبت تھی جو ان کے واقعات کو پڑھنے سے معلوم ہوتی ہے اس طرح سلمہ ؓ اور اس کے دوسرے بھائی بھی یتیم رہ گئے تھے اور خاندان والے بھی ابھی تک مکہ ہی میں تھے ان حالات کے پیش نظر ام سلمہ کے دل کو ڈھارس آپ نے بندھائی اور اپنے پھوپھی زاد کی وفات کے بعد ام سلمہ سے خودنکاح کرلیا اور اپنی پھوپھی کے پوتوں کی خوب پرورش کی۔
10 ۔ ام المومنین زینب بن جحش کا ذکر آپ نے پیچھے تفصیل کے ساتھ پڑھا ان کا پہلا نکاح زید بن حارثہ سے آپ ﷺ نے نہایت زور دے کر کرایا لیکن اللہ کی شان کہ میان بیوی میں بن نہ آئی اور تقریباً ایک سال کے بعد زید نے زینب کو طلاق دے دی تو اس کی طلاق سے زینب اور اس کے خاندان والوں پر جو اثر ہوا وہ ان کے لئے کسی حال میں بھی قابل برداشت نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے رسومات بد کے ازالہ کے لئے یہ نکاح کرایا اور اپنی خاص مصالحت تکوینی کے مطابق جب طلاق ہوگئی تو نبی اعظم وآخر ﷺ کو حکم دیا کہ اب زینب سے خود نکاح کرکے اس رسم بد کو مٹائو جو کسی شخص کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنا لینے سے معرض وجود میں آچکی ہے اور وہ زبان سے صرف بیٹا کہہ دینے کے باعث حقیقی بیٹے کے حقوق حاصل کرلیتا ہے یہ کسی حال میں جائز اور اسلام کو برداشت نہیں کہ اس سے حسب ونسب گڈمڈ ہوتا ہے اس رم کو مٹوانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے زینب کو اپنے نکاح میں لانے کا آپ ﷺ کو حکم دیا اور آپ ﷺ نے تکمیل حکم کرتے ہوئے زینب سے نکاح کیا اور اس کے نکاح کے بعد بہت بڑی ضیافت ولیمہ کی جو دوسری ضیافتوں کے مقابلے میں بڑی تھی۔ غور کرو کہ اس مبارک نکاح سے کتنی بدرسومات کا قلع قمع ہوگیا۔
11 ۔ ام المومنین میمونہ ؓ کا نکاح آپ ﷺ سے قبل دوبارہ ہوچکا تھا پہلا نکاح حویطب بن عبدالعزیٰ اور دوسرا ابی دہم بن عبدالعزیٰ سے اور دونوں ہی وفات پاگئے جب مکہ فتح ہوا تو اس سے پہلے ہی یہ دو بار رانڈی ہوچکی تھیں۔ یہ زینب بنت خزیمہ کی بہت تھیں اور زینب پہلے آپ کے حبالہ نکاح میں آکر وفات پاگئی تھیں اس لحاظ سے گویا یہ آپ ﷺ کی سالی بھی تھیں اور ان کی ساری بہنیں بھی آپ ﷺ کی حقیقی چچوں اور دوسرے عزیز رشتہ داروں میں تھیں۔ اسی قرابت کے باعث عبداللہ بن عباس کے مشورہ سے جو سیدہ میمونہ کے حقیقی بھانجے تھے آپ ﷺ نے نکاح پر آمادگی ظاہر کی اور انجام کار فتح مکہ کے بعد مکہ ہی میں آپ ﷺ نے ان سے نکاح کرلیا۔
12 ۔ ام المومنین ماریہ قبطیہ جو شاہ مصر نے آپ ﷺ کی خدمت میں روانہ کی تھیں اور مصر کی شہزادی تھیں آپ کے بطن سے ابراہیم آپ کے فرزند پیدا ہوئے تھے آپ کی آمد کے بعد نجاشی سے اسلام کے تعلقات زیادہ استوار ہوگئے اور وہ مرا تو مسلمان ہو کر مرا۔ تفصیل اپنے مقام پر گزرچکی ہے۔
13 ۔ ام المومنین سیدہ ریحانہ جو قریظہ کے خاندان کی ایک خاتون تھیں اور قریظہ کے قیدیوں میں آئی تھیں آپ ﷺ نے ان کو آزاد کرکے ان سے نکاح کرلیا تھا جس کے بعد قریظہ کا خاندان جو باقی رہ گیا تھا وہ کبھی سر نہ اٹھا سکا۔ افسوس کہ ہمارے سیرت نگاروں نے ماریہ قبطیہ اور ریحانہ دونوں کو لونڈیوں میں لاکر نکاح کے بغیر رکھنے کا الزام عائد کیا ہے جو کسی حال میں بھی صحیح نہیں ہے اور نہ ہی اسلام لونڈیوں کو بغیر نکاح کیے ازدواجی زندگی کے لئے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ سیرت نگاروں نے اس سلسلہ میں جو کچھ اکٹھا کیا ہے اس کی اسلام میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور تفصیل اس کی سورة النساء کی آیت 5 کے ضمن میں عروۃ الوثقی جلد دوم میں گزر چکی ہے وہاں سے ملاحظہ کریں۔
مختصریہ کہ آپ ﷺ کے ان سارے نکاحوں کی غرض وغایت اسلام نے نہایت واضح کردی ہیں اور جیسا کہ اوپر مختصر عرض کیا گیا آپ ﷺ کو اس طرح کی خصوصی رعایت جو دی گئی اس کی اصل غرض ضرورت اسلام تھی نہ کہ خواہشات نفس کا ازالہ تھا اور اس طرح تقریباً ہر دور اور خصوصاً آج کل کے دور میں جو اسلامی مدارس للبنات کے چلانے والے اور منتظم ہیں ان کے لئے اس میں ایک بہت بڑا سبق مخفی رکھا گیا ہے لیکن افسوس کہ اس سے بہت کم لوگوں نے ہدایت حاصل کی ہے جس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج کل اسلامی مدارس کی زندگیاں مکمل طور پر اسلامی نظر نہیں آتیں بلکہ وہاں بہت بداعتدالیاں ہورہی ہیں اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اور خصوصاً ان لوگوں کو جو اس شعبہ دینیات سے متعلق ہیں سمجھ کی توفیق عطا فرمائے ۔ یہی حال آپ ﷺ کی دوسری خصوصیات کا ہے جو عام انسانوں اور آپ ﷺ کے درمیان اسلام نے روا رکھی ہیں ان کی وضاحت اپنے مقام پر ہوتی آئی ہے اور ہوتی رہے گی۔ انشاء اللہ العزیز۔ وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب۔