Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 62
سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ١ۚ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا
سُنَّةَ اللّٰهِ : اللہ کا دستور فِي الَّذِيْنَ : ان لوگوں میں جو خَلَوْا : گزرے مِنْ قَبْلُ ۚ : ان سے پہلے وَلَنْ تَجِدَ : اور تم ہرگز نہ پاؤ گے لِسُنَّةِ اللّٰهِ : اللہ کے دستور میں تَبْدِيْلًا : کوئی تبدیلی
یہ اللہ کی سنت ہے جو ان لوگوں میں جاری وساری تھی جو ان سے پہلے گزر چکے آپ اللہ کی کسی سنت میں تبدیلی نہیں پائیں گے
شروع سے اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ چلا آرہا ہے اور اللہ کا طریقہ کبھی غلط نہیں ہوتا 62 ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ شروع سے چلا آرہا ہے کہ اس نے جس بات یا چیز کے متعلق یہ ارشاد فرمایا کہ ایسا ہوگا یعنی جس پیش گوئی کا اعلان بھی کسی رسول سے کروایا وہ بالکل اسی طرح ہوئی جس طرح رسول نے اس کا اعلان کیا یہ گویا ایک طرح سے چیلنج ہے کہ آج تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان کی گئی پیش گوئی کوئی شخص ، دنیا کی کوئی تاریخ غلط نہیں کرسکی اور اس پیش گوئی کو جس کو گزشتہ دو آیتوں میں بیان کیا گیا ہے کوئی غلط ثابت نہیں کرسکے گا ، حالات کچھ سے کچھ ہوجائیں ، زمانہ کہیں کا کہیں پہنچ جائے ، دور جدید کا انسان آسمانی سیاروں پر کمندیں ڈالے ، وہ ترقی کرتے کرتے ہفت افلاک سے گزر سکتا ہے تو گزر جائے لیکن جو بات اللہ نے کہی ہے وہ کبھی غلط ثابت نہیں ہوسکتی بلکہ ساری دنیا اس کو غلط کرنے پر تل جائے اور دنیا کی ساری حکومتیں مل کر اپنا زور لگا لیں ، رب ذوالجلال والا کرام کا فرمان ہی درست ثابت ہوگا اور اس کے مقابلہ میں پوری دنیا کے لوگ کو خفت اٹھانا پڑے گی بلا شبہ آج تک یہی ہوا اور رہتی دنیا تک یہی ہوتا رہے گا اگر اس کے خلاف کوئی دلیل ہے تو سامنے لائو ، ھاتوبرھانکم ان کنتم صادقین۔ قرآن کریم میں بیسیوں سے متجاوز ایسی پیش گوئیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو ایک واقعہ ہونے سے پہلے بتادیا گیا کہ ایسا ہوگا پھر بڑی بڑی طاقتوں نے مل کر زورلگایا کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے لیکن جب وہ وقت آیا تو وہی ہوا جس کا اعلان کیا جاچکا تھا۔ غور کرو کہ جتنے انبیاء کرام اور اللہ کے بندوں کو یہ بشارت دی گئی کہ تمہارے ہاں بیٹا ہوگا حالانکہ ابھی اس کے ہونے کا نام ونشان بھی نہ تھا لیکن وہ وقت آیا کہ مبشر بیٹے پیدا ہوئے۔ جب اعلان ہوا کہ ہم فلاں حکومت کو ختم کرنے کے ایک بندہ پیدا کرنے والے ہیں جو پیدا ہوا کر بڑا ہوگا اور پھر ایک وقت آئے گا کہ وہ اس حکومت کا خاتمہکردے گا ، بڑی بڑی حکومتوں نے سرتوڑ کوشش کی اور خون کی ندیاں بہادیں ، پوری نسل کی نسل کو ختم کیا لیکن اللہ نے جس کو اس مخصوص کام کے لئے پیدا کرنا تھا پیدا ہی نہیں کیا بلکہ اس حکمران سے اس کی پرورش کا انتظام بھی کرادیا اور انجام وہی ہوا جس کا اعلان کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے نبی ورسول بھیجے ان میں سے جتنے انبیاء کرام اور رسل عظام وحی کی اب تم اپنی قوم میں اعلان کردو کہ اتنی مدت کے اندر اندر تم مان لو تو فبہا ورنہ تم کو تہس نہس کرکے رکھ دیا جائے گا پھر جب وہ قوم اپنی بات پر اڑیرہی تو عین اسی وقت ان کو ہلاک کر رکھ دیا اور ان کو اس طرح ملیامیٹ کردیا گویا گویا وہ کبھی ان جگہوں پر بسے ہی نہ تھے۔ خود ہمارے رسول محمد رسول اللہ ﷺ سے بیسیوں پیش گوئیوں کا اعلان کرایا۔ آپ ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کرکے ان کی نشاندہی فرمائی اور نتیجہ وہی رہا جس کا آپ ﷺ نے اعلان فرمایا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ بدر کے عین موقع پر آپ ﷺ نے مشرکین کے مقتولین کا اعلان باقاعدہ جنگ ہونے سے قبل کردیا لیکن ہر معاملہ اسی نشانی کے مطابق ہوا جو آپ ﷺ نے فرمائی تھی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے وہی ارشاد فرمایا جو اللہ نے آپ ﷺ کو حکمدیا۔ صلح حدیبیہ میں جو شرائط طے ہوئیں اس وقت بڑے بڑے کبار صحابہ کرام کے رنگ فق ہوگئے کہ ہم نے کیا کیا یہاں تک کہ عمر ؓ جیسے جلیل القدر اور جلالی طبیعت کے آدمی نے آپ ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یارسول اللہ ﷺ ! کیا ہم اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ مسلمان ہی نہیں رہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے عمر کیا میں کا اللہ رسول نہیں ہوں ؟ کیا میں نے جو کچھ کیا اپنی مرضی سے کیا ہے ؟ تب عمر ؓ خاموش ہوئے اور سارے صحابہ کی آنکھوں میں خون اتررہا تھا لیکن وقت نہ بتایا کہ جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا وہی کرنا چاہیے تھا جس کے نتیجے میں ایک سال کے اندر پورے عرب کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا ہی تھا کہ یہ اعلان کردیا گیا کہ اگر یہ رسول نے گھڑا ہے جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو تم سب مل جائو اور مزید بھی اللہ کے سوا جن کو چاہتے ہو بلا لو اور اس جیسی ایک سورت ہی بنا کرلے آئو۔ پھر یہ اعلان رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں 23 سال تک برابر دہرایا جاتا رہا اور آج تک بدستور اعلان ہورہا ہے لیکن کسی بڑے سے بڑے فصیح اللسان گروہ ، جماعت ، معاشرہ نے بھی اس چیلنج کا کوئی توڑ پیش کیا ؟ اس طرح اگر وضاحت شروع کردیں تو ہزاروں باتیں ہیں کس کس کو تحریر کیا جائے گا اس لئے زیر نظر آیت میں اعلان کیا جارہا ہے کہ یہ جو اوپر پیش گوئی بیان کی گئی ہے اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق اعلان کی جارہی ہے جب تک اس دنیا کا نظام قائم ہے کوئی آدمی اس کو غلط ثابت نہیں کرسکتا اس لئے خوب کان کھول کر سن لو کہ وہی ہوگا جس کا ہم نے اعلان کیا ہے پھر سن لو کہ اعلان کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ مدینۃ النبی میں منافقت کبھی نہیں پنپ سکتی اگر کسی نے اس کی کوشش کی تو اس کو مدینۃ النبی سے نکال باہر کردیاجائے گا۔ بلا شبہ یہی ہوا ، یہی ہورہا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ رہی یہ بات کہ منافقت کیا ہے ؟ تو اس کی وضاحت بہت سے مقامات پر کردی گئی ہے خصوصاً سورة الانفال اور التوبہ میں آپ اس کی وضاحت دیکھ سکتے ہیں۔ موجودہ زمانہ کے وہ منافق جن کے پاس صحابہ کرام اور خصوصاً اصحاب ثلاثہ ابوبکر ؓ ، عمر ؓ ، اور عثمان ؓ کے ایمان کے ماپنے کا مقیاس موجود ہے ان کو ہمارا چیلنج ہے کہ وہ اس ہی مقیاس سے قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ماپ کر ذرا دکھائیں کہ نتیجہ کیا رہا ہے ؟ رہے ہم تو ہم بفضلہ ان کا ایمان کے کوہ ہمالیہ سمجھتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے بعد پوری دنیا کے انسانوں سے بلند مقام سمجھتے ہیں اور ان کے بعد چوتھے نمبر پر سیدنا علی ؓ کہ پہچانتے ہیں۔ رضی اللہ عنھم ورضواعنہ۔
Top