Urwatul-Wusqaa - Faatir : 11
وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا١ؕ وَ مَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰى وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِهٖ١ؕ وَ مَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّ لَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهٖۤ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ
وَاللّٰهُ : اور اللہ خَلَقَكُمْ : اس نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ تُرَابٍ : مٹی سے ثُمَّ : پھر مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے ثُمَّ جَعَلَكُمْ : پھر اس نے تمہیں بنایا اَزْوَاجًا ۭ : جوڑے جوڑے وَمَا : اور نہ تَحْمِلُ : حاملہ ہوتی ہے مِنْ اُنْثٰى : کوئی عورت وَلَا تَضَعُ : اور نہ وہ جنتی ہے اِلَّا : مگر بِعِلْمِهٖ ۭ : اس کے علم میں سے وَمَا : اور نہیں يُعَمَّرُ : عمر پاتا مِنْ مُّعَمَّرٍ : کوئی بڑی عمر والا وَّلَا يُنْقَصُ : اور نہ کمی کی جاتی ہے مِنْ عُمُرِهٖٓ : اس کی عمر سے اِلَّا : مگر فِيْ كِتٰبٍ ۭ : کتاب میں اِنَّ : بیشک ذٰلِكَ : یہ عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : آسان
اور اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفے سے پھر تم کو جوڑا جوڑا بنایا (تخلیق کا سلسلہ جاری ہوگیا) اور نہ کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے اور نہ وہ (بچہ) جنتی ہے مگر یہ سب اللہ ہی کے علم (اذن) سے ہوتا ہے اور نہ کسی شخص کی عمر زیادہ کی جاتی ہے اور نہ کم کی جاتی ہے مگر (یہ سب) کتاب ( علم الٰہی) میں لکھا جا چکا ہے ، بلاشبہ یہ سب اللہ کیلئے (بالکل) آسان ہے
نشانات آفاق سے نشانات انفس کی طرف مضمون کو منتقل کرکے استدلال کیا جارہا ہے 11 ۔ ” اور اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا “ ظاہر ہے کہ یہ انسان کی پہلی پیدائش کی طرف اشارہ ہے جو توالد وتناسل کے ضابطہ سے مستثنیٰ تھی اس پیدائش میں کتنے انسان پیدا ہوئے ؟ خواہ وہ کتنے ہوں بہرحال وہ پیدائش اول ایک ہی سلسلہ تخلیق رکھنے کے باعث ایک ہی قسم کی پیدائش تصور کی جائے گی جس کے ہادی ورہنما کو آدم سے موسوم کیا گیا اور اس پیدائش میں مرد و عورت دونوں کا ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ ایک جنس کی دواصناف ہیں اور دونوں الگ الگ ہوں تو کسی ایک کی بھی انسانیت کی تکمیل نہیں ہوتی اور دونوں کے ملنے سے دونوں ہی کی انسانیت کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ یہ نظریہ کہ پہلے فقط آدم ایک ہی جان کو پیدا کرکے اس جان میں سے اس کی بیوی کو پیدا کیا اور وہ بھی اس کی بائیں پسلی سے یہ نظریہ صحیح نہیں ہے اور اس کی وضاحت ہم عروۃ الوثقی ، جلد دوم سورة النساء کی پہلی آیت میں بیان کر آئے ہیں اور اسی طرح پیدائش جو توالد وتناسل سے مقرر کی گئی اس کے لئے زوجین کا ہونالازم قرار پایا اور اسی طرح یہ بھی کہ جو پیدائش توالدوتناسل کے اصول سے پہلے کی ہے وہ محض تخلیق ہے کسی کی اولاد نہیں کہلاتی مثلاً یہ کہ آدم بےماں باپ ہیں اس وجہ سے وہ کسی کی اولاد نہیں ہیں اور دوسری پیدائش انسانی جس کو اصول توالد وتناسل سے تعلق ہے وہ باقاعدہ ایک دوسرے کی اولاد ہیں اور ان میں سے کوئی انسان بھی قیامت تک اس سے آزاد نہیں ہے اگرچہ لوگوں نے ہر دور میں کسی نہ کسی انسان کو بےباپ یا بغیر ماں باپ کے تسلیم کیا ہے بلا شبہ یہ قومی توافق ہے اسلامی نظریہ نہیں۔ ” پھر تم کو نطفہ سے پیدا کیا۔ “ نطفہ سے پیدائش کا جو اصول مقرر کیا گیا اس اصول میں بھی اصل یہی ہے کہ پیدائش کا فعل پھر بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف نسبت رکھتا ہے اس لئے کہ اس کا فاعل یعنی خالق وہی ہے اور اس نے اپنے وعدہ مشیت کے مطابق انسان کی پیدائش کا یہ سلسلہ نطفہ سے مقرر کردیا ہے اور زوجین میں سے اس کا بیج حاصل کرنے کا اصول اس احکم الحاکمین نے مقرر کیا ہے اور اب یہ اصول قیامت تک بدستور قائم رہے گا اگرچہ اس بیج کے مصنوعی طریقے بھی ایجاد کرلئے جائیں اصول اپنی جگہ بدستور قائم رہے گا اور آج کل نئی ٹیکنالوجی نے جو صرف ایک صنف سے بیج حاصل کرکے پیدائش کرنے کا تجربہ حاصل کیا ہے یہ بھی اس اصول سے مستثنیٰ نہیں ، کیوں ؟ اس لئے کہ ان پر دو اصناف میں دونوں قسم کے بیج موجود ہیں جن کے ملانے کا فطری طریقہ تو وہی ہے جو مقرر ہے اور سب کو معلوم ہے رہا غیر فطری طریقہ تو وہ بیج حاصل کرنے کا بھی غیر فطری طریقہ ہے اور بیج رکھنے کا بھی غیر فطری طریقہ ہے لہٰذا اس غیر فطری طریقہ سے بیج کو ایک صنف سے لے کر اسی صنف کے ایک دوسرے فرد میں غیر فطری طریقہ سے منتقل کرنے سے وہ ضابطہ نہیں بدلتا۔ ہاں ! اس غیر فطری طریقہ سے کی گئی پیدائش سے آگے پیدائش کا کوئی طریقہ تشکیل نہیں دیا جاسکتا اور یہ ہمارا چیلنج ہے جس کی وضاحت ہم نے جلد ششم سورة الفرقان کی آیت 54 میں بیان کردیا ہے۔ ” پھر تم کو جوڑا جوڑا بنایا “ پیدائش انسانی کے ضابطہ کے لئے اصلین کے لازم کرنے کی طرف اشارہ فرمایا جارہا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ نطفہ کی پیدائش تو دونوں اصناف میں موجود ہے لیکن اس کے ملنے کا فطری طریقہ زوجین کے ملنے سے وابستہ کردیا گیا ہے تاکہ دونوں اصناف ایک دوسرے سے تسکین حاصل کرکے اس زندگی کے بار کے ساتھ ساتھ وہ اس طرح لطف اندوز ہوں کہ فطری طور پر اس کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہوجائیں اور یہ وہی بات ہے جس کو ہماری زبان میں ایک پنتھ دو کاج سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ” نہ کوئی مادہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اس کے علم میں ہے “۔ وہ جانتا ہے کہ کون سی مادہ فطری طور پر جائز طریقہ سے حاملہ ہوئی اور کون سی مادہ غیر فطرطور پر ناجایز طریقہ سے حاملہ ہوئی ہے اور یہ جائز وناجائز کی بحث شرعی قواعد کے مطابق ہے ورنہ ہر مادہ کے حاملہ ہونے کا طریقہ ایک ہی ہے فطری طور پر بھی اور غیر فطری طریقہ سے بھی۔ اور پھر کو کچھ اس حمل سے واضح ہوتا ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے کہ وہ نر ہے یا مادہ ، وہ کامل ومکمل ہے یا یہ کہ نامکمل اور ناتمام گویا یہ کہ جو کچھ رحم مادہ میں کمی بیشی ہوئی ہے اس سے بھی وہ خوب واقف ہے وہ جانتا ہے کون کون سی اجناس قریب الجنس ہونے کے باعث ایک تیسری جنس کو جنم دے سکتی ہیں اور کون کون سی اجناس بعیدالجنس ہونے کے باعث پیوند کاری کے قابل نہیں ہیں اور اس طرح انسان کہاں کہاں غیر فطری طریقہ سے پیوند کاری کرسکتا ہے اور کہاں نہیں کرسکتا اور جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جائے گا یہ سربستہ راز کھلتے جائیں گے اور دو قریب الجنس اجناس میں سے ایک تیسری جنس پیدا ہوجائے گی اور یہ بھی کہ قریب الجنس اجناس سے جو جنس پیدا ہوگی وہ کس طرح بعید الجنس ہوجائے گی کہ آئندہ اس سے نہ تو طبعی جوڑ لگ سکے گا اور نہ مصنوعی طور پر جوڑ لگایا جاسکے گا۔ ” اور نہ کسی شخص کی عمر زیادہ کی جاسکتی ہے اور نہ کم کی جاتی ہے مگر یہ سب کچھ کتاب میں لکھا جاچکا ہے “۔ جتنی عمر کسی کو ملی ہے اس میں کسی کے کہنے سے کمی بیشی نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی اس کمی میں بیشی اور بیشی میں کمی کی یا کرائی جاسکتی ہے اس معاملہ میں جتنی باتیں ہمارے ہاں بیان کی جاتی ہیں سب فرضی اور اختراعی کہانیاں ہیں جو نادانوں نے بزرگوں کے نام منسوب کردی ہیں اور اس طرح انسانی زندگی کو بڑھانے سے آبادی کو کم یا زیادہ کرنے کے جتنے منصوبے بنائے گئے ہیں اور بنائے جا رہے ہیں سب کے سب اللہ رب ذوالجلال والا کرام کے ہاں بےکار اور ناکارہ ہیں اس لئے کہ جرائم میں اضافہ کا باعث ہوتے ہیں۔ تاہم جو منصوبہ جس کو تیار کرتا ہے اس کی وضاحت بھی علم الٰہی میں موجود ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ان ساری چیزوں کا طے ہونا اور اس کے علم میں موجود ہونا کوئی مشکل چیز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی مشکل ہو اس کا تصور ہی صحیح نہیں کیونکہ اس نے ہر ایک چیز کے لئے ایک اصول مقرر کردیا ہے اور وہ اسی کے مطابق ہوتی چلی جارہی ہے۔
Top