Urwatul-Wusqaa - Faatir : 10
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِیْعًا١ؕ اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَمْكُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ١ؕ وَ مَكْرُ اُولٰٓئِكَ هُوَ یَبُوْرُ
مَنْ : جو کوئی كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْعِزَّةَ : عزت فَلِلّٰهِ : تو اللہ کے لیے الْعِزَّةُ : عزت جَمِيْعًا ۭ : تمام تر اِلَيْهِ : اس کی طرف يَصْعَدُ : چڑھتا ہے الْكَلِمُ الطَّيِّبُ : کلام پاکیزہ وَالْعَمَلُ : اور عمل الصَّالِحُ : اچھا يَرْفَعُهٗ ۭ : وہ اس کو بلند کرتا ہے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَمْكُرُوْنَ : تدبیریں کرتے ہیں السَّيِّاٰتِ : بری لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۭ : عذاب سخت وَمَكْرُ : اور تدبیر اُولٰٓئِكَ : ان لوگوں هُوَ يَبُوْرُ : وہ اکارت جائے گی
جو شخص عزت کا خواہاں ہے تو (وہ اچھی طرح جان لے کہ) تمام عزت اللہ ہی کے لیے ہے اس کی طرف جو چیز اوپر اٹھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے اور عمل صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے اور جو لوگ بری چالوں میں لگے رہتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور وہی ہیں جن کا مکر تباہ و برباد ہو کر رہے گا
تم کو عزت کی تلاش ہے تو وہ اللہ کے پاس ہے کلمہ طیبہ اور عمل صالح اسی کی طرف بڑھتے ہیں 10 ۔ آخرت سے انکار ہے تو آخر کیوں ؟ اچھے اعمال کی طرف رغبت نہیں تو آخر کیوں ؟ اس لئے کہ جتنے و ڈیرے ہیں خواہ مذہبی پیشوا اور راہنما ہیں اور خواہ وہ دنیوی جاہ و جلال کے خمار میں مست ہیں تو اب وہ اس مستی سے نکلیں تو کیسے اس لئے کہ ایک طرف وہ اپنے اس جاہ و جلال ، اپنی پیشوائیت اور لیڈری پر نظر رکھتے ہیں تو دوسری طرف ان کو محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس نظر آتی ہے جو ایک در یتیم ہے اور اس دنیوی زندگی کے مال ومتاع میں سے کسی چیز کی بھی فراوانی اس کو حاصل نہیں ہے۔ اس عزت کی متلاشیوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگر ہم اس دریتیم کی بات کو مانتے اور تسلیم کرتے ہیں تو عزت خاک میں ملتی ہے کیوں ؟ اس لئے کہ وہ اپنے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں سمجھتے ان کو مخاطب کرکے کہا جارہا ہے کہ کتنے کوتاہ اندیش ہو تم ، تم نے یہ سارا کاروبار محمد ﷺ کا سمجھ لیا ہے اور اللہ رب ذوالجلال والا کرام جو ساری عزتوں کا اصل مالک ہے اس کی طرف تم نے نہیں دیکھا حالانکہ عزت جس کے تم خواہاں ہو وہ تو ساری کی ساری اسی رب ذوالجلال والا کرام ہی کے پاس ہے عزت جس کو ملی ہے اسی سے ملی ہے اس لئے تم کو یہ کتنی بڑی غلطی لگی ہے کہ تم نے عزت جیسی چیز کو بےعزت لوگوں کے پاس تلاش کرنا شروع کردیا ہے تف ہے تمہاری سوچ پر کہ تم نے کتنی گھٹیا حرکت شروع کی ہے اس کی مزید وضاحت سورة منافقون میں ملے گی۔ فرمایا جتنے اچھے کلمات ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف صعود کرتے ہیں اور پاکیزہ کلمات اور اچھے اعمال کو بلند کرنا صرف اور صرف رب کریم ہی کا کام ہے اور ان کی نسبت بھی اسی کو زیب دیتی ہے اور ہر قول طیب اور ہر عمل صالح اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے اور بلا شبہ یہ دونوں لازم وملزوم ہیں کیونکہ کوئی عمل اس وقت تک عمل صالح نہیں کہا جاسکتا جب تک عمل صالح اس کی تصدیق نہ کرے اور اس سے صرف ایک صورت مستثنیٰ قراردی جاسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان عقیدہ صالح کا اعلان کرے اور عمل صالح کا اس کو وقت ہی میسر نہ آئے کہ اس کی زندگی کا دیا بجھ جائے اس کے سوا دوسری کوئی صورت نہیں ہے مثلاً ایک شخص زبان سے کہتا ہے کہ میں صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کو معبود مانتا ہوں مگر عملاً وہ غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے ، غیر اللہ کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتا ہے اور اپنے نفع ونقصان کا مالک غیروں کو جانتا ہے تو وہ بلا شبہ جھوٹا ہے اور اس کی زبان کا کچھ اعتماد نہیں ہے مکہ والوں کے اس شرک کو قرآن کریم نے بار بار بیان کیا ہے رہے وہ لوگ جو دن رات برے مکر کرتے ہیں اور اس طرح کی تحریکیں چلاتے ہیں جو سراسر کتاب وسنت کے خلاف ہیں اور اپنی چالاکیوں اور فریب کاریوں کو فروغ دینے دینے کے لئے دن رات کوشاں ہیں اور ان کے مقابلے میں کلمہ حق کو نیچا دکھانے کے لئے بری سے بری تدبیر استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے ان کے لئے ایک تو دنیا میں بھی سخت عذاب ہے اور آخرت بھی ان کی یقینا برباد ہے اور ان کی ایسی تدبیروں کو کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوگی اور خاص کر وہ آخرت کی ناکامی سے ضرور دوچار ہو کر رہیں گے۔
Top