Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 36
اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ١ؕ وَ یُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍۚ
اَلَيْسَ : کیا نہیں اللّٰهُ : اللہ بِكَافٍ : کافی عَبْدَهٗ ۭ : اپنے بندے کو وَيُخَوِّفُوْنَكَ : اور وہ خوف دلاتے ہیں آپ کو بِالَّذِيْنَ : ان سے جو مِنْ دُوْنِهٖ ۭ : اس کے سوا وَمَنْ : اور جس يُّضْلِلِ : گمراہ کردے اللّٰهُ : اللہ فَمَا لَهٗ : تو نہیں اس کے لیے مِنْ : کوئی هَادٍ : ہدایت دینے والا
کیا اللہ اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں ہے ؟ اور (یہ منکر) آپ کو اس (اللہ) کے سوا اوروں سے ڈراتے ہیں اور اللہ جس کو (اپنے قانون کے مطابق) گمراہ کرے اس کو کوئی راہ دکھانے والا نہیں
نادان آپ کو ڈراتے ہیں ، کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ہے ؟ 36۔ زیر نظر آیت میں ایک بہت پرانی گمراہی کا ذکر کیا جا رہا ہے یہ گمراہی گزشتہ قوموں میں بھی عام تھی خود نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی تھی اور آض بھی بدستور قائم ہے۔ گزشتہ قوموں کے ذکر میں بھی آپ پڑھ چکے ہیں کہ تقریبا ہر قوم نے اپنے نبی سے یہ بات کہی کہ ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تجھے ہمارے معبودوں میں سے کسی کی مار لگ گئی ہے یا یہ کہ اگر آپ نے یہ تبلیغ اسی طرح جاری رکھی تو ضرور ایسا ہوگا کہ ہمارے بزرگوں سے کسی کی مار تم کو لگ جائے گی اور یہی بات نبی اعظم وآخر محمد ﷺ سے کفار مکہ نے کہی تھی کہ تم ہمارے بزرگوں کی شان میں جو گستاخیاں کرتے ہو اور ان کے خلاف زبان کھولتے ہو تمہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ کیسی باکرامت اور بزرگ ہستیاں ہیں ، ان کی توہین جس نے بھی کی وہ برباد ہوگیا تم بھی اگر ان باتوں سے باز نہ آئیت و یہ تمہارا تختہ الٹ دیں گے خیال رہے کہ آپ نے ان کے بزرگوں کی کیا توہین کی ؟ یہی کہ ان کو باور کرایا کہ جن لوگوں کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا جانتے ہو ان میں سے ایک بھی نہیں جو کسی کا حاجت روا اور مشکل کشا ہو۔ آپ کا یہ فرمانا ان کے نزدیک ان کے بزرگوں کی توہین تھی حالانکہ اس میں توہین کی کوئی بات نہیں بلکہ اس کے مقابلہ میں ان ان کو مشکل کشا ماننا اور حاجت روا سمجھنا ان کی توہین ہے کیونکہ جو بات انہوں نے نہ کہی تھی وہ ان کے زمہ لگائی گئی۔ یہی بات آج کے زمانہ کے مشرک کہتے ہیں ان کو جب یہ بات کہی جاتی ہے کہ نہ تو سیدنا علی ؓ تمہارے مشکل کشا ہیں اور نہ حسن ؓ اور حسین ؓ میں سے کوئی مشکل کشا ہے اور نہ ہی علی ہجویری ، شہباز قلندر ، لطیف بھٹائی ، مجدد الف ثانی ، سید عبدالقادر جیلانی اور صابر کلیری تمہارے حاجت روا ہیں بلکہ تمہارا حاجت روا اور مشکل کشا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے جو ان سب کا بھی حاجت روا اور مشکل کشا تھا تو ہمارے زمانہ کے مشرک یہی کہتے ہیں کہ یہ لوگ دراصل نبیوں ، ولیوں اور بزرگوں کے گستاخ ہیں اور یقینا ان کو انہی ہمارے بزرگوں میں سے کی کی مار لگ گئی تب ہی تو یہ اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں اور یہ بات نہ ان کی سمجھ میں آئی اور نہ ہی ان کی سمجھ میں آتی ہے کہ ان ہی بزرگوں میں سے ہم کو کسی کی مار لگی ہوگی تو ان کے متعلق ہم ایسی باتیں نہ کہتے۔ بہرحال زیر نظر آیت میں ایسا کہنے والوں کو یہ جواب دیا جا رہا ہے کہ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے ؟ یعنی بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندے کے لیے کافی ہے وہ جس کا ساتھی ہو اس کو کب کسی کی مار لگ سکتی ہے۔ آپ کو اس طرح ڈرانے والے دراصل خود گمراہ ہوچکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق جو گمراہ ہوچکے ہیں ان کی سیدھی راہ پر کون لاسکتا ہے اور مشرکین کی مت اسی طرح ماری جاتی ہے کہ وہ خود گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو گمراہ کہتے ہیں۔
Top