Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 79
مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ١٘ وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ١ؕ وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا
مَآ : جو اَصَابَكَ : تجھے پہنچے مِنْ حَسَنَةٍ : کوئی بھلائی فَمِنَ اللّٰهِ : سو اللہ سے وَمَآ : اور جو اَصَابَكَ : تجھے پہنچے مِنْ سَيِّئَةٍ : کوئی برائی فَمِنْ نَّفْسِكَ : تو تیرے نفس سے وَاَرْسَلْنٰكَ : اور ہم نے تمہیں بھیجا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے رَسُوْلًا : رسول وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
جو کچھ بھلائی پیش آتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو کچھ نقصان اٹھاتے ہو وہ خود تمہاری طرف سے ہوتا ہے اور ہم نے تمہیں لوگوں کے پاس اپنا پیامبر بنا کر بھیجا ہے اور اللہ کی گواہی بس کرتی ہے
اصلاح کا پہلو اس میں تھا کہ بھلائی کی نسبت اللہ کی طرف اور برائی کی نسبت اپنی طرف کرتے : 137: یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ کی رضا ہے اور ایک اللہ کی قضا و قدر کے فیصلے۔ جو شخص ان دونوں میں فرق کرنا نہیں جانتا وہ ہمیشہ ٹھوکر کھا جاتا ہے۔ مِنَ اللّٰہِ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عین رضا کے مطابق ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ ” مِنْ عِنْدَ اللّٰہِ “ ہے۔ ادب و احترام کی سیدھی اور صاف راہ یہ ہے کہ انسان کو جب بھی کوئی بھلائی اور اچھائی نصیب ہو یا بھلائی اور اچھائی کا نتیہجہ اس کے سامنے آئے تو اس کی نسبت اللہ تعالیٰ سے کرے کہ وہ خیر کل ہے لیکن جب کوئی معاملہ اس کے برعکس ہوجائے تو اس کی نسبت اپنی ذات کی طرف کرتے ہوئے اس کی اصلاح کرے۔ کوئی نقصان ہوا یا کوئی مصیبت آئی تو سمجھے کہ یہ میری کسی کوتاہی کا نتیجہ ہے۔ اس اصول کے اندر بڑے راز مضمر ہیں اس لیے جس انسان کو اس کی سمجھ آجائے اور اس کے مطابق وہ عمل کرنا شروع کر دے سمجھو کہ اس پر اللہ کا خاص فضل و کرم ہوگیا۔ زیرنظر آیت میں اس بات کا درس ہے فرمایا جو کچھ برائی پیش آتی ہے وہ خود تمہاری ہی بدعملی کا نتیجہ ہے اس کا الزام کسی دوسرے کے سر نہ ڈالو۔ پیغمبر اسلام تو اللہ کے رسول ہیں اور رسول کا کام یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے پیغام پہنچا دے۔ ماننا یا نہ ماننا تمہارا کام ہے اگر تم ان کے احکام کی اطاعت نہ کرو اور اس کا برا نتیجہ پیش آئے تو اس کی ذمہ داری تم پر ہے نہ کہ پیغمبر اسلام پر۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی جماعت یا کسی ریاست کی پیشوائی کا منصب رکھتا ہے اسے کیسی کیسی دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے ؟ وہ جب عزم و عمل کی دعوت لوگوں کو دیتا ہے تو ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی پیدا ہوجاتا ہے جو یقین کا کچا اور ہمت کا کمزور ہوتا ہے وہ اطاعت کی جگہ مخالفت کی روش اختیار کرلیتا ہے۔ پھر جب اس صورت حال کی وجہ سے کوئی ناکامی پیش آجاتی ہے تو بجائے اس کے کہ وہ لوگ اپنی بدعملیوں پر نادم ہوں۔ سارا الزام رئیس جماعت کے سر ڈال دیتے ہیں اور اس طرح مخالفت کا ایک نیا بہانہ ان کے ہاتھ آجاتا ہے اور یہ وقت رئیس جماعت کے لیے بھی سخت ہوتا ہے پھر رسالت کا منصب تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اس لیے اس کی ذمہ داری بھی بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پھر رسول ہی وہ انسان ہے کہ ایسے نازک وقت میں بھی کوئی بات منہ سے ایسی نہیں نکالتا جو کسی برے سے برے انسان کے لیے بھی باعث تکلیف ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ایک خاص دائرہ کے اندر آزادی بخشی ہے۔ یہ آزادی بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس پر انسان کے سارے شرف کی بنیاد ہے۔ اس کی وجہ سے انسان آخرت میں جزاء و سزاء کا مستحق ٹھہرے گا۔ اگر یہ آزادی انسان کو حاصل نہ ہوتی تو ایک گھوڑے اور انسان کے درمیان سوائے شکل و صورت کے کوئی فرق نہ ہوتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نیک ارادے بھی اللہ کی توفیق سے پورے ہوتے ہیں اور برے ارادے بھی اس کی مہلت دینے سے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کسی کے برے ارادے کو بروئے کار آنے دیتا ہے تو اس پہلو سے وہ اللہ کی طرف منسوب ہوتا ہے کہ اس کا بروئے کار آنا اللہ ہی کے قانون سے مشیت سے ہوا لیکن دوسرے پہلو سے وہ انسان کا فعل ہے کیونکہ اس کا ارادہ انسان نے خود کیا۔ لیکن اگر اس ارادے کی آزادی انسان سے واپس لے لی جائے تو وہ مکنلف کیوں کر ہوا ؟
Top