Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 8
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَاِذَا
: اور جب
حَضَرَ
: حاضر ہوں
الْقِسْمَةَ
: تقسیم کے وقت
اُولُوا الْقُرْبٰي
: رشتہ دار
وَالْيَتٰمٰى
: اور یتیم
وَالْمَسٰكِيْنُ
: اور مسکین
فَارْزُقُوْھُمْ
: تو انہیں کھلادو (دیدو)
مِّنْهُ
: اس سے
وَقُوْلُوْا
: اور کہو
لَھُمْ
: ان سے
قَوْلًا
: بات
مَّعْرُوْفًا
: اچھی
اور یاد رکھو جب ایسا ہو کہ ترکہ تقسیم کرنے کے وقت رشتے دار ، بےباپ اور مساکین افراد بھی حاضر ہوجائیں تو چاہیے کہ میت کے مال سے انہیں بھی تھوڑا بہت دے دو اور انہیں اچھے طریقے پر بات کہہ کر سمجھا دو
متوفی کا ترکہ تقسیم ہونے لگے تو ورثا کو کیا کرنا چاہئے ؟ 23: قانون میں جب حصے مقرر ہوگئے تو اب متوفی کے ورثا وہی قرار پائیں گے جو قرآن کریم نے بیان کردیئے اور وہی حصہ ان کو ملے گا جو قرآن کریم نے ان کے لئے مقرر کیا بلاشبہ اب قانونی حق دار تو وہی ہوں گے جو ازروئے قرآن کریم وارث قرار پاتے ہیں لیکن متولی کے ذوی الارحام اور خاندانی و انسانی ہمدردی کے عام حقوق پھر بھی باقی رہیں گے۔ اس لئے متوفی تو دار فانی سے رخصت ہوگیا اب اس کے صحیح وارثوں کو خطاب کر کے ہدایت دی جا رہی ہے کہ اگر وراثت تقسیم کرتے وقت قرابت مند یتیم اور مسکین یعنی فقیر قسم کے لوگ آموجود ہوں تو ہر چند وراثت میں ان کا کوئی شرعی حق نہ ہے تاہم وہ ڈانٹے ڈپٹے نہ جائیں بلکہ ان کو بھی اس میں کچھ تھوڑا بہت دے دیا جائے تو یہ بھلائی کی بات ہے اور بھلائی ہر حال میں بھلائی ہے۔ آج جس کے ترکہ پر تم بیٹھ گئے ہو کہ اس کو تقسیم کر لاق جائے۔ کل تمہارے ترکہ پر کوئی بیٹھ سکتا ہے دنیا کا نظام اس طرح چلتا آیا ہے اور چلتا جائے گا جب کہ اللہ نے اس کو باقی رکھنا ٹھہرایا ہے۔ اس ترکہ کے جب تم وارث نہیں قرار پائے تھے تمہارا وقت ہی اس وقت بھی گزرتا تھا اور اب اس ترکہ سے حصہ پانے کے بعد بھی وقت ہی پاس ہوگا۔ اس لئے یہ خیر کا کام ہے اس میں دل کھول کر حصہ لو اور اتفاق رائے سے کچھ اشیاء یا کچھ رقم اور سامان جو مناسب خیال کرو پہلے ان خاندان کے غرباء میں تقسیم کر دو تاکہ یہ بھی تم کو اور مرنے والے کو نیک دعا دے کر رخصت ہوں۔ یہ تو وہ مال ہے جس کے تم مالک نہیں تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے مطابق تمہیں پہنچا دیا ہے۔ اہل قرابت سے تو ویسے بھی کچھ دیتے رہنے کا حکم تم کو دیا گیا ہے اگر مالی کشائش اللہ نے تم کو دی ہے تو اہل قرابت کا خیال خصوصاً جو ان میں سے کمزور ہیں بہت ضروری ہے چناچہ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا : وَاٰتَی الْمَالَ عَلیٰ حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی (البقرہ : 2) ” اور مال اللہ کی محبت کے لئے قرابت داروں کو دیا کرو۔ “ یعنی مال و دولت کی محبت اور ذاتی ضرورت اور خواہش کے باوجود صرف اور صرف اللہ کی رضا جوئی کے لئے خود تکلیف اٹھا کر اپنے قرابت مندوں کی امداد کرو اس لئے کہ ان سے تعاون اور پھر وہ بھی خالص اللہ کی رضا کے لئے ایک بہت بڑی نیکی ہے اور پھر جتنی نیکی بڑی ہوگی اتنا ہی اس کا اجر بھی بڑا ہوگا۔ اس جگہ ارشاد فرمایا کہ ماں باپ سے بھی نیک سلوک کرو اور ان کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آئو اور یاد رکھو کہ یہ ان عہد و پیماں میں سے ایک ہے جو انسان سے اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر لئے ہوئے ہے جن کو دنیا کے لوگ اور آج خصوصاً مسلمان بھول ہی چکے ہیں۔ فرمایا وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّذِی الْقُرْبٰی اور ماں باپ اور دوسرے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ نیکی کرنے کا تم سے عہد لیا گیا ہے۔ پھر سورة نحل میں اہل قرابت کی امداد کو عدل و احسان کے بعد اپنا تیسرا خاص حکم بتایا۔ چناچہ ارشاد ہوا : اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَائِی ذِی الْقُربٰی (نحل : 16) ” بلاشبہ اللہ تم کو انصاف کرنے اور حسن سلوک سے پیش آنے اور قرابت داروں کو دینے کا حکم کرتا ہے۔ “ اس طرح اگر کسی قرابت مند سے کوئی قصور ہوجائے تو اہل دولت کو زیبا نہیں کہ وہ اس کی سزا میں اپنی امداد کا ہاتھ اس سے روک لیں۔ چناچہ ارشاد ہوا : وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُم وَاسَّعَۃِ اَنْ یَّئوْتُوْا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ (النور : 22:24) ” اور جو لوگ تم میں بڑائی اور کشائش والے ہوں وہ قرابت مندوں اور محتاجوں کے دینے کی قسم نہ کھا بیٹھیں۔ “ حق قرابت کو اسلام میں وہ اہمیت حاصل ہے کہ داعی اسلام ﷺ اپنی ان تمام محنتوں ، زحمتوں ، تکلیفوں اور مصیبتوں کا جو تبلیغ اور دعوت حق میں ان کو پیش آئیں اور اپنے اس احسان و کرم کا و ہدایت ، تعلیم اور اصلاح کے ذریہ ہم پر فرمایا۔ معاوضہ اور مزدوری اپنی امت سے یہ طلب کرتے ہیں کہ رشتہ داروں اور قرابت مندوں کا حق ادا کرو اور ان سے لطف و محبت سے پیش آئو۔ یہ تو ایک دوسرے انسان پر فطری حق ہے خواہ کوئی کسی دین و ملت سے تعلق رکھتا ہو۔ آخر میرا بھی یہ فطری حق تو تم پر موجود ہے تم اس کو بھی آخر کیوں بھول گئے ہو۔ فرمایا اور وہ بھی اللہ کے حکم سے اپنی طرف سے نہیں۔ ارشاد ہوا۔ قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرَاً اِلَّا الْمُوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی (الشوری : 42) ” اے پیغمبر اسلام ! ان سے کہو کہ میں تم سے اس پر کچھ مزدوری طلب نہیں کرتا بجز اس کے کہ میری قرابت کا حق تو ادا کرو۔ “ و گویا فطری حق ہے۔ عربی زبان میں قرابت کا حق ادا کرنے کو ” وصل رحم “ کے الفاظ سے ادا کرتے ہیں اس لفظ کی دوسری معروف شکل صلہ رحمی یعنی رحم ملانا ہے۔ اور قرابت کے حقوق کو ادا نہ کرنے کو قطع رحم سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ رحم مادری ہی دراصل تعلقات قرابت کی جڑ ہے۔ کسی امر میں دو انسان کا اشتراک ان کے باہمی کہیں ہم مذاقی ، کہیں ہم پیشگی ، کہیں ہم وطنی اور کہیں ہم قومی کی مختلف صورتوں میں نمایاں ہوتا ہے۔ اس اشتراک کے عقد محبت کو استوار اور مضبوط رکھنے کے لئے جانبین پر حقوق کی نگہداشت اور فرائض محبت کی ادائیگی واجب ہے لیکن ان تمام بندھ کر ٹوٹ جانے والے اشتراک ہے جس کا موطن رحم مادر ہے۔ یہ ہم رحمی خالق فطرت کی باندھی ہوئی گرہ ہے اور اس کا توڑنا انسانی قوت سے باہر ہے اس لئے اس کے حقوق کی نگہداشت بھی انسانوں پر سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ایک حدیث میں بنی رحمت ﷺ نے انسانوں کے اس فطری گرہ کی تشریح استعارہ کے ان الفاظ میں بیان فرمائی کی رحم یعنی جو شکم مادر کے اندر ایک عضو ہے رحمن اللہ تعالیٰ کے نام سے مشتق ہے۔ اس لئے محبت والے خدا نے رحم کو خطاب کر کے فرمایا ” جس نے تجھ کو کاٹا اس کو میں نے کاٹا۔ “ اس مضمون کو ایک اور استعارہ کے مزید گہرے رنگ میں نبی کریم ﷺ نے اس طرح ادا فرمایا ” کہ رحم مادر انسانی عرش الٰہی کو پکڑ کر کہتا ہے جو مجھے ملائے اس کو اللہ ملائے اور جو مجھے کاٹے اس کو اللہ کاٹے۔ “ ایک اور موقع پر نبی اعظم و آخر ﷺ نے حسن تعبیر کا اس سے بھی زیادہ نازک طریقہ اختیار فرمایا ارشاد ہوا کہ اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو رحم انسانی نے اس رحمت والے خدا کا دامن (حدیث کا اصل لفظ حقوہ ہے) کو تھام لیا۔ اللہ نے فرمایا ٹھہر جا ! یہ اس کا مسکن ہوگا جو تیری گرہ کاٹنے سے بچے گا۔ کیا تو اس سے خوش نہیں کہ جو تجھ کو ملائے اس کو میں اپنے ساتھ ملائوں جو تجھ کو کاٹے اس کو میں اپنے سے کاٹ دوں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) کو یا رحم مادر اور اس رحمن کے رحم و کرم کے درمیان حرفوں کا یہ اشتراک محبت کے معنوی اشتراک کے بھید کو فاش کرتا ہے اور اس سے وہ اہمیت ظاہر ہوتی ہے جو اسلام کی نظر میں اہل قرابت کی ہے۔ رحم اور رحمن کے اس جوڑ کی طرف ہی اس سورة النساء کی پہلی آیت میں اشارہ کیا ہے جو پیچھے گزر چکا۔ ایک دفعہ ایک شخص نے نبی رحمت ﷺ سے آ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ فرمایا اللہ کی بندگی کرو۔ کسی کو اس کا ساتھی نہ بنائو۔ نماز مکمل طور پر ادا کرو۔ زکوٰۃ دو اور قرابت کا حق (صلہ رحم) ادا کرو۔ (صحیح بخاری کتاب الادب باب فضل صلۃ الرحم) جیر بن مطعم صحابی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو صلہ رحمی نہیں کرے گا اللہ اس کو جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ یعنی جنت میں اس کا داخلہ اس وقت تک رکا رہے گا جب تک اس کا یہ گناہ معاف نہ ہوجائے گا یا وہ اس گناہ سے پاک نہ ہو لے گا۔ (صحیح بخاری کتاب الاداب) ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں وسعت اور اس کی عمر میں برکت ہو تو اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کرے۔ اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ ان نیک اعمال کا اثر اللہ نے یہ رکھا ہے کہ اس سے مال و دولت میں فراخی اور عمر میں زیادتی ہوتی ہے کیونکہ صلہ رحمی کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ ضرورت مند رشتہ داروں کی مالی مدد کی جائے دوسری یہ کہ اللہ کی دی ہوئی عمر میں سے کچھ حصہ ان کی خدمت میں صرف کیا جائے پہلے کا نتیجہ اللہ کی طرف سے مالی و سعت اور کشادگی ہے اور دوسرے کا نتیجہ عمر میں برکت اور زیادتی کی صورت میں ملتا ہے۔ اس حدیث کی تشریح اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ انسان کے خانگی افکار اور خاندانی جھگڑے بہت کچھ اس لے لئے اضمحلال ، تکدر اور قلبی پریشانی کا سبب ہوتے ہیں لیکن جو لوگ اپنے خاندان والوں کے ساتھ نیکی کے برتائو ، صلہ رحمی اور خوش خلقی سے پیش آتے ہیں ان کی زندگی میں خاندانی مسرت ، انشراح اور طمانیت خاطر رہتی ہے جس کی وجہ سے ان کی دولت اور عمر دونوں میں برکت اور زیادتی ہوتی ہے۔ ترمذی میں یہ حدیث اس طرح کہ ” صلہ رحم سے قرابت والوں میں محبت ، مال میں کثرت اور عمر میں برکت ہوتی ہے۔ “ (ترمذی) حدیث میں اس کی بھی تصریح ہے کہ صلہ رحم کا کمال یہ نہیں ہے کہ جو بدلہ کے طور پر صلہ رحم کا جواب صلہ رحم سے دے بلکہ صلہ رحم یہ ہے کہ جو قطع رحم کرتا ہے اس کے ساتھ صلہ رحم کیا جائے۔ یعنی جو قرابت کا حق ادا نہیں کرتے ہیں ان کا حق ادا کیا جائے۔ (بخاری کتاب الاداب من بسط لہ فی الرزق) وہ قرابت دار جو متوفی کے مال میں وارث نہیں ہیں ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئو 24: وہ قرابتدار جو مال کی تقسیم کے وقت جو کسی متوفی کے ترکہ کا مال ہو موقع پر پہنچ جائیں اور وہ مستحق بھی ہوں تو ان سے جو سلوک کرو خوش دلی اور پیار و محبت کے ساتھ کرو ایسا نہ کرو کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ دیں وہ تمہاری زبانیں ضائع کردیں۔ اس دینے سے نہ دینا بہتر ہے۔ مثل ہے کہ تلوار کے زخم بھر جاتے ہیں لیکن زبان کے زخم کبھی نہیں بھرتے۔ آیت کے اس حصہ میں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ دیکھو انہیں اچھے طریقے سے بات سمجھا دو اور اپنا مدعا اس طریقہ سے بیان کرو کہ ان کا دل بھی نہ دکھے اور تم بھی جو بات ان تک پہنچانا چاہتے ہو پہنچا لو۔ آپ کی قوت قدسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ صدیوں کے بگڑے ہوئے انسان پلک جھپکنے میں کچھ سے کچھ ہوگئے۔ اللہ جانے کب سے یہ رواج جاری تھا کہ وہ ورثہ صرف ان لوگوں کو ملے جو ملک یا قوم کی حفاظت کرسکتے ہیں اور جو اس قابل نہ ہوں ان کا ورثہ میں کوئی حق ہی تسلیم نہ ہو۔ عورتوں اور بچوں کی حمایت میں کب کسی نے آواز اٹھائی تھی اور ایسی جرات کی بھی کون سکتا تھا ؟ لیکن یتیم اور عاجز عورتیں کیا اپنے ہی حامیوں اور اپنے ہی محافظوں کے خلاف آواز اٹھا سکتی تھی ؟ مگر آسمان سے ایک آواز آئی اور اس کے سامنے تمام گردنیں جھک جاتی ہیں۔ ایک بادشاہ جس کی زندگی کا انحصار اس کے سپاہیوں کی بہادری پر۔ ان کے تلوار چلانے پر ہو کیا وہ ان ہی سپا ہوں کے حقوق جو انہوں نے خود ہی تجویز کئے ہوں دوسروں کے دینے کا کبھی خیال بھی کرسکتا ہے ؟ لیکن یہ کمال ہے اس نبی اعظم و آخر ﷺ کا کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اعلان فرما دیا کہ یہ ان سپاہیوں کا حق نہیں بلکہ ان یتیموں اور بیوائوں کا حق ہے جو متوفی چھوڑ کر گیا ہے۔ آپ ﷺ کا یہ اعلان کانا تھا کہ آپ ﷺ کے جاں نثاروں نے اس کو قبول کرتے ہوئے عمل کر کے دنیا کو دکھا دیا کہ فرمانبرداری اس چیز کا نام ہے۔ یہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی قوت قدسی تھی جس نے دنیا میں ایسا انقلاب پیدا کر کے دکھا دیا جس کی نظیر دنیا کا کوئی دوسرا انسان نہیں دکھا سکا۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کے دل پر نازل ہونے والا یہ پیغام آج بھی اسی طرح زندہ و تابندہ ہے اور قابل عمل ہے جیسا کہ نزول کے وقت تھا منسوخ نہیں جاسہ کہ بعض مفسرین نے کہہ دیا ہے اور یہ بات ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ اللہ کی کتاب میں سے کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جو قابل عمل نہ ہو بلکہ ایسا کہنا ہی قرآن کریم اور قرآن کریم کے نازل کرنے والے رب کریم پر بہتان عظیم ہے۔
Top