Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 8
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَاِذَا : اور جب حَضَرَ : حاضر ہوں الْقِسْمَةَ : تقسیم کے وقت اُولُوا الْقُرْبٰي : رشتہ دار وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم وَالْمَسٰكِيْنُ : اور مسکین فَارْزُقُوْھُمْ : تو انہیں کھلادو (دیدو) مِّنْهُ : اس سے وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : اچھی
اور یاد رکھو جب ایسا ہو کہ ترکہ تقسیم کرنے کے وقت رشتے دار ، بےباپ اور مساکین افراد بھی حاضر ہوجائیں تو چاہیے کہ میت کے مال سے انہیں بھی تھوڑا بہت دے دو اور انہیں اچھے طریقے پر بات کہہ کر سمجھا دو
متوفی کا ترکہ تقسیم ہونے لگے تو ورثا کو کیا کرنا چاہئے ؟ 23: قانون میں جب حصے مقرر ہوگئے تو اب متوفی کے ورثا وہی قرار پائیں گے جو قرآن کریم نے بیان کردیئے اور وہی حصہ ان کو ملے گا جو قرآن کریم نے ان کے لئے مقرر کیا بلاشبہ اب قانونی حق دار تو وہی ہوں گے جو ازروئے قرآن کریم وارث قرار پاتے ہیں لیکن متولی کے ذوی الارحام اور خاندانی و انسانی ہمدردی کے عام حقوق پھر بھی باقی رہیں گے۔ اس لئے متوفی تو دار فانی سے رخصت ہوگیا اب اس کے صحیح وارثوں کو خطاب کر کے ہدایت دی جا رہی ہے کہ اگر وراثت تقسیم کرتے وقت قرابت مند یتیم اور مسکین یعنی فقیر قسم کے لوگ آموجود ہوں تو ہر چند وراثت میں ان کا کوئی شرعی حق نہ ہے تاہم وہ ڈانٹے ڈپٹے نہ جائیں بلکہ ان کو بھی اس میں کچھ تھوڑا بہت دے دیا جائے تو یہ بھلائی کی بات ہے اور بھلائی ہر حال میں بھلائی ہے۔ آج جس کے ترکہ پر تم بیٹھ گئے ہو کہ اس کو تقسیم کر لاق جائے۔ کل تمہارے ترکہ پر کوئی بیٹھ سکتا ہے دنیا کا نظام اس طرح چلتا آیا ہے اور چلتا جائے گا جب کہ اللہ نے اس کو باقی رکھنا ٹھہرایا ہے۔ اس ترکہ کے جب تم وارث نہیں قرار پائے تھے تمہارا وقت ہی اس وقت بھی گزرتا تھا اور اب اس ترکہ سے حصہ پانے کے بعد بھی وقت ہی پاس ہوگا۔ اس لئے یہ خیر کا کام ہے اس میں دل کھول کر حصہ لو اور اتفاق رائے سے کچھ اشیاء یا کچھ رقم اور سامان جو مناسب خیال کرو پہلے ان خاندان کے غرباء میں تقسیم کر دو تاکہ یہ بھی تم کو اور مرنے والے کو نیک دعا دے کر رخصت ہوں۔ یہ تو وہ مال ہے جس کے تم مالک نہیں تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے مطابق تمہیں پہنچا دیا ہے۔ اہل قرابت سے تو ویسے بھی کچھ دیتے رہنے کا حکم تم کو دیا گیا ہے اگر مالی کشائش اللہ نے تم کو دی ہے تو اہل قرابت کا خیال خصوصاً جو ان میں سے کمزور ہیں بہت ضروری ہے چناچہ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا : وَاٰتَی الْمَالَ عَلیٰ حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی (البقرہ : 2) ” اور مال اللہ کی محبت کے لئے قرابت داروں کو دیا کرو۔ “ یعنی مال و دولت کی محبت اور ذاتی ضرورت اور خواہش کے باوجود صرف اور صرف اللہ کی رضا جوئی کے لئے خود تکلیف اٹھا کر اپنے قرابت مندوں کی امداد کرو اس لئے کہ ان سے تعاون اور پھر وہ بھی خالص اللہ کی رضا کے لئے ایک بہت بڑی نیکی ہے اور پھر جتنی نیکی بڑی ہوگی اتنا ہی اس کا اجر بھی بڑا ہوگا۔ اس جگہ ارشاد فرمایا کہ ماں باپ سے بھی نیک سلوک کرو اور ان کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آئو اور یاد رکھو کہ یہ ان عہد و پیماں میں سے ایک ہے جو انسان سے اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر لئے ہوئے ہے جن کو دنیا کے لوگ اور آج خصوصاً مسلمان بھول ہی چکے ہیں۔ فرمایا وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّذِی الْقُرْبٰی اور ماں باپ اور دوسرے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ نیکی کرنے کا تم سے عہد لیا گیا ہے۔ پھر سورة نحل میں اہل قرابت کی امداد کو عدل و احسان کے بعد اپنا تیسرا خاص حکم بتایا۔ چناچہ ارشاد ہوا : اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَائِی ذِی الْقُربٰی (نحل : 16) ” بلاشبہ اللہ تم کو انصاف کرنے اور حسن سلوک سے پیش آنے اور قرابت داروں کو دینے کا حکم کرتا ہے۔ “ اس طرح اگر کسی قرابت مند سے کوئی قصور ہوجائے تو اہل دولت کو زیبا نہیں کہ وہ اس کی سزا میں اپنی امداد کا ہاتھ اس سے روک لیں۔ چناچہ ارشاد ہوا : وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُم وَاسَّعَۃِ اَنْ یَّئوْتُوْا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ (النور : 22:24) ” اور جو لوگ تم میں بڑائی اور کشائش والے ہوں وہ قرابت مندوں اور محتاجوں کے دینے کی قسم نہ کھا بیٹھیں۔ “ حق قرابت کو اسلام میں وہ اہمیت حاصل ہے کہ داعی اسلام ﷺ اپنی ان تمام محنتوں ، زحمتوں ، تکلیفوں اور مصیبتوں کا جو تبلیغ اور دعوت حق میں ان کو پیش آئیں اور اپنے اس احسان و کرم کا و ہدایت ، تعلیم اور اصلاح کے ذریہ ہم پر فرمایا۔ معاوضہ اور مزدوری اپنی امت سے یہ طلب کرتے ہیں کہ رشتہ داروں اور قرابت مندوں کا حق ادا کرو اور ان سے لطف و محبت سے پیش آئو۔ یہ تو ایک دوسرے انسان پر فطری حق ہے خواہ کوئی کسی دین و ملت سے تعلق رکھتا ہو۔ آخر میرا بھی یہ فطری حق تو تم پر موجود ہے تم اس کو بھی آخر کیوں بھول گئے ہو۔ فرمایا اور وہ بھی اللہ کے حکم سے اپنی طرف سے نہیں۔ ارشاد ہوا۔ قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرَاً اِلَّا الْمُوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی (الشوری : 42) ” اے پیغمبر اسلام ! ان سے کہو کہ میں تم سے اس پر کچھ مزدوری طلب نہیں کرتا بجز اس کے کہ میری قرابت کا حق تو ادا کرو۔ “ و گویا فطری حق ہے۔ عربی زبان میں قرابت کا حق ادا کرنے کو ” وصل رحم “ کے الفاظ سے ادا کرتے ہیں اس لفظ کی دوسری معروف شکل صلہ رحمی یعنی رحم ملانا ہے۔ اور قرابت کے حقوق کو ادا نہ کرنے کو قطع رحم سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ رحم مادری ہی دراصل تعلقات قرابت کی جڑ ہے۔ کسی امر میں دو انسان کا اشتراک ان کے باہمی کہیں ہم مذاقی ، کہیں ہم پیشگی ، کہیں ہم وطنی اور کہیں ہم قومی کی مختلف صورتوں میں نمایاں ہوتا ہے۔ اس اشتراک کے عقد محبت کو استوار اور مضبوط رکھنے کے لئے جانبین پر حقوق کی نگہداشت اور فرائض محبت کی ادائیگی واجب ہے لیکن ان تمام بندھ کر ٹوٹ جانے والے اشتراک ہے جس کا موطن رحم مادر ہے۔ یہ ہم رحمی خالق فطرت کی باندھی ہوئی گرہ ہے اور اس کا توڑنا انسانی قوت سے باہر ہے اس لئے اس کے حقوق کی نگہداشت بھی انسانوں پر سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ایک حدیث میں بنی رحمت ﷺ نے انسانوں کے اس فطری گرہ کی تشریح استعارہ کے ان الفاظ میں بیان فرمائی کی رحم یعنی جو شکم مادر کے اندر ایک عضو ہے رحمن اللہ تعالیٰ کے نام سے مشتق ہے۔ اس لئے محبت والے خدا نے رحم کو خطاب کر کے فرمایا ” جس نے تجھ کو کاٹا اس کو میں نے کاٹا۔ “ اس مضمون کو ایک اور استعارہ کے مزید گہرے رنگ میں نبی کریم ﷺ نے اس طرح ادا فرمایا ” کہ رحم مادر انسانی عرش الٰہی کو پکڑ کر کہتا ہے جو مجھے ملائے اس کو اللہ ملائے اور جو مجھے کاٹے اس کو اللہ کاٹے۔ “ ایک اور موقع پر نبی اعظم و آخر ﷺ نے حسن تعبیر کا اس سے بھی زیادہ نازک طریقہ اختیار فرمایا ارشاد ہوا کہ اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو رحم انسانی نے اس رحمت والے خدا کا دامن (حدیث کا اصل لفظ حقوہ ہے) کو تھام لیا۔ اللہ نے فرمایا ٹھہر جا ! یہ اس کا مسکن ہوگا جو تیری گرہ کاٹنے سے بچے گا۔ کیا تو اس سے خوش نہیں کہ جو تجھ کو ملائے اس کو میں اپنے ساتھ ملائوں جو تجھ کو کاٹے اس کو میں اپنے سے کاٹ دوں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) کو یا رحم مادر اور اس رحمن کے رحم و کرم کے درمیان حرفوں کا یہ اشتراک محبت کے معنوی اشتراک کے بھید کو فاش کرتا ہے اور اس سے وہ اہمیت ظاہر ہوتی ہے جو اسلام کی نظر میں اہل قرابت کی ہے۔ رحم اور رحمن کے اس جوڑ کی طرف ہی اس سورة النساء کی پہلی آیت میں اشارہ کیا ہے جو پیچھے گزر چکا۔ ایک دفعہ ایک شخص نے نبی رحمت ﷺ سے آ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ فرمایا اللہ کی بندگی کرو۔ کسی کو اس کا ساتھی نہ بنائو۔ نماز مکمل طور پر ادا کرو۔ زکوٰۃ دو اور قرابت کا حق (صلہ رحم) ادا کرو۔ (صحیح بخاری کتاب الادب باب فضل صلۃ الرحم) جیر بن مطعم صحابی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو صلہ رحمی نہیں کرے گا اللہ اس کو جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ یعنی جنت میں اس کا داخلہ اس وقت تک رکا رہے گا جب تک اس کا یہ گناہ معاف نہ ہوجائے گا یا وہ اس گناہ سے پاک نہ ہو لے گا۔ (صحیح بخاری کتاب الاداب) ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں وسعت اور اس کی عمر میں برکت ہو تو اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کرے۔ اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ ان نیک اعمال کا اثر اللہ نے یہ رکھا ہے کہ اس سے مال و دولت میں فراخی اور عمر میں زیادتی ہوتی ہے کیونکہ صلہ رحمی کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ ضرورت مند رشتہ داروں کی مالی مدد کی جائے دوسری یہ کہ اللہ کی دی ہوئی عمر میں سے کچھ حصہ ان کی خدمت میں صرف کیا جائے پہلے کا نتیجہ اللہ کی طرف سے مالی و سعت اور کشادگی ہے اور دوسرے کا نتیجہ عمر میں برکت اور زیادتی کی صورت میں ملتا ہے۔ اس حدیث کی تشریح اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ انسان کے خانگی افکار اور خاندانی جھگڑے بہت کچھ اس لے لئے اضمحلال ، تکدر اور قلبی پریشانی کا سبب ہوتے ہیں لیکن جو لوگ اپنے خاندان والوں کے ساتھ نیکی کے برتائو ، صلہ رحمی اور خوش خلقی سے پیش آتے ہیں ان کی زندگی میں خاندانی مسرت ، انشراح اور طمانیت خاطر رہتی ہے جس کی وجہ سے ان کی دولت اور عمر دونوں میں برکت اور زیادتی ہوتی ہے۔ ترمذی میں یہ حدیث اس طرح کہ ” صلہ رحم سے قرابت والوں میں محبت ، مال میں کثرت اور عمر میں برکت ہوتی ہے۔ “ (ترمذی) حدیث میں اس کی بھی تصریح ہے کہ صلہ رحم کا کمال یہ نہیں ہے کہ جو بدلہ کے طور پر صلہ رحم کا جواب صلہ رحم سے دے بلکہ صلہ رحم یہ ہے کہ جو قطع رحم کرتا ہے اس کے ساتھ صلہ رحم کیا جائے۔ یعنی جو قرابت کا حق ادا نہیں کرتے ہیں ان کا حق ادا کیا جائے۔ (بخاری کتاب الاداب من بسط لہ فی الرزق) وہ قرابت دار جو متوفی کے مال میں وارث نہیں ہیں ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئو 24: وہ قرابتدار جو مال کی تقسیم کے وقت جو کسی متوفی کے ترکہ کا مال ہو موقع پر پہنچ جائیں اور وہ مستحق بھی ہوں تو ان سے جو سلوک کرو خوش دلی اور پیار و محبت کے ساتھ کرو ایسا نہ کرو کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ دیں وہ تمہاری زبانیں ضائع کردیں۔ اس دینے سے نہ دینا بہتر ہے۔ مثل ہے کہ تلوار کے زخم بھر جاتے ہیں لیکن زبان کے زخم کبھی نہیں بھرتے۔ آیت کے اس حصہ میں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ دیکھو انہیں اچھے طریقے سے بات سمجھا دو اور اپنا مدعا اس طریقہ سے بیان کرو کہ ان کا دل بھی نہ دکھے اور تم بھی جو بات ان تک پہنچانا چاہتے ہو پہنچا لو۔ آپ کی قوت قدسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ صدیوں کے بگڑے ہوئے انسان پلک جھپکنے میں کچھ سے کچھ ہوگئے۔ اللہ جانے کب سے یہ رواج جاری تھا کہ وہ ورثہ صرف ان لوگوں کو ملے جو ملک یا قوم کی حفاظت کرسکتے ہیں اور جو اس قابل نہ ہوں ان کا ورثہ میں کوئی حق ہی تسلیم نہ ہو۔ عورتوں اور بچوں کی حمایت میں کب کسی نے آواز اٹھائی تھی اور ایسی جرات کی بھی کون سکتا تھا ؟ لیکن یتیم اور عاجز عورتیں کیا اپنے ہی حامیوں اور اپنے ہی محافظوں کے خلاف آواز اٹھا سکتی تھی ؟ مگر آسمان سے ایک آواز آئی اور اس کے سامنے تمام گردنیں جھک جاتی ہیں۔ ایک بادشاہ جس کی زندگی کا انحصار اس کے سپاہیوں کی بہادری پر۔ ان کے تلوار چلانے پر ہو کیا وہ ان ہی سپا ہوں کے حقوق جو انہوں نے خود ہی تجویز کئے ہوں دوسروں کے دینے کا کبھی خیال بھی کرسکتا ہے ؟ لیکن یہ کمال ہے اس نبی اعظم و آخر ﷺ کا کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اعلان فرما دیا کہ یہ ان سپاہیوں کا حق نہیں بلکہ ان یتیموں اور بیوائوں کا حق ہے جو متوفی چھوڑ کر گیا ہے۔ آپ ﷺ کا یہ اعلان کانا تھا کہ آپ ﷺ کے جاں نثاروں نے اس کو قبول کرتے ہوئے عمل کر کے دنیا کو دکھا دیا کہ فرمانبرداری اس چیز کا نام ہے۔ یہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی قوت قدسی تھی جس نے دنیا میں ایسا انقلاب پیدا کر کے دکھا دیا جس کی نظیر دنیا کا کوئی دوسرا انسان نہیں دکھا سکا۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کے دل پر نازل ہونے والا یہ پیغام آج بھی اسی طرح زندہ و تابندہ ہے اور قابل عمل ہے جیسا کہ نزول کے وقت تھا منسوخ نہیں جاسہ کہ بعض مفسرین نے کہہ دیا ہے اور یہ بات ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ اللہ کی کتاب میں سے کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جو قابل عمل نہ ہو بلکہ ایسا کہنا ہی قرآن کریم اور قرآن کریم کے نازل کرنے والے رب کریم پر بہتان عظیم ہے۔
Top