Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaafir : 82
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْهُمْ وَ اَشَدَّ قُوَّةً وَّ اٰثَارًا فِی الْاَرْضِ فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
اَفَلَمْ : پس کیا نہیں يَسِيْرُوْا : وہ چلے پھرے فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَيَنْظُرُوْا : تو وہ دیکھتے كَيْفَ كَانَ : کیسا ہوا عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ : انجام ان لوگوں کا جو مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ : ان سے قبل كَانُوْٓا اَكْثَرَ : وہ زیادہ تھے مِنْهُمْ : ان سے وَاَشَدَّ : اور بہت زیادہ قُوَّةً وَّاٰثَارًا : قوت اور آثار فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَمَآ اَغْنٰى : سو نہ کام آیا عَنْهُمْ : ان کے مَّا : جو كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے (کرتے) تھے
کیا یہ لوگ زمین پر گھومے پھرے نہیں ؟ کہ دیکھ لیتے جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کا کیسا انجام ہوا ؟ (حالانکہ) وہ لوگ ان سے (تعداد میں بھی) زیادہ تھے اور قوت میں بھی ان سے کہیں زیادہ ہی تھے اور وہ زمین پر اپنی بہت سی نشانیاں چھوڑ گئے لیکن ان کی یہ کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی
کیا تم کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں کہ تم دیکھتے کہ جھٹلانے والوں کا کیا حال ہوا ؟ 82۔ زیر نظر آیت کا مضمون انہی الفاظ میں تھوڑی سی کمی بیشی کے ساتھ عروۃ الوثقی جلد چہارم سورة یوسف کی آیت 109 ، جلد ششم سورة الحج کی آیت 46 جلد ہذا سورة الروم کی آیت 9 ، سورة فاطر کی آیت 42 نیز اس سورة فاطر کی آیت 21 میں بھی یہی مضمون تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے وہاں سے ملاحثہ کریں ۔ ان آیات میں گزشتہ اقوام کی تاریخ کو بار بار دہرایا گیا ہے تاکہ اس سے استفادہ کرتے ہوئے لوگ اپنی اصلاح حال کرلیں اگر اصلاح کرنا چاہیں ؟ اس طرح بہر حال سوئی ہوئی قوم کو جگانے کی بار بار کوشش کی گئی ہے تاکہ ان کو معلوم ہو کہ جو لوگ انبیاء کرام اور رسل عظام کی مخالفت کرتے ہیں ان کا انجام ان کو معلوم ہوجائے جب کہ گزشتہ قوموں کے لوگ ان سے زیادہ طاقتور اور اس زمین خداوندی میں بہت اثر ورسوخ رکھنے والے تھے اور آج کے ان لوگوں سے بھی زیادہ ترقی یافہ اور سلجھے ہوئے تھے اور تعمیری آثار میں ان قوموں کا مقابلہ آج کی یہ نہایت ترقی یافتہ قوم نہیں کرسکتی لیکن ان قوموں پر جب عذاب الہٰی آیا تو ان کا ستیاناس کر کے رکھ گیا اور ان چیزوں میں کوئی چیز بھی ان کے کام نہ آئی اس سے واضح ہوگیا کہ جب بھی کوئی قوم اخلاقی زوال میں مبتلا ہوجاتی ہے تو اسی وقت اپنی عددی اکثریت اور ظاہری اثرورسوخ کے سہارے زندہ رہنا چاہتی ہے گویا یہ وہی بات ہے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھلا کبھی ایسا ہوا بھی ہے اور کوئی قوم اس بل بوتے پر کبھی زندہ رہی بھی ہے ہاں ! یہ ضرور ہے کہ مرنے مٹنے کے باوجود وہ اپنے آپ کو زندہ ہی سمجھتی رہے جیسے آج کل ہم قوم مسلم کی حالت ہوچکی ہے کہ ہمارا شمار دنیوی لحاظ سے بھی زندہ قوموں میں نہی رہا اور دین لحاظ سے بھی اور جس طرح گزشتہ قوموں کو اس سہارے نے کچھ کفایت نہ کیا اور جو انہوں نے کمایا سب اکارت گیا یقینا یہی حال ہمارا ہو رہا ہے لیکن ہماری اکثریت آجء بھی اس کو ماننے کے لیے تیار نہ ہے اور ہنوز دلی دور است کی صدائیں آج بھی بلند ہیں۔
Top