Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 26
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖۤ اِنَّنِیْ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَۙ
وَاِذْ قَالَ : اور جب کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم نے لِاَبِيْهِ : اپنے والد سے وَقَوْمِهٖٓ : اور اپنی قوم سے اِنَّنِيْ : بیشک میں بَرَآءٌ : بےزار ہوں مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ : اس سے جو تم عبادت کرتے ہو
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جن کی تم پرستش کرتے ہو
ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ یاد کرو جب اس نے قوم اور باپ سے بیزاری کا اظہار کیا 26 ؎ نبی اعظم و آخر ﷺ کو سات آٹھ سال ہو رہے تھے کہ آپ ﷺ نے نبوت و رسالت کا پیغام ان لوگوں کو پہنچانا شروع کیا تھا لیکن جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا قریش مکہ اور دوسرے مخالفت میں بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے قرآن کریم کی دلوں کو ہلا دینے والی روشن آیات ان کے سامنے تلاوت کی جا رہی تھیں ان کو سن کر وہ خود اور ان کی عورتیں اور بچے بھی ان سے سوال کرتے تھے کہ یہ کلام جو محمد بن عبداللہ ﷺ پڑھتے ہیں یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا لیکن ان کی باتوں کا وہ کوئی معقول جواب نہ دے سکتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ شرک و کفر پر نہایت مضبوطی کے ساتھ ڈٹے ہوئے تھے اور اپنے باپ دادا کی پیروی چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو اندھی تقلید کی آہنی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اور عقل و دانش کو وہ مکمل طور پر خیرباد کہہ چکے تھے چونکہ وہ بار بار آباؤ اجداد کی بات کرتے تھے اس لیے ان کے سامنے ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ پڑھا جا رہا ہے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنے اسلاف کو اور اپنی پوری قوم کو راہ حق سے بھٹکا ہوا پایا تو ان کو ہر ممکن راہ ہدایت کی طرف بلایا اور جب وہ ان کی بات کو نہ مانے اور اپنی ضد پر اڑے رہے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے قطع تعلق کرلیا۔ تم لوگ بھی ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا جد امجد مانتے ہو اور ان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہو اور بلاشبہ تمہارا یہ دعویٰ صحیح بھی ہے اور ان کے بتائے ہوئے کعبہ کے متولی اور خدمت گزار بھی ہو اور اسی نسبت کے باعث تم کو ملک میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا بھی جاتا ہے پھر جب انہوں نے اپنے گمراہ آباؤ اجداد کی روش کو اعلانیہ چھوڑ دیا تو تم بھی آپ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے گمراہ آباؤ اجداد سے برأت کا اعلان کر دو اور دیکھو اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں تم پر آسمان نہیں گر پڑے گا کیونکہ تم برملا کہہ سکتے ہو کہ ہم اپنے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے پیروکار ہیں اور انہیں کی سنت پر عمل کرتے ہیں اس طرح تمہاری بات کہ ہم اپنے آباؤ اجداد میں سے ہیں اور تم بھی لوگوں کے سامنے اپنا یہ موقف کھل کر بیان کرو کہ ہم ان بتوں سے بیزار ہو کر اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت کو زندہ کر رہے ہیں جیسا کہ خود ابراہیم (علیہ السلام) نے نہایت زور دار الفاظ سے اپنے والد بزرگوار اور قوم کو مخاطب کر کے کہہ دیا تھا کہ میں تمہارے ان بتوں سے مکمل طور پر بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جن کی تم پرستش کر رہے ہو اور یہ بات ہم پیچھے واضح کرچکے ہیں کہ بتوں اور قبروں میں نظرئیے کا کوئی فرق نہیں صرف شکل و صورت کا فرق ہے کہ انہوں نے اپنے نیک لوگوں ، نبیوں ، ولیوں اور رسولوں کے مجسمے تیار کرر کھے تھے جن سے وہ عقیدت رکھتے تھے اور آج کل مسلمان کہلانے والوں نے ان گھڑے پتھر جو ایک ڈھیر کی صورت میں ہوتے ہیں ان کے ساتھ وہی عقیدت جم رکھی ہے جو وہ بتوں سے جماتے ہوتے تھے اور یہ فرق حقیقت کا فرق نہیں بلکہ صرف شکل و صورت کا فرق ہے۔ وہ لوگ جن کی پرستش کرتے تھے ان کے مجسمے بنا کر سامنے رکھتے تھے اور آج کل کے مشرک جن کی پرستش کرتے ہیں ان کی قبریں پکی بنا کر ان پر عمارتیں تعمیر کرتے ہیں گویا وہ صاحب بت کی پرستش کرتے تھے اور یہ صاحب قبر کی۔
Top