Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 53
وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَیُدْهِنُوْنَ
وَدُّوْا : وہ چاہتے ہیں لَوْ تُدْهِنُ : کاش تم سستی کرو فَيُدْهِنُوْنَ : تو وہ بھی سستی کریں۔ مداہنت کریں
ان کی تو یہی آرزو ہے کہ آپ ذرا نرمی برتیں تو یہ بھی نرمی پر اتر آئیں
یہ تو کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر آتے ہیں لیکن حق میں یہ اصول نہیں چلتا 9 ؎ (تدھن) تو نرمی کرے ، تو ملائمت کرے ، تو سستی کرے ، تو ڈھیلا ہو ادھان سے جو اصل میں ” تدھین “ تھا جس کے معنی چکنا کرنے اور تیل ڈالنے کے ہیں مگر اس سے مراد ملائمت اور سستی لی جاتی ہے۔ مضارع کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ (ید ھنون) وہ بھی نرمی کریں اور وہ بھی سستی کریں وہ بھی ڈھیلے پڑیں جمع مذکر غائب مضارع ہے وہ بھی مکھن لگائیں۔ (دھن) ہر چکنی چیز کو کہتے ہیں اور باتوں کو چکنا کرنے کا مفہوم ہماری زبان میں عام ہے جس کے معنی عام طور پر اس طرح کئے جاتے ہیں کہ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے مطابق کام کرو یعنی کچھ تم ہماری مان لو کچھ ہم تمہاری مان لیتے ہیں تاکہ درمیان میں کہیں ہماری اور آپ کی صلح ہوجائے اور لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آپس میں دونوں فریقوں نے اپنے اپنے موقف سے ذرا ہٹ کر صلح کرلی ہے۔ اس وقت تک مکہ والوں کے سامنے صرف اور صرف دو باتیں کی گئی تھیں ایک توحید خداوندی اور دوسری آخرت یعنی مرنے کے بعد جی اٹھنا اور اسلام نے یہ دونوں نظریات ان کے سامنے پیش کئے اور اب تم خود غور کرو کہ ان دونوں نظریوں میں کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر صلح کی صورت کیا ہے ؟ تصور کے طور پر مکہ والے اللہ تعالیٰ کی ذات کے منکر نہیں تھے بلکہ ماننے والے تھے ، اللہ تعالیٰ کو خالق کائنات بھی مانتے تھے ، زمینوں اور آسمانوں کو پیدا کرنے والا بھی۔ ان کے اس اعتراف کا ذکر قرآن کریم میں کئی بار کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات میں دوسروں کو بھی شریک مانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ بزرگ بارش لانے والا ہے اور یہ بزرگ دھوپ چڑھانے والا ہے۔ بیٹے فلاں کی سفارش سے دیئے جاتے ہیں اور فلاں مراد کو فلاں پورا کرنے والا ہے۔ اسلام نے ان ساری باتوں کی تردید کرتے ہوئے ان سے صاف صاف اور واضح الفاظ میں فرما دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی کسی ایک صفت میں بھی کسی کو شریک ٹھہرانا شرک ہے اور یہی بات آخرت کے معاملہ میں تھی۔ کفار مکہ کا موقف تھا کہ بس دنیا کی زندگی یہی زندگی ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی دی جائے گی محض ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے۔ اب غور کرو کہ اس میں اگر ڈھیل کی جائے تو وہ کیا ہوگی اور کیسے ہوگی ؟ گویا یہ ایک بات ہے جو وہ کہہ رہے ہیں اور اب ان کی ضد ہوچکی ہے اس لئے وہ کہتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ارشاد فرمایا گیا کہ آپ ﷺ کو حق بات میں اس طرح کی مداہنت کی ضرورت نہیں ہے اور حق بات میں نرمی فقط یہ ہے کہ وہ کہی جائے اور اس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے اور نہ ماننے والوں سے محض اس لئے کوئی انتقام نہ لیا جائے کہ وہ حق کو مان کیوں نہیں رہے اگر وہ حق کو نہیں مانتے تو حق کو ماننے والوں کا وہ کچھ بھی نقصان نہیں کر رہے ہیں۔
Top