Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 27
اِلَّا الَّذِیْ فَطَرَنِیْ فَاِنَّهٗ سَیَهْدِیْنِ
اِلَّا الَّذِيْ : مگر وہ ذات فَطَرَنِيْ : جس نے پیدا کیا مجھ کو فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ سَيَهْدِيْنِ : عنقریب رہنمائی کرے گا میری
مگر ہاں ! (میں تو) اس کی (عبادت کرتا ہوں) جس نے مجھے پیدا کیا پس وہی مجھے سیدھی راہ دکھاتا ہے
مگر ہاں وہ ذات جس نے مجھے پیدا کیا اور میری راہنمائی کرتا ہے 27 ؎ یہ ابراہیم (علیہ السلام) کا استثنائیہ کلمہ ہے کہ جب آپ نے اپنے والد بزرگوار اور قوم کے معبودوں کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کیا تو چونکہ ان ہی معبودوں میں اللہ رب ذوالجلال والا کرام کو بھی وہ شامل سمجھتے تھے اس لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے اس ذات الٰہ کو جو حقیقی طور پر الٰہ اور معبود ہے اس کی استثناء کردی کہ میں سب سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں مگر ہاں ! اس ذات کو میں بھی اپنا معبود و الٰہ مانتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور میری ہر طرح کی راہنمائی بھی کر رہا ہے اور جس کی توحید کے وہ والد اور قوم کے سامنے گیت گاتے رہے اور قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی اپنے والد بزرگوار اور قوم کے معبودوں کے خلاف بات کی وہاں اسی ذات کریمی کو ان میں استثناء کردیا چناچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ : (الشعراء 26: 75 تا 58) ” ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تم دیکھتے ہو کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ تم اور تمہارے باپ دادا تو وہ میرے لیے دشمن ہیں مگر تمام جہانوں کا پروردگار۔ جس نے مجھے پیدا کیا پھر مجھے ہدایت دی۔ اور وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب بھی میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفادیتا ہے۔ اور جو مجھے مارے گا اور پھر مجھے زندہ کرے گا اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے روز میری خطائیں معاف فرمائے گا۔ اے میرے رب مجھے حکمت عطا فرما اور مجھے صالحین کے ساتھ ملا دے اور میرے لیے پچھلوں میں ذکر خیر جاری رکھ اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں بنا دے۔ “ غور کرو کہ کس طرح ابراہیم علیہالسلام نے جب والد بزرگوار اور اپنی قوم کے معبودوں سے بیزاری کا اظہار کیا تو اس سے پروردگارِ عالم کو مستثنیٰ کردیا۔ کیونکہ قوم اور باپ جہاں دوسرے لوگوں کی پرستش کرتے تھے وہاں اللہ رب العزت کی بھی پرستش کرتے تھے اس لیے آپ نے سب کا رد کردیا اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو اس میں سے مستثنیٰ قرار دے دیا اور پھر صرف مستثنیٰ کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس کی توحید کے گیت گانے لگے اور وہ اس طرح گائے کہ ان کے معبودوں کی ساتھ ہی ساتھ خود بخود نفی بھی ہوتی چلی گئی جب آپ نے فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس نے مجھے پیدا کیا اور مجھے ہدایت دی چونکہ آپ کی قوم دوسروں کو خالق سمجھتی تھی اور ہدایت دینے والے مانتی تھی ان کی خود بخودنفی ہوگئی اس طرح آپ کے ایک ایک جملے پر غور کرتے جاؤ تو تم کو ہر جملے سے یہ معلوم ہوگا کہ اس جملے نے کس کس چیز کی نفی کردی ہے اور کس خوبصورت انداز میں کی کہ کسی کو کچھ کہا بھی نہیں اور وہ سب کچھ کہہ بھی دیا ہے جو کہنا چاہئے تھا یا اس جگہ کہا جاسکتا تھا۔ مزید تفصیل دیکھنا چاہتے ہو تو عروۃ الوثقی جلد اول سورة البقرہ کی آیت 124 تا 132 جلد سوم سورة الانعام کی آیت 74 تا 84 جلد چہارم سورة ابراہیم کی آیت 35 تا 41 ، جلد پنجم سورة مریم کی آیت 42 تا 50 ، جلد ششم سورة الانبیاء کی آیت 51 تا 70 ، سورة الشعراء کی آیت 75 تا 85 ، جلد ہفتم سورة العنکبوت آیت 61 تا 18 ، سورة الصافات کی آیت 83 تا 111 کا مطالعہ کریں۔
Top