Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 28
وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَجَعَلَهَا : اور اس نے بنادیا اس کو كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً : ایک بات باقی رہنے والی فِيْ : میں عَقِبِهٖ : اس کی اولاد میں۔ اس کے پیچھے لَعَلَّهُمْ : شاید کہ وہ يَرْجِعُوْنَ : وہ لوٹ آئیں
اور اسی (توحید) کو وہ (ابراہیم ) اپنی اولاد میں ایک باقی رہنے والا کلمہ بنا دیا تاکہ لوگ شرک سے باز رہیں
ابراہیم (علیہ السلام) یہی کلمات اپنی اولاد کے لیے چھوڑ گیا ہے 28 ؎ قریش مکہ اپنے آپ کو اولاد ابراہیم بھی سمجھتے تھے اور دین ابراہیمی پر ہونے کا دعویٰ بھی کرتے تھے اس لیے ان ہی کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے یہی کچھ چھوڑا تھا جس کا ذکر ہم نے پیچھے کردیا ہے پھر تم یہ تعجب ہے کہ تم ابراہیم کو اپنا جد امجد بھی مانتے ہو اور اپنے باپ دادا کے دین کا دعویٰ بھی کرتے ہو اور ان باتوں اور کاموں سے انحراف بھی کرتے ہو جو تمہارے دادا ابراہیم (علیہ السلام) کرتے رہے اور اپنی اولاد کو اس کا حکم دیتے رہے اس طرح گویا قرآن کریم نے قریش مکہ کی نامعقولیت کو پوری طرح بےنقاب کر کے رکھ دیا اور ان کے ساتھ وہی کام کیا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ” جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچا کر سب کو دکھاکر چھوڑا گیا “۔ زیر نظر آیت کو ذرا آرام کے ساتھ ، ٹھنڈے دل اور چشم وا کر کے دیکھیں تم کو بہت کچھ نظر آنے لگے بلاشبہ اگر ان میں کچھ بھی شعور ہوتا تو وہ پانی پانی ہو کر رہ جاتے کیونکہ انہوں نے باپ دادا کی تقلید کا دعویٰ کیا تھا اور ان کو ان کے باپ دادا ہی کی نشاندہی کردی گئی کہ تف ہے تم پر کہ تم نے اپنے بہترین آباؤ اجداد کو چھوڑ کر ان کی جگہ بدترین آباؤ اجداد کی تقلید شروع کردی اور اس کے باوجود وہم مشیخیت جو تم کو عربوں میں حاصل ہے اس کا اصل باعث بھی تمہارے وہی بہترین آباؤ اجداد ہیں نہ کہ یہ بدترین آباؤ و اجداد اس لیے تم کو اگر باپ دادوں ہی کی پیروی کرنی ہے تو ان بہترین آباؤ و اجداد کی کیوں نہیں کرتے پھر یہ بھی کہ میرا اور تم سب کا باپ دادا تو ایک ہی ہے اس لحاظ سے میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ باپ دادا کی سچی پیروی تو میں کر رہا ہوں نہ کہ تم لوگ اور یہ بھی کہ اگر باپ دادے عقائد کی وجہ سے اچھے نہ رہے ہوں تو اس کے لیے جو اسوئہ حسنہ ابراہیم (علیہ السلام) نے چھوڑا ہے وہ ہماری راہنمائی کے لیے کفایت کرتا ہے دیکھو ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے آباؤ اجداد کی کس طرح مخالفت کی جو آباؤ اجداد سیدھی راہ سے بہک گئے تھے۔ اس طرح قرآن کریم کی زبان میں نبی اعظم و آخر ﷺ نے قریش مکہ کو نہایت سخت شرم دلائی کہ شاید وہ اس طرح ہی اصل حقیقت کی طرف لوٹ آئیں لیکن شرم و حیا سے عاری لوگ کم ہی ان باتوں پر دھیان دیتے ہیں۔
Top